حکمت اور عدل

Rate this item
(0 votes)

حکمت

خدا حکيم ھے اوراس کے تمام افعال وامور حکيمانہ ھيں- حکمت کے دو معني ھيں اور دونوں ھي معني صفات ثبوتي خدا کے زمرے ميں آتے ھيں:

(1) فاعل کے فعل ميںاستحکام وپائداري، اس طرح کہ فعل اپنے نھايت کمال کے درجے پرفائز ھو اور اس ميں کسي بھي طرح کا نقص يا عيب نہ پايا جاتا ھو-

(2) فاعل ايسا ھو کہ اس کي ذات سے کسي بھي طرح کا کوئي غلط يا غير پسنديدہ (قبيح) فعل سرزد نہ ھو اور اس کا ھر فعل شايستہ اورعمدہ وپسنديدہ (حسن) ھو-

فخر رازي اس سلسلہ ميں فرماتے ھيں:

”في الحکيم وجوہ: الاول: انہ فعيل بمعني مفعل، کاليم بمعني مؤلم ومعني الاحکام في حق اللہ تعاليٰ في خلق الاشياء ھو اتقان التدبير فيھا وحسن التقدير لھا الثاني انہ عبارة عن کونہ مقدساً عن فعل مالا ينبغي“ - (1(

حکيم کي اصل اِحکام ھے اور اس عبارت ميں اِحکام کے دو معني ذکر کئے گئے ھيں ايک اتفاق تدبير اور حسن تقدير اور دوسرے نا مناسب فعل کا انجام نہ دينا-

حکمت ، پھلے معني ميں

خدا کيونکہ تمام کمالات کا حامل ھے اور اس کا علم وقدرت بے حد ولامتناھي ھے، وہ ھر شئے کا علم رکھتا ھے اور ھر شئے پر قدرت رکھتا ھے، کسي بھي شئے يا ذات کا محتاج نھيں ھے لھٰذا قطعاً اس کا ھر قعل بھي کامل ترين، مستحکم ترين اور پايدار ترين فعل کي صورت اختيار کرليتا ھے- پس وہ ”‌احسن الخالقين“ ھے-

) اتدعون بعلاً وتذرون احسن الخالقين -اللهربکم ورب آبائکم الاولين) يعني کيا تم لوگ بعل کو آواز ديتے ھو اور بھترين خلق کرنے کو چھوڑ ديتے ھو- جب کہ وہ الله تمھارا اور تمھارے باپ داداکا پالنے والا ھے- (2(

)خالق، صفت فعل ھے لھٰذا خدا اس صورت ميں احسن الخالقين ھے کہ جب اس کا فعل بھي احسن الافعال ھو اور اسي لئے يہ آيت خلقت خدا کے بھترين خلقت ھونے پر دلالت کرتي ھے-(

حکمت، دوسرے معني ميں

دوسرے معني کي بنياد اس حقيقت کے قبول کرنے پر موقوف ھے کہ بيان شارع (خدا) سے قطع نظر، بعض افعال حَسَن اور بعض قبيح (غير پسنديدہ) ھوتے ھيں اور يہ کہ عقل بھت سے موارد اور مواقع پر يہ فيصلہ کرليتي ھے کہ کونسا فعل حسن اور کونسا قبيح ( غير پسنديدہ) ھے مثلاً صداقت، امانت داري ، کسي محتاج کي مدد کرنا و غيرہ عقل کے نزديک پسنديدہ اور ان کے مقابلے ميں کذب يا دروغ گوئي ، امانت ميں خيانت ، ظلم و ستم و غيرہ غير پسنديدہ اور قبيح ھيں-

اس اصل اور کليہ کو حسن و قبح عقلي کھا جاتاھے-

متکلمين اھل سنت کي اکثریت کہ جس کو اشاعرہ کھا جاتا ھے ، اس مذکورہ اصل و کليہ کي مخالف و منکر ھے- جس کي وجہ سے هے لوگ عدل کو صفات خدا سے خارج کردیتے ھيں - ان کے مقابلہ ميں اھل سنت ھي کا ايک دوسرا گروہ کہ جس کو معتزلہ کھا جاتا ھے اور عام طور پر تمام شیعہ متکلمين حسن و قبح عقلي کے قائل ھيں- ان کا نظریہ و عقیدہ هے کہ بشمول عدل خدا فقط فعل حسن کو ھي انجام دیتا ھے اور بشمول ظلم فعل قبيح کا مرتکب نھيں ھوتا-

اسي وجہ کے متکلمين کا هے گروہ ”‌عدليہ“ کھلاتا ھے-

اس کے لئے کے قائل ھونے کے بعد ھم کهہ سکتے ھيں: خدا وند عالم، غني مطلق ھے اور کسي غير کا ذرہ برابر محتاج نھيں ھے نيز عالم و قادر بھي مطلق ھے- ا فعال حسن و عمدہ اور پسنديدہ کا علم رکھتا ھے اور ان کي انجام دھي پر قادر ھے نيز کارھائے قبيح کا بھي علم رکھتا ھے اور ترک کرنے پر بھي قادر ھے- مذکورہ صفت کا حامل موجود يا ذات کسي بھي صورت ميں فعل قبيح انجام نھيں دے سکتي اور اسي طرح کسي بھي صورت ميں فعل حسن کو ترک بھي نھيں کرسکتي-

عدل

خداوند عالم عادل ھے اور ھرگز ظلم نھيں کرتا ھے -لھٰذا عدل اس کي صفات ثبوتي اور ظلم اس کي صفات سلبي ميں سے ھے-

عدل سے مراد، ھر شئي کو اس کے مقام پر قرار دينا ھوتاھے: وضع کل شي في موضعہ ، جيسا کہ اميرالمومنين عليہ السلام فرماتے ھيں:

”العدل يضع الامور مواضعھا“

عدالت، امور کو ان کے مقام پر قرار ديتي ھے- (3(

البتہ کبھي کبھي يہ بھي کھا جاتا ھے کہ عدل يعني ھر صاحب حق کو اس کا حق دے ديا جائے”‌ اعطاء کل ذي حق حقاً“ يہ معني مذکورہ پھلے والے معني سے اخص او رمحدود تر اور اس کا مصداق ھے يعني صاحب حق کو اس کا حق دينا ، کسي شئے کو اس کے صحيح مقام پر قرار دئے جانے والے موارد ميں سے ايک مورد ھے-

عقلي حکم کي بنياد پرعدل ايک فعل حسن اور پسنديدہ اور ظلم فعل قبيح شمار کيا جاتا ھے- خدا چونکہ حکيم ھے اور ھر اچھے فعل کو انجام ديتا ھے نيزھر برے فعل سے اجتناب کرتا ھے لھٰذا وہ عادل ھے اور ظلم نھيں کرتا-

مذکورہ بيان سے واضح ھوجاتا ھے کہ عدل الٰھي ، جنبہ حکمت الٰھي سے مربوط ھے-

قرآني مثاليں :

قرآن مجيد کي مختلف آيتوں ميں خدا پر اسم حکيم کا اطلاق ھوا ھے:

)فاعلموا ان الله عزيز حکيم(

ياد رکھو کہ خدا سب پر غالب ھے اور صاحب حکمت ھے-(4(

قرآن فرماتاھے:

خداوند عالم ھر شئي کو اس کے بھترين مرتبے پر خلق فرماتاھے:

)الذي احسن کل شي خلقہ(

اس نے ھر چيز کو حسن کے ساتھ بنايا ھے-(5(

اس کي خلقت ميں بے ترتيبي ، فرق يا شگاف نھيں پايا جاتا:

)ماتريٰ في خلق الرحمٰن من تفاوت فارجع البصر ھل تري من فطور (

تم رحمن کي خلقت ميں کسي طرح کا فرق نہ ديکھو گے- پھر دوبارہ نگاہ اٹھا کر ديکھو کھيں کوئي شگاف نظر آتا ھے-(6(

خلقت خدا، ھرگز عبث ،بيکار اور باطل نھيں ھے:

)افحسبتم انما خلقناکم عبثاً(

کيا تمھارا خيال يہ تھا کہ ھم نے تمھيں بيکار پيدا کيا ھے؟(7(

)وما خلقنا السماء والارض وما بينھما باطلاً(

اورھم نے آسمان وزمين اوراس کے درميان کي مخلوقات کوبيکار پيدانھيں کياھے-( 8(

خدا کسي پر ظلم نھيں کرتا ھے بلکہ يہ خوداحسان فراموش انسان ھے جو اپنے آپ پر ظلم کرتاھے:

)وما ظلمنا ھم ولکن کانوا انفسھم يظلمون(

اور يہ ھم نے ظلم نھيں کيا ھے بلکہ وہ خود اپنے نفس پر ظلم کرنے والے تھے-(9(

خدا کي شان يہ نھيں ھے کہ وہ اپنے بندوں پر ظلم کو روا رکھے-:

)وان الله ليس بظلام للعبيد(

اور خدا اپنے بندوں پر ظلم نھيں کرتا-(10(

خدا نہ فقط انسان بلکہ اس کائنات کے کسي بھي موجود پر ظلم نھيں کرتا:

)وما الله يريدظلماً للعالمين(

اورالله عالمين کے بارے ميں ھرگز ظلم نھيں چاھتا- (11(

حوالہ جات:

1- شرح الاسماء الحسنيٰ، منشورات مکتبة الکلية الازھرية ، ص/279؛ الالھيات علي الکتاب والسنۃ والعقل ج،1،ص 225

2- صافات: 125، 126-

3-نھج البلاغہ:کلمات قصار-437

4-بقرہ:209؛نيز بقرہ:228 ،آل عمران :18، انعام: 18

5-سجدہ:7

6-ملک:3

7-مومنون:115

8-ص:27

9-نحل:118، نيزھود:101، زخرف : 76

10-آل عمران:182، نيز انفال:51، حج: 10، فصلت:46، ق:29

11-آل عمران:108

Read 2983 times