
سلیمانی
رمضان اہم کیوں؟ مسلمان رمضان میں منفرد اعمال اور عبادات بجا لاتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟
ایکنا نیوز کے مطابق رمضان کی اہمیت میں اہم ترین وجہ قرآن مجید ہے جہاں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے
«شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ»(بقره، 185)، یعنی یہ نہیں کہتا ہے تم اس میں روزہ رکھتے ہوں بلکہ فرمایا کہ اس میں قرآن اترا۔
جب گاڑی خراب ہوتی ہے تو اس کو نشیبی سمت دھکیل دیتے ہیں تاکہ اسٹارٹ ہو اسی طرح رمضان میں قرآن کی طرف ہمیں دھکیل دیا جاتا ہے تاکہ اس پر توجہ دیں.
قرآن میں تفکر و تدبر کو واجب سمجھنا چاہیے کیونکہ خدا اس بارے سرزنش کرتا ہے کہ : «أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا»(محمد، 24). اس سرزنش کی وجہ سے تدبر کوواجب سمجھنا چاہیے کیونکہ خدا مستحب اعمال بارے سرزنش نہیں کرتا جیسے غسل جمعہ یا نماز شب. اللہ تعالی پہلے ارشاد فرماتا ہے کہ: «أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ» کیا تم قرآن میں تدبر نہیں کرتے اور پھر ارشاد ہوتا ہے «أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا» کیا تمھارے دلوں پر تالے پڑے ہیں یعنی ایک کے بعد دوسری سرزنش سے سمجھنا چاہیے کہ تدبر واجب ہے.
لہذا رمضان میں قرآن کی طرف تدبر رمضان کی اہمیت میں اضافہ کرتا ہے.
مفسرین کے مطابق «تدبّر» کا مطلب ہے کہ قرآن میں اچھی طرح سے غور و فکر کیا جائے اور صرف ظاہری تلاوت پر اکتفا نہ کیا جائے۔/
قرآن میں رحمت الہی کے دو پہلو
ایکنا نیوز- سوره حمد قرآن کی پہلی سورت ہے جس کو «مادر قرآن» بھی کہا گیا ہے اور اس سورے کو قرآن کی عظیم ترین اور شریف ترین سورتوں میں سرفہرست قرار دیا گیا ہے کیونکہ آیت ۸۷ سوره حِجر میں اس کو قرآن کے برابر قرار دیتا ہے اور نماز میں اس سورت کا پڑھنا لازمی ہے اور اس کی جگہ کسی اور سورت کو نہیں پڑھ سکتے۔
رحمت الهی
سوره حمد میں خدا کے رحمان و رحیم کی صفت سے شروع کیا گیا ہے «الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ»(سوره حمد، 2-3). اللہ تعالی نے متعدد بار خود کو (رحمان و رحیم) کے نام سے متعارف کرایا ہے: «رحمان کا مطلب رحمت الهی کی کثرت کی طرف اشارہ ہے جس میں کافر و مومن سب شامل ہیں جب کہ رحیم خدا کی ابدی اور دائمی رحمت کی طرف اشارہ ہے جس میں صرف مومن شامل ہے» (المیزان).
رسول گرامی اسلام سے روایت ہے «خدا کی رحمت کے سو حصے ہیں جنمیں سے ایک کو اہل زمین پر تقسیم کیا گیا ہے جس سے روئے زمین میں لوگ مہربانی سے پیش آتے ہیں اور باقی ننانوے حصوں سے خدا قیامت میں بندوں سے رحم سے پیش آئے گا»(مجمعالبیان)
البتہ واضح رہے کہ سو کی عدد کا ذکر کثرت کی طرف اشارہ ہے۔
راه مستقیم
صراط یا راه مستقیم یعنی واضح اور روشن راستہ جسمیں کجی نہیں اور اس سے مراد وہی خدا کی طرف سیدھا راستہ اور حق پر پابندی ہے۔
اسی طرح حمد کی آیت سات کے علاوہ آیت 161 سوره انعام میں ہم پڑھتے ہیں: «اے پیغمبر، کہ دو میرے رب نے مجھے راہ راست پر ہدایت کی ہے». آیت 59 سوره نساء، راہ مستقیم کو تین چیزوں سے جوڑا گیا ہے: «اے ایمان لانے والو، خدا کی اور پیغمبر کی اطاعت کرو اولی الامر کی، لہذا جب [دينى] میں اختلاف کرو تو اگر خدا و قیامت پر ایمان رکھتے ہو تو اس امر کو [كتاب] خدا اور [سنت] پيغمبر کے رو سے دیکھو».
ایران کو جو آزادی ،کرامت اورعزت و وقار ملا ہے وہ شہداء کی رشادتوں کی مرہون منت ہے
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے چیف کمانڈر نے کہا ہے کہ دشمنوں کی چھوٹی سی بھی شرارت کا ایران کی مسلح افواج دندان شکن جواب دے گی۔
فارس خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے چیف کمانڈر حسین سلامی نے صوبہ خوزستان میں یادگار والفجر 8 کا معائنہ کرنے کے موقع پر دفاع مقدس کی یادگاروں میں جوانوں کی کثیر تعداد کی موجودگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کو جو آزادی ،کرامت اورعزت و وقار ملا ہے وہ شہداء کی رشادتوں کی مرہون منت ہے۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے چیف کمانڈر نے تاکید کی کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایک طاقتور اورمضبوط ملک ہے اور ایران دنیا میں ترقی و پیشرفت کر رہا ہے اور یہ عزت و عظمت شہداء کے عظیم کارناموں کی بدولت ہے۔
وحدت کےچھ قرآنی آئیڈیاز
اس بارے میں آیتالله سیدمصطفی محققداماد فرماتے ہیں:
پہلا ستون توحید ہے. توحید کا آغاز ابراهیم(ع) سے ہوا اور رسول گرامی کی تخلیق نہی، اب جب کہ ہمارے خدا نے اپنے نام کو «سلام» اور «صلح» رکھا ہے اور دشمنی کو شیطان کا پیدا کردہ قرار دیا ہے «إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ»(سوره مائده/ 5: آیه 91)، اس خدا نے ہمیں دستی اور محبت کی دعوت دی ہے۔
قرآن اس مسلے کو آیت ۱۰۳ سوره آل عمران میں یوں بیان فرماتا ہے: «وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ.» (آل عمران/3: 103)
توحید پر ایمان رکھتے ہوئے وحدت حاصل ہوسکتی ہے. اس آیت میں ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ہم امن و صلح کی نعمت کو بھائی چارگی کے لیے استفادہ کریں۔
تیسرا ستون عهد و پیمان ہے. معاهده اور پیمان پرسکون اجتماعی زندگی کی اساس ہے۔
قرآن نے پیمان کے نام کو میثاق رکھا ہے: «وَأَخَذْنَ مِنْكُمْ مِيثَاقًا غَلِيظًا»، پیمان سے خاندان تشکیل پاتا ہے۔ حکومت تشکیل پاتی ہے اور پیمان سے اقوام ایکدوسرے کے ساتھ یکجا زندگی بسر کرسکتی ہیں۔
ایک ستون کرامت انسانی ہے. انسانی کرامت آسمانی کتابوں میں پہلی بار قرآن میں آیا ہے: «وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا» (اسرا/ 17: 70). یہ قرآن کی واضح ایات میں سے ایک ہے. قرآن کہتا ہے کہ تم ہر قسم کے جھگڑوں سے پرہیز کرو؛ «وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ» (انفال/8: 46)، اگر تم نزع کرو تو تمھاری کرامت پر حرف آئے گا.
پانچواں ستون عفو و درگزر ہے: «أَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى» (بقره/1: 237). چھٹا ستون «صفح» ہے. عفو یعنی دوسرے کے گناہ کو قبول کرکے معاف کرنا لیکن صفح ایک قدم اوپر ہے یعنی یہ کہ دوسروں کی غلطیوں کو بالکل بھول جانا: «فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا» (بقره/1: 109).
..
انصار اللہ یمن کے رہنما سید عبد الملک بدر الدین حوثی کا یمن پر حملے کی برسی پر خطاب
یکنا نیوز کے مطابق گذشتہ روز ہونے والے خطاب میں انصار اللہ کے رہنما کا کہنا تھا یمن پر ہونے والی ناگہانی جارحیت سے واضح ہوتا ہے کہ کن افواج نے یہ جارحانہ حملے انجام دیئے ہیں اور کن لوگوں پر یہ جارحیت انجام دی گئی. واشنگٹن کی طرف سے اس جارحیت کا اعلان کیا گیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ اس تجاوز کی نظارت کرنے والے اور انجام دینے والے کون ہیں! اس اتحاد کو بنانے والے امریکی، برطانوی اور اسرائیلی ہیں اور امریکہ اس کی نظارت کرنے والا ہے. شروع میں اس وحشیانہ بمباری پر فقط مقاومتی گروہوں نے ہی اس غیر انسانی عمل کی مخالفت کی باقی سارے جھان کی خاموشی کی وجہ سے اس اجتماعی قتل عام کا سلسلہ جاری رہا حتی کہ بعض افراد کی طرف سے اس جنایت کو انجام دینے پر مبارک باد بھی پیش کی گئی۔
انکا کہنا تھا کہ جارح افواج کی جانب سے شروع سے ہی یہ کوشش کی گئی کہ یمنی تیل کے ذخائر پر قبضہ کیا جائے اور اس ملت کو ان کے اپنے ذخائر سے محروم کیا جائے متجاوز اتحاد کی جانب سے سات کھرب ڈالر کا تیل چوری کیا گیا۔
سید عبد الملک کا مزید کہنا تھا کہ ہماری فوجی صنعت کی پایداری کی ایک وجہ جارحین سے مقابلے کا جذبہ تھا مختلف اقسام کے میزائل جس میں السرخہ ،ذوالفقار، قدس2 ،برکان2 شامل ہیں سے اس کا آغاز ہوا تھا اور اب جدید میزائل بنانے کا یہ سلسلہ جاری ہے ہمارا ملک فوجی ساز و سامان تیار کرنے میں خود کفیل ہے اور ہم اب غیر نظامی چیزیں بنانے کی طرف گامزن ہیں. یہی موضوع ہمارے دشمنوں کے غصہ کا باعث بن رہا ہے ہمارے میزائل یمن میں تیار کردہ ہیں اور اس حقیقت کو دشمن بھی جانتا ہے۔ ہماری عوام نے میزائل کی صنعت میں ہماری حمایت کی اور یمنی خواتین نے اپنا سونا اور مال مویشی بیچ کر اس میں اپنا حصہ شامل کیا اور میں جارحین کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس جارحیت سے باز آ جائیں اور اس محاصرے کو ختم کریں اور یمن پر قبضے سے پیچھے ہٹ جائیں اگر یہ نام نہاد اتحاد چاہتا ہے کہ اس دلدل سے نکلے تو پہلے اپنے حملوں کو بند کرے اور اس ظالمانہ محاصرے کو ختم کریں۔
سید کا کہنا تھا کہ ہم نے جنگ کے آٹھویں سال میں خدا پر توکل کرتے ہوئے ایک بڑی تعداد میں مجاہدین کے لشکر کے ساتھ آئیں گے ہم اس آٹھویں سال میں بیلسٹیک میزائلوں اور ڈرونز کے ساتھ آئیں گے ہم نے ان اقتصادی اور عسکری چلینچز کے ذریعے یہ سیکھا ہے کہ کیسے بحرانوں کو فرصت کے طور پر استعمال کریں اور تمام دنیا جانتی ہے کہ یہ یلغار آج تک ناکام ہوئی ہے اور اس کا نتیجہ بھی ناکامی کی صورت میں ہی نکلے گا۔انشاءاللہ
یمن جنگ، انسانی حقوق کی رپورٹس اور عالمی بے حسی
یمن کے خلاف آل سعود کی سربراہی میں عرب اتحاد کی جارحیت کو آٹھواں سال شروع ہو چکا ہے۔ اگرچہ انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے یمن میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے یمنی عوام کے بنیادی حقوق کی پامالی کے بارے میں بے شمار رپورٹس شائع کی ہیں لیکن عالمی سطح پر شدید بے حسی طاری ہے اور امریکہ، مغرب اور مغرب نواز اسلامی ممالک نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ یمن میں بچوں اور خواتین کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ اقوام متحدہ سے وابستہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یمن میں شدید غذائی قلت پائی جاتی ہے جس کے نتیجے میں 1 کروڑ 74 لاکھ شہریوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے جبکہ سال کے آخر تک یہ تعداد 1 کروڑ 90 لاکھ تک پہنچ جانے کا امکان ہے۔
دوسری طرف عالمی برادری نے یمن کی صورتحال پر آنکھیں موند رکھی ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نہ صرف جارح سعودی اتحاد کو امریکہ اور مغربی طاقتوں کی آشیرباد حاصل ہے بلکہ یہ طاقتیں اس جارحیت میں برابر کی شریک ہیں۔ یمنی عوام کو درپیش انتہائی مشکل حالات کے بارے میں غذا اور پانی کے عالمی اداروں "فا" اور "یونیسف" نے بھی رپورٹس جاری کی ہیں جس کے بعد برطانوی وزیراعظم بوریس جانسن نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ ان کا یہ دورہ ایسے وقت انجام پایا جب کچھ ہی دن پہلے ایک ہی دن میں 81 مخالفین کو دہشت گرد قرار دے کر ان کی گردنیں اڑائی جا چکی تھیں۔ اس کے باوجود خود کو انسانی حقوق کا علمبردار ظاہر کرنے والے مغربی ممالک خاص طور پر برطانیہ کی جانب سے ہلکا سا احتجاج بھی نہیں دیکھا گیا۔
برطانیہ اور سعودی عرب کے درمیان ہمیشہ سے انتہائی قریبی تعلقات برقرار رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ برطانیہ سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، لہذا آل سعود کے جنگی جرائم سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے اسے اسلحہ کی فروخت جاری رکھنے کو باہمی اتحاد کی مضبوطی تصور کیا جاتا ہے۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ چند ماہ کے دوران لندن نے 18 ارب پاونڈ سے زیادہ سعودی عرب کو اسلحہ بیچا ہے۔ آج نہ صرف یمنی عوام کی مدد اور حمایت نہیں کی جا رہی بلکہ مختلف بہانوں سے وہاں انجام پانے والے سعودی جنگی جرائم پر پردہ ڈالا جا رہا ہے۔ سعودی عرب عالمی اداروں کو بھاری رشوت دے کر ان کا منہ بند کر دیتا ہے اور تسلی سے یمنی عوام کی نسل کشی میں مصروف ہے۔
یمن جنگ میں مرکزی کردار ادا کرنے والے ممالک میں سے ایک امریکہ ہے۔ امریکہ، فرانس اور جرمنی واضح طور پر متضاد رویہ اپناتے ہوئے ایک طرف تو انسانی حقوق کے دفاع کی بات کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف عالمی سطح پر اسلحہ فروخت کرنے میں مصروف ہیں۔ اسٹاک ہوم میں واقع تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب دنیا میں اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ امریکہ کی جانب سے فروخت ہونے والے اسلحہ کا ایک چوتھائی حصہ سعودی عرب کے پاس پہنچتا ہے جس سے وہ یمنی عوام کی نسل کشی کرنے میں مصروف ہے۔ امریکہ نے ایک طرف یمن پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور حتی غذائی مواد اور ادویہ جات کی ترسیل بھی روک رکھی ہے جبکہ دوسری طرف انجلینا جولی جیسے فنکار بھیج کر خود کو یمنی عوام کا نجات دہندہ ظاہر کرتا ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی ادارے بارہا یمن کے بارے میں وارننگ دے چکے ہیں کہ وہاں موجود انسانی بحران کی شدت ناقابل تصور ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل گاتریش صرف اظہار افسوس پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور یمنی عوام کا محاصرہ توڑنے کیلئے کوئی موثر اقدام انجام نہیں دیتے۔ یمن سے متعلق اقوام متحدہ کی کوتاہی اس قدر شدید ہے کہ خود مغربی شخصیات نے بھی اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اقوام متحدہ کے سابق خصوصی رپورٹر اور پرنسٹن یونیورسٹی کے قانون کے پروفیسر رچرڈ فالک کہتے ہیں: "اقوام متحدہ خود بھی ایک سیاسی کھلاڑی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ امریکہ جیسے ممالک اپنے سیاسی مقام کے ذریعے اقوام متحدہ میں لابیاں بنا کر رکھتے ہیں اور اس کے فیصلوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ لہذا وہ یمن کے بارے میں موثر فیصلہ انجام دینے سے قاصر ہے۔"
آج یمنی عوام کی قتل و غارت کو سات سال مکمل ہو چکے ہیں۔ عالمی برادری کو اس سوال کا جواب دینا چاہئے کہ جو اسلحہ دن رات یمنی عوام کے خلاف بروئے کار لایا جا رہا ہے وہ آل سعود رژیم نے کن ممالک سے حاصل کیا ہے؟ اور کیوں اقوام متحدہ اور خاص طور پر سلامتی کونسل جیسے عالمی ادارے اس بارے میں غیر جانبدارانہ پالیسی اپنائے ہوئے ہیں؟ اگر عالمی برادری یمن کے مسئلے پر منصفانہ متفقہ موقف اختیار نہیں کرتی تو اس کے نتیجے میں وہاں قحط اور غذائی قلت کے باعث مزید انسانی جانیں ضائع ہونے کا خطرہ پایا جاتا ہے۔ یوکرین کی جنگ بھی یمن جنگ پر یوں اثرانداز ہو رہی ہے کہ جارح سعودی اتحاد عالمی میڈیا کی توجہ تقسیم ہونے کا غلط فائدہ اٹھا کر یمن میں جنگی جرائم جاری رکھے ہوئے ہے۔
کریملن: روس امریکہ کی طرح ڈاکو نہیں ہے
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے آج (منگل کو) کہا کہ امریکہ پر روسی سائبر حملے کے بارے میں امریکی صدر جو بائیڈن کے ریمارکس کے جواب میں ماسکو ڈاکہ نہیں ڈال رہا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کی صبح روس پر آنے والے دنوں میں بڑے پیمانے پر روسی سائبر حملے کے امکان سے خبردار کیا۔
ٹاس نیوز ایجنسی کے ذریعہ پیسکوف کے حوالے سے کہا گیا کہ "بہت سے مغربی ممالک کے برعکس، جیسا کہ ریاستہائے متحدہ، روسی فیڈریشن ریاستی سطح پر قزاقی میں ملوث نہیں ہے۔"
دوسری جانب روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اس سے قبل ماسکو پر امریکی کمپنیوں پر سائبر حملوں کے الزامات کو بکواس قرار دیا تھا۔
ماسکو نے اپنے مطالبات کی دستاویزات کیف کو پیش کر دی ہیں۔
روس یوکرین مذاکرات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یوکرین کے ساتھ مذاکرات میں روس کے موقف کی زبانی اور تحریری وضاحت کی گئی ہے، کیف کو متعلقہ دستاویزات موصول ہو چکی ہیں اور انہیں عام کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
پیسکوف نے کہا کہ یوکرین روس کے مطالبات سے بخوبی واقف ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں۔ ماسکو کی پوزیشنز زبانی اور واضح طور پر تحریری طور پر مقرر کی جاتی ہیں۔ "دستاویزات کا مسودہ چند روز قبل یوکرینیوں کو دیا گیا تھا۔"
کریملن کے ترجمان نے کہا کہ یوکرین نے کچھ دستاویزات کا جواب دیا ہے۔
روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کا عمل سست روی کا شکار ہے۔
پیسکوف نے روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کے اگلے دور کے بارے میں کہا، "یہاں پروگرام کافی لچکدار ہے، اس لیے میں تفصیلات میں نہیں جاؤں گا۔" "یہ عمل جاری ہے، لیکن ہم یقینی طور پر زیادہ گہری اور بامعنی بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔"
انہوں نے مذاکرات کی پیش رفت کو سست قرار دیتے ہوئے کہا: "یوکرین ایک خودمختار ملک ہے اور اس کا گھریلو سیاسی طریقہ کار ہو سکتا ہے اور ہونا چاہیے۔ لیکن ان معاملات کے علاوہ دو وفود بھی مذاکرات کر رہے ہیں۔ "میں تفصیلات میں نہیں جا سکتا، لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر یہ مسائل اب عام ہو گئے تو اس سے مذاکراتی عمل میں خلل پڑ سکتا ہے، جو کہ ہماری خواہش سے بہت سست اور کم ہے۔"
اسرائیل کا وجود ناجائز اور قابض و ظالم سے زیادہ کچھ نہیں، علامہ ساجد نقوی
علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ بیت المقدس سے مسلمانوں کو بے دخل کر دیا اور آج مظلوموں کے خون پر کھڑے ہوکر پھر ”پارسائی“ کے دعوے، یہ کھلا دھوکہ ہے، بین الاقوامی دنیا اور سنجیدہ فکر حلقے کبھی بھی اس دھوکہ بازی میں نہیں آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل بین الاقوامی سطح پر اعتماد کھو چکا، مگر نئے انداز میں دھوکہ دینا چاہتا ہے، جسے تمام باضمیر انسان ناصرف ناکام بنائیں گے، بلکہ اسے آنے والے وقت میں مزید بے نقاب بھی کرینگے۔ علامہ ساجد نقوی نے اسرائیل کے حوالے سے بین الاقوامی دوہرے معیار پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عالمی طاقتوں کا دوہرا معیار عالمی امن کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
امریکیوں نے ابھی حال ہی میں اعتراف کیا اور اپنی زبان سے اقرار کیا کہ ایران کے خلاف شدیدترین دباؤ میں، انہیں ذلت آمیز شکست ہوئی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ہجری شمسی کیلنڈر کے نئے سال 1401 کے پہلے دن ٹی وی چینلوں سے براہ راست نشر ہونے والی اپنی تقریر میں، نوروز اور نئي صدی کے آغاز کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے، نئے سال کے نعرے کی تشریح کی اور مساوات کے ساتھ اقتصادی ترقی اور غربت کے مسئلے کے حل کی واحد راہ، نالج بیسڈ معیشت کی راہ پر آگے بڑھنا بتایا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے افغانستان، یوکرین اور یمن میں جاری مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سارے واقعات، سامراج سے مقابلے میں ایرانی قوم کی حقانیت اور اس کے موقف کی درستگی کو عیاں کرتے ہیں۔
آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے نوروز کی قومی عید کے موقع پر ذکر خدا، دعا، مناجات اور معنویت کی تقاریب کو ایرانی نوروز کی اہم خصوصیت بتایا اور کہا: موسم بہار امید کا مظہر اور طراوت و روئیدگي کے پیغام کا حامل ہے اور اس سال، پندرہ شعبان کے ایام کی ہمراہی کی وجہ سے جو تاریخ اور انسانیت کی بہت بڑی امید کے جنم لینے کا دن ہے، یہ امید دوبالا ہو گئي ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ امید، تمام کاموں اور ترقی و پیشرفت کا سرچشمہ ہے، کہا: جو لوگ عوام سے وابستہ رہتے ہیں، یا کچھ لکھتے ہیں یا انھیں پیغام دیتے ہیں، وہ لوگ جہاں تک ممکن ہو، عوام کے اندر امید پیدا کریں کیونکہ امید، پیشرفت کا اہم عنصر ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے پچھلے ایک عشرے میں مختلف برسوں کے نعروں اور اسی طرح سنہ 1401 کے نعرے کے لیے معاشی عناوین کے انتخاب کی وجہ بتاتے کہا: اس سال کے لیے اور سال کے نعرے کے لیے معاشی عنوان کے انتخاب کی وجہ، معیشت کے مسئلے کی کلیدی اہمیت اور اسی طرح پچھلے عشرے کے معاشی چیلنجز ہیں جن سے چھٹکارے کے لیے تدبیر اور صحیح عمل و اقدام کی ضرورت ہے۔
آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ آج ملک کے عہدیداروں اور ملک کا نظام چلانے میں دخیل افراد کا سب سے اہم مسئلہ، معیشت ہے، کہا: البتہ عوامی سطح پر بھی کچھ سرگرمیاں دکھائی دیتی ہیں جو مناسب طریقے سے جاری رہیں تو بڑی امید افزا ہیں۔
انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ معاشی ترقی حاصل کرنے کا واحد راستہ، نالج بیسڈ معیشت کی سمت میں آگے بڑھنا ہے، کہا: نالج بیسڈ معیشت سے مراد، سبھی میدانوں میں پیداوار کو سائنسی اور تکنیکی نظر سے دیکھنا ہے جس کا نتیجہ، پیداوار کے اخراجات میں کمی، فائدے میں اضافہ، پروڈکٹس کی کوالٹی میں بہتری، عالمی منڈیوں میں پروڈکٹس کا کمپیٹیشن کے لائق بننا اور ملک کے اندر مصنوعات کی تیاری کی قیمت میں کمی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں متعدد عالمی مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جن کے لیے تدبیر اور صحیح حرکت، فیصلے اور اقدام کی ضرورت ہے، کہا: جب دنیا کے معروضی حالات کا جائزہ لیا جاتا ہے تو سامراجی محاذ کے مقابلے میں استقامت پر استوار ایرانی قوم کے موقف کی حقانیت مزید واضح ہو جاتی ہے۔
انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ استکبار کے مقابلے میں ایرانی قوم کا انتخاب، 'استقامت، ہتھیار نہ ڈالنے، عدم انحصار، خود مختاری کی حفاظت اور نظام اور ملک کی داخلی تقویت' تھا، کہا: یہ قومی فیصلے تھے جو بالکل صحیح تھے۔
آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے مظلوم مسلمان ملک افغانستان کے حالات، اس ملک پر ہونے والے ظلم اور بیس سال کے مظالم و جرائم کے بعد امریکیوں کے انخلاء کے طریقے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یوکرین کے واقعات بھی ایک دوسرا نمونہ ہیں کہ اس ملک کا صدر، جسے خود مغرب والوں نے اقتدار میں پہنچایا ہے، آج ان سے سخت لہجے میں بات کر رہا ہے۔
انھوں نے اسی طرح یمن کے واقعات اور اس ملک کے مزاحمت کار عوام پر روزانہ ہونے والی بمباری اور دوسری طرف 80 نوجوانوں اور بچوں کی گردن کاٹنے کے سعودی عرب کے اقدام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ ساری باتیں، دنیا پر حاکم ظلمت اور خونخوار بھیڑیوں کی عکاسی کرتی ہیں جن کے ہاتھوں میں دنیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ یوکرین کے واقعات کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اس سے مغرب کی نسل پرستی عیاں ہو گئی۔ آپ نے کہا: سیاہ فاموں کو سفید فاموں سے الگ کرنا، انھیں ٹرین سے نیچے اتار دینا یا مغربی میڈیا میں مغرب والوں کا اس بات پر افسوس ظاہر کرنا کہ جنگ، مشرق وسطی کے بجائے یورپ میں ہو رہی ہے، مغرب کی کھلی نسل پرستی کے کچھ نمونے ہیں۔
انھوں نے ملکوں میں ظلم و ستم سے نمٹنے کے طریقۂ کار میں، مغربی دنیا کے دوغلے پن کا ایک اور نمونہ بیان کرتے ہوئے کہا: اگر ان کے کسی فرمانبردار ملک میں ظلم ہوتا ہے تو وہ کوئي بھی ردعمل ظاہر نہیں کرتے اور اتنے ظلم و ستم کے بعد انسانی حقوق کا دعوی بھی کرتے ہیں اور اس جھوٹے دعوے کے ذریعے خودمختار ملکوں سے غنڈہ ٹیکس بھی وصول کرتے ہیں۔
آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے زور دے کر کہا: یہ ظلم و استکبار کے میدان میں عصر حاضر کا سب سے شرمناک دور ہے اور دنیا کے عوام ان مظالم اور دوغلے رویے کو براہ راست دیکھ رہے ہیں۔
انھوں نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں، پچھلے سال، سال کے پہلے دن کی تقریر کا حوالہ دیا جس میں آپ نے ملکی معیشت کو امریکی پابندیوں سے جوڑنے اور یہ بات کہنے سے منع کیا تھا کہ جب تک پابندیاں رہیں گي، صورتحال یہی رہے گي۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا: بحمد اللہ ملک میں نئي پالیسیوں نے دکھا دیا ہے کہ امریکی پابندیوں کے باوجود ترقی و پیشرفت کی جا سکتی ہے، خارجہ تجارت کو فروغ دیا جا سکتا ہے، علاقائی معاہدے کیے جا سکتے ہیں اور تیل اور دیگر اقتصادی امور میں کامیابیاں حاصل کی جا سکتی .taghribnews
شام کے مشرقی علاقوں پر قابض امریکی دہشتگردوں کے ایک اڈے پر ڈرون حملہ
شام کے مشرقی علاقوں پر قابض امریکی دہشتگردوں کے ایک اڈے پر ڈرون حملہ ہوا ہے۔
فارس نیوز نے عراقی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ شام کے شمال مشرقی علاقے دیرالزور میں واقع العمر آئل فیلڈ کہ جہاں امریکی دہشتگرد قبضہ جمائے ہوئے ہیں، ایک ڈرون طیارے سے حملہ کیا گیا ہے۔
یہ علاقہ عراق و شام کی سرحد پر واقع ہے اور گزشتہ کئی برسوں سے امریکہ کے باوردی دہشتگرد شام کے قومی سرمائے کو لوٹنے کی غرض سے اس علاقے پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ ابھی تک اس حملے کے سلسلے میں مزید تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔
شام میں امریکی آلۂ کار دہشتگرد ٹولے داعش کی شکست کے بعد اب خود امریکی میدان میں آگئے ہیں اور شامی عوام اور خطے کے استقامتی محاذ کے خلاف برسر پیکار ہیں ۔شام کے مختلف علاقوں میں امریکی موجودگی کے خلاف عوامی ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے اور لوگ آئے دن دہشتگردی سے جنگ کے بہانے شام میں موجود امریکہ کے باوردی دہشتگردوں کے خلاف مظاہرہ کرتے ہیں۔
شام کی حکومت نے بھی بارہا اقوام متحدہ میں امریکہ کی سرکردگی میں اپنے ملک میں موجود غیر ملکی فوجیوں کی موجودگی کو غیرقانونی اور جارحیت قرار دیتے ہوئے اُس پر سخت اعتراض درج کرایا ہے۔
خیال رہے کہ عراق میں موجود امریکی دہشتگردوں پر حملے روز کا معمول بن چکے ہیں جبکہ شام میں بھی امریکی فوجیوں اور انکے اڈوں پر حالیہ مہینوں کے دوران بارہا حملے کئے جا چکے ہیں۔