ولایت کے دفاع میں فاطمہ زہراء کا کردار

Rate this item
(0 votes)
ولایت کے دفاع میں فاطمہ زہراء کا کردار

اقوال فاطمه زهرا علیها السلام میں   ولایت کا دفاع  .

جناب فاطمہ نے مختلف طریقوں سے جانشین رسول  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کا لو گوں کو تعارف کرایا اور اس پیغام کو  پہنچایاکبھی کنایہ کی زبان میں جناب امیر المومنین  کا تعارف کراتیں اور کہتیں کہ کوئی بھی انکی مثل نہیں ہے امیرالمومنین کی خصوصِات کو ذکر کرتیں اور آپ کے فضائل کو بیان فرماتیں اور ایسے فضائل بیان فرماتیں جن کو مد مقابل اور دشمن بھی رد نہیں کرتا تھا بلکہ ان  فضائل کو قبول  کرتا ، ان فضائل اور صفات کو بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ  لوگوں کے احساسات کو بیدار کریں  کیونکہ  قیام کا اصلی محرک  یہی احساسات کا بیدار کرنا ہی ہے .(1) جناب فاطمہ کی ساری کوشش یہ تھی  کہ لوگوں کو اس خطا اور اشتباہ سے آگاہ کریں جس میں سب پڑ گئے تھے، آپ چاہتی تھیں کہ لوگون کو سمجھائیں کہ اگر  جانشین  پیغمبر کا انتخاب بھی کرنا ہے  تو انتخاب کا بھی معیار صحیح ہونا چاہئے  اسی لئے اپنی گفتگو کا آغاز ایسے کیا کہ لوگوں کے احساس بھی بیدار ہوں اور وہ احساس مسئولیت بھی کریں   ۔(2)
ممکن ہے جناب فاطمہ زہراء کے اقوال کو ہم اس طرح تقسیم کریں ۔
خود امامت اور ولایت کے بارے فرامین۔
مولا امیر المومنین کے فضائل  و قصائد کے  فرامین۔
یار و انصار کی سستی اور انکی سرزنش کے بارے اقوال۔
خلافت کے غصب کئے جانے  کے بارے میں اقوال ۔
خود امامت و ولایت کے بارے فرامین.

1 مثل امام  مثل کعبه ہے .

حضرت فاطمه زهرا علیها السلام   نے فرمایا:  مَثَلُ الاِمامِ مَثَلُ الکَعبَة اِذتُؤتی وَ لاتَأتی؛  (3) امام کی مثال  کعبہ کی ہے،  کہ لوگ طواف کرنے کیلئے  کعبہ کے پاس آئیں  اور آتے ہیں کعبہ کسی کی طرف نہیں جاتا ۔
اس حدیث شریف کا جانب سیدہ نے اس شخص کے جواب میں فرمایا جس نے یہ اعتراض کیا تھا کہ اگر امیر المومنین حق پر تھے و خلیفہ اول نے انکے حق کو غصب کیاتھا تو امیر المومنین نے اپنے حق کا دفاع کیوں نہیں کیا اور قیام کیوں نہیں فرمایا؟تو جناب سیدہ نے فرمایا کہ امام کی مثال کعبہ کی ہے کہ حجاج کرام طوف کیلئے خود کعبہ کے پاس آتے ہیں کعبہ کسی کی طرف نہیں جاتا یہاں بھی لوگ آتے امیر المومنین کی بیعت کرنے نہ یہ کہ امام جاتے ، لوگ امیر المومنین کے پاس نہیں آئے اور راہ کو بھی گم کر بیٹھے۔

2.  امام  پیغمروں کا وارث ہوتا ہے۔

فاطمه زهرا علیها السلام نے فرمایا  :  نَحنُ وَسیلَتُهُ فی خَلقِه وَ نحن خاصَّتُهُ وَ مَحَلُّ قُدسِهِ وَ نَحنُ حُجَّتُهُ فی غَیبِهِ وَ نحن وَرَثَة اَنبیائِه؛ (4) ہم اہلبیت ہی ہیں جو اللہ اور اسکی مخلوق کے درمیان وسیلہ ہیں خدا متعال کے منتخب شدہ اور پاکیزہ افراد ہیں ، خدا کی حجت  ہیں اور اسکے انبیاء کے وارژ ہم اہلبیت ہی ہیں۔
اس اوپر والی حدیث میں جناب سیدہ  نے  امامت کے چار  وظیفوں کو اور ذمہ داریوں کی طرف اژارہ فرمایا ہے ، ایک یہ کہ امام خالق اور اسکی مخلوق  کے درمیان رابطہ کا ذریعہ ہے، دوسرا یہ کہ امام خدا کا منتخب   نمایندہ ہوتا ہے، تیسرا یہ کہ امام زمین پر اللہ کی طرف سے حجت ہوتا ہے اور آکری یہ کہ اسکے انبیاء کا وارث ہوتا ہے جیسا کہ زیارات میں ہم یہی پڑھتے ہیں خصوصا زیارت وارث میں  کہ السلام علیک یا وارث آدم صفوۃ اللہ۔۔۔۔۔۔۔
جس شخص کو لوگوں نے انتخاب کیا تھا اس میں مذکورہ صفات میں کوئی ایک صفت بھی نہیں تھی، جناب سیدہ یہ بات واضح  کر رہی ہیں کہ کہ اگر جانشین خود ہی انتخاب کرنا ہے تو اسکےلئے بھی معیار و ملاک صحیح ہونا چاہئے۔

3. امام   امت کیلئےنظم و اتحاد  کا سبب ہوتا ہے

حضرت زهرا علیها السلام نے اپنے فصیح و بلیغ خطبہ میں فرمایا :  فَجَعَلَ اللّهُ...طاعَتَنا نِظاماً لِلملةِ وَ اِمامَتَنا اَماناًلِلفُرقَة؛  (28)خداوند  متعال  ہماری(اهل بیت)    کی پیروی کو امت  اسلامی کا نظام قرار دیا ہے ، اور ہماری ولایت و امامت کو عامل وحدت قرار دیا ہے اسی کو سبب بنایا ہے کہ امت اسلام فرقوں میں تقسیم نہ ہو ۔
ایک اور مقام پر اس عامل وحدت یعنی امامت و ولایت کی طرف  اشارہ کر کے فرماتی ہیں : اَمَا وَ اللّهِ لَو تَرَکُوا الحَقَّ عَلَی اَهلِهِ وَ اتَّبَعُوا عِترَةَ نَبیّهِ لَمَا اختَلَفَ فِی اللّهِ اثنَان؛ (5) خدا کی قسم اگر لوگ حق امامت کو اسکے اہل  کو دے دیتے اور عترت رسول خدا کی اطاعت کرتے تو  خدا کے بارے (اور اسکے احکام )  کے بارے اس عالم میں دو افراد بھی اختلاف نہ کرتے ۔
یہ حدیث شریف یہ بیان کرتی ہے   امامت امام بر حق  صرف امت کی  اجتماعی و سیاسی  وحدت کا سبب ہے بلکہ امت اسلام کی اعتقادی و عقیدتی وحدت کا سبب بھی ہے، ائے کاش امامت کو امام بر حق  کے پاس رہنے دیتے تو بشریت بالعموم اور امت اسلام  بالخصوص  اس سعادت سے  محروم نہ ہوتی۔
فاطمہ زہراء کے اقوال  جن میں فضائل امیر المومنین بیان فرمائے .

1.علی میرابهترین خلیفه ہے.

حضرت زهرا علیها السلام نے اپنے والد محترم جناب رسول خدا  صلی الله علیه و آله وسلم  سے نقل کرتے ہوئے فرمایا : علیٌّ خیر من أخلّفه فیکم؛(6)  علی   سب سے بہتر ہے جسکو مین تمہارے درمیان جانشین بنا کر جا رہا ہوں.
اس حدیث مین پیغمبر اکرم نے اپنے جانشین کی تصریح فرمائی کہ وہ علی ہیں اور تم میں سب سے بہتر ہیں ، لہذا کہیں اور میرا جانشین تلاش نہ کرنا۔یہ حدیث بھی جناب سیدہ نے اس شخص کے جواب میں تلاوت کی جس نے جناب سیدہ  سے تقاضا کیا کہ آیا پیغمبر اکرم نے غدیر کے علاوہ کسی اور جگہ اور کسی اور حدیث مین اپنی جانشینی کا اعلان کیا ہےیا نہ؟ تو جناب سیدہ نے فرمایا کہ ہاں بہت سارے مقامات پر اپنی جانشینی کے بارے فرمایا ہے من جملہ یہ حدیث بھی اپنی جانشینی کے متعلق ہے۔

2.علی رسول اکرم  صلی الله علیه و آله وسلم  کا بھائی ہے .

خطبہ فدکیہ  میں جب آپنے بابا کی معرفی کراتی ہے تو امیر المومنین کی بیی پہچان کراتی ہیں ، کہ اگر میرے بابا کوجانتے ہو تو میرے شوہر امیرالمومنین کو بھی پہچانو فرمایا:اخا ابن عمی دون رجالکم   (7)میرا شوہر  رسول اللہ اور میرے والد کا بھائی ہے  کسی اور کا بھائی نہیں۔
"یہ بات  تو واضح ہے کہ اگر کوئی کسی  کے چچا کا بیٹا ہو ،دوسرے طرفف والا بھی اسکے چچا کا ہی بیٹا ہو گا، لیکن فاطمہ زہراء  سلام اللہ علیہا یہاں پر امیر المومنین کو رسول اللہ کا بھائی معرفی کرا رہی ہیں ، اس نسبت دینے کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان یہ تو جانتے تھے  کہ پیغمبر اسلام نے جب مہاجرین و انصار کے درمیان بھائِ چارا ایجاد کیا تو امیر المومنین اور اپنے درمیان  صیغہ اخوت  پڑھا اس کے بعد علی امیر المومنین رسول اللہ کا بھائی معروف ہو گئے ، اس خطبہ  دینے کا مقصد و ہدف  در حقیقت امیر المومنین کی امامت و ولایت کا اثبات کرنا ہے اور یہ اشارات در حقیقت  اسی مقصود کیلئے  براعت استہلال  (8)کی حیثیت  رکھتے ہیں ۔(9)

3.شجاعت امام علی.

فاطمہ زہراء نے امیر المومنین کی شجاعت کے بارے خطبہ فدکیہ میں فرمایا: قذف أخاه فی لهواتها فلا ینکفی حتّی یطأصماخها باصمخه و یخمد لهبها بسیفه پیامبر صلی الله علیه و آله وسلم  اپنے بھائی  علی  کو فتنوں کے درمیان  اور ان درندوں کے منہ میں ڈال دیتے اور امیر المومنین مشرکین  کے ساتھ اس وقت تک جنگ  کرتے جب تک  انکے بڑوں کو اپنے پاوں کے نیچے روند نہ ڈالتے ،انکی بھڑکتی آگ کو امیر المومنین اپنی تلوار سے خاموش کرتے۔  (10)

4.عبادت امیر المومنین با  زبان صدیقه طاهره.

جناب سیدہ نے امیر المومنیں کی عبادت کے  بارے فرمایا : مکدوداً فی ذات اللّه، و مجتهداً فی أمر اللّه، قریباً من رسول اللّه سیّد أولیاء اللّه....   لاتأخذه فی اللّه لومة لائمٍ (11)  ۔  علی خدا مین راہ میں سخت کوشش  کرنے والے اور اسکے معاملات میں  بھی  نہایت جدوجہد کرنے والے ، رسول اللہ کے قریب اور اوصیاء الہی کے سید و سردار و آقا ہیں۔۔۔۔۔۔راہ خدا میں کسی کی ملامت  و سرزنش کرنے والے ملامت و سرزنش کی پرواہ نہیں کرتے   ، اس حدیث کا ہدف و مقصد  لوگوں کو بیدار کرنا ہے کہ   جان لو خلیفہ رسول  کو رسول اللہ کے ساتھ کچھ مناسبت ہونی چاہئے ، علی پیغمبر کا بھائی  ہے علی کو بہادری اور عبادت میں دیکھو ، سب سے پہلے جس نے اسلام قبول کیا یہی علی  ہی ہیں و خلافت کا اہل وہی ہے جو اس طرح ہو۔


1- .کفایہ الاثر فی النص علی الآئمہ اثنا عشر ، ص 199، خزاز رازی ، علی ابن محمد، ناشر بیدار  1401
2-  شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، مکتبہ آیت اللہ مرعشی  ج 16، ص 211؛ 20 جلدی چاپ ، اول1404  و ہمچنین منہاج البراعہ  خوئی، حبیب اللہ  21 جلدی  ج 20 ص 97 مکتبہ الاسلامیہ تہران  1400 چہارم
3-  بخشی از خطبہ فاطمہ زہرا علیہا السلام(س) در مسجد مدینہ، .رک: الاحتجاج، احمد طبرسی، مشہد، نشر مرتضیٰ اوّل 2 جلدی،1403 ق، ج 1، ص 99؛
4- الامامہ و التبصرہ من الحیرہ، ابن بابویہ ، علی ابن الحسین، ص 1 ناشر مدرسہ الامام المہدی، قم سال 1404 چاپ اول .
5--  کفایہ الاثر فی النص علی الآئمہ اثنا عشر ، ص 199، خزاز رازی ، علی ابن محمد، ناشر بیدار  1401.
6--  فرازی از خطبہ فدکیہ
7-  . اسکا معنی یہ ہے کہ شاعر یا کاتب شروع میں کچھ ایسے مطالب کو ذکر کرتا ہے کہ سننے والے کو پتہ چل جاتا کہ اسکا موضوع اور مقصد کیا ہے یعنی کس موجوع پر اشعاد کو تیار کیا ہے یا کونسا موضوع کتاب میں درج ہے۔
6-  رسا ترین دادخواہی و روشنگری ص 36
9-  فراز از خطبہ مشہور فدکیہ ترجمہ از رسا ترین دادخواہی و روشنگری ص 56
10-  ہمان
11-  خطبہ بہ زنان انصار و مہاجرین معانی الاخبار، صدوق ابن بابویہ، محمد ابن علی  دفتر انتشارات اسلامی، 1403  اول

Read 1397 times