سلیمانی

سلیمانی

فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک نے متحدہ عرب امارات کے عہدیداروں کی طرف سے صیہونی وزیر اعظم نفتالی بنت کے استقبال کی سخت مذمت کرتے ہوئے صیہونی دشمن سے تعلقات کی بحالی اور اسکے ساتھ ہر طرح کے اتحاد کو فلسطین سے غداری قرار دیا۔

تحریکِ اسلامی جہاد نے ایک بیان میں پیر کے روز نفتانی بنِت کے متحدہ عرب امارات یواے ای کے دورے پر رد عمل میں کہا: ”بنِت کا استقبال، مجرم صیہونی حکومت کی سکورٹی کو مضبوط کرنے اور اس حکومت کے ناجائز وجود کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش ہے۔“

صیہونی وزیر اعظم نفتالی بنِت متحدہ عرب امارات کے ساتھ اسرائیلی حکومت کے تعلقات کی بحالی کے ایک سال اور کچھ مہینے کے بعد، خلیج فارس کے اس ساحلی ملک کے دورے پر وہاں پہنچے اور وزیر خارجہ عبد اللہ بن زائد نے ان کا استقبال کیا۔

صیہونی وزیر اعظم ابوظبی کے ولی عہد محمد بن زاید سے بھی ملاقات کریں گے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حضرت زینب سلام اللہ علیھا 5 جمادی الاولی سن 5 یا 6 ہجری کو مدینہ منورہ میں خاندان نبوت و ولایت اور عصمت کے گھر پیدا ہوئیں ۔ آپ پیغمبر اسلام حضرت محمد (ص) کی نواسی، حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ (س) کی بیٹی ہیں۔

پیغمبر اسلام (ص) سفر پر تھے واپسی پر حسب معمول سب سے پہلے فاطمہ (س) کے گھر تشریف فرما ہوئے اہل خانہ کو سلام اور نو مولود کی مبارک باد پیش کی، رسول اسلام کو دیکھ کر سب تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے اور حضرت علی (ع) نے بیٹی کو ماں کی آغوش سے لے کر نانا کی آغوش میں دے دیا ۔ بچی کو دیکھ کررسول خدا نے گریہ کرنا شروع کردیا ۔ کسی کے دریافت کرنے پر رسول کریم نے ارشاد فرمایا کہ: جبرائیل امین نے مجھے  بتایا ہے کہ میری یہ بیٹی کربلا کے روح فرسا مصائب میں میرے حسین کے ساتھ برابر کی شریک ہو گی۔

 اس کے بعد آپ نے وہاں موجود لوگوں سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا کہ: یہ میری بچی خدیجہ کبری کی ہوبہو تصویر ہے۔

روایت میں ہے کہ نبی اکرم نے پیار کیا اور کچھ دیر تامل کے بعد فرمایا :خدا نے اس بچی کا نام " زینب" منتخب کیا ہے۔

اس لیے کہ زینب کے معنی ہیں باپ کی زینت جس طرح عربی زبان میں " زین " معنی زینت اور "اب"معنی باپ کے ہیں یعنی باپ کی زینت ہیں ۔ رسول خدا (ص) حضرت زینب کو اپنے سینہ اقدس سے لگایا اور اپنا رخسار مبارک زینب بنت علی کے رخسار پر رکھ کر اتنا گریہ کیا کہ آپ کے آنسو چہرہ مبارک پر جاری ہوگئے  کیونکہ پیغمبر اسلام (ص) حضرت زینب (س) پر آنے والے مصائب سے آگاہ تھے ۔

حضرت زینب (س) کے مشہور القاب درج ذیل ہیں:

۱- عالمہ غیر معلمہ، ۲- نائبۃ الزھراء ۳- عقیلہ بنی ہاشم، ۴- نائبۃ الحسین، ۵- صدیقہ صغری، ۶- محدثہ، ۷- زاہدہ، ۸- فاضلہ، ۹- شریکۃ الحسین، ۱۰- راضیہ بالقدر والقضاء

حضرت  زینب (س) کا بچپن فضیلتوں کے ایسے پاکیزہ ماحول میں گزرا جو اپنی تمام جہتوں سے کمالات میں گھرا ہوا تھا جس کی طفولیت پر نبوت و امامت کا سایہ ہر وقت موجود تھا اور اس پر ہر سمت نورانی اقدار محیط تھیں رسول اسلام (ص) نے انہیں اپنی روحانی عنایتوں سے نوازا اور اپنے اخلاق کریمہ سے زینب کی فکری تربیت کی بنیادیں مضبوط و مستحکم کیں ۔

نبوت کے بعد امامت کے وارث مولائے کائنات نے انھیں علم و حکمت کی غذا سے سیر کیا ، عصمت کبری فاطمہ زہرا نے انہیں ایسی فضیلتوں اور کمالات کے ساتھ پرورش فرمائی کہ جناب زینب تطہیر و تزکیہ نفس کی تصویر بن گیئں ۔ اسی کے ساتھ ساتھ حسنین شریفین نے انھیں بچپن ہی سے اپنی شفقت آمیز توجہ کا شرف بخشا جو  زینب کی پاکیزہ تربیت کی وہ پختہ بنیادیں بنیں جن سے اس مخدومہ اعلی کا عہد طفولیت تکمیل انسانی کی ایک مثال بن گیا۔

امام سجاد (ع) کی زبانی حضرت زینب (س)کا علمی مقام :

اَنْتِ بِحَمدِ اللّهِ عالِمَةٌ غَیرَ مُعَلَّمَة وَ فَهِمَةٌ غَیرَ مُفَهَّمَة

اے پھوپھی اماں، آپ الحمد للہ ایسی خاتون ہیں کہ جسکو کسی نے پڑھایا نہیں ہے، اور آپ ایسی عاقل خاتون ہیں کہ کسی نے آپ کو عقل و شعور نہیں دیا۔

فضیلتوں اور کرامتوں سے معمور گھر میں رسول اسلام اور علی  و فاطمہ کی مانند عظیم ہستیوں کے دامن میں زندگی بسر کرنے والی حضرت زینب کا وجود تاریخ بشریت کا ایک ‏غیر معمولی کردار بن گیا ہے کیونکہ امام کے الفاظ میں اس عالمہ ‏غیر معلمہ اور فہیمہ غیر مفہمہ نے اپنے بے مثل ہوش و ذکاوت سے کام لیکر، عصمتی ماحول سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور الہی علوم و معارف کے آفتاب و ماہتاب سے علم و معرفت کی کرنیں سمیٹ کر خود اخلاق و کمالات بکھیرتا چراغ بن گئیں ۔

حضرت زینب نے یزید کو مخاطب کرتے ہوئے بھرے دربار میں فرمایا تھا:

اے یزید، دنیا کی زندگی بہت ہی مختصر ہے اور تیری دولت اور عیش و عشرت کی زندگی اسی طرح ختم ہو جائے گی جس طرح ہماری دنیوی مصیبتیں اور مشکلیں ختم ہو جاتی ہیں مگر کامیابی و کامرانی ہمارے ساتھ ہے کیونکہ حق ہمارے ساتھ ہے۔

امام حسین کی شہادت کے بعد دراصل حضرت زینب نے حسینی پیغام کو دنیا والوں تک پہنچانا ایک دینی و الہی فریضہ تصور کیا اور اپنی خداداد فصاحت و بلاغت اور بے نظیر شجاعت و شہامت کے ذریعے ظلم و ستم کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی۔ حضرت زینب (س) نے اپنی پاک و پاکیزہ زندگی کے دوران اہل بیت پیغمبر کے حقوق کا دفاع کیا اور کبھی اس بات کی اجازت نہ دی کہ دشمن، واقعہ کربلا سے ذاتی فائدہ اٹھا سکے ، جناب زینب کے خطبوں کی فصاحت و بلاغت اور انداز بیاں نے لوگوں کو آپ کے بابا علی مرتضی کی یادیں تازہ کر دیں تھیں۔

اس عظیم خاتون نے الہی حقائق ایسے فصیح و بلیغ الفاظ میں بیان کیے جو ان کے عالمہ غیر معلمہ ہونے اور قرآن و سنت پر کامل دسترس پیدا کر لینے کو ظاہر کرتے تھے۔

پاکستان کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے زیر اہتمام میں اسلامی جمہوریہ ایران سمیت مختلف ممالک کے فوجی اتاشیوں کے تعاون سے ثقافت، خوراک اور دستکاری کا بین الاقوامی فیسٹیول اسلام آباد میں انعقاد کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق، ثقافت اور دستکاری کا بین الاقوامی فیسٹیول اتوار کے روز پاکستان نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں انعقاد کیا گیا جس میں مختلف ممالک کے دفاعی اتاشیوں اور فوجی طلباء سمیت ایرانی سفارت خانے کے ملٹری اتاشی کے دفتر اور اس یونیورسٹی کے ایک ایرانی فوجی طالب علم بھی شامل تھے۔

اس سال کے فیسٹیول میں اسلامی جمہوریہ ایران، سعودی عرب، آسٹریلیا، انڈونیشیا، مصر، اردن، بنگلہ دیش، امریکہ اور برطانیہ سمیت 20 ممالک نے شرکت کی۔

اس فیسٹیول کا افتتاح نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی آف پاکستان کے صدر جنرل "نعمان محمود" اور ان کی اہلیہ کی موجودگی میں کیا گیا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نرس ڈے کی مناسبت سے نرسوں کے ایک گروپ اور شہدائے صحت کے اہلخانہ کے ساتھ ملاقات میں گذشتہ 42 سال کے حوادث و واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر حقائق کو بیان نہ کیا گيا تو دشمن جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعہ ظالم اور مظلوم کی جگہ بدل دےگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کربلا کی شیر دل خاتون حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی ولادت اور نرس ڈے کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے فرمایا: کربلا کی عظيم الشان خاتون حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے عملی طور پر ثابت کردیا ہے کہ عورت کی عزت و عظمت کو ماضی اور حال میں نشانہ بنانے والے ستمگروں کی کوششوں کے باوجود  عورت صبر و تحمل کا ایک عظيم سمندر اور عقل و خرد کی عظیم بلندی پر فائز ہوسکتی ہے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت زینب (س) کی شاندار استقامت اور عظیم الشان خطبوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حضرت زینب(س) نے حقائق کو بیان کرکے یزید ملعون کے دربار میں ہلچل مچا دی اورحضرت زینب (س) کے خطبے  کوفہ میں توابین کے قیام کا سبب بن گئے۔ حضرت زینب (س) نے حقائق اور واقعیات کو بیان کرکے دشمن کو حقائق بدلنے کی اجازت نہیں دی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: معاشرے ، سماج اور تاریخ کے حقائق کو بیان کرنا چاہیے ورنہ دشمن ظالم کی جگہ مظلوم اور مظلوم کی جگہ ظالم سے تبدیل کردےگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نرسوں کے اقدامات کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: نرسیں بیماروں کی تیمارداری ،صحت و سلامتی کے سلسلے میں اپنے آرام و آسايش کو نظر انداز کرکے انھیں آرام و سکون فراہم کرنے کی کوشش میں مصروف رہتی ہیں ۔ نرسوں کا حق قوم کے ہر فرد کی گردن پر ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: نرسوں اور میڈيکل عملے نے دفاع مقدس کے دوران اور کورونا وبا کے دوران گرانقدر خدمات انجام دی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی انھیں اجر مضاعف عطا کرےگا۔

رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے نرسوں کے مطالبات کے مسئلے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: نرسنگ کمیونٹی کو مضبوط کرنا ملک کے حال اور مستقبل کی ایک اہم ضرورت ہے اور متعلقہ حکام کو نرسنگ کمیونٹی کے مطالبات کو پورا کرنے پر خاص توجہ مبذول کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اللہ تعالی کی ذات پر توکل، اعتماد اور تلاش و کوشش پر تاکید کرتے ہوئےفرمایا: ایرانی قوم کا مستقبل درخشاں اور تابناک ہے اور اللہ تعالی ایرانی قوم کو دشمنوں پر فتح اور کامیابی عطا فرمائےگا۔

عراق کے انتخابی نتائج کے خلاف مظاہروں کی کال دینے والی کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ شیعہ مرجعیت نے اقوام متحدہ کی مندوب سے ملنے سے انکار کردیا۔

 عراقی انتخابات کے نتائج کے خلاف مظاہروں اور دھرنوں کا اہتمام کرنے والی کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ عراق کے بزرگ مرجع تقلید آیت اللہ العظمی سیستانی نے اقوام متحدہ کی مندوب جنین پلاسخارت سے جو نجف اشرف کے دورے پر تھیں، ملاقات سے انکار کردیا۔

اس کمیٹی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ آیت اللہ العظمی سیستانی کے اس اقدام پرتعجب نہیں ہونا چاہئے بلکہ تمام سیاستدانوں، پارٹیوں اورسماجی شخصیات کو مرجعیت کی پیروی کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی مندوب پلاسخارت کا بائیکاٹ کرنا چاہئے اور ان سے ملاقات نہیں کرنا چاہئے۔

عراق کے سیاسی امور میں مداخلت اور اس ملک کے الیکشن کمیشن اور انتخابی نتائج کے سلسلے میں پلاسخارت کے حالیہ موقف کی بنا پر انھیں سخت تنقیدوں کا سامنا ہے۔

عراقی انتخابات کے نتائج کے خلاف مظاہروں اور دھرنوں کا اہتمام کرنے والی کمیٹی نے عراقی سیکورٹی اہلکاروں اور الحشدالشعبی سے دہشت گردوں اور ان کے اڈوں کے خاتمے کے لئے اپنی کوششیں تیزکرنے کی اپیل کرتے ہوئے عراقی انتظامیہ، مقننہ اورعدلیہ کے سربراہوں کی مدت میں عدم توسیع پر تاکید کی ہے اور کہا ہے کہ یہ درخواست ایک بنیادی اور ناقابل اجتناب مطالبے میں تبدیل ہوچکی ہے۔

عراق کی سرکاری خبر رساں ایجنسی وا نے الکاظمی کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ اگلے چند دنوں میں، امریکہ کی زیر قیادت انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورس (ایساف) کے تمام جنگی دستے امریکی فریق کے ساتھ ایک اسٹریٹجک معاہدے کے فریم ورک کے اندر عراق سے نکل جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ عراق میں امریکی افواج کا کردار مشورہ دینا ہو گا، اور یہ کہ امریکی فوجیوں کے انخلاء سے "عراق میں سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے تمام عراقی افواج کی صلاحیت" کا مظاہرہ ہوتا ہے۔

دریں اثناء بغداد میں امریکی سفیر میتھیو ٹولر نے 4 دسمبر کو الکاظمی کا دورہ کیا۔ ملاقات کے دوران فریقین نے دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور شراکت داری کو مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال کیا اور خطے کی تازہ ترین پیشرفت بشمول سیکورٹی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا۔

خطے میں سلامتی اور استحکام کو مضبوط بنانے میں عراق کے کردار پر زور دیتے ہوئے، الکاظمی اور ٹولر نے "عراق میں [امریکی] اتحادی افواج کے جنگی کردار کو ختم کرنے میں پیش رفت کا جائزہ لیا۔"

الکاظمی اور ٹولر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ امریکی مشن کا خاتمہ اسٹریٹجک ڈائیلاگ اور "مشاورت، مدد اور بااختیار بنانے" کے مرحلے میں منتقلی پر مبنی ہوگا۔

26 جولائی کو، بغداد اور واشنگٹن نے اس سال کے آخر تک عراق سے امریکی لڑاکا فوجیوں کے انخلاء پر اتفاق کیا، جس سے عراقی افواج کو مشورہ اور تربیت دینے کے لیے صرف امریکی فوجیوں کی تعداد باقی رہ گئی ہے۔

امریکی فوجی 2014 میں عراق میں داخل ہوئے تھے۔ اس بہانے سے امریکہ داعش نامی بین الاقوامی اتحاد کی شکل میں 3000 فوجی لائے جن میں سے 2500 امریکی تھے۔ ISIS پر بغداد کی فتح کے بعد، عراقی عوام اور حکومت نے ملک سے غیر ملکی افواج کے انخلا کی ضرورت پر زور دیا۔

امریکہ کو بے دخل کرنے کے لیے عراقی عوام کا اصرار اس وقت شدت اختیار کر گیا جب امریکہ نے پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی پاپولر موبلائزیشن آرگنائزیشن کے نائب سربراہ ابو مہدی المہندس کو شہید کر دیا۔ اس جرم کے جواب میں عراقی پارلیمنٹ نے جنوری 1998 میں ملک سے امریکی فوجیوں کو نکالنے کے منصوبے کی منظوری دی۔ 

عراق میں امریکی فوجی موجودگی کو ختم کرنے کے لیے بغداد اور واشنگٹن کے درمیان اسٹریٹجک مذاکرات کے کئی دور ہونے کے باوجود، امریکہ قرارداد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عراقی سرزمین پر موجود ہے۔ تاہم عراقی حکام نے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے آغاز کا اعلان کیا ہے اور بعض اوقات کئی امریکی جنگی یونٹس کے انخلا کی خبریں میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔

چین کی  وزارت خارجہ کے ترجمان نے امریکہ کی طرف سے منعقدہ نام نہاد “جمہوریت  سمٹ” کے بارے میں کہا کہ نام نہاد”جمہوریت سمٹ”کا اصل مقصد  جمہوریت کو آلہ کار اور ہتھیار بنا کر اور  جمہوریت کے نام پر جمہوریت مخالف کام کرنا ، تقسیم اور تصادم کو ہوا دینا ، ملکی تضادات اور مسائل کو  دوسروں پر منتقل کرنا، دنیا میں امریکی تسلط کو برقرار رکھنا، اور بین الاقوامی نظام کو کمزور کرنا ہے۔

امریکہ کے اقدامات تاریخی رجحان کے خلاف ہیں اور انہیں عالمی برادری کی طرف سے بڑے پیمانے پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ترجمان نے نشاندہی کی کہ امریکہ ’’جمہوریت کا مینارہ‘‘ نہیں ہے اور امریکی جمہوریت جمہوریت کے مرکزی نظریے سے ہٹ چکی ہے۔

پیسے کی سیاست، شناخت کی سیاست، پارٹی دشمنی، سیاسی پولرائزیشن، سماجی ٹوٹ پھوٹ، نسلی تنازعات، اور امیر اور غریب کے درمیان پولرائزیشن جیسے مسائل کے ساتھ آج کی امریکی جمہوریت خراب حالت میں ہے۔

متعلقہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 72فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ امریکہ اب دوسرے ممالک کے لیے “جمہوری ماڈل” نہیں رہا جس کی تقلید کی جا سکتی ہے، اور 44فیصد عالمی جواب دہندگان کا خیال ہے کہ امریکہ عالمی جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔

ترجمان نے آخر میں اس بات پر زور دیا کہ چین تمام بنی نوع انسان کے لیے امن، ترقی، انصاف، جمہوریت اور آزادی کی مشترکہ اقدار  اور  بین الاقوامی تعلقات کی جمہوری اقدار کو فعال طور پر فروغ دینے کے لیے تیار ہے۔

چین  ہر قسم کی سوڈو ڈیموکریسی،  جمہوریت دشمنی اور جمہوریت کی آڑ میں سیاسی جوڑ توڑ کرنے کی مخالفت کرتا ہے اور  بنی نوع انسان کے  ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو فروغ دینے کی مسلسل کوشش کرتا رہےگا۔

( وإذاابتلیٰ ابرهیم ربّه بکلمات فاٴتمّهنّ قال إنّی جاعلک للنّاس إماماً قال ومن ذرّیّتی قال لا ینال عهدی الظالمین ) ) (بقرہ/۱۲۴)

”اوراس وقت کویادکروجب خدا نے چندکلمات کے ذریعہ ابراھیم علیہ السلام کاامتحان لیااورانھوںنے پوراکردیاتواس)خدا)نے کہا:ہم تم کولوگوں کا قائداورامام بنارہے ہیں۔)ابراھیم علیہ السلام)نے کہا گیا یہ عہدہ میری ذریت کو بھی ملے گا؟ارشادہواکہ یہ عہدئہ امامت ظالمین تک نہیں پہونچے گا۔“

اس آیہء کریمہ سے دو بنیادی مطلب کی طرف اشارہ ہو تاہے:

۱ ۔منصب امامت،نبوت ورسالت سے بلندترہے۔

۲ ۔منصب امامت،ظالموں اورستم گاروں کونہیں ملے گا۔

یہ مطلب تین باتوں پرمشتمل ہے:

 

پہلی بات:منصب امامت کابلندمرتبہ ہو نا۔

دوسری بات:منصب امامت ظالموں اورستم گاروں کونہیں ملے گا۔

تیسری بات:منصب امامت کازبان امامت سے تعارف۔

۱۵

 

 

پہلی بات

منصب امامت کابلند مرتبہ ہو نا

ہم اس آیہء شریفہ میں دیکھتے ہیں کہ خدائے متعال نے حضرت ابراھیم علیہ السلام سے بڑھاپے کے دوران نبوت رسالت کو سالہا سال گزرنے کے بعدان کی عمرکے آخری مرحلہ میں امتحان لیااور انھوں نے اس امتحان الہٰی کوقبول کیا اورکامیابی کے ساتھ مکمل کردکھا یا امامت کاعہدہ وہ ارتقائی درجہ تھا جواس عظیم ا متحان اورصبروثبات کے بعدانھیںعطاکیاگیا۔

آیہء کریمہ سے اس مطلب کو بہتر طریقہ سے واضح کرنے کے لئے،درج ذیل چند بنیادی نکات کی وضاحت ضروری ہے:

۱ ۔حضرت ابراھیم علیہ السلام کے امتحان اوران کی امامت کے درمیان رابطہ کیسا ہے؟

۲ ۔اس آیہء کریمہ میں بیان کیاگیاامتحان،کس قسم کا امتحان تھا؟

۳ ۔کیایہ کہا جاسکتاہے کہ،حضرت ابراھیم علیہ السلام کو عطا کئے گئے عہدہ امامت سے مرادان کا وہی منصب نبوت ورسالت ہی ہے؟

۴ ۔حضرت ابراھیم علیہ السلام کوعطا کی گئی امامت،کس چیزپردلالت کرتی ہے؟

۱۶

 

 

امتحان اورمنصب امامت کارابطہ

آیہء کریمہ:( واذابتلیٰ ابراهیم ربّه بکلمات فاٴتمّهنّ قال انّی جا علک للناس إماماً ) میں لفظ”إذ“ظرف زمان ہے اوراس کے لئے ایک متعلق کی ضرورت ہے۔”إذ“کامتعلق کیاہے؟

پہلااحتمال یہ ہے کہ”إذ“کامتعلق”اذکر“)یادکرو)ہے،جومخذوف اورپوشیدہ ہے،یعنی:اے پیغمبر (ص)!یاداس وقت کو کیجئے جب پروردگارنے ابراھیم علیہ السلام کا چندکلمات کے ذریعہ سے امتحان لیا۔

اس احتمال کی بنیادپرچنداعتراضات واردہیں:

۱ ۔مستلزم حذف وتقدیر)متعلق کو مخذوف اور مقدر ماننا)خلاف اصل ہے۔

۲ ۔”( إنی جاعلک للناس إماماً ) “کا اس کے پہلے والے جملہ سے منقطع ہو نا حرف عطف کے بغیرہونا لازم آتاہے۔

وضاحت:جملہء”قال انّی جاعلک“کابظاہرسیاق یہ ہے کہ وہ اپنے پہلے والے جملہ سے علٰحیدہ اورمنقطع نہیں ہے اورمعنی ومضمون کے لحاظ سے قبل والے جملہ سے وابستہ ہے،اورچونکہ اس کے لئے حرف عطف ذکرنہیں ہواہے،اس لئے بظاہر اس جملہ کے آنے سے پہلاجملہ مکمل ہوتا ہے،اوران دونوں فقروں کے درمیان ارتباط کلمہ”إذ“کے”قال“سے متعلق ہونے کی بناپرہے۔اسی صورت میں ایہء شریفہ کامعنی یوں ہوتا ہے:”جب ابراھیم علیہ السلام سے ان کے پروردگار نے امتحان لیا،توان سے کہا:میں تم کولوگوں کے لئے امام قرار دیتاہوں۔“اس بناپریہ امتحان حضرت ابراھیم علیہ السلام کو منصب امامت عطا کرنے کے لئے ایک وسیلہ اور ذریعہ تھا۔

۱۷

 

 

آیہء کریمہ کے اس مطلب پر قطعی گواہ کے لئے ایک دوسری آیت ہے کہ اس میں پیغمبروں کے ایک گروہ کے لئے صبروامامت کے درمیان رابطہ بخوبی بیان ہوا ہے:

( وجعلنا منهم ائمته یهدون بامرنا لماّصبروا وکانوا بآیاتنایوقنون ) (سجدہ/۲۴)

”اورہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کوامام اورپیشواقراردیاہے جوہمارے امرسے لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں،اس لئے کہ انہوں نے صبرکیاہے اورہماری آیتوں پریقین رکھتے تھے۔“

اس آیہء شریفہ میں ان پیغمبروں کوامامت ملنے کاسبب صبرویقین بیان کیاگیاہے اور یہ رابطہ حضرت ابرھیم علیہ السلام کے امتحان اورامامت کے درمیان رابطہ کوزیربحث آیت میں واضح اورروشن کرتاہے۔

۱۸

 

 

حضرت ابراھیم علیہ السلام کاامتحان

حضرت ابراھیم علیہ السلام کے امتحانات اور ان کی یہ آزمائشیں کن مسائل اور امور سے متلق تھیں کہ جس کا نتیجہ امامت کا عظیم عطیہ قرار پایاتھا۔

آیہء شریفہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ امتحان چند کلمات کے ذریعہ لیا گیا اورحضرت ابراھیم علیہ السلام نے انھیں مکمل کر دکھایا۔بظاہریہ کلمات ایک خاص قسم کے فرائض اوراحکام تھے کہ جن کے ذریعہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کا امتحان لیاگیا۔

قرآن مجیدمیں ،حضرت ابراھیم علیہ السلام کی تاریخ کے سلسلہ میں جوچیز”واضح وروشن امتحان“کے عنوان سے بیان ہوئی ہے،وہ ان کا اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کااقدام ہے:( إن هذا لهوالبلائ المبین ) (۱) بیشک یہ بڑا واضح و روشن متحان ہے)یہ)بیٹے کوذبح کرنے کااقدام)حقیقت میں وہی کھلاامتحان ہے۔یہ امتحان حضرت ابراھیم علیہ السلام کے اپنے پروردگار کے حضورمیں ایثاروقربانی اورمکمل تسلیم ہونے کامظہرتھا۔

اس مطلب کی طرف اشارہ کر نا ضروری ہے کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کایہ امتحان ان کی پیری اور بڑھاپے میں انجام پایاہے اور وہ بھی اس وقت جب ان کا بیٹاجوانی کے مرحلہ میں داخل ہوچکاتھا۔حضرت ابراھیم علیہ السلام اپنی جوانی کا مرحلہ طے کرنے تک صاحب اولادنہیں تھے۔جب بڑھاپے کے مرحلہ میں پہنچے اور اولادسے ناامیدہوئے، توخدائے متعال

____________________

۱۔ صا فات/۱۰۶

۱۹

 

 

نے انھیں اسماعیل واسحاق نام کے دو بیٹے عطاکئے اور یہ اس حالت میں تھاکہ جب ان کی نبوت اور رسالت کو سالہاسال گزرچکے تھے۔

کیااس آیت میں امامت سے مرادان کی وہی نبوت ورسالت نہیں ہے؟

خدائے متعال نے جوامامت حضرت ابراھیم علیہ السلام کوعطاکی،کیاوہ،وہی ان کی نبوت ورسالت تھی،جیساکہ بعض مفسرین نے بیان کیا ہے،یایہ امامت کوئی دوسراعہدہ ہے؟

اس سے پہلے بیان کئے گئے مطلب سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ امامت،درج ذیل دودلائل کے پیش نظرحضرت ابراھیم علیہ السلام کے پاس پہلے سے موجودنبوت ورسالت کے علاوہ تھی:

پہلے یہ کہ:یہ آیہء شریفہ اس بات پردلالت کرتی ہے کہ یہ امامت، حضرت ابراھیم علیہ السلام کوبہت سے امتحانات کے بعد عطاکی گئی ہے،کہ ان امتحانات کا ایک واضح وروشن نمونہ ان کااپنے بیٹے کو ذبح کرنے کااقدام تھاجبکہ نبوت ورسالت انھیں پہلے دی جاچکی تھی۔

دوسرے یہ کہ:آیہء کریمہ میں ”جاعلک“اسم فاعل ہے اور ادبی لحاظ سے اسم فاعل صرف اسی صورت میں اپنے مابعد پر عمل کر سکتا ہے اور کسی اسم کومفعول کے عنوان سے نصب دے سکتا ہے،جب ماضی کے معنی میں نہ ہو، ۱ بلکہ اسے حال یامستقبل کے معنی میں ہوناچاہئے۔اس بنا پرآیہء شریفہ:( إنیّ جاعلک للنّاس إماماً ) میں فاعل”جاعل“ کے دومفعول ہیں)ایک ضمیر”کاف“اوردوسرا”اماماً“)اس لئے ماضی کوملحوظ نظر نہیں قرار دیا جا سکتا۔

____________________

۱-البھجتہ المرضیتہ،مکتبتہ المفید،ج۲،ص۵-۶

۲۰

 

 

یہ امامت کس چیزپردلالت کرتی ہے؟

ہمیں آیہء شریفہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امامت کا مفہوم پیشوائی اور قیادت ہے اوراس کامعنی نبوت ورسالت سے متفاوت ہے۔امام،وہ ہے جودوسروں کا پیشواہواورانسانوں کے آگے آگے چلے، جسے خدائے متعال نے متعلق طور پر لوگوں کے لئے امام قراردیاہے اورتمام انسانی پہلوؤں سے لوگوں کے لئے اسوہ اور نمونہ بنایاہے لوگوں کو چا ہئے کہ تمام ابعاد حیات میں اس سے ہدایت حاصل کریں اوراس کی اقتداء و پیروی کر یں۔

حضرت ابراھیم علیہ السلام کو یہ مقام)امامت)رسالت ملنے کے سالہا سال بعد تمام بڑے امتحانات الہٰی میں کامیابی حاصل کرنے کے بعدعطاکیاگیا ہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ امامت کا مرتبہ اور درجہ نبوت ورسالت کے مساوی نہیں ہے بلکہ ان سے بالا تر ہے۔

اس بحث کا نتیجہ یہ ہوگاکہ:جب یہ ثابت ہواکہ امامت کا درجہ و مرتبہ نبوت سے بالاتر ہے اورنبوت کے لئے قطعی دلائل کی بنیادپرعصمت کی شرط لازمی ہے،پس جوچیز نبوت سے برتر وبلندترہو،بدرجہ اولٰی اس کے لئے بھی عصمت کاشرط ہوناضروری ہوگا۔

 

دوسری بات:

منصب امامت ظالموں کونہیں ملے گا

یہ آیہء شریفہ عصمت امامت پر دلا لت کرتی ہے کیونکہ آیت کے جملہ لاینال عھدی الظالمین یعنی:”میراوعدہ)امامت)ظالموں تک نہیں پہونچے گا“سے استفادہ ہوتاہے کہ ظالم مقام امامت تک نہیں پہو نچ سکتا۔

جب خدائے متعال نے فرمایا: إنیّ جاعلک للناس إماماً ”میں تجھے لوگوں کے لئے امام قرار دیتاہوں“ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے عرض کیا: ومن ذرّیّتی؟ ”کیامیری ذریت اور اولادمیں سے بھی کوئی اس مقام تک پہنچے گا؟“پروردگارعالم نے فرمایا: لاینال عھدی الظالمین میرا وعدہ ظالموں تک نہیں پہنچے گا۔

۲۱

 

 

اس جملہ سے درج ذیل نکات حاصل ہوتے ہیں:

۱ ۔امامت وعدئہ الہٰی ہے۔

۲ ۔یہ وعدہ ظالموں تک نہیں پہونچ سکتا،چونکہ ہر گناہ ظلم شمارہوتاہے، ۱ لہذاجومعصوم نہیں ہے،وہ گناہوں میں گرفتارہوگا۔

اس بناء پر آیہء شریفہ کی یہ دلالت کہ ہرامام کواپنے عہدہ امامت میں گناہوں سے پاک ہونا چاہئے،واضح اور ناقابل انکار ہے۔

کیا اس جملہ سے یہ استفادہ کیاجاسکتاہے کہ:جن لوگوں نے امامت کے عہدہ پر فائز ہونے سے پہلے اگرکوئی ظلم کیاہووہ امامت کے عہدہ پر فائزہوسکتے ہیں یانہیں؟

۱ ۔چونکہ ہرگناکبیرہ یاصغیرہ کیفرالہٰی کامستحق ہے،اس لئے گناہ گار گناہ کے ذریعہ اپنے اوپرظلم کرتاہے۔

دوسرے الفاظ میں :مشتق کا عنوان)جسے ظالم)زمانہ حال میں ظہور رکھتاہے اوریہ اس شخص پرلاگونہیں ہوتاہے جوپہلے اس صفت سے متصف تھالیکن زمانہ حال میں اس میں وہ صفت نہیں ہے۔اس بناء پر اس آیہء شریفہ کے مطابق،جوخلافت کے عہدہ پرفائزہونے کے دوران ظالم ہو،وہ امامت کے عہدہ پرفائز نہیں ہو سکتالیکن جو پہلے کبھی ظالم تھا،لیکن اس عہدہ پر فائزہونے کے وقت ظالم نہیں ہے،وہ امامت کے عہدہ پرفائزہوسکتاہے۔

۲۲

 

 

اعتراض کے جواب میں دوباتیں

پہلی بات جواس اعتراض کے جواب میں پیش کی گئی ہے وہ ایک عظیم محقق مرحوم حاج شیخ محمدحسین اصفہانی کی ہے کہ جسے مرحوم علامہ سید محمدحسین طباطبائی نے تفسیرالمیزان میں ذکرکیاہے: ۱

حضرت ابراھیم علیہ السلام کی ذریت چارگروہوں میں تقسیم ہوتی ہے:

۱ ۔وہ گروہ جو امامت پر فائز ہونے سے پہلے ظالم تھے اوراس مقام پر فائزہونے کے بعدبھی ظالم رہے۔

۲ ۔وہ گروہ جوامامت کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے عادل تھے اورامامت کے عہدہ پر فائزہونے کے بعد ظالم بن گئے۔

۳ ۔وہ گروہ،جوامامت کے عہدہ پرفائزہونے سے پہلے ظالم تھے اورامامت کا عہدہ سنبھالنے کے بعدعادل ہوگئے۔

۴ ۔وہ گروہ جوامامت کے عہدہ پرفائزہونے سے پہلے اوراس کے بعددونوںزمانوں میں عادل تھے۔حضرت ابراھیم علیہ السلام اپنی اس عظمت کے پیش نظرپہلے دوگرہوں کے لئے کہ،جوا پنے عہدہ امامت کے دوران ظالم ہوں،ہرگزامامت کی درخواست

_____________________

۱۔تفسیر المیزان ،ج۱،ص۲۷۷،دارالکتب الاسلامیہ۔

۲۳

 

 

نہیں کریں گے۔ اس بناپر( ومن ذرّیّتی ) ”میری اولادسے؟“کاجملہ صرف تیسرے اورچوتھے گروہ پرصادق آتا ہے،اورخدائے متعال بھی جواب میں فرماتاہے( لاینال عهدی الظالمین ) ”میراوعدہ ظالموں تک نہیں پہو نچ سکتا۔“اس جملہ کے پیش نظر تیسراگروہ جوپہلے ظالم تھالیکن امامت کا عہدہ سنبھالنے کے دوران عادل ہوگیا،وہ بھی خارج ہوجاتا ہے اوراپنی اولاد کے بارے میں کئے گئے سوال کے جواب میں صرف چوتھے گروہ کو امامت دی جاتی ہے۔

دوسری بات مرحوم طبرسی کی ہے جوتفسیرمجمع البیان میں ذکر ہوئی ،وہ کہتے ہیں:ہم اس بات کوقبول کرتے ہیں کہ جوفی الحال ظالم نہیں ہے اس پر ظالم کاعنوان حقیقت میں اطلاق نہیں ہوتاہے،لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس نے پہلے ظلم کیا ہے،ظلم کرنے کے دوران اس پر ظالم کاعنوان حقیقت میں صادق تھا،مذکورہ آیت ایسے افراد کوبھی مشتمل ہے۔یعنی ایساشخص اب امامت کے لئے شائستہ نہیں ہے اورامامت پرفائزنہیں ہوسکتاہے اور”لا ینال“کا جملہ چونکہ مضارع منفی ہے،اس لحاظ سے اس پردلالت کرتاہے۔

اس بناپر،جس نے زندگی میں ایک لمحہ کے لئے بھی گناہ کیاہے،وہ امامت کے عہدے پرفائزنہیں ہوسکتاہے،چونکہ اس وقت ظالم اور ستم گارہے اورآیہء شریفہ کہتی ہے:( لاینال عهدی الظالمین ) ”میرا عہدہ ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔“

اس طرح یہ واضح ہوگیا کہ آیہء شریفہ دوجہتوں سے اماموں کی عصمت پرحتی عہدہ امامت پر فائز ہونے سے پہلے بھی دلالت کرتی ہے۔اورامامت کے منصب پرفائز ہونے والاشخص اپنی پوری عمرملکہء عصمت سے وابستہ ہوتاہے۔اوراس طرح یہ بھی واضح ہوگیاکہ امامت ایک الہٰی منصب ہے جو خدائے متعال کی طرف سے عطا کیاجاتاہے،یعنی یہ خدائے متعال کی ایک ایسی نعمت ہے کہ جس کو وہ جوشائستہ و سزا وار جانتا ہے اسی کو عطا کر تا ہے۔

۲۴

 

 

تیسری بات

منصب امامت کازبان امامت سے تعارف

آیہء شریفہ کوبیان کرنے کے بعدمناسب ہے کہ امامت کی حقیقت کے سلسلہ میں ہمارے آٹھویں امام حضرت امام موسی الرضا علیہ السلام کی بیان کی گئی ایک حدیث پیش کیجائے:

اٴبو محمدالقاسم بن العلاء-رحمه-رفعه عن عبدالعزیزبن مسلم قال:کنّامع الرضا-علیه السلام-بمرو،فاجتمعنافی الجامع یوم الجمعة فی بدء مقدمنا،فاٴدارواامرالامامته وذکرواکثرةاختلاف الناس فیها فدخلت علی سیدی-علیه السلام-فاٴعلمته خوض الناس فیه،فتبسم-علیه السلام-ثم قال:یاعبدالعزیزجهل القوم وخذعواعن آرائهمإن اللّٰه عزّوجلّ لم یقبض نبیّه (ص)حتی اٴکمل له الدین وانزل علیه القرآن فیه تبیان کلّ شیء،ٍ بیّن فیه الحلال والحرام والحدود والاحکام وجمیع مایحتاج الیه النّاس کملاً فقال عزّوجلّ( مافرّطنافی الکتاب من شیءٍ ) (۱) واٴنزل فی حجة الوداع،وهی آخرعمره(ص):( اٴلیوم اٴکملت لکم دین واٴتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً ) (۲) وامرالامامةمن تمام الدینولم یمض(ص)حتیّ بیّن لامته معالم دینهم واٴوضع لهم سبیلهم، وترکهم علی قصد سبیلالحق،و اقام لهم علیّا علما ًو

_____________________

ا۔انعام/۳۸

۲۔مائدہ/۳

۲۵

 

 

إماماً و ماترک لهم شیئاً یحتاج إلیه الامته إلاّبیّنه فمن زعم ان اللّٰه عزّوجلّ لم یکمل دینه فقد ردّ کتاب اللّٰه و من ردّ کتاب اللّٰه فهو کافر به هل یعرفون قدر الإمامة و محلّها من الامّة فیجوز فیها اختیارهم؟ إنّ الامامة اٴجلّ قدراً و اٴعظم شاٴنا و اعلی مکاناً و اٴمنع جانباً و ابعد غوراً من اٴن یبلغها النّاس بعقولهم اٴوینالو بآرائهم اٴویقیموا إماماً باختیارهم

إنّ الإمامة خص اللّٰه عزّوجلّ بها إبراهیم الخلیل - علیه السلام - بعد النبوة و الخلّة مرتبة ثالثة و فضیلة شرّفه بها و اٴشاد بها ذکره فقال:( إنّی جاعلک للنّاس اماماً ) فقال الخلیل- علیه السلام سروراًبها:( ومن ذرّیّتی ) قال اللّٰه تعالی:( ولاینال عهدی الظالمین ) (۱) فابطلت هذه الآیة إمامة کلّ ظالم إلی یوم القیامة و صارت فی الصفوه ثمّ اٴکرم اللّٰه تعالی باٴن جعلها فی ذرّیّته اهل الصفوة و الطهارة فقال:( و وهبنا له إسحاق و یعقوب نافلة وکلّا جعلنا صالحین وجعلناهم اٴئمّه یهدون باٴمرنا واٴوحینا إلیهم فعل الخیرات وإقام الصلوةوإیتائ الزکوة وکانوا لنا عابدین ) (۲)

فلم تزل فی ذرّیّته یرثها بعض عن بعض قرناً فقرناً حتی ورّثها اللّٰه تعالی النبیّیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فقال جلّ وتعالی:( إنّ اٴولی الناس بإبراهیم للّذین اتّبعوه وهذا النبیّی والّذین آمنوا واللّٰه )

____________________

۱۔بقرہ/۱۲۴

۲۔انبیاء/۷۳۔۷۲

مؤلف: رضاکاردان

 

جرمنی میں یمنیوں نے جارحیت کے جرائم کی مذمت کی ہے۔

 جرمنی کی ریاست شلس وِگ ہولسٹے میں یمنی کمیونٹی نے ایک اجتماع کا اہتمام کیا، جس میں یمن کے خلاف امریکی حمایت یافتہ جارحیت کے جرائم کی مذمت کی گئی۔

 کمیونٹی نے یمن میں شہریوں اور بنیادی ڈھانچے کو مسلسل نشانہ بنانے کی مذمت کی جو کہ جنگی جرائم کے مترادف ہے۔احتجاجی مظاہرے کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں یمنی عوام پر جارحیت ختم کرنے اور محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے ایسے جرائم پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کی خاموشی کی مذمت کی۔

 بیان میں اتحادی ممالک اور ان کی حمایت کرنے والے ممالک کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تنظیموں کو یمنی عوام کے مصائب کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

ایم ایم

ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ کی جوہری معاہدے میں واپسی اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ جب وہ ایران کے خلاف ظالمانہ پابندیوں کو ختم کرے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللهیان نے اخبار کامرسنٹ  کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہر چند کہ یورپ نے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا لیکن ایران نے نیک نیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیر قانونی یکطرفہ پابندیوں کے خاتمے کیلئے مذاکرات کے دروازے کو بند نہیں کیا اور ایک اچھے معاہدے تک پہنچنے کیلئے نتیجہ خیز گفتگو کے سلسلے کو جاری رکھا۔

ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق صورتحال اس لئے بن گئی کہ امریکہ نے جوہری معاہدے کو سبوتاژ کرنے کیلئے کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔

واضح رہے کہ ویانا میں 29 نومبر کو ایران کی تجویز پر غور کرنے کے لئے ورکنگ گروپس کے متعدد اجلاس منعقد ہوئے ۔ اس سے قبل ایران نے پابندیوں کے خاتمے اور ایٹمی سرگرمیوں کے بارے میں دو سندیں پیش کیں ۔