سلیمانی

سلیمانی

مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ افغانستان کے صوبے ننگرہار کی ایک مسجد میں نماز جمعہ کے دوران زور دار دھماکے کے نتیجے میں 3 نمازی شہید جب کہ امام مسجد سمیت 12 افراد شدید زخمی ہوگئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق افغانستان کے صوبے ننگرہار کے ضلع اسپین گھر کی ایک مسجد میں اُس وقت زور دار دھماکہ  ہوا جب وہاں نماز جمعہ ادا کی جا رہی تھی۔

مقامی طالبان کمانڈر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر مسجد میں دھماکے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔ دھماکے کی نوعیت سے متعلق تفتیش جاری ہے۔

دھماکے میں 3 افراد شہید ہوگئے جب کہ امدادی کاموں کے دوران امام مسجد سمیت 12 افراد کو شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا ہے جن میں سے 10 زخمیوں کی حالت نازک بتائی جاتی ہے جس کے باعث مزید ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

تاحال کسی گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے جمعہ کے روز مسجد میں دھماکے کا یہ چوتھا واقعہ ہے جن شیعہ اور سنی مسجدوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔خیال رہے کہ گزشتہ دھماکوں کی ذمہ داری داعش دہشت گرد تنظیم نے قبول کی تھی اور ان دھماکوں میں 400 سے زائد افراد شہید اور زخمی ہوگئے تھے۔

113 روز خوراک کے بغیر اپنی غیر قانونی حراست کی جنگ لڑنے والے فلسطینی اسیر  کو صہیونی عدالت نے  نئے سال  ماہ  فروری میں باقاعدہ آزاد کر نے کے معاہدے  کی منظوری دی ہے جو کہ غاصب دشمن کے سامنے القوسمی کی کھلی فتح  ہے۔

تفصیلات کے مطابق گذشتہ روز مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل کی صہیونی جیلوں میں قید 113 روز سے احتجاجی بھوک ہڑتال کر نے والے بے گناہ فلسطینی  نوجوان مقداد القواسمی  جو ہر گزرتے لمحے موت کی جانب تیزی سے گامزن تھےکو قابض ریاست کی جانب سے بالآخر بین الاقوامی دباؤ   سے مجبور ہو کر رہائی دینے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔

113 روز  خوراک کے بغیر اپنی غیر قانونی حراست کی جنگ لڑنے والے فلسطینی اسیر کو صہیونی عدالت نے  نئے سال ماہ  فروری میں باقاعدہ آزاد کر نے کے معاہدے  کی منظوری دی ہے جو کہ غاصب دشمن کے سامنے القوسمی کی کھلی فتح ہے۔

واضح رہے کہ قابض صہیونی جیلوں میں القواسی کی طرح سینکڑوں بغیر کسی جرم کے سزائیں کاٹنے والے  قیدی موجود ہیں جن میں چھ قیدی ابھی بھی بھوک ہڑتال کے ذریعے اپنی آزادی کے لیے احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں ،   سب سے طویل  بھوک  ہڑتال  کر نے والے قیدی  کاید الفصفوص ہیں  جو  120روز سے خوراک کے بغیر غیر قانونی صہیونی حراست کے خلاف ہڑتال پر قائم ہیں۔

شام کے فوجی جوانوں نے صوبہ الحسکہ میں امریکی دہشتگرد فوجیوں کے کاروان کا راستہ روک کر انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا۔

فارس خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق شام کے شمال مشرقی صوبے حسکہ میں واقع قامشلی علاقے الوفا اسکوائر کے چیک پوسٹ پر شام کے فوجی جوانوں نے امریکی دہشتگرد فوجیوں کے کاروان کا راستہ روک کر انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا جس کے بعد امریکی فوجی واپس جانے پر مجبور ہوئے۔

اس سے قبل  بھی شام کی فوج نے الکازیہ گزرگاہ پر بھی امریکی دہشتگردوں کا راستہ روک کر انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا تھا۔

ایک طویل عرصے سے امریکہ کے باوردی دہشتگرد اور انکے حمایت یافتہ دیگر دہشتگرد ٹولے شام کے شمالی اور مشرقی علاقوں پر قابض ہیں اور روزانہ کی بنیادوں پر اس ملک کے تیل اور دیگر ذخائر کی لوٹ مار میں مصروف ہیں اور ساتھ ہی وہ شامی عوام کے لئے بڑی مشکلات بھی کھڑی کرتے رہتے ہیں۔

شام کی حکومت بارہا اقوام متحدہ میں امریکہ کی غیر قانونی موجودگی اور اسکے دہشتگردانہ اقدامات پر اعتراض درج کرا چکی ہے تاہم ابھی تک یہ عالمی ادارہ دہشتگردی کے خلاف امریکہ کے نام نہاد اتحاد کو شام میں اپنی من مانیوں سے روکنے میں ناکام رہا ہے۔

امریکی ذرائع ابلاغ نے عراق میں امریکی دہشتگردوں کی سب سے بڑی چھاؤنی عین الاسد پر ایران کے میزائل حملے کے سلسلے میں مزید حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔

امریکی نیوز چینل سی بی ایس کی ویب سائٹ کے مطابق عین الاسد چھاؤنی پر ایران کی سپاہ پاسداران فورس کے میزائل حملے کے بعد امریکی فوج پر اس حملے کو چھوٹا کر کے پیش کرنے کے لئے دباؤ ڈالا گیا تھا۔

سی بی ایس چینل کی ویب سائٹ کا کہنا ہے ایران نے جوابی و انتقامی اقدام کرتے ہوئے جو حملہ عراق میں امریکی فوجیوں کی چھاؤنی پر کیا وہ تاریخ میں امریکی فوجیوں پر ہونے والا سب سے بڑا حملہ تھا۔ مذکورہ ویب سائٹ نے لکھا ہے کہ ایران نے عین الاسد پر سولہ سو پاؤنڈ وزنی وارہیڈ کے حامل اپنے گیارہ میزائلوں سے حملہ کر کے اسے مٹی میں ملا دیا تھا۔

اس سے قبل امریکی دہشتگردی کے علاقائی مرکز سینٹکام کے ہیڈکواٹر نے کہا تھا کہ اگر چھاؤنی کو خالی نہ کیا جاتا تو کم سے کم بیس سے تیس جنگی طیاروں اور سو سے ڈیڑھ سو فوجیوں سے انہیں ہاتھ دھونا پڑ جاتا۔

امریکی صدر نے ایران کے خلاف ہنگامی حالت کے قانون میں مزید ایک سال کی توسیع کردی ہے۔

وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات ابھی معمول پر نہیں آسکے ہیں اور چودہ نومبر انیس سو اناسی کا نیشنل ایمرجنسی ایکٹ اور اس کے تحت انجام پانے والے تمام تر اقدامات کا سلسلہ چودہ نومبر دوہزار اکیس کے بعد بھی اسی طرح جاری رہے گا۔

امریکہ نے ایران کے خلاف یہ قدم ایسے وقت میں اٹھایا ہے جب پابندیوں کے خاتمے اور ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی واپسی کے بارے میں ایران اور چار جمع ایک گروپ کے درمیان مذاکرات کا ساتواں دور انتیس نومبر کو ویانا میں ہونے والا ہے اور امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے منگل کے روز اپنے ایک بیان میں دعوی کیا ہے کہ ہم پوری صداقت کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ ایٹمی معاہدے میں دوطرفہ واپسی اورعملدرآمد ممکن ہے۔

امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ستمبر دوہزار بیس میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ صدرڈونلڈ ٹرمپ نے ایٹمی معاہدے سے نکل کر ایسی بڑی غلطی کی ہے جو قومی مفادات کے منافی ہے اور اس کے نتیجے میں امریکہ دنیا میں تنہا ہوکے رہ گیا ہے۔لیکن وائٹ ہاوس میں پہنچتے ہی وہ اپنی باتوں سے پھر گئے اور انہوں نے بھی ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی پر عملدرآمد جاری رکھا ہے۔

امریکہ ایران کے خلاف ایٹمی پابندیوں کو جامع تر بنانے کے علاوہ ، ایران کے میزائل پروگرام اور علاقائی پالیسیوں کو آئندہ ہونے والے مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل کرنا چاہتا ہے۔امریکی حکام کے بیانات سے پوری طرح واضح ہے کہ واشنگٹن تہران کے خلاف شدید سیاسی دباؤ کے ذریعے ایک جانبدارانہ معاہدے کے حصول کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

صدر بائیڈن کی جانب سے ایران کے خلاف ہنگامی حالت کے قانون میں توسیع اس بات کی ایک اور نشانی ہے کہ تہران کے بارے میں واشنگٹن کی پالیسیوں میں کوئی تبدیل واقع نہیں ہوئی ہے۔ ایران بھی امریکہ کی مخاصمانہ پالیسیوں کا پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کر رہاہے اور زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ مزاحمت کی کھلی پالیسی پر عملدرآمد کر رہا ہے جس کے نتیجے میں واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کو اپنے مقاصد میں ناکامی کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔

ایران کی پارلیمنٹ نے بحیرہ عمان میں امریکی بحری قزاقی کی روک تھام کے حوالے سے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی کارروائی کا خیر مقدم کیا ہے۔

 بدھ کے روز ایرانی پارلیمنٹ کے ارکان نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے جوانوں نے بحیرہ عمان میں ایران کا تیل چوری کرنے کی امریکی کوشش ناکام بنا کر، ایران کی عظمت اور سربلندی کا پرچم دنیا کے سامنے لہرایا ہے۔ایرانی پارلیمنٹ کے بیان میں آیا ہے کہ ایران کی مسلح افواج ملک کی سلامتی اور قومی مفادات کے تحفظ کا پختہ عزم رکھتی ہیں اور انہوں نے دشمن پر اپنی دھاک بٹھا دی ہے۔

واضح رہے کہ تین نومبر کو سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی بحری فورس کے جوانوں نے بروقت کارروائی کرتےہوئے بحیرہ عمان میں بحری قزاقی کی امریکی کوشش کو ناکام بنادیا تھا۔امریکی بحری بیڑا، بحیرہ عمان میں سفر کرنے والے ایرانی تیل بردار بحری جہاز پر لدا تیل دوسرے بحری جہاز میں منتقل کرکے نامعلوم مقام کی جانب لے جارہا تھا کہ، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے جوانوں نے مذکورہ بحری جہاز کو گھیر لیااور ایرانی سمندری حدود میں لے آئے ۔

مولانا ئے محترم !
کلام مجید یا حدیثِ نبوی(ص) سے کوئی ایسی دلیل پیش کیجیے جسے سے معلوم ہو کہ ائمہ اہل بیت(ع) ہی کی پیروی واجب ہے۔ قرآن و حدیث کے ماسوا چیزوں کو رہنے دیجیے۔ کیونکہ آپ کے ائمہ کا کلام مخالفین کے لیے حجت نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ان کے کلام سے استدالال اس مسئلہ پر دور کا مستلزم ہے۔ آپ ثابت یہ کرنا چاہتے ہیں کہ ائمہ اہلبیت(ع) ہی کی پیروی واجب ہے اور آپ دلیل میں انھیں ائمہ اہلبیت(ع) کا قول پیش کرتے ہیں جن کی پیروی سی محل بحث ہے۔
                                س


جواب مکتوب
ہماری تحریر پر غور نہیں کیا گیا

آپ نے غور نہیں کیا ۔ ہم نے حدیث سے ابتدا ہی میں ثبوت پیش کردیا تھا۔ اپنے مکتوب میں یہ لکھتے ہوئے کہ بس ائمہ اہلبیت(ع) ہی کی پیروی ہم پر واجب ہے نہ کسی غیر کی۔ ہم نے حدیث اشارتا ذکر کردی تھی۔ ہم نے یہ لکھا تھا کہ پیغمبر(ص) نے انھیں کتاب خدا کے مقارن صاحبانِ عقل کے لیے مقتدی، نجات کا سفینہ، امت کے لیے امان قرار دیا ہے، باب حطہ فرمایا۔ تو میری یہ عبارت انھیں مضامین کی احادیث کی طرف اشارہ تھی جو کہ اکثر و بیشتر کتبِ احادیث میں موجود ہیں۔ ہم نے یہ بھی لکھ دیا تھا کہ آپ ماشاء اﷲ ان لوگوں میں ہیں جن کے لیے اشارہ ہی کافی ہے، تصریح کی ضرورت نہیں۔ لہذا جب ہمارے ائمہ کی اطاعت و پیروی کے متعلق اتنی کثرت سے احادیث موجود ہیں تو اب ان کے اقوال مخالفین کے مقابلہ میں بطور استدالال پیش کیے جاسکتے ہیں اور کسی طرح دور لازم نہیں آتا ۔ ہم نے اقوال پیغمبر(ص) کی طرف ابتداء میں اشارہ جو کیا تھا ان کی تفصیل بھی کیے دیتے ہیں۔ پیغمبر(ص) نے صاف الفاظ میں ارشاد فرمایا :


حدیثِ ثقلین

ببانگ دہل اعلان فرمایا :
“يا ايها الناس انی تارک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ ”
        (1)“ اے لوگو! میں تم  میں ایسی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم انھیں اختیار کیے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ایک کتابِ خدا دوسرے میرے اہل بیت(ع) ۔”
یہ بھی ارشاد فرمایا :
        “ میں نے تم میں ایسی چیزیں چھوڑیں کہ اگر تم ان سے محبت کرو تو کبھی گمراہ نہ ہو۔ ایک کتابِ خدا جو ایک رسی ہے آسمان سے زمین تک کھینچی ہوئی، دوسرے میرے عترت و اہلبیت(ع)۔ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوضِ کوثر پر پہنچیں۔ دیکھنا میرے بعد تم ان سے کیونکر پیش آتے ہو ۔”(2)
یہ بھی آپ(ص) نے فرمایا کہ:
         “ میں تم میں اپنے دو جانشین چھوڑے جاتا ہوں، ایک کتابِ خدا جو ایک دراز رسی ہے آسمان سے لے کر زمین تک۔ دوسرے میری عترت و اہل بیت(ع)۔ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس پہنچیں ۔”(3)
 یہ بھی آپ(ص) نے فرمایا کہ :
        “ میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ۔ کتاب خدا اور میرے اہل بیت(ع)۔ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے۔ یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس پہنچیں ۔”(4)
یہ بھی آپ(ص) نے فرمایا کہ :

        “ قریب ہے میں بلایا جاؤں اور مجھے جانا پڑے۔ میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔ ایک خدائے بزرگ و برتر کی کتاب دوسرے میری عترت۔ کتابِ خدا تو ایک رسی ہے جو آسمان سے زمین تک دراز ہے اور میری عترت میرے اہل بیت(ع) ہیں۔(5)  اور خداوندِ عالم لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر پہنچیں۔ پس دیکھو میرے بعد تمہارا سلوک ان کے ساتھ کیسا رہتا ہے ۔”(6)
اور جب حضرت(ص) حجِ آخری سے پلٹے اور مقام غدیر خم پر پہنچے تو آپ(ص) نے ارشاد فرمایا :
         “ مجھے ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ جلد ہی میری طلبی ہوگی اور مجھے جانا پڑے گا۔ میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں جن میں ایک دوسرے سے  بڑا ہے۔ کتاب خدا ، دوسرے میرے اہل بیت(ع) دیکھو خیال رکھنا کہ ان کے ساتھ تم کس طرح پیش آتے ہو۔ یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے۔ یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس پہنچیں۔”
پھر آپ(ص) نے کہا کہ خدائے     قوی و توانا میرا مولا وآقا ہے اور میں ہر مومن کا مولا ہوں۔ پھر آپ(ص) نے حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑا اور ارشاد فرمایا کہ :
        “ میں جس کا مولا ہوں یہ علی(ع) بھی اس کے مولا ہیں میرے بعد خداوندا ! دوست رکھ اس کو جو ان کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو ان کو دشمن رکھے ۔”(7)
عبداﷲ بن اخطب سے روایت ہے کہ رسول(ص) نے مقام جحفہ پر خطبہ ارشاد فرمایا جس میں کہا :
        “ کیا میں تم پر تم سے زیادہ اختیار نہیں رکھتا ؟”
        لوگوں نے کہا بے شک یا رسول اﷲ(ص)۔ آپ(ص) نے اس پر ارشاد فرمایا :
         “ میں تم سے دو چیزوں کے متعلق پوچھوں گا۔ ایک کتابِ خدا  دوسرے میرے اہل بیت(ع)۔”


حدیثِ ثقلین کا متواتر ہونا

احادیثِ صحیحہ جن کا قطعی فیصلہ یہ ہے کہ بس ثقلین( اہل بیت(ع) و قرآن کی پیروی واجب ہے) معمولی درجہ کی حدیثیں نہیں بلکہ متواتر حدیثیں ہیں اور بیس سے اوپر صحابیوں سے بکثرت طریقوں سے مروی ہیں۔ اہلبیت(ع) کی پیروی کو واجب بتانے کے لیے ایک مرتبہ نہیں بار ہا اور متعدد مواقع پر پیغمبر(ص) نے علی الاعلان کھلے لفظوں میں فرمایا۔ کبھی غدیر خم میں اعلان کیا جیسا ابھی بیان کرچکا ہوں۔ حج آخری کے موقع پر عرفہ کے دن اعلان کیا کبھی طائف سے واپسی کے موقع پر اعلان کیا۔ ایک مرتبہ مدینہ میں بر سرِمنبر اعلان کیا پھر دوسری مرتبہ جب آپ بسترِ مرگ پر حجرہ میں تھے اور آپ(ص) کا حجرہ صحابیوں سے بھرا ہوا تھا۔ آپ(ص) نے ارشاد فرمایا :
        “ اے لوگو! عنقریب تم سے رخصت ہونے والا ہوں۔ میں پہلے ہی تم سے سب کچھ کہہ سن چکا ہوں۔ پھر کہے دیتا ہوں کہ میں تم میں دو چیزیں چھورے جاتا ہوں۔ اپنے پروردگار کی کتاب اور اپنی عترت و اہلبیت(ع)۔”
پھر آپ(ص) نے حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور ارشاد فرمایا  کہ :
        “ دیکھو یہ علی(ع) ہیں یہ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن ان کے ساتھ ہے۔ یہ دونوں کبھی جدا  نہ ہوں گے۔ یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس پہنچیں ۔”(8)
رسالت ماب(ص) کی اس وصیت پر جمہور مسلمین کے سربرآوردہ افراد کی ایک جماعت نے اقرار و اعتراف کیا ہے۔ یہاں تک کہ ابن حجر نے اپنی کتاب میں حدیث ثقلین درج کر کے لکھا ہے کہ حدیث تمسک بکثرت طریقوں سے مروی ہے اورع بیس سے زیادہ صحابیوں نے اس کی روایت کی ہے۔ پھر آگے چل کر کہتے ہیں کہ یہاں ایک شبہ ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ حدیث بکثرت طریقوں سے مروی ہے مگر کہیں یہ ہے کہ آپ(ص) نے حجہ الوداع کے موقع پر عرفات میں فرمایا۔ کہیں یہ ہے کہ مدینہ میں جب آپ بسترِ بیماری پر تھے تب ارشاد فرمایا۔ اور حجرہ اصحاب سے بھرا ہوا تھا۔ کہیں یہ ہے کہ غدیر خم میں فرمایا۔ کہیں یہ ہے کہ جب آپ(ص) طائف سے واپس ہوئے ہیں تو دوران خطبہ آپ(ص) نے فرمایا۔
لیکن یہ شبہ درست نہیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ آںحضرت(ص) نے  کلام اﷲ اور اہل بیت(ع) کی عظمت و جلالت کا لحاظ کرتے ہوئے اور لوگوں کو ان کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دلانے کے لیے ان تمام مواقع پر اس حدیث کو بتکرار ارشاد فرمایا ہو، تاکہ اگر پہلے سے کسی کے کانوں میں یہ بات نہ پڑی ہو تو اب پڑجائے۔ پہلے کسی نے نہ سنا ہو تو اب سن لے۔ (9) اور جب اہلبیت طاہرین(ع) خدا اور رسول(ص) کے نزدیک قرآن  کے ہم پلہ و ہم وزن ہیں، تو جو قرآن کی شان ہے وہی ان کی بھی شان ہوگی جس طرح قرآن کا اتباع و اطاعت ہر مسلم پر فرض ہے اس طرح اہلبیت(ع) کی اطاعت بھی ہر ایک پر واجب ولازم ہے لہذا ان ان کی اطاعت اور ان کے مذہب و مسلک کی پابندی سے مفر ہی نہیں۔ مجبور ہے انسان کہ بس انھیں کا اتباع کرے کیونکہ کوئی مسلمان یہ نہیں پسند کرتا کہ کتابِ خدا کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو کسی اور چیز کو اس کے بدلے میں اپنا دستور العمل بنائے۔ تو جب کتابِ خدا کے بدلے میں کسی دوسری چیز کو اختیار کرنا مسلمانوں کے لیے ناممکن ہے تو کتاب خدا کے ہم پلہ و ہم درجہ جو ہستیاں ہیں ان سے روگردانی کر کے دوسرے اشخاص کی پیروی بھی اس کی نظر میں درست نہ ہوگی۔


جن نے اہلبیت(ع)  سے تمسک نہ کیا اس کا گمراہ ہونا

اس کے علاوہ سرورکائنات کا یہ ارشاد کہ :
" إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِه لَنْ تَضِلُّوا كِتَاب اللَّهِ وَ عِتْرَتِي‏”
“ میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوطی سے پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ایک کتاب خدا دوسرے میری عترت۔”
اس کا صریحی مطلب یہ ہے کہ جن نے ان دونوں کو ایک ساتھ اختیار نہ کیا، دونوں کی ایک ساتھ اطاعت نہ کی وہ گمراہ ہوگا۔ اس مطلب کی تائید اس حدیث ثقلین سے بھی ہوتی ہے جس کی طبرانی نے روایت کی ہے۔ جس میں آنحضرت(ص) کے یہ الفاظ بھی ہیں کہ :
    “ دیکھو ان دونوں سے آگے نہ بڑھ جانا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے۔ اور نہ پیچھے رہ جانا ورنہ تب بھی ہلاک ہوجاؤ گے اور انھیں کچھ سکھانا پڑھانا نہیں کیونکہ یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔”
ابن حجر فرماتے ہیں کہ سرورکائنات کا یہ کہنا کہ :
“ تم ان سے آگے نہ بڑھنا ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور نہ ان سے پیچھے رہ جانا ورنہ تب بھی ہلاک ہوجاؤگے اور انھیں کچھ سکھانا پڑھانا نہیں کہ یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔”
اس امر کی دلیل ہے کہ اہل بیت(ع) کے جو افراد مراتب عالیہ اور درجات دینیہ پر فائز ہوئے انھیں اپنے ماسوا تمام لوگوں پر تفوق و برتری حاصل تھی۔ (10)


اہلبیت(ع) کی مثال سفینہ نوح(ع) اور باب حطہ کی ہے اور وہ اختلاف فی الدین سے بچانے والے ہیں

نیز ایک اور بات جو ہر مسلم کو قہرا اہل بیت(ع) کا پیرو بناتی ہے اور مجبور کرتی ہے کہ دینی معاملات میں بس ان ہی کی پیروی کی جائے۔ سرورکائنات کی یہ مشہور حدیث ہے :
        “ آگاہ ہو اے لوگو ! تم میں میرے اہل بیت(ع) کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے نوح(ع) کا سفینہ ۔ کہ جو شخص اس پر سلوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے گریز کیا وہ ہلاک ہو گیا۔ ”(11)
نیز آںحضرت(ص) کا یہ ارشاد :
        “ تمہارے درمیان میرے اہلبیت(ع) کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے بنی اسرائیل کے لیے باب حطہ کو جو شخص اس میں داخل ہوا وہ بخش دیا گیا۔ ”(12)
نیز آںحضرت(ص) کا یہ قول کہ :
    “ ستارے زمین کے باشندوں کے لیے غرقابی سے امان ہیں اور میرے اہل بیت(ع) میری امت کے لیے دینی معلومات میں اختلاف کے وقت امان ہیں پس اگرمیرے اہلبیت(ع) کی مخالفت کوئی گروہ عرب کرے گا( یعنی احکامِ الہی میں) تو وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوکر ابلیس کی جماعت بن جائے گا۔ ”(13)


اہل بیت(ع) سے کون مراد ہیں ؟

ملاحظہ فرمائیے ۔ ان روایات کے بعد کیا گنجائش باقی رہتی ہے اور اہل بیت(ع) کی پیروی کرنے اور ان کی مخالفت سے باز رہنے کے سوا اور کیا چارہ کار رہتا ہے۔ رسول(ص) نے اس حدیث میں جیسے صاف اور صریحی الفاظ میں اس امر کی واضح فرمایا ہے میں تو نہیں جانتا کہ کسی اور زبان میں اس سے بھی زیادہ وضاحت ممکن ہے۔
یہاں اہلبیت(ع) سے مراد مجموع اہلبیت(ع) میں حیث المجموع ہیں یعنی جملہ اہلبیت(ع) سب کے سب علی سبیل الاستغراق مقصود ہیں۔ اس لیے کہ یہ منزلت صرف انھیں کے لیے ہے جو خدا کی حجت اور اس کی طرف سے درجہ امامت پر فائز ہیں۔ جیسا کہ عقل بھی کہتی ہے اور احادیث بھی بتاتی ہیں چنانچہ جمہور مسلمین کے علماء اعلام نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔ صواعقِ محرقہ میں علامہ ابن حجر مکی تحریر فرماتے ہیں:
        “ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ غالبا اہلبیت(ع) جنھیں رسول(ص) نے امان فرمایا ہے ان سے مراد علمائے اہلبیت(ع) ہیں اس لیے کہ انھیں سے ہدایت حاصل کی جاسکتی ہے جیسے ستاروں سے لوگ ہدایت پاتے ہیں اور جو ہمارے درمیان سے اگر ہٹ جائیں تو روئے زمین کے باشندوں کو آیات الہی کا سامنا ہو جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔”
ابن حجر کہتے ہیں :
        “ کہ یہ اس وقت ہوگا جب مہدی تشریف لائیں گے جیسا کہ احادیث میں بھی ہے کہ حضرت عیسی(ع) ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے اور انھیں کے زمانے میں دجال بھی قتل کیا جائے گا اور اس کے بعد پے در پے خدا کی نشانیاں ظہور میں آتی رہیں گی ۔”(14)
دوسرے مقام پر ابن حجر لکھتے ہیں:
“ سرورکائنات(ص) سے پوچھا گیا کہ اہل بیت(ع) کے بعد لوگوں کی زندگی کیسے بسر ہوگی؟ آپ نے فرمایا ۔ ان کی زندگی بس ایسی ہی ہوگی جیسے اس گدھے کی زندگی جس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہو ۔”(15)


اہلبیت(ع) کو سفینہ نوح(ع) اور باب حطہ سے کیوں تشبیہ دی گئی

آپ اس سے بھی واقف ہوں گے کہ سرورکائنات نے اہلبیت(ع) کو سفینہ نوح(ع) سے جو تشبیہ دی ہے اس سے مقصود یہ ہے کہ جس نے اہلبیت(ع) کا مسلک اختیار کیا، اصول و فروغ میں ائمہ اہلبیت(ع) کی پیروی اور اتباع کیا وہ عذاب جہنم سے محفوظ رہا اور جس نے ان سے گریز کیا اس کا حشر وہی ہوگا جو سفینہ نوح(ع) سے گریز کرنے والے کا ہوا جو جان بچانے کے لیے پہاڑ پر چڑھ گیا تھا۔ بس فرق یہ ہوگا کہ سفینہ نوح سے گریز کرنے والا پانی میں ڈاوبا اور اہلبیت(ع) سے کنارہ کشی کرنے والا جہنم کی آگ میں غرق ہوا۔
اور سرورکائنات(ص) نے اہلبیت(ع) کو باب حطہ سے تشبیہ دی ہے تو اس میں وجہ تشبیہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے منجملہ اور بہت سے مظاہر کے جہاں اس کے جاہ و جبروت حکم و فرمان کے آگے بندوں کی عاجزی اور سرِ نیاز خم کرنے کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ باب حطہ کو بھی ایک مظہر قرار دیا تھا اور اسی وجہ سے اسے ذریعہ مغفرت بنایا تھا۔ اسی طرح خداوندِ عالم نے امت اسلام کے لیے اہل بیت(ع) پیغمبر(ص) کے اتباع و اطاعت کو اپنے جاہ و جبروت کے آگے بندوں کی خاکساری و عاجزی اور اپنے احکام کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے کے مظاہر میں سے ایک مظہر قرار دیا۔ اسی وجہ سے اتباع اہلبیت(ع) سبب مغفرت ہے۔
ابن حجر نے (16) اس پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ چنانچہ اس قسم کی احادیث ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ :
“ آںحضرت(ص) نے ان اہلبیت(ع) کو سفینہ سے جو تشبیہ دی ہے تو وہ وجہ تشبیہ یہ ہے کہ جو ان سے محبت رکھے گا اور ان کو معزز و محترم قرار دے گا اور ان کے علماء کی ہدایت سے مستفید ہوگا وہ مخالفت کی تاریکیوں سے نجات پائے گا اور جو ان سے تخلف کرےگا وہ کفران نعمت کے سمندر میں غرق ہوا اور طغیان و سرکشی کے بیابانوں میں ہلاک ہوا۔”
اس کے بعد لکھتے ہیں کہ :
“ باب حطہ سے جو جو تشبیہ دی ہے تو اس میں وجہ تشبیہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے باب حطہ میں خاکساری و عاجزی کے ساتھ استغفار کرتے ہوئے داخل ہونے کو بنی اسرائیل کے لیے سبب مغفرت قرار دیا تھا اور اسی طرح امت اسلام کے لیے اہلبیت(ع) پیغمبر(ص) کی مودت و محبت کو ذریعہ بخشش قرار دیا ہے  ۔”(17)
غرضیکہ ان اہل بیت علیہم السلام کے اتباع و اطاعت کے واجب و لازم ہونے کے متعلق بکثرت صحیح اور متواتر حدیثیں ہیں۔ خصوصا بطریق اہلبیت طاہرین(ع) تو بے شمار متواتر حدیثیں مروی ہیں۔ اگر آپ کی تھکن کا خیال نہ  ہوتا تو انھیں شرح وبسط سے ذکر کرتے لیکن جو کچھ لکھ چکے ہیں وہی بہت کافی ہے۔
                                ش

--------------
1:-  ـ  ترمذی و نسائی نے جناب جابر سے روایت کی ہے اور ان دونوں سے ملا متقی نے کنزالعمال جلد اول صفحہ۴۴۔ باب اعتصام الکتاب والسنہ کے شروع میں نقل کیا ہے۔
2:-  ـ  ترمذی نے زید ابن ارقم سے روایت کی ہے کنزالعمال جلد اول صفحہ ۴۴ پر بھی موجود ہے۔
3:-  ـ  امام احمد نے زید ابن ثابت سے دو صحیح طریقوں سے اس کی روایت کی ہے پہلے مسند صفحہ ۱۸۳۔۱۸۴ جلد ۵، کے بالکل آخر میں طبرانی نے بھی معجم کبیر میں زید بن ثابت سے روایت کیا ہے کنزالعمال جلد اول صفحہ ۴۴ پر بھی موجود ہے۔
4:-  ـ  امام حاکم مستدرک جلد ۳ صفحہ ۱۴۸ پر اس کو درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ حدیث شیخین یعنی مسلم  و بخاری کے شرائط کے لحاظ سے بھی صحیح ہے لیکن ان دونوں نے اس کو درج نہیں کیا۔
5:-  ـ  امام احمد نے اس حدیث کو ابو سعید خدری سے دو طریقوں سے روایت کیا ہے ایک جلد ۳ صفحہ ۱۷ پر دوسرے صفحہ ۲۶ جلد ۳ پر۔ این ابی شیبہ یعلی اور ابن سعد نے ابو سعید خدری سے اس حدیث کی روایت کی ہے۔ کنزالعمال جلد اول صفحہ ۴۷ پر بھی موجود ہے۔
6:-  ـ  امام حاکم نے اس حدیث کو مستدرک جلد۳ صفحہ ۱۰۹ پر مرفوعا نقل کیا ہے اور نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مسلم وبخاری کے معیار پر بھی صحیح ہے لیکن ان دونوں نے درج نہیں کیا پھر اسی جلد۳ صفحہ۵۳۳ پر دوسرے طریقے سے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن بخاری و مسلم نے ذکر نہیں کیا علامہ ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اس کو باقی رکھا ہے اور اس کے صحیح ہونے کا اعتراف کیا ہے۔
7:-  ـ  طبرانی نے اس حدیث کو درج کیا ہے جیسا کہ علامہ نبھانی کی اربعین فی الاربعین اور علامہ سیوطی کی احیاء المیت میں مذکور ہے آپ ناواقف نہ ہوں گے کہ آںحضرت(ص) کا اس دن کا خطبہ صرف اسی فقرہ پر ختم نہیں تھا کیونکہ صرف اتنا کہنے پر خطبہ کا لفظ صادق نہیں آتا۔ لیکن سیاست نے بیشتر محدثین کی زبانیں بند کردیں اور لکھنے والوں کے قلم روک دیے مگر باوجود اس کے صرف یہ ایک فقرہ اس سمندر کا یہ ایک قطرہ بہت کافی ہے۔
8:-  ـ  ملاحظہ فرمائیے۔ علامہ ابن حجر کی صواعق محرقہ باب ۹ فصل ۲ کی آخری سطریں۔
9:-  ـ  دیکھے صواعق محرقہ، صفحہ۸۹ باب ۱۱ فصل اول۔
10:-  ـ  دیکھیے صواعق محرقہ صفحہ۱۲۹ باب وصیة النبی(ص) پھر پوچھیے ذرا علامہ ابن حجر سے کہ جب آپ اقرار فرماتے ہیں۔ اس کا اعتراف ہے آپ کو تو ھر اشعری کو اہلبیت(ع) پر کیوں مقدم کیا گیااہلبیت(ع) کو چھوڑ کر اسول اشعری کا مسلک کیوں اختیار کیا گیا۔ فروع دین میں تنہا اربعہ ابو حنیفہ مالک، شافعی، حنبل کو اہل بیت(ع) پر کیوں ترجیح دی گئی ہے؟ حدیث میں عمران بن حطان جیسے خوارج کیوں مقدم رکھے گئے۔ تفسیر میں مقاتل بن سلیمان جو فرقہ مرجیہ سے تھا، جسمانیت خدا کا قائل تھا کیوں اہل بیت(ع) پر مقدم سمجھا گیا۔ دیگر علوم میں غیروں کو اہل بیت(ع) کے مقابلہ میں کیوں ترجیح دی گئی۔ رسول(ص) کی جانشینی و نیابت میں برادر رسول ولی پیغمبرجس کے متعلق رسول فرماچکے تھے کہ “ ادائے قرض میری جانب سے علی ہی کرسکتے ہیں۔” کیوں پیچھے کردیئے گئے۔ ان کوچھوڑ کر دوسرے کیوں خلیفہ بنالیے گئے۔ کس درجہ سے قابل ترجیح سمجھے گئے جن لوگوں نے دینی معاملات و امور شریعت میں اہل بیت(ع) سے رو گردانی کی اور ان کے مخالفین ک نقش قدم پر چلے انھوں نے حدیث ثقلین اور اس جیسی دیگر حدیثوں پر جب میں اتباع اہل بیت(ع) کا حکم دیا گیا ہے کہاں اور کیونکر عمل کیا اور وہ یہ دعوی کیونکر کرسکتے ہیں کہ ہم اہل بیت(ع) سے تمسک کرنے والے ہیں۔ سفینہ اہل بیت(ع) پر ہیں۔ ان کے باب حطہ میں داخل ہیں۔
11:-  ـ  امام حاکم نے مستدرک جلد۳ صفحہ ۱۵۱ پر بسلسلہ اسناد جناب ابوذر سے روایت کی ہے۔
12:-  ـ  طبرانی نے اوسط میں ابوسعید سے اس حدیث کی روایت کی ہے۔ نیز علامہ نبھانی کی کتاب اربعین کے صفحہ ۲۱۶ پر بھی موجود ہے۔
13:-  ـ  امام حاکم نے مستدرک جلد۳ صفحہ ۱۴۹ پر ابن عباس سے روایت کی ہے اور دریافت کرنے کے بعد لکھا ہے، یہ حدیث صحیح ہے مگر شیخین نے درج نہیں کیا۔
14:-  ـ  ملاحظہ فرمائیے۔ صواعق محرقہ، باب ۱۱، صفحہ ۹۱ پر ساتویں آیت کی تفسیر۔
15:-  ـ ملاحظہ فرمائیے۔ صواعق محرقہ، صفحہ ۱۴۳۔ اب ہم علامہ ابن حجر سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ جب علمائے اہلبیت علیہم السلام کی یہ منزلت ہے تو آپ لوگ کدھر جائیں گے۔
16:-  ـ  صواعق محرقہ، باب ۱۱ صفحہ ۹۱ تفسیر آیہ ہفتم۔
17:-  ـ  آپ ان کی یہ عبارت دیکھیے اور انصاف فرمائیے کہ علامہ ابن حجر نے پھر فروع دین و عقائد فقہ کے اصول و قواعد میں ائمہ طاہرین(ع) کی رہبری کیوں نہ قابل قبول سمجھی ان کے ارشادات پر کیوں نہیں عمل کیا؟ کتاب و سنت، علم الاخلاق ، سلوک و آداب میں ان سے استغفار کیوں نہ کیا؟ کس بنا پر ان سے روگردانی کی اور کفران نعمت کے سمندر میں اپنے کو ڈبو دیا اور طغیان و سرکشی کے صحراؤں میں ہلاک ہوئے۔ انھوں نے ہم شیعوں کے متعلق جو تہمت تراشیان کی ہیں اور بر بھلا کہا ہے خدا انھیں معاف کرے۔

 

 

اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سکریٹری علی شمخانی نے نئی دہلی میں افغانستان کے موضوع پر تیسری علاقائی سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی رفتار مکر وفریب پر مبنی رہی اور اس نے افغانستان میں امن و صلح کے لئے کوئی کام انجام نہیں دیا۔ شمخانی نے کہا امریکہ بظاہر افغانستان میں امن و صلح کی بات کرتا تھا، درحقیقت اس نے افغانستان میں امن و صلح کے لئے کوئي کام نہیں کیا اورنہ ہی اس کا ایسا کوئی پروگرام تھا،  وہ اپنے ہی ہاتھ سے کھودے ہوئے کنویں میں گرگیا اور اس سے نجات پانے کے لئے وہ بیس تک ہاتھ و پنجے مارتا رہا اور آخر کاروہ  ذلت و رسوائی کے ساتھ افغانستان سے نکل گیا لیکن اب وہ داعش کے ذریعہ افغانستان میں بد امنی پھیلانے کی کوشش کررہا ہے۔

ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سکریٹری نے حاضرین سے خطاب میں  افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں ہمہ گیر اور جامع حکومت کی تشکیل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں ایسی حکومت کا قیام ضروری ہے جس میں افغانستان کے تمام قبائل اور سیاسی گروہ موجود ہوں۔ انھوں نے کہا کہ ایران افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں ہر قسم کی مدد فراہم کرنے اور اس مشکل کو حل کرنے کے سلسلے میں اپنے تمام وسائل بروی کار لانے کے لئے آمادہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ تاکید کی ہے کہ افغان عوام  اور قبائل امن و صلح کے خواہاں ہیں لیکن امریکہ نےاس سلسلے میں مکر و فریب سے کام لیا اور اس کا افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں کوئی پروگرام نہیں تھا۔

انھوں نے کہا کہ افغانستان کو آج ایک طرف داعش دہشت گرد گروہ کا خطرہ درپیش ہے اور دوسری طرف قبائلی اور داخلی جنگ کا خطرہ بھی ہے جس کی بنا پر ہمسایہ ممالک اور غیر ہمسایہ ممالک سبھی کو تشویش لاحق ہے۔

شمخانی نے کہا کہ پہلی بات یہ ہے کہ بعض ممالک داعش دہشت گردوں کو باہر سے افغانستان میں منتقل کررہے ہیں جس کے ٹھوس شواہد موجود ہیں اور اس کی روک تھام ضروری ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ افغانستان کے عوام کو مالی بحران کا سامنا ہے، افغان عوام کو غذائی اور طبی اشیاء کی قلت کا سامنا ہے اور یہ بہت بڑا مسئلہ ہے جس پر علاقائی ممالک اور عالمی برادری کو توجہ مبذول کرنی چاہیے اور اس سلسلے میں افغان عوام کو بر وقت مدد فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

شمخانی نے اپنے خطاب کے اختتام پر کہا کہ افغانستان کو موجودہ صورتحال سے دوچار کرنے والے ممالک اس کے اصلی ذمہ دار ہیں۔

ہمیں افغانستان میں جامع اور ہمہ گیر حکومت کے قیام کے سلسلے میں تلاش و کوشش  کرنی چاہیے ، افغان عوام کی مشکلات کو دور کرنے کے لئے ان کی بر وقت مدد کرنی چاہیے ۔ افغانستان کے مظلوم عوام کے  اثاثوں کو آزاد کرنے کے لئے امریکہ پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کے خاتمہ کے سلسلے میں تلاش و کوشش کرنی چاہیے۔ شمخانی نے کہا کہ افغانستان کے بارے میں  آئندہ اجلاس کے لئے اگر کوئی ملک حاضر نہ ہو تو ایران آئندہ اجلاس منعقد کرنے کے لئے آمادہ ہے۔

ہندوستان کے دارالحکومت نئی دہلی میں افغانستان کے موضوع پرتیسری علاقائي سکیورٹی کانفرنس کا آغازہوگيا ہے۔ اس کانفرنس میں ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سکریٹری علی شمخانی بھی شریک ہیں۔ اس کانفرنس میں جن ہمسایہ ممالک کے قومی سلامتی کے مشیراور سکریٹری  شریک ہیں ان میں ایران ، روس ، تاجیکستان ، ازبکستان ، ہندوستان اور قرقیزستان کے قومی سلامتی کے مشیر اور سکریٹری شامل ہیں ۔ ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سکریٹری علی شمخانی کل رات نئی دہلی پہنچے جہاں انھوں نے صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کہ امریکہ خطے میں مسلسل کشیدگی اور بحران پیدا کررہا ہے۔

علی شمخانی نےافغانستان میں امن و صلح کے قیام کے سلسلے میں تیسری علاقائی کانفرنس کے انعقاد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں امن و سلامتی کے قیام کے سلسلے میں علاقائی ممالک کے درمیان تعاون بہت ضروری ہے کیونکہ غیرعلاقائی طاقتیں خطے میں مسلسل بحران پیدا کررہی ہیں۔ نئی دہلی میں افغانستان کے موضوع پرتیسری علاقائي سکیورٹی کانفرنس بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کی صدارت میںم نعقد ہورہی ہے۔ اس کانفرنس میں پاکستان اور چین کے قومی سلامتی کے مشیر شریک نہیں ہیں۔

 مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ سپاہ قدس کے سربراہ جنرل اسماعیل قاآنی نے عراق کے دارالحکومت بغداد میں عراق کے صدر برہم صالح اور عراق کے وزير اعظم مصطفی الکاظمی کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کی۔ اطلاعات کے مطابق جنرل قاآنی کل عراق پہنچے، جہاں انھوں نے عراق کے بعض دیگر اعلی حکام کے ساتھ بھی ملاقات اور گفتگو کی۔سپاہ قدس کے سربراہ نے عراق میں امن و سلامتی کی ضرورت پر زوردیتے ہوئے کہا کہ عراق کی امن و سلامتی کو نشانہ بنانے والے اقدامات سے پرہیز کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ انتخابات کے نتائج کے بارے میں احتجاج کرنے والے مظاہرین کو قانون کے دائرے میں اپنے مطالبات کا پیچھا کرنا چاہیے۔