
سلیمانی
اعمال روز عید مباہلہ
چوبیسویں ذی الحجہ کا دن مشہور روایت کے مطابق24 ذی الحجہ عید مباہلہ کا دن ہے اس دن حضرت رسول نے نصارٰی نجران سے مباہلہ کیا تھا واقعہ یوں ہے کہ حضرت رسول نے اپنی عبا اوڑھی ،پھر امیرالمؤمنین -،جناب فاطمہ (س)اور حضرت حسن و حسین (ع)کو اپنی عبا میںلے لیا ۔تب فرمایا کہ یا اللہ ! ہر نبی کے اہلبیت (ع)ہوتے ہیں اور یہ میرے اہلبیت(ع) ہیں ۔ پس ان سے ہر قسم کی ظاہری و باطنی برائی کو دور رکھ اور ان کو اس طرح پاک رکھ جیسے پاک رکھنے کا حق ہے ،اس وقت جبرائیل امین(ع) آیت تطہیر لے کر نازل ہوئے اس کے بعد حضرت رسول خدا نے ان چار ہستیوں کو اپنے ساتھ لیا اور مباہلہ کے لئے نکلے ،نصاریٰ نجران نے آپ کو اس شان سے آتے دیکھا ،اور علامات عذاب کا مشاہدہ کیا تو مباہلہ سے دست بردار ہو کر مصالحت کر لی اور جزیہ دینے پر آمادہ ہو گئے ۔
آج ہی کے دن امیرالمؤمنین - نے حالت نماز میں سائل کو انگوٹھی عطا فرمائی ۔اور آپ کی شان میں آیہ مبارکہ ’’اِنَّمَاْ وَلَیُّکُمُ اﷲِ...‘‘ نازل فرمائی۔
خلاصہ کلام یہ کہ یوم مباہلہ بڑی عظمت اور اہمیت کا حامل ہے اور اس میں چند ایک اعمال ہیں ۔
﴿۱﴾غسل ۔
﴿۲﴾روزہ۔
﴿۳﴾دورکعت نماز کہ جس کا وقت، ترتیب اور ثواب عید غدیر کی نماز کی مثل ہے ،البتہ اس میں آیۃالکرسی کو ھُمْ فِیْھَا خَالِدُوْنَ تک پڑھے ۔
﴿۴﴾ دعائے مباہلہ:یہ ماہ رمضان کی دعائے سحر کے مشابہ ہے اور اسکو شیخ و سید دونوں نے نقل فرمایا ہے چونکہ ان دونوں بزرگوں کے نقل کردہ کلمات دعا میں کچھ اختلاف ہے ،لہذا یہاں ہم اسے شیخ کی کتاب مصباح کی روایت کے مطابق تحریر کر رہے ہیں ،شیخ کا کہنا ہے کہ امام جعفر صادق - نے دعائے مباہلہ کی بہت زیادہ فضیلت بیان فرمائی ہے اور وہ دعا یہ ہے :
اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ بَهائِکَ بٲَبْهاه وَکُلُّ بَهائِکَ بَهیٌّ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِبَهائِکَ
اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے روشن ترین نور میں سے اور تیرا ہر نور درخشاں ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تیرے
کُلِّه اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ جَلالِکَ بِٲَجَلِّه وَکُلُّ جَلالِکَ جَلِیلٌ،
تمام نور کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے بہت بڑے جلوے میں سے اور تیرا ہر جلوہ بہت بڑا جلوا ہے
اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِجَلالِکَ کُلِّه اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ جَمالِکَ بِٲَجْمَلِه وَکُلُّ
اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے تمام جلوہ کے واسطے اے معبود ! طلب کرتا ہوں تجھ سے تیرے بہترین جمال میں سے
جَمالِکَ جَمِیلٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بَجَمالِکَ کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَدْعُوکَ کَما ٲَمَرْتَنِی
اور تیرا ہر جمال پسندیدہ و بہترین ہے اے معبود ! میں سوال کرتا ہوں تیرے پورے جمال کے واسطے اے معبود! میں پکارتا ہوں تجھے
فَاسْتَجِبْ لِی کَما وَعَدْتَنِی ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَ لُکَ مِنْ عَظَمَتِکَ
جیسا کہ تو نے حکم کیا پس میری دعا قبول کر جیسا کہ تو نے وعدہ کیا ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری بڑی بزرگی میں
بِٲَعْظَمِها وَکُلُّ عَظَمَتِکَ عَظِیمَۃٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِعَظَمَتِکَ کُلِّها ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی
سے اور تیری ہر بزرگی ہی بڑی ہے اے معبود ! میں سوال کرتا ہوںتجھ سے تیری پوری بزرگی کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا
ٲَسْٲَلُکَ مِنْ نُورِکَ بِٲَنْوَرِه وَکُلُّ نُورِکَ نَیِّرٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَ لُکَ بِنُورِکَ کُلِّه ۔
ہوں تجھ سے تیرے روشن نور میں سے اور تیرا ہر نور روشن ہے اے معبود ! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے پوری نور کے واسطے
اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ رَحْمَتِکَ بِٲَوسَعِها وَکُلُّ رَحْمَتِکَ واسِعَة، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ
اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری وسیع تر رحمت میں سے اور تیری ساری رحمت وسیع ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے
بِرَحْمَتِکَ کُلِّها۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَدْعُوکَ کَما ٲَمَرْتَنِی فَاسْتَجِبْ لِی کَما وَعَدْتَنِی ۔
تیری پوری رحمت کے واسطے اے معبود! میں دعا کرتا ہوں تجھ سے جیسے تو نے حکم کیا پس میری دعا قبول کر جیسے کہ تو نے وعدہ کیا ہے
اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ کَمالِکَ بِٲَکْمَلِه وَکُلُّ کَمالِکَ کامِلٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ
اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے کامل ترین کمال میں سے اور تیرا ہر کمال ہی کامل ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے
بِکَمالِکَ کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ کَلِماتِکَ بِٲَ تَمِّها وَکُلُّ کَلِماتِکَ تامَّة،
تیرے پورے کمال کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے سالم ترین کلمات میں سے اور تیرے سب کلمات ہی سالم تر ہیں
اَللّٰھُمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِکَلِماتِکَ کُلِّھا اَللّٰھُمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ ٲَسْمائِکَ
اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے پورے کلمات کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے بہت بڑے
بِٲَکْبَرِها وَ کُلُّ ٲَسْمائِکَ کَبِیرَة، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِٲَسْمائِکَ کُلِّها اَللّٰهمَّ
ناموں میں سے اور تیرے سارے ہی نام بڑے ہیں اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے تمام تر ناموں کے واسطے اے معبود
إنِّی ٲَدْعُوکَ کَما ٲَمَرْتَنِی فَاسْتَجِبْ لِی کَما وَعَدْتَنِی ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ
میں دعا کرتا ہوں تجھ سے جیسے تو نے حکم کیا پس قبول کر میری دعا جیسے تو نے وعدہ کیا اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے
عِزَّتِکَ بِٲَعَزِّها وَکُلُّ عِزَّتِکَ عَزِیزَة، اَللّٰھُمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِعِزَّتِکَ کُلِّها ۔
تیری بہت بڑی عزت میں سے اور تیری ہر عزت بہت بڑی ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری تمام تر عزت کے واسطے
اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ مَشِیئَتِکَ بِٲَمْضاها وَکُلُّ مَشِیئَتِکَ ماضِیَة، اَللّٰهمَّ إنِّی
اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے ارادے میں سے جو نافذ ہونے والا ہے اور تیرا ہر ارادہ نافذ ہونے والا ہے اے معبود! میں
ٲَسْٲَلُکَ بِمَشِیئَتِکَ کُلِّها۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِقُدْرَتِکَ الَّتِی اسْتَطَلْتَ
سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے پورے ارادے کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری قدر ت کا جس سے تو ہر چیز پر
بِھا عَلَی کُلِّ شَیْئٍ وَکُلُّ قُدْرَتِکَ مُسْتَطِیلَۃٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِقُدْرَتِکَ کُلِّها ۔
قبضہ و غلبہ رکھتا ہے اور تیری ہر قدر ت قابض اور غالب ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری تمام تر قدرت کے واسطے
اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَدْعُوکَ کَما ٲَمَرْتَنِی فَاسْتَجِبْ لِی کَما وَعَدْتَنِی ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ
اے معبود! میں دعا کرتا ہوں تجھ سے جیسے تو نے حکم کیا پس قبول کر میری دعا جیسے کہ تو نے وعدہ کیا ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں
مِنْ عِلْمِکَ بِٲَ نْفَذِه وَکُلُّ عِلْمِکَ نافِذٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِعِلْمِکَ
تجھ سے تیرے بہت جاری ہونے والے علم میں سے اور تیرا ہر علم جاری ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے تمام تر علم
کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ قَوْ لِکَ بِٲَرْضاُه وَکُلُّ قَوْلِکَ رَضِیٌّ، اَللّٰهمَّ إنِّی
کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے بڑے خوش آیند قول میں سے اور تیرا ہر قول خوش آیند ہے اے معبود! میں
ٲَسْٲَلُکَ بِقَوْلِکَ کُلِّہِ ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ مَسائِلِکَ بِٲَحَبِّها وَکُلُّها إلَیْکَ
سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے پورے قول کے واسطے اے معبود! میں طلب کرتا ہوں تجھ سے تیرے محبوب ترین سوالوں میں سے اور
حَبِیبَة، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِمَسائِلِکَ کُلِّها۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَدْعُوکَ
وہ سبھی تیرے نزدیک محبوب ہیں اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے سبھی سوالوں کے واسطے اے معبود! میں دعا کرتا ہوں
کَما ٲَمَرْتَنِی فَاسْتَجِبْ لِی کَما وَعَدْتَنِی ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ شَرَفِکَ بِٲَشْرَفِه
تجھ سے جیسے تو نے حکم کیا پس قبول کر میری دعا جیسے کہ تو نے وعدہ کیا ہے اے معبود طلب کرتا ہوں تجھ سے تیری سب سے بڑی بزرگی
وَکُلُّ شَرَفِکَ شَرِیفٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِشَرَفِکَ کُلِّه۔ اَللّٰهمَّ
میں سے اور تیری ہر بزرگی ہی سب سے بڑی ہے اے معبود !میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری ساری بزرگی کے واسطے اے معبود !
إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ سُلْطانِکَ بِٲَدْوَمِه وَکُلُّ سُلْطانِکَ دائِمٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ
میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری سب سے دائمی سلطانی میں سے اور تیری ہر سلطانی ہی دائمی ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ
بِسُلْطانِکَ کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ مُلْکِکَ بِٲَ فْخَرِه وَکُلُّ مُلْکِکَ
سے تیری تمام تر سلطانی کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری سب سے بڑی حکومت میں سے اور تیری تمام تر
فاخِرٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِمُلْکِکَ کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَدْعُوکَ کَما ٲَمَرْتَنِی
حکومت بڑی ہے اے معبود ! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری ساری حکومت کے واسطے اے معبود! میں دعا کرتا ہوں تجھ سے جیسے تو
فَاسْتَجِبْ لِی کَما وَعَدْتَنِی ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَ لُکَ مِنْ عَلائِکَ بِٲَعْلاه وَکُلُّ
نے حکم کیا پس قبول کر میری دعا جیسے کہ تو نے وعدہ کیا ہے اے معبود! طلب کرتا ہوں تجھ سے تیری سب سے بڑی بلندی میں سے اور تیری ہر
عَلائِکَ عالٍ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِعَلائِکَ کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ
بلندی بہت بڑی ہے اے معبود ! سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری تمام تر بلندی کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری
آیاتِکَ بِٲَعْجَبِها وَکُلُّ آیاتِکَ عَجِیبَة، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِآیاتِکَ کُلِّها
سب سے عجیب تر نشانیوں میں سے اور تیری سبھی آیات عجیب ہیں اے اللہ! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری تمام تر آیتوں کے
اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ مَنِّکَ بِٲَقْدَمِه وَکُلُّ مَنِّکَ قَدِیمٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی
واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے سب سے قدیم احسان میں سے اور تیرا ہر احسان قدیم ہے اے معبود! میں سوال
ٲَسْٲَلُکَ بِمَنِّکَ کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَدْعُوکَ کَما ٲَمَرْتَنِی فَاسْتَجِبْ لِی کَما
کرتا ہوں تجھ سے تیرے سارے احسان کے واسطے اے معبود! میں دعا کرتا ہوں تجھ سے جیسے تو نے حکم کیا پس قبول کر میری دعا جیسے
وَعَدْتَنِی ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِما ٲَ نْتَ فَیه مِنَ الشَّٲنِ وَالْجَبَرُوتِ
کہ تو نے وعدہ کیا ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے اس کے واسطے جس میں تیری شان اور تیرا غلبہ ظاہر و عیاں ہے
اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِکُلِّ شَٲْنٍ وَکُلِّ جَبَرُوتٍ ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِما
اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری ہر شان اور تیرے ہر غلبے کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے اس نام کے
تُجِیبُنِی بِه حِینَ ٲَسْٲَلُکَ یَا اﷲُ یَا لاَ إله إلاَّ ٲَنْتَ ٲَسْٲَلُکَ بِبَهائِ لا إله
واسطے جس سے تو جواب دیتا ہے جب میں تجھ سے مانگتا ہوں اے اللہ اے وہ کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں میں سوال کرتا ہوں لاالہ الا
إلاَّ ٲَنْتَ، یَا لا إلہَ إلاَّ ٲَ نْتَ ٲَسْٲَلُکَ بِجَلالِ لاَ إله إلاَّ ٲَنْتَ، یَا لاَ إله
انت کے نور کے واسطے اے وہ کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں میں سوال کرتا ہوں تجھ سے لاالہ الا انت کے جلال کے واسطے اے وہ کہ
إلاَّ ٲَ نْتَ ٲَسْٲَلُکَ بِلا إله إلاَّ ٲَنْتَ ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَدْعُوکَ کَما ٲَمَرْتَنِی
تیرے سوا کوئی معبود نہیں میں تجھ سے سوال کرتا ہوں لاالہ الا انت کے واسطے اے معبود میں دعا کرتا ہوں تجھ سے جیسے تو نے حکم کیا
فَاسْتَجِبْ لِی کَما وَعَدْتَنِی ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَ لُکَ مِنْ رِزْقِکَ بِٲَعَمِّه
پس قبول کر میری دعا جیسے تو نے وعدہ کیا ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے وسیع تر رزق میں سے
وَکُلُّ رِزْقِکَ عامٌّ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِرِزْقِکَ کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ
اور تیرا ہر رزق وسیع ہے اے معبود میں سوال کرتا ہوں تیرے تمام رزق کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے
مِنْ عَطائِکَ بِٲَهنَاه وَکُلُّ عَطائِکَ هنِیئٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِعَطائِکَ
تیری خوشگوار عطا میں سے اور تیری ہر عطا خوشگوار ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری تمام عطا کے واسطے
کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ خَیْرِکَ بِٲَعْجَلِه وَکُلُّ خَیْرِکَ عاجِلٌ، اَللّٰهمَّ
اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری بھلائی میں سے جلد ملنے والی کااور تیری ہر بھلائی جلد ملنے والی ہے اے معبود! میں سوال
إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِخَیْرِکَ کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ بِٲَ فْضَلِه
کرتا ہوں تجھ سے تیری ساری بھلائی کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے فضل میں سے بہت بڑا فضل کا اور تیرا
وَکُلُّ فَضْلِکَ فاضِلٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِفَضْلِکَ کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی
ہر فضل بہت بڑا ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری سارے فضل کے واسطے اے معبود! میں دعا کرتا ہوں
ٲَدْعُوکَ کَما ٲَمَرْتَنِی فَاسْتَجِبْ لِی کَما وَعَدْتَنِی ۔ اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلَی
تجھ سے جیسے تو نے حکم کیا پس قبول کر میری دعا جیسے کہ تو نے وعدہ کیا ہے اے معبود! محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) پر رحمت نازل فرما
مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَابْعَثْنِی عَلَی الْاََیمانِ بِکَ وَالتَّصْدِیقِ برَسُولِکَ عَلَیْه وَآلِه اَلسَّلَامُ
اور اٹھا کھڑا کر مجھے جبکہ تجھ پر میرا ایمان ہو تیرے رسول کی تصدیق کروںان پر اور ان کی آل (ع)پر سلام ہو
وَالْوِلایَة لِعَلِیِّ بْنِ ٲَبِی طالِبٍ وَالْبَرائَة مِنْ عَدُوِّه وَالائتِمامِ بِالْاََئِمَّة مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ
اور تصدیق کروں علی (ع)ابن ابی طالب(ع) کی ولایت کی دورر ہوں ان کے دشمنوں سے اور ائمہ(ع) کی پیروکاری کا کہ جو آل محمد(ص) میں سے ہیں
عَلَیْهمُ اَلسَّلَامُ، فَ إنِّی قَدْ رَضیْتُ بِذلِکَ یَا رَبِّ ۔ اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ
ان سب پر سلام ہو پس میں راضی ہوں اس بات پر اے پروردگار اے معبود!حضرت محمد(ص) پر رحمت فرما جو تیرے بندے اور تیرے
وَرَسُولِکَ فِی الْاََوَّلِینَ، وَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ فِی الْاَخِرِینَ، وَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ فِی
رسول(ص) ہیں پہلے لوگوں میں اور حضرت محمد(ص) پر رحمت فرما پچھلے لوگوں میں حضرت محمد(ص) پر رحمت فرما
الْمَلاََ الْاََعْلیٰ، وَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ فِی الْمُرْسَلِینَ ۔ اَللّٰهمَّ ٲَعْطِ مُحَمَّداً الْوَسِیلَه
افلاک اور عرش برین میں اور حضرت محمد(ص) پر رحمت فرما پیغمبروں میں اے معبود! حضرت محمد(ص) کو عطا فرما ذریعہ
وَالشَّرَفَ وَالْفَضِیلَة وَالدَّرَجَة الْکَبِیرَة اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَقَنِّعْنِی
بلندی بڑائی اور بلند سے بلند تر مقام اے معبود! محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) پر رحمت فرما اور مجھے قانع کر
بِما رَزَقْتَنِی، وَبارِکْ لَی فِیما آتَیْتَنِی، وَاحْفَظْنِی فِی غَیْبَتِی وَکُلِّ غائِبٍ هوَ لِی ۔
اس رزق پر جو تو نے دیا برکت دے اس میں جو تو نے مجھے دیامیری حفاظت کر میری غیبت میں اور اس میں جو مجھ سے غائب ہے
اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَابْعَثْنِی عَلَی الْاِیمانِ بِکَ وَالتَّصْدِیقِ بِرَسُولِکَ
اے معبود! محمد(ص) وآل(ع) محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور مجھے اٹھا جبکہ میرا تجھ پر ایمان ہو اور تیرے رسول(ص) کی تصدیق کروں
اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وٲَسْٲَلُکَ خَیْرَ الْخَیْرِ رِضْوانَکَ وَالْجَنَّة وَٲَعُوذُ
اے معبود!محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری بہتر سے بہتر خوشنودی اور جنت کااور پناہ لیتا ہوں
بِکَ مِنْ شَرِّ الشَّرِّ سَخَطِکَ وَالنَّارِ اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاحْفَظْنِی
تیرے سخت سے سخت غضب اور جہنم سے اے معبود! محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور میری حفاظت کر
مِنْ کُلِّ مُصِیبَة وَمِنْ کُلِّ بَلِیَّة وَمِنْ کُلِّ عُقُوبَة وَمِنْ کُلِّ فِتْنَة وَمِنْ کُلِّ بَلائٍ وَمِنْ کُلِّ
ہر ایک مصیبت سے ہر ایک مشکل سے ہر ایک سزا سے ہر ایک الجھن سے ہرایک تنگی سے ہر ایک
شَرٍّ وَمِنْ کُلِّ مَکْرُوه وَمِنْ کُلِّ مُصِیبَة وَمِنْ کُلِّ آفَة نَزَلَتْ ٲَو تَنْزِلُ مِنَ السَّمائِ إلَی
برائی سے ہر ایک ناپسند امر سے ہر ایک کھٹنائی سے اورہر ایک آفت سے جو نازل ہوئی یا نازل ہو آسمان سے زمین کی
الْاََرْضِ فِی هذِه السَّاعَة وَفِی هذِه اللَّیْلَة، وَفِی هذَا الْیَوْمِ، وَفِی هذَا الشَّهرِ وَفِی
طرف اس موجودہ گھڑی میں آج کی رات میں آج کے دن میں اور اس مہینہ میں اور اس رواں
هذِه السَّنَة اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاقْسِمْ لِی مِنْ کُلِّ سُرُورٍ وَمِنْ کُلِّ
سال میں اے معبود! رحمت نازل فرما محمد(ص) و آل محمد (ص)پر اور نصیب کر مجھے ہر ایک راحت ہر ایک
بَهجَة، وَمِنْ کُلِّ اسْتِقامَة، وَمِنْ کُلِّ فَرَجٍ، وَمِنْ کُلِّ عافِیَة، وَمِنْ کُلِّ سَلامَة، وَمِنْ
مسرت ہر طرح کی ثابت قدمی ہر ایک کشادگی ہر ایک آرام ہر طرح کی سلامتی ہر طرح
کُلِّ کَرامَة وَمِنْ کُلِّ رِزْقٍ واسِعٍ حَلالٍ طَیِّبٍ وَمِنْ کُلِّ نِعْمَة وَمِنْ کُلِّ سعَة نَزَلَتْ ٲَو
کی عزت اور ہر قسم کی روزی وسیع حلال پاکیزہ ہر طرح کی نعمت اور ہر ایک وسعت جو نازل ہوئی یا
تَنْزِلُ مِنَ السَّمائِ إلَی الْاََرْضِ فِی هذِه السَّاعَة، وَفِی هذِه اللَّیْلَة، وَفِی هذَا الْیَوْمِ،
نازل ہو آسمان سے زمین کی طرف اس موجودہ گھڑی میں آج کی رات میں آج کے دن
وَفِی هذَا الشَّهرِ وَفِی هذِه السَّنَۃِ اَللّٰهمَّ إنْ کانَتْ ذُ نُوبِی قَدْ ٲَخْلَقَتْ وَجْهی عِنْدَکَ
اس مہینے میں اور اس رواں سال میں اے معبود !اگر میرے گناہوں نے تیرے سامنے میرا چہرا پژمردہ کردیا وہ میرے اور تیرے
وَحالَتْ بَیْنِی وَبَیْنَکَ وَغَیَّرَتْ حالِی عِنْدَکَ فَإنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِنُورِ وَجْهکَ الَّذِی لاَ یُطْفٲُ
درمیان حائل ہو گئے اور تیرے سامنے میرا حال خراب کر دیا ہے تو میں سوالی ہوں تیرے نور ذات کے واسطے جو بجھتا نہیں
وَبِوَجْه مُحَمَّدٍ حَبِیبِکَ الْمُصْطَفی، وَبِوَجْه وَ لِیِّکَ عَلِیٍّ الْمُرْتَضی، وَبِحَقِّ ٲَولِیائِکَ
اور محمد(ص) کی عزت کے واسطے جو تیرے چنے ہوئے دوست ہیں اور تیرے ولی علی مرتضی (ع)کی عزت کے واسطے اور تیرے اولیائ
الَّذِینَ انْتَجَبْتَهمْ ٲَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَٲَنْ تَغْفِرَ لِی مَا مَضیٰ مِنْ
کے وسیلے سے جن کو تو نے پسند کیا ہے یہ کہ تو محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور یہ کہ میں جو گناہ پہلے کر چکا ہوں وہ
ذُنُوبِی، وَٲَنْ تَعْصِمَنِی فَیما بَقِیَ مِنْ عُمْرِی، وَٲَعُوذُ بِکَ اَللّٰهمَّ ٲَنْ ٲَعُودَ فِی شَیْئٍ
معاف کر دے اور باقی زندگی میں گناہوں سے مجھے محفوظ رکھ اور تیری پناہ لیتا ہوں اے اللہ اس سے کہ تیری نافرمانی کے کسی
مِنْ مَعاصِیکَ ٲَبَداً مَا ٲَبْقَیْتَنِی، حَتَّی تَتَوَفَّانِی وَٲَنَا لَکَ مُطِیعٌ وَٲَنْتَ عَنِّی راضٍ،
کام کیطرف پلٹوں جب تک تو مجھے زندہ رکھے یہاں تک کہ مجھے موت دے تو میں تیرا اطاعت گزار اور تو مجھ سے راضی ہو اور یہ کہ تو
وَٲَنْ تَخْتِمَ لِی عَمَلِی بِٲَحْسَنِه وَتَجْعَلَ لِی ثَوابَه الْجَنَّة وَٲَنْ تَفْعَلَ بِی مَا ٲَنْتَ ٲَهلُه
میرے اعمال نامے کو نیکی پر ختم کرے اور اس کے ثواب میں مجھے جنت عطا کرے نیز میرے ساتھ وہ سلوک کر جو تیرے شایاں
یَا ٲَهلَ التَّقْوی وَیَا ٲَهلَ الْمَغْفِرَة صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَارْحَمْنِی بِرَحْمَتِکَ
ہے اے بچانے والے اے پردہ پوشی کرنے والے محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور مجھ پر رحم فرما اپنی رحمت سے
یَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ ۔
اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے ۔
﴿۵﴾دورکعت نماز اور ستر مرتبہ استغفار کے بعد شیخ و سید کی نقل کردہ وہ دعا پڑھے ،جس کا آغاز الحمد للہ رب العالمین سے ہوتا ہے ،ہر مومن اور مومنہ حضرت امیر-کی پیروی کرتے ہوئے صدقہ و خیرات کرے نیز حضرت کی زیارت پڑھے اور اس روز زیارت جامعہ کا پڑھنا زیادہ مناسب ہے ۔
کیا اہل سنت کے کسی مفسر نے مولی کا اولی معنی کیا ہے؟
کیا اہل سنت کے کسی مفسر نے مولی کا اولی معنی کیا ہے؟
جواب:
نہ صرف اہل لغت نے لفظ «مولي» کا «أولي» معنی کیا ہے ، بلکہ اہل سنت کے مفسرین اور بزرگوں میں جنہوں نے قرآن کریم آیات کی تفسیر اور تشریح میں خدمات انجام دیے ہیں ،انہوں نے بھی اسی حقیقت کو بیان کیا ہے۔
ہم ذیل میں ان میں سے پندرہ شخصیات کے ناموں کا ذکر کرتے ہیں ۔
1. محمد بن اسماعيل بخاري (متوفاي 256هـ(
انہوں نے سوره حديد کی تفسیر میں نقل کیا ہے :
قال مُجَاهِدٌ ... «مَوْلَاكُمْ» أَوْلَي بِكُمْ .[1]
مجاهد نے کہا ہے : (مولاكم) کا معنی (اولي) اور برتری ہے .
ابن حجر عسقلاني نے بخاري کی شرح میں لکھا ہے :
قوله مولاكم أولي بكم قال الفراء في قوله تعالي «مأواكم النار هي مولاكم» يعني أولي بكم وكذا قال أبو عبيدة وفي بعض نسخ البخاري هو أولي بكم وكذا هو في كلام أبي عبيدة .[2]
فراء نے آيه شريفه : (ماواكم النار هي مولاكم) کی تشریح میں کہا ہے : مولي کا معنی تم پر اولي اور برتر ہونا ہے، ابوعبيده نے بھی یہی کہا ہے بخاری کے بعض نسخوں میں « أولي بكم » یعنی تم لوگوں پر برتر کا لفظ آیا ہے ،اسی طرح ابوعبيده کا کلام بھی ۔۔
عيني نے عمدة القاري میں مولی کا معنی اولی اور برتر کہا ہے :
مَوْلاكُمْ أوْلَي بِكُمْ . أشار به إلي قوله تعالي : «مأواكم النار هي مولاكم»[3]أي : ( أولي بكم ) كذا قاله الفراء وأبو عبيدة وفي بعض النسخ : مولاكم هو أولي بكم ، وكذا وقع في كلام أبي عبيدة .[4]
2. أبو عبد الرحمن سلمي (متوفاي 412هـ) :
قرن پنجم هجري کے مشہور عالم سلمی نے «هي مولاكم» کی تفسیر میں یہی لکھا ہے :
«مأواكم النار هي مولاكم» أي أولي الأشياء بكم واقربها إليكم .[5]
تم لوگوں کا ٹھکانہ آگ ہے ؛ ینعی تم لوگوں کے لئے زیادہ سزاوار اور تم لوگوں سے زیادہ نذدیک .
3 . أبو القاسم القشيري (متوفاي 465هـ) :
أبو القاسم قشيري نے بھی «هي مولاكم» کی تفسیر میں مولی کا معنی اولی بکم کیا ہے : و «هي مولاكم» أي هي أوْلَي بكم .[6]
4 . علي بن احمد واحدي (متوفاي 468هـ) :
اهل سنت کے ہی مشهور مفسر ،واحدي نے اس سلسلے میں لکھا ہے :
مأواكم النار ( منزلكم النار ) هي مولاكم ( أولي بكم )[7]
تم لوگوں کا ٹھکانہ یعنی آگ تم لوگوں سے برتر اور تم لوگوں کے مناسب تر ہے .
5 . محمد بن فتوح حميدي (متوفاي 488هـ) :
حميدي کہ جو اہل سنت کے محدث ، مفسر اور صاحب كتاب " الجمع بين الصحيحين" بھی ہے وہ كلمه مولي کے بارے میں کہتا ہے :
ومنه قوله «ذلك بأن الله مولي الذين آمنوا » أي وليهم والقائم بأمورهم والمولي الأولي بك ودليله قوله « مأواكم النار هي مولاكم » أي هي أولي بكم .[8]
لفظ مولي جہاں اولي کے معنی میں آیا ہے ان میں سے ایک یہ والی آیت ہے « ذلك بأن الله مولي الذين آمنوا » ؛ یعنی اللہ تم لوگوں کے کاموں کو سرپرست اور تم لوگوں کے امور کو قوام بخشنے والا ہے ، اس معنی پر دلیل یہ والی آیت ہے"« مأواكم النار هي مولاكم » یعنی آگ تم لوگوں سے برتر اور تم لوگوں کے مناسب ہے ۔
6 . ابن عطيه اندلسي (متوفاي 546هـ) :
ابن عطيه اندلسي ، مفسر اور نامور سني اديب ہیں انہوں نے اپنی تفسیر میں کہا ہے :
وقوله «هي مولاكم» قال المفسرون: معناه هي اولي بكم .[9]
مفسروں نے (هي مولاكم) کے بارے میں کہا ہے : اس کا معنی اولی بکم یعنی تم لوگوں سے برتر کہا ہے ۔
عبد الله بن عمر بيضاوي نے «هي مولاكم» کی تفسیر میں یہی معنی کیا ہے :
«هي مولاكم» هي أولي بكم كقول لبيد : فغدت كلا الفرجين تحسب * أنه مولي المخافة خلفها وأمامها .[10]
8 . أبو عبد الله قرطبي (متوفاي 671هـ) :
قرطبي ، کہ جو اهل سنت کے مایہ ناز مفسر ہیں اور آپ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے مولی کا معنی«اولي» کیا ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ یہ لفظ اولی اور لوگوں کے امور کی سرپرستی کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور پھر بعد میں یہ کسی چیز کے ہمراہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے
( هي مولاكم ) أي أولي بكم والمولي من يتولي مصالح الإ
نسان ثم استعمل فيمن كان ملازما للشيء .[11]
، اهل سنت کے مفسر مشهور نسفي کہ جو " عقائد النسفيه " کے مصنف بھی ہے اور یہ کتاب اہل سنت کے مدارس کے کورس میں شامل ہے ،انہوں نے اپنی تفسیر میں «مولي» کی تفسیر اولی کے ذریعے کی ہے :
«هي مولاكم» هي أولي بكم .[12]
10 . علاء الدين خازن (متوفاي 725هـ) :
انہوں نے بھی «هي مولاكم» کی تفسیر میں لکھا ہے :
«هي مولاكم» أي وليكم وقيل هي أولي بكم .[13]
یہ تم لوگوں کا مولی ہے یعنی تم لوگوں کا سرپرست ہے ،یہاں اولي اور برتر کا معنی بھی کیا ہے ۔
11 . سعد الدين تفتازاني (متوفاي791هـ) :
تفتازاني ، اديب ، مفسر و اہل سنت کا مایہ ناز متكلم ہے ،انہوں نے بھی «مولي» کا معنی «اولي» کیا ہے اور یہ اعتراف کیا ہے کہ یہی معنی علم لغت کے بزرگوں کے نذدیک رائج معنی ہے ؛
ولفظ المولي قد يراد به المعتق والمعتق والحليف والجار وابن العم والناصر والأولي بالتصرف قال الله تعالي : «مأواكم النار هي مولاكم» أي أولي بكم . ذكره أبو عبيدة وقال النبي صلي الله عليه وسلم أيما امرأة نكحت نفسها بغير إذن مولاها أي الأولي بها والمالك لتدبير أمرها ومثله في الشعر كثير وبالجملة استعمال المولي بمعني المتولي والمالك للأمر والأولي بالتصرف شائع في كلام العرب منقول عن كثير من أئمة اللغة .[14]
12 . فيروز آبادي ، متوفاي 817هـ) :
اهل سنت کے معروف لغت شناس اور مفسر ،فيروز آبادي نے اس آیت «هي مولاكم» کی تفسیر میں لکھا ہے :
«هي مولاكم» أولي بكم النار .[15]
13 . ابن عادل حنبلي (متوفاي880هـ) :
انہوں نے بھی «هي مولاكم» کے بارے میں لکھا ہے :
وقوله : «هِيَ مَوْلاَكُمْ» يجوز أن يكون مصدراً أي : ولايتكم , أي : ذات ولايتكم .[16]
یہ جائز ہے کہ یہاں مولاکم مصدر اور تم پر ولایت اور سرپرستی کے معنی میں ہو.
14 . جلال الدين محمد بن احمد المحلي (متوفاي 854هـ) :
جلال الدين المحلي ، نے تفسير جلالين کہ جس کو انہوں نے اور جلال الدين سيوطي نے مشترک تالیف کی ۔اس میں بھی یہی معنی نقل ہوا ہے ۔
«مأواكم النار هي مولاكم» أولي بكم .[17]
15 . محمد علي شوكاني (متوفاي 1250هـ) :
شوکانی نے بھی اصلی معنی یہی اولی بالتصرف اور سرپرستی کو قرار دیا ہے۔
«هي مولاكم» أي هي أولي بكم والمولي في الأصل من يتولي مصالح الإنسان ثم استعمل فيمن يلازمه .[18]
جیساکہ آلوسي نے اپنی کتاب میں دوسری جگہ تصریح کی ہے کہ: كلبي ، زجاج ، فراء اور أبو عبيده کہ جو علم لغت کے سب سے ماہر افراد ہیں ،انہوں نے بھی لفظ «مولي» کا معنی «اولي» کو قرار دیا ہے :
وقال الكلبي والزجاج والفراء وأبو عبيدة : أي أولي بكم كما في قول لبيد يصف بقرة وحشية نفرت من صوت الصائد : فغدت كلا الفرجين تحسب أنه مولي المخافة خلفها وأمامها أي فغدت كلا جانبيها الخلف والإمام تحسب أنه أولي بأن يكون فيه الخوف .[19]
مذھبی تعصب دیکھیں :
ہم ذیل میں آلوسي کی طرف سے حديث غدير پر اعتراض کو نقل کرتے ہیں تاکہ یہ پتہ چلے کہ مذھبی تعصب کیا سے کیا کرتا ہے اور آلوسی جیسا عالم کس طرح دہرا معیار اپنا لیتا ہے :
ولايخفي أن أول الغلط في هذا الاستدلال جعلهم المولي بمعني الأولي وقد أنكر ذلك أهل العربية قاطبة بل قالوا : لم يجيء مفعل بمعني أفعل أصلا ولم يُجَوِّز ذلك إلا أبو زيد اللغوي ... .[20]
کسی پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ اس {شیعہ موقف پر }استدلال میں پہلی غلطی یہ ہے کہ یہاں مولی کو اولی کے معنی میں قرار دیا ہے جبکہ سارے اہل لغت نے اس معنی کو قبول نہیں کیا ہے ،بلکہ اہل لغت نے یہ کہا ہے کہ مفعل ،افعل کے معنی میں کہیں بھی نہی آیا ہے ،سوای ابوزید کے کسی لغت شناس نے اس کو صحیح نہیں کہا ہے ۔
اگر لغت ، تفسير ، تاريخی علمی آثار ، اہل سنت اور اہل عرب کے بزرگوں کے آراء کو دیکھا جائے تو آلوسی جیسے لوگوں کا یہ ادعا بلکل باطل ہے۔
واضح ہے کہ مکتب خلفاء کی طرف سے حدیث غدیر کو قبول نہ کنے کی بنیادی مشکل اور مسئلہ یہی لفظ مولی کا اولی والا معنی ہے ۔
جیساکہ مشاہدہ کیا کہ لفظ «مولي» کو «اولي» کے معنی میں استعمال کرنے میں نہ صرف کوئی رکاوٹ نہیں بلکہ بہت سے علماء نے اس کا یہی معنی ہی لیا ہے اور بہت سے اہل لغت اور اہل تفسیر و تاریخ نے دوسری ہجری سے آج تک اسی معنی پر تصریح کی ہے ۔
[1]. البخاري الجعفي ، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ) ، صحيح البخاري ، ج 4 ص 1358 ، تحقيق د. مصطفي ديب البغا ، ناشر : دار ابن كثير ، اليمامة - بيروت ، الطبعة : الثالثة ، 1407 - 1987 .
[2] . العسقلاني الشافعي ، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) ، فتح الباري شرح صحيح البخاري ، ج 8 ، ص 628 ، تحقيق : محب الدين الخطيب ، ناشر : دار المعرفة - بيروت .
[3] . الحديد : 51
[4] . العيني ، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفاي855هـ) ، عمدة القاري شرح صحيح البخاري ، ج 19 ، ص 628 ، ناشر : دار إحياء التراث العربي - بيروت .
[5] . السلمي ، أبو عبد الرحمن محمد بن الحسين بن موسي الأزدي (متوفاي412هـ) ، تفسير السلمي وهو حقائق التفسير ، ج 2 ، ص 309 ، تحقيق : سيد عمران ، ناشر : دار الكتب العلمية - لبنان/ بيروت، الطبعة : الأولي ، 1421هـ - 2001م.
[6] . القشيري النيسابوري الشافعي ، أبو القاسم عبد الكريم بن هوازن بن عبد الملك، تفسير القشيري المسمي لطائف الإشارات ، ج 3 ، ص 380 ، ، تحقيق : عبد اللطيف حسن عبد الرحمن ، ناشر : دار الكتب العلمية - بيروت /لبنان ، الطبعة : الأولي ، 1420هـ ـ 2000م .
[7] . الواحدي ، علي بن أحمد أبو الحسن (متوفاي468هـ) ، الوجيز في تفسير الكتاب العزيز ، ج 2 ، ص 1068 ، اسم المؤلف: تحقيق : صفوان عدنان داوودي ، ناشر : دار القلم , الدار الشامية - دمشق , بيروت ، الطبعة : الأولي ، 1415هـ .
[8] . الحميدي الأزدي ، محمد بن أبي نصر فتوح بن عبد الله بن فتوح بن حميد بن بن يصل (متوفاي488هـ) ، تفسير غريب ما في الصحيحين البخاري ومسلم ، ج 1 ، ص 322 ، تحقيق : الدكتورة : زبيدة محمد سعيد عبد العزيز ، ناشر : مكتبة السنة - القاهرة - مصر ، الطبعة : الأولي ، 1415هـ - 1995م .
[9] . الأندلسي ، أبو محمد عبد الحق بن غالب بن عطية ، المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز ، ج 5 ، ص 263 ، تحقيق : عبد السلام عبد الشافي محمد ، ناشر : دار الكتب العلمية - لبنان ، الطبعة : الاولي ، 1413هـ- 1993م .
[10] . البيضاوي ، ناصر الدين أبو الخير عبدالله بن عمر بن محمد (متوفاي685هـ) ، أنوار التنزيل وأسرار التأويل (تفسير البيضاوي) ، ج 5 ، ص 300 ، ناشر : دار الفكر - بيروت .
[11] . الأنصاري القرطبي ، أبو عبد الله محمد بن أحمد (متوفاي671 ، الجامع لأحكام القرآن ، ج 17 ، ص 248 ، ناشر : دار الشعب - القاهرة .
[12] . النسفي ، أبي البركات عبد الله ابن أحمد بن محمود (متوفاي710 هـ)، تفسير النسفي ، ج 4 ، ص 217 .
[13] . البغدادي الشهير بالخازن ، علاء الدين علي بن محمد بن إبراهيم (متوفاي725هـ )، تفسير الخازن المسمي لباب التأويل في معاني التنزيل ، ج 7 ، ص 217 ، اسم المؤلف: ناشر : دار الفكر - بيروت / لبنان - 1399هـ ـ 1979م .
[14] . التفتازاني ، سعد الدين مسعود بن عمر بن عبد الله (متوفاي791هـ) ، شرح المقاصد في علم الكلام ، ج 2 ، ص 290 ، اسم المؤلف: ناشر : دار المعارف النعمانية - باكستان ، الطبعة : الأولي ، 1401هـ - 1981م .
[15] . الفيروز آبادي (متوفاي817 هـ)، تنوير المقباس من تفسير ابن عباس ، ج 1 ، ص 457 ـ 458 ، ناشر : دار الكتب العلمية - لبنان .
[16] . ابن عادل الدمشقي الحنبلي ، أبو حفص عمر بن علي (متوفايبعد 880 هـ) ، اللباب في علوم الكتاب ، ج 18 ، ص 628 ، تحقيق : الشيخ عادل أحمد عبد الموجود والشيخ علي محمد معوض ، ناشر : دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان ، الطبعة : الأولي ، 1419 هـ ـ 1998م
[17] . محمد بن أحمد المحلي الشافعي + عبدالرحمن بن أبي بكر السيوطي (متوفاي911 هـ)، تفسير الجلالين ، ج 1 ، ص 628 ، ناشر : دار الحديث ، الطبعة : الأولي ، القاهرة .
[18] . الشوكاني ، محمد بن علي بن محمد (متوفاي1255هـ) ، فتح القدير الجامع بين فني الرواية والدراية من علم التفسير ، ج 5 ، ص 171 ، ناشر : دار الفكر - بيروت .
[19] . الآلوسي البغدادي ، العلامة أبي الفضل شهاب الدين السيد محمود (متوفاي1270هـ) ، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني ، ج 27 ، ص 178 ، ناشر : دار إحياء التراث العربي - بيروت .
[20] . الآلوسي البغدادي ، العلامة أبي الفضل شهاب الدين السيد محمود (متوفاي1270هـ) ، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني ، ج 6 ، ص 195 ، ناشر : دار إحياء التراث العربي - بيروت .
شب ِتاریک رشکِ روز ہوگی عزمِ پیہم سے
شب کے نصف پہر وہ اچانک خواب سے بیدار ہو جایا کرتی تھی۔ دنیا کے سامنے بظاہر خوش نظر آنے والے لڑکی اندر ہی اندر کیسے کیسے طوفاں اٹھائے ہوئے تھی، کوئی نہ جانتا تھا۔ اکثر چند جملے اس کے ذہن میں بازگشت کرتے رہتے اور وہ شب بھر سو نہ پاتی، ایسا اضطراب تھا جسے وہ آج تک کوئی نام نہ دے سکی۔ وہ جب تھوڑی دیر زیر لب مسکراتی یا زندگی کو چند لمحے محسوس کرنے کی کوشش کرتی تو ایک عظیم ہستی کے جملے اُس کے ذہن میں ٹکڑاتے *ہمیشہ اس فکر میں رہو کہ خدا نے تم سے کوئی بڑا کام لینا ہے، اگر یہ سوچ تمہارے قلب اور ذہن میں رہے گی تو تھکاوٹ، کاہلی اور نکماپن تمہارے قریب نہیں بھٹکے گا، نیز اس بات کا احساس اپنے اندر قوی کر لو کہ تمہیں کوئی دیکھ رہا ہے اور تمہاے ایک ایک لمحے کا مشاہدہ کر رہا ہے*
وہ یہ بات اچھے سے جانتی تھی کہ بغیر ہدف کے زندگی گزارنا موت ہے، بس یہ خیال آتے ہی وہ اپنی حقیقی مادرِ جان جنابِ سیدہ فاطمہ زہراء سلام علیہا کا عطا کردہ انمول تحفہ یعنی سیاہ چادر اٹھاتی اور پھر سے خود کو کسی الہیٰ کام میں مصروف کر لیتی۔ وہ ہمیشہ خود کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتی کہ رب نے یقیناً اُس سے بڑا کام لینا ہے، اسی لیے بچپن میں وہ ایک دفعہ موت کے کنویں سے واپس پلٹ آئی تھی اور جوانی میں بھی ایک بار پھر موت کو بہت قریب سے دیکھا تھا، یقینا یہ رب کی طرف سے اشارہ تھا کہ وہ عام موت نہیں مر سکتی۔ ہر انسان کی زندگی میں کوئی نہ کوئی خوف ہر لمحہ مسلط رہتا ہے، اُسے بس عام موت مرنے سے خوف آتا تھا۔ شہید قائد کا یہ جملہ کہ *شہادت ہمارا ورثہ ہے، جو ہماری ماؤں نے ہمیں دودھ میں پلایا ہے* ہر وقت اس کے ذہن سے ٹکڑاتا اور وہ صدق دل سے رب سے مناجات کرتی کہ رب اُسے جلد قبول کرے اور اُس کے نفس کی بہترین قیمت لگائے۔
عشاق شہداء کی وادی میں قدم رکھنے کے بعد اسے احساس ہوا کہ یہاں معاملہ کتنا سخت ہے۔ حق الناس کے ساتھ ساتھ حق النفس کی طرف بھی ہر لحظہ متوجہ رہنے کی ضرورت ہے۔ ایک شہیدہ کے حوالے سے ملتا ہے کہ وہ اپنی ڈائری کے ہر صفحے پہ لکھا کرتیں تھیں کہ *خدا دیکھ رہا ہے* سننے میں یہ جملہ کتنا مختصر ہے، مگر انسان ہر لمحہ اس جملے کو ذہن میں رکھے تو بہت سے امور کی انجام دہی سے خود کو روک لے۔ وہ جانتی تھی کہ اس وادی عشق میں ایسے ایسے نیک طینیت اور روشن چہروں والے جوان موجود ہیں، جو نہ صرف خدا کے مقربین میں سے ہیں بلکہ خدا اُن کا اس قدر عاشق ہے کہ انہیں اُن کی شہادت کی تاریخ تک سے آگاہ کر رکھا ہے۔
وہ اکثر گھنٹوں سوچتی کہ بہشتِ زہراء کا منظر کتنا پرکیف ہوتا ہوگا، جب شہداء سید الشہداء کے ہمراہ مومنین کی حاجت روائی کرتے ہوں گے اور اس سے بڑھ کر فرزندِ زہراء کی قربت نصیب ہونا کتنا بڑا اعزاز ہے۔ شہادت کے مقام و مرتبے کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔ مقامِ شہادت اللہ کی بارگاہ میں اتنا عظیم اور بلند ہے کہ برزخ میں داخل ہونے سے قبل اس مقام کو درک نہیں کیا جا سکتا۔ شہید مرتضیٰ آوینی کہا کرتے تھے کہ *نمازِ عشق دو رکعت ہے، پہلی رکعت دنیا میں اور دوسری رکعت جنت میں، لیکن اس کے لیے خون سے وضو کرنا پڑتا ہے۔* وہ کئی سالوں سے منتظر ہے کہ اپنے لہو سے نماز عشق ادا کرے اور اپنے حقیقی محبوب سے جاملے، مگر یہ راہ اس قدر آساں نہیں۔
شہداء جہاد اصغر سے قبل جہاد اکبر میں کامیاب ہوئے۔ جہاد اکبر یعنی اپنے نفس سے جہاد کرنا۔ ہم جہاد اصغر کے لیے آمادہ ہیں مگر کوئی بھی جہاد بالنفس کی طرف مائل نہیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب تک اپنے دل کو دنیا کی تمام وابستگیوں سے خالی نہیں کریں گے، اُس وقت تک شہادت جیسی سعادت کو حاصل نہیں کرسکتے۔ عشق حقیقی کی راہ پر گامزن یہ لڑکی نہیں معلوم کب لقائے الہیٰ کا جام پیے، مگر اِس سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ خدا کے لیے جینا خدا کے لیے مرنے سے کہی زیادہ مشکل ہے۔ ہم سب خدا کے لیے مرنے پر تیار ہیں مگر کیا کوئی خدا کے لیے جینے پر بھی آمادہ ہے۔؟
زندگی کا سفر کاٹنا ہے اگر، آگ پر رقص کرنے کا فن سیکھ لو
جسم چاہے جلے، روح پھلے پھولے، جینا چاہو تو مرنے کا فن سیکھ لو
میجر جنرل سلامی نے ایرانی کورونا ویکسین کا پہلا ٹیکہ لگوالیا
اسلامی جمہوریہ ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی نے آج تہران کے تختی اسٹیڈیم میں کورونا ویکسینیشن سینٹر کے دورے کے دوران ایرانی کورونا ویکسین کا پہلا ٹیکہ لگوا لیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق میجر جنرل حسین سلامی نے آج سپاہ کے اعلی کمانڈروں کے ہمراہ تہران میں تختی اسٹیڈيم میں سپاہ کی بری فوج کی طرف سے عوامی ویکسینیشن مرکز کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ عوام ہمارے ولی نعمت ہیں اور ہمارا مقصد یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے جسم و جان میں ہے وہ ہم عوام کی خدمت میں پیش کریں۔ انھوں نے کہا کہ سپاہ کے تمام اہلکار کا کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے اور ویکسین لگوانے کے سلسلے میں وزارت صحت کے عملے کے ساتھ بھر پور تعاون جاری ہے۔
امریکہ عراق اور خطے میں تکفیری دہشت گردوں کو پیشرفتہ ہتھیار فراہم کررہا ہے
عراقی پارلیمنٹ کے نمائندے عدی الخدران نے خطے میں امریکہ کی طرف سے دہشت گردوں کی حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ تکفیری دہشت گردوں کو پیشرفتہ ہتھیار فراہم کررہا ہے۔
عراقی پارلیمنٹ کے نمائندے نے کہا کہ امریکہ نے عراق اور خطے کے اسلامی ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنے اور علاقہ کی جغرافیائی صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کو تشکیل دیا۔ امریکہ تکفیری دہشت گردوں کو پیشرفتہ ہتھیار فراہم کررہا ہے۔ عدی الخدران نے کہا کہ عراق کے بعض صوبوں میں داعش دہشت گردوں کی فعالیت امریکی منصوبے کے مطابق ہے۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تکفیری اور وہابی دہشت گردوں کے پاس پیشرفتہ ہتھیار کہاں سے آرہے ہیں؟۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ آج بھی عراق میں دہشت گردوں کی پشتپناہی اور انھیں پیشرفتہ ہتھیار فراہم کررہا ہے۔
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام
حضرت امام موسیٰ كاظم علیہ السلام ، رسول مقبول حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم كے ساتویں جانشین اور ہمارے ساتویں امام ہیں ۔سلسلہ عصمت كی نویں كڑی ہیں.
آپ کے والد گرامی حضرت امام جعفر صادق علیه السلام اور مادر گرامی حضرت بی بی حمیده خاتون هیں جو مکتب جعفری کے تربیت یافته هونے کے ناطے طهارت باطنی اور پاکیزگی روح کے اعلا درجات تک پهنچ گئی تھیں که امام جعفر صادق علیه السلام نے ان کے بارے میں فرمایا : «حمیدة مصفاة من الادناس کسبیکة الذهب ما زالت الاملاک تحرسها حتی ادیت الی کرامة من الله لی والحجة من بعدی » . [1]
حمیده خالص سونے کی مانند آلودگیوں سے پاک هیں مجھ تک پهنچنے تک فرشتے همیشه ان کی حفاظت کرتے تھے یه الله کی کرم هے مجھ پر اور میرے بعد والی حجت پر .
امام محمد باقر علیہ السلام جناب حمیدہ خاتون كے متعلق ارشاد فرماتے ہیں: آپ دنیا میں حمیدہ اور آخرت میں محمودہ ہیں ۔
ولادت با سعادت :
ابوبصیر کهتا هے که هم حضرت امام صادق علیه السلام کے ساتھ حج په جا رهے تھے جب ابواء کے مقام پر پهنچے تو آپ نے همارے لئے ناشتے کا اهتمام کیا هم ناشته کرنے میں مصروف تھے اتنے میں حضرت امام صادق علیه السلام کی زوجه کی طرف سے ایک شخص خبر لے کرآیا که ان کی حالت خراب هو گئی هے اور درد زه شروع هو چکا هے چونکه آپ نے فرمایا تھا جلدی اس بارے میں خبر دوں اس لئے حاضر هوا هوں.آپ علیه السلام اسی وقت کھڑے هو گئے اور اس شخص کے ساتھ زوجه کے پاس چلے گئے تھوڑی دیر بعد واپس آگئے آپ کو شاد مان دیکھ کر هم نے مبارکباد کها اور زوجه کی صحت کے بارے میں پوچھا تو فرمایا : الله تعالی نے حمیده کو سلامتی عطا کی هے اور مجھے ایک بیٹا دیا هے جو مخلوقات میں سب سے بهتر هے میری زوجه نے اس بچه کے بارے میں ایک مطلب مجھے بیان کیا اور گمان کررهی تھی که مجھے معلوم نهیں هے لیکن میں اس بارے میں ان سے زیاده جانتا هوں.
میں (ابو بصیر) نے اس مطلب کے بارے میں پوچھا تو فرمایا :" حمیده کهه رهی تھی که جب یه بچه پیدا هوا تو هاتھوں کو زمین پر رکھا اور سر آسمان کی طرف بلند کیا " تو میں نے حمیده سے کها یه رسول خدا (ص) اور آپ کے بعد والے وصی کی نشانی هے .[2]
اس طرح حضرت ابو الحسن موسی کاظم علیه السلام هفتم صفر المظفر سنه 128ھ (بمطابق ۱۰نومبر ۷۴۵ء) بروز هفته سر زمین ابواء (مکه اور مدینه کے درمیان ) میں پیدا هوئے .[3] ولادت كے فوراً بعد ہی آپ نے اپنے ہاتھوں كو زمین پر ٹیك كر آسمان كی طرف رخ كركے كلمہ شہادتین زبان پر جاری فرمایا۔ یہ عمل آپ نے بالكل اسی طرح انجام دیا جس طرح آپ (ع) كے جد بزرگوار حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انجام دیا تھا۔آپ كے داہنے بازو پر یہ كلمہ ” تمت كلمۃ ربك صدقا وعدلا “ لكھا ہوا تھا۔
حضرت امام موسی بن جعفر علیه السلام کے القاب :
آپ کا نام موسی کنیت :ابو الحسن اول، ابو الحسن ماضی، ابو ابراهیم، ابو علی، ابو اسماعیل اورآپ کے القاب :کاظم، عبدصالح، نفس زکیه، زین المجتهدین، وفی، صابر، امین اور زاهر هے. ابن شهرآشوب کهتے هیں :چونکه آپ اخلاق کریمه کے ساتھ چمک گئے اس لئے «زاهر» اور چونکه غصوں کو پی لیتے تھے اس لئے «کاظم » مشهور هو گئے .[4]
ولادت سے امامت تک :
حضرت امام موسی کاظم علیه السلام اپنے اجداد طاهرین کے مانند ولادت کے وقت سے هی خاندان اهلبیت (علیهم السلام ) میں ایک خورشید تابنده کی طرح چمک رهے تھےدوران بچگی سے هی آثار امامت آپ میں نمایاں تھیں حضرت امام جعفر صادق علیه السلام نے آپ کی ولادت کے بعد شیعوں کو حضرت امام موسی کاظم علیه السلام کی امامت کے متعلق آگاه فرمایا اور اس طرح فرمایا : «فعلقوا بابنی هذا المولود... فهو والله صاحبکم من بعدی ».میرے اس فرزند کے ساتھ لٹک جاو ...الله کی قسم یه میرے بعد تمهارے صاحب (امام )هیں. [5]
یعقوب بن سراج کهتا هے که "- ایک مرتبه -میں حضرت امام جعفر صادق علیه السلام کے پاس گیا تو دیکھا که آپ اپنے فرزند موسی کے گهوارے کے پاس کھڑے هیں اور آپ کا فرزند گهواره میں هے امام علیه السلام نے تھوڑی دیر ان کے ساتھ راز وگفتگوکی اور گفتگو تمام هونے کے بعد میں قریب گیا تو مجھ سے فرمایا : اپنے مولا کے پاس جا کر سلام کرو . میں نےگهواره کے نزدیک جا کر سلام کیا تو موسی بن جعفر علیه السلام نے جبکه گهوارے میں تھا اچھےانداز میں میرے سلام کا جواب دیا اور فرمایا " جا کر اپنی بیٹی کیلئے کل جو نام (حمیرا )انتخاب کیا هےتبدیل کرو پھر میرے پاس آجاؤ چونکه الله تعالی ایسا نام پسند نهیں کرتا "تو میں جاکر ان کا نام تبدیل کر دیا .[6]
حضرت امام موسی کاظم اهلسنت علماء کی نظر میں:
إبن حجر الهیتمی، الصواعق المحرقة میں کهتا هے: امام موسی کاظم علیہ السلام اپنے زمانے کے لوگوں میں بہت بڑے عابد تھے [7] أبو الفرج کهتا هے : ان کی عبادت ان کی کوشش ان کی محنت کی وجہ سے ان کو (عبد صالح ) کہا جاتا تھا ۔ [8]
ذھبی لکھتا ہے : « قد کان موسی من أجواد الحکماء و من العباد الأتقیاء» (حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سخاوت مند حکماء اور خدا کے پرہیزگار بندوں میں سے تھے) ۔ [9] تاریخ یعقوبی میں آیا ہے :« کان موسی بن جعفر من اشد الناس عبادة »
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اپنے زمانے کے عابد ترین شخص تھے ۔[10]
جمال الدین محمد بن طلحہ شافعی (مطالب السوال) کتاب میں اس طرح لکھتے ہیں : ان کی عبادت مشهور اور خدا کی اطاعت و عبادت میں محتاط اور ملازم تھے ۔ شب کو سجدے میں اور صبح کو قیام کی صورت مین گزارتے تھے روز کو صدقہ اور روزے سے تمام کرتے تھے ۔ [11]
شفیق بلخی کہتا ہے : سنه ۱۴۹ ھ قمری میں حج کے انجام کے لئے نکلا اور قادسیہ پہنچا وہاں میں نے بہت بڑی جمعیت کو دیکھا جو حج انجام دینے کے لئے جانے کو آمادہ تھے جس میں ایک خوبصورت گندمی رنگ کے جوان کو دیکھا جو کمزور تھا اپنے لباس کے اوپر پشمی لباس پہنے ہوئے تھا اور اپنے پاؤں میں نعلین پہنے کنارے بیٹھا ہوا تھا میں نے اپنے آپ سے کہا یہ جوان صوفیوں میں سے ہے وہ چاہتا هے کہ لوگ راستہ بھر اس کو اپنے سر پر بٹھاے رہیں ۔
اس کے نزدیک گیا جیسے ہی اس کی نگاہ مجھ پر پڑی انھوں نے فرمایا کہ «شقیق! اجْتَنِبُوا کَثِیراً مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ» مجھ کو وہیں پر چھوڑ دیا اور اپنے راستے پر چلنے لگے ، اپنے راستے ہو لئے میں نے اپنے آپ سے کہا یہ بہت بڑی بات ہے اتنا بڑا کام انجام دیا وہ میرے دل کے اندر کی خبر دے رہا ہے اور میرا نام بھی جانتا ہے یہ بہت ہی نیک اور صالح ، خدا کا بندہ ہے میں خود اس کے پاس پہنچوں گا اور اس سے عذر خواهی کروں گا جتنی بھی جلدی کر سکا کہ ان تک پہنچ جاؤں مگر نہیں پہنچ سکا وہ میری نظروں سے غائب ہو گئے تھے ۔ جب میں واقصہ پہنچا تو دیکھا وہ نماز پڑھنے میں مشغول ہیں ان کے جسم کے تمام اعضاء و جوارح لرز رہے تھے اور آنکھوں سے اشک جاری تھا ۔ میں نے خود سے کہا یہ وہی شخص ہے میں جاتا ہوں اور ان سے معافی مانگتا ہوں ۔ میں کھڑا رہا تاکہ ان کی نماز تمام ہو جائے میں ان کی طرف گیا ۔ جیسے ہی انھوں نے مجھے دیکھا فرمانے لگے شفیق ! اس آیت کو پڑھو: وَ إِنِّی لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَ آمَنَ وَ عَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى» پھر مجھے چھوڑ کر وہ اپنے راستے ہو لئے ۔
میں نے اپنے آپ سے کہا یہ جوان کوئی بہت بزرگ اور صوفی ہے ۔ یہ دوسری مرتبہ ہے کہ اس نے میرے دل کے اندر کی خبر دی ہے ۔ جب منزل زبالہ پہنچے ، تو دیکھا کہ کنواں کے کنارے ہاتھ میں کوزہ لئے کھڑے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ کنویں سے پانی نکالیں ۔ کوزہ ہاتھ سے چھوٹ کر کنویں میں گر جاتا ہے وہ حضرت آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہتے ہیں :
انت ربى اذا ظمئت الى الماء و قوتى اذا اردت الطعاما انت
خدایا اس کوزے کے علاوہ میرے پاس کوزہ نہیں ہے اس کو میرے پاس واپس کر دے ۔
اس وقت میں نے دیکھا کنویں کا پانی اوپر آیا ہاتھ بڑھا کر کوزے کو پانی سے بھر کر باهر نکالا ۔ وضو کیا اور چار رکعت نماز پڑھی ۔ اس کے بعد ریت کے ٹیلے کے پیچھے گئے ، اور اس ریت کو ہاتھوں سے کوزے میں ڈالا اور کوزے کو ہلا کر پی جاتے تھے ۔ میں ان کے پاس گیا اور سلام عرض کی انھوں نے میرے سلام کا جواب دیا ۔ میں نے ان کی خدمت میں عرض کی خدا نے جو آپ کو زیادہ غذا عنایت کی ہے مجھ کو بھی اس سے مستفید فرمائیں ۔ انھوں نے فرمایا : شفیق مسلسل خدا کے ظاهری و باطنی نعمتیں ہمارے شامل حال ہیں ۔ خدا کے لئے حسن ظن رکھو کوزے میری طرف بڑھایا میں نے کوزے کاپانی پیا دیکھا اس میں خوشبو دار میٹھا شربت ہے ۔ خدا کی قسم میں نے کبھی اس سے لذیذ اور خوشبوتر نہیں کھایا تھا اور نہں پیا تھا ۔ سیر بھی ہو گیا اور پیاس بھی ختم ہو گئی ۔ یہاں تک کہ کچھ روز تک بھوک ہی نہیں لگی اور نہ پانی پینے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ اس کے بعد ان کو نہیں دیکھا یہاں تک کہ مکہ پہنچ گیا ۔ اتفاق سے ایک رات میں نے ان کو دیکھا آدھی رات ہے اور وہ نماز پڑھنے میں مشغول ہیں ۔ اور تمام خشوع و خضوع کے ساتھ آنکھوں سے آنسو جاری ہے ۔ اس طرح وہ صبح تک تھے ۔ یہاں تک کہ اذان صبح ہوئی ، اور نماز کے لئے بیٹھے اور تسبیح خدا کرنی شروع کر دی اس کے بعد اپنی جگہ سے اٹھے اور نماز صبح پڑھی ۔ سات مرتبہ خانہ خدا کا طواف کیا اور مسجد حرام کی طرف سے باهر چلے گئے ۔ میں ان کے آگے بڑھا ۔ تو دیکھا کہ ضرورت مند اور محتاج ان کے پاس حلقہ کئے ہوئے جمع ہیں ۔ اور بہت سارے غلام ان کی خدمت میں تیار ہیں ۔ اور ان کے حکم کے منتظر ہیں ۔ ان تمام چیزوں کو اس کے خلاف دیکھ رہا ہوں جو پہلے دیکھ چکا تھا ۔ نزدیک اور دور سے لوگ پہنچ کر ان کو سلام کر رہے ہیں ۔ ایک آدمی جو ان سے بہت قریب تھا میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں اس نے کہا : یہ موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی ابن ابی طالب علیہم السلام ہیں ۔ تب میں نے کہا : تب تو اس طرح کے تعجب اور حیرت انگیز کام ان بزرگوار سے ہی ہونگے ۔ [12]
[1] -) اصول کافی، ج 1 ص 477.
[2] - اصول کافی، ج 1 ص 385، حدیث 1، باب موالید ائمه و المحاسن ص 314.
[3] - 129 هجری بھی نقل هوا هے کافی ج 1 ص 476، بحار الانوار ج 48 ص 2، ارشاد مفید ص 269، کشف الغمه ج 2، ص 212 و اعلام الوری ص 286، و 310،
[4] - مناقب ابن شهرآشوب، ج 2 ص 382، کشف الغمة، ج 2 ص 212، الارشاد مفید ص 270 و فصول المهمة، ص 214.
[5] - محاسن برقی، ج 2، ص 314.
[6] - اصول کافی، ج 1، ص 310.
[7] - ابو عباس أحمد بن محمد بن محمد بن علی إبن حجر الهیتمی؛ الصواعق المحرقة، ج2، ص590-593؛ تحقیق : عبدالرحمن بن عبدالله الترکی وکامل محمد الخراط ، مؤسسة الرسالة – بیروت، اول ، 1997م.
[8] - عبد الرحمن بن علی بن محمد أبو الفرج؛ صفة الصفوة؛ تحقیق : محمود فاخوری - د.محمد رواس قلعه جی، دار المعرفة – بیروت ، دوم ، 1399ق – 1979م.
[9] - ذهبی؛ میزان الاعتدال ، ج 4 ، ص 204؛ بیروت ، دار المعرفة ، { بی تا }.
[10] - احمد بن ابی یعقوب ؛ تاریخ الیعقوبی ، ج2 ، ص414 ، قم ، مؤسسه و نشر فرهنگ اهلبیت .
[11] - نقل از مسند الامام الکاظم ، ج1، ص 6 . عطاردی ، عزیز الله ، مسند الامام الکاظم ، اول ، مشهد ، 1409ق .
[12] - عبد الرحمن بن علی بن محمد أبو الفرج؛ صفة الصفوة؛ تحقیق : محمود فاخوری - د.محمد رواس قلعه جی، دار المعرفة – بیروت
تحریر :مصطفی علی فخری
اقوال حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
(۱)
” قال الامام موسیٰ الکاظم علیه السلام:لیس منا من لم یحاسب نفسه کل یوم “ ( ۱)
ترجمہ:
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں :
” جو شخص ھر روز اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرے وہ ھم میںسے نھیں ھے “۔
(۲)
قال الامام موسیٰ الکاظم علیه السلام:” ایاک ان تمنع فی طاعت الله، فتنفق مثلیه فی معصیة الله “(۲)
ترجمہ ۔
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں :
” اطاعت خدا میں مال خرچ کرنے سے پرھیز نہ کرو ، ورنہ دو برابر خدا کی معصیت میں خرچ ھو جائے گا “۔
(۳)
قال الامام موسیٰ الکاظم علیه السلام:” ان الزرع ینبت فی السهل و لا ینبت فی الصفا فکذالک الحکمة تعمر فی قلب المتواضع و لا تعمر فی قلب المتکبر الجبار !“ (۳)
ترجمہ ۔
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں :
” جس طریقے سے زراعت نرم زمین میں ھوتی ھے نہ کہ سخت زمین میں، اسی طرح سے علم و حکمت متواضع انسان کے دل میں پروان چڑھتے ھیںنہ کہ متکبر و جبار کے “۔
(۴)
قال الامام موسیٰ الکاظم علیه السلام:الموٴمن مثل کفتی المیزان کلما زید فی ایمانه زید فی بلائه “(۴)
ترجمہ:
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں :
” مومن ترازو کے دو پلڑوں کے مانند ھے جتنا ایمان میں اضافہ ھو گا اتنا بلا و مصیبت میں بھی اضافہ ھو گا “۔
(۵)
قال الامام موسیٰ الکاظم علیه السلام:المصیبة للصابر واحدة و للجازع اثنتان “(۵)
ترجمہ ۔
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں :
”صبر کرنے والوں کے لئے ایک مصیبت ھے لیکن جزع وفزع کرنے والوں کے لئے دو مصیبتیں ھیں “۔
حوالہ:
۱۔اقوال الائمہ ج۱ ص۲۱۶
۲۔ تحف العقول ص ۳۰۵
۳۔تحف العقول ص ۲۹۶
۴۔ تحف العقول ص۸۴۴
۵۔ تحف العقول ص ۷۵۴
- مؤلف:
- FAZAELHADIS.BLOGSPOT
نائجیریا کی عدالت نے شیخ ابراہیم زکزاکی اور ان کی ہمسر کو باعزت بری کردیا
نائیجریا کے عدالت عظمیٰ نے نائجیریا کی اسلامی تحریک کے سربراہ شیخ ابراہیم زکزاکی اور انکی اہلیہ زینب کو 6 سال کی سخت ترین اسیری کے بعد آج تمام مقدمات باعزت بری کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
یاد رہے کہ نائجیریا کی حکومت شیخ زکزاکی کے 6 بیٹوں سمیت سینکڑوں شیعوں کو شہید کرچکی ہے۔ واضح رہے کہ شیخ زکزاکی کی صاحبزادی سہیلہ زکزاکی نے اس سے قبل مہر خبررساں ایجنسی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اپنے والدین کی آزادی کے بارے میں امید کا اظہار کیا تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی : اس حکومت میں ، یہ بات واضح ہوگئی کہ امریکہ اور مغربی ممالک پر اعتماد کا کوئی فائدہ نہیں
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران کے صدرحسن روحانی اور ان کی کابینہ کے اراکین کے ساتھ آخری ملاقات میں فرمایا: اس حکومت میں ، یہ بات واضح ہوگئی کہ امریکہ اور مغربی ممالک پر اعتماد کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عید سعید غدیر کی مناسبت سے تمام مسلمانوں اور خاص طور پر ایرانی عوام کو مبارکباد پیش کی اور عوامی خدمت کو اللہ تعالی کی نعمت قراردیتے ہوئے فرمایا: اس نعمت کا شکر ادا کرنے اور انقلاب اسلامی کے اہداف تک پہنچنے کے لئے اپنی تمام توانائیوں اور صلاحیتوں سے استفادہ کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے واقعہ غدیر کو اسلام کے مسلّم اور ناقابل انکار واقعات میں قراردیتے ہوئے فرمایا: غدیر خم کے واقعہ کو شیعہ اور سنی علماء نے 110 صحابہ اور معتبر اسلامی اسناد کے حوالے سے نقل کیا ہے اور اہلسنت کے بعض بزرگ علماء نے بھی اس واقعہ کو اسلام کا اہم اور تارخی واقعہ قراردیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بارہویں حکومت کے بعض اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: حکومت کے بعض اقدامات توقعات کے مطابق تھے لیکن بعض اقدامات توقعات کے مطابق نہیں تھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گیارہویں اور بارہویں حکومتوں کے تجربات کو تیرہویں حکومت کے لئے اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: ایک اہم تجربہ جو اس حکومت میں حاصل ہوا ہے وہ یہ ہے کہ مغربی ممالک پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے کیونکہ مغربی ممالک ناقابل اعتماد ہیں وہ اپنے اہداف کی تلاش وکوشش میں ہیں اور ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی تلاش و کوشش کرنی چاہیے۔ امریکہ اور مغربی ممالک پر بالکل اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ملک کے اندرونی منصوبوں کو مغربی ممالک کے منصوبوں سے منسلک نہیں کرنا چاہیے جہاں ہم نے کام خود انجام دیا وہاں ہم کامیاب ہوئے اور جہاں ہم نے کام کو امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ ملکر شروع کرنے کی کوشش کی ، وہاں ہمیں شکست اور ناکامی کا سامنا ہوا، لہذا تجربات کی روشنی مغربی ممالک پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ امریکہ آج بھی مذاکرات میں مستقبل میں معاہدے کو نقض نہ کرنے کی ضمانت دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ امریکہ کی خباثت کا سلسلہ جاری ہے اور وہ عالمی قوانین اور معاہدوں کو توڑنے میں شرم محسوس نہیں کرتا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر کابینہ کے ارکان کو مخاطب کرتے ہوئےفرمایا: اللہ تعالی مدد فرمائے جہاں بھی آپ رہیں اپنی دینی اور انقلابی ذمہ داریوں پر عمل کرتے رہیں ۔
عید غدیر خم اور ہم
فاران؛ ہر قوم اور ہر مذہب میں ایک ایسا بڑا دن ضرور ہوتا ہے جو کسی بڑے واقعہ کی یادگار قرار پاتا ہے اس دن خاص پروگرام ہوتے ہیں ،ایسے دن کی تجلیل و ہر قوم و مذہب میں ہوتی ہے جس کے ذریعہ کسی قوم و مذہب کی تاریخ میں ایک بڑا فیصلہ کن موڑ آیا ہو دین اسلام میں بھی ایسے بہت سے یادگار واقعات ہیں جن میں یا تو کسی خاص سبب اللہ نے انہیں عید قرار دیتے ہوئے اس میں خوشی منانے اور مخصوص عبادتوں کو انجام دینے کا حکم دیا ہے یا پھر خود پروردگار نے انعام و اکرام کے طور پر اسے عید قرار دیا ہے جیسے عید سعید فطر رب العزت کی طرف سے اپنے ان بندوں کو ایک تحفہ ہے جنہوں نے پورے ایک مہینہ اللہ کی عبادت و بندگی میں گزارا اسی طرح اگر بڑے واقعہ کی مناسبت کو دیکھا جائے تو عید قربان کو عید قرار دیا گیا ہے چنانچہ روایات میں ایسے بڑے ایام اور یادگار دنوں کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے جو کسی نہ کسی سبب مالک حقیقی کے نزدیک پسندیدہ ہیں حتی ان ایام کے بارے میں ہے کہ یہ خدا کے حضور روز قیامت ویسے ہی جائیں گے جیسے عروس نو حجلہ عروسی کی طرف جاتی ہے [۱]لیکن اسلام میں جو مرتبہ عید غدیر کو حاصل ہے وہ کسی کو حاصل نہیں اور چونکہ اس دن حضور سرورکائنات نے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امیر المومنین علیہ السلام کو اپنا جانشین و خلیفہ مقرر کیا تھا جسکی بنیاد پر اسلام ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گیا اسی سبب اس دن کو عید قرار دیا گیا[۲] بلکہ یہ عید سب سے بڑی عید ہے اور روایات میں اس دن کو عید اکبر[۳] کہا گیا ہے اور سب سے افضل عید [۴]کے طور پر پہچنوایا گیا ہے لہذا ضروری ہے کہ اس عید کی فضیلت کو سمجھتے ہوئے یہ دیکھا جائے کہ اس عید میں ہمیں کیا کرنا چاہیے تاکہ اس عید کی عظمت کے ادراک کے ساتھ ساتھ ہم وہ سب کر سکیں جس کا اس دن ہم سے مطالبہ و تقاضا کیا گیا ہے۔
خوشی و مسرت کے ساتھ حمد و شکر الہی بجا لانے کا دن :
یہ وہ دن ہے جب ہم سے مطالبہ کیا گیا کہ خوش رہیں اور خوشی کا اظہار کریں[۵] ایک دوسرے کے ساتھ خوشیاں بانٹیں کہ پروردگار نے ہمارے اوپر احسان کیا اور نعمت ولایت کو ہمیں عطا کیا ۔ عید غدیر اتنی بڑی عید ہے کہ پروردگار کی خاص طور پر حمد بجا لانے کی روایات میں تاکید کی گئی ہے اور اسکا شکر ادا کرنے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ یقینا اگر اس نے ہمیں اس ولایت کی عظیم نعمت سے نہ نوازا ہوتا تو ہم کہاں ہوتے نہیں معلوم کس راہ پر چل رہے ہوتے کچھ پتہ نہیں اس لئے یہ دن خاص کر شکر و حمد الہی بجا لانے کا دن ہے اور شکر و حمد الہی کا ایک طریقہ روزہ رکھنا ہے جس کی اس دن بہت تاکید کی گئی ہے [۶]۔
روزہ رکھنا وہ عمل ہے جس کے لئے صرف ہم سے ہی مطالبہ نہیں ہے بلکہ انبیاء کرام و اصیاء الہی بھی اس دن روزہ رکھا کرتے تھے [۷]یہ دن انکے عمل کی تاسسی کا دن بھی ہے اسلئے کہ یہ دن ان کے لئے بھی عید کا دن تھا ۔
آسمانی عید :
یہ وہ عید ہے جس کے لئے روایات میں ملتا ہے کہ زمین سے زیادہ آسمانوں میں اس کی بات ہے[۸] یہ عید زمین پر بھلے ہی مظلوم واقع ہو لیکن آسمانوں پر اس کی شہرت کہیں زیادہ ہے، اور آسمانوں میں زمین سے زیادہ اسکی اہمیت کا ہونا اس بات کو بیان کرنے کے لئیے کافی ہے کہ اس آسمانی عید کو چھوٹے چھوٹے مسائل میں گھیر کر چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہرگز قربان نہیں کرنا چاہیے ۔
عہد و پیمان کی عید :
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں یہ عید اتنی بڑی عید ہے کہ اس میں گشایش و وسعت حاصل ہوئی، منزلت کو اوج ملی خدا کی حجتیں روشن اور اس کے براہین و واضح ہو گئے یہ وہ دن ہے جب دین الہی کامل ہوا یہ دن عہد و پیمان کا دن ہے [۹]۔
تابندہ و روشن اور بابرکت عید :
روز غدیر عید فطر و عید اضحی و جمعہ کے دن ایسے ہی ہے جیسے ستاروں کے دیگر کواکب کے درمیان درخشاں چاند [۱۰] اتنا ہی نہیں اس دن کی اتنی فضیلت ہے کہ روایتوں کے بموجب اگر ہم اس کی اہمیت کو سمجھ لیتے تو دن میں دس بار ملائک ہم سے مصافحہ کرتے [۱۱] یعنی اس دن کی فضیلت کو سمجھنے کی بنا پر ہمارے وجود میں اتنا نکھار آ جاتا کہ ملائک بھی ہم سے مصافحہ کے خواہش مند ہوتے یہ عید اس قدر برکت کی حامل ہے کہ اس میں مومنین کی تنگیاں دور ہوتی ہیں ان کے امور حل ہوتے ہیں معاملات میں گشایش حاصل ہوتی ہے لہذا اس عید کی برکتوں کے حصول کے لءے ضروری ہے کہ اپنے ظرف وجودی کو اتنا وسیع بنائیں کہ اس کی برکات سے بھرپور استفادہ کیا جا سکے خاص کر ضروری ہے کہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ اس دن سختی و تنگی کے ساتھ پیش نہ آئیں تاکہ خدا بھی ہمارے ساتھ وسعت و بخشش سے پیش آئے اور یہ وہ مسئلہ ہے جس کے لئیے ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس د ن اپنے اہل و عیال کے ساتھ فراخ دلی سے پیش آو [۱۲] اس دن کی برکتوں ہی کے پیش نظر کھانا کھلانے اور دوسروں کو ہدیہ و تحفہ و تحائف دینے کی تاکید کی گئی ہے[۱۳] ایک دوسرے کی دیکھ بھال اور مومنین کی کفالت کا بھی اس دن سے گہرا تعلق ہے لہذا کوشش کرنا چاہیے کہ اس دن کسی تنگدست کا ہاتھ تھام لیا جائے کسی کی کفالت کر لی جائے[۱۴] کہ عید اکبر سے بڑھ کر اور کونسا دن لوگوں کی امداد رسی کے لئیے بہتر ہوگا کہ اس دن ایک درہم اگر اللہ کی راہ میں دیا جائے تو وہ ہزارکے برابر ہے [۱۵]۔
اپنے امام سے تجدید بیعت کا دن :
چونکہ اس عید کو تجدید بیعت و عہد کے طور پر بھی بیان کیا گیا ہے[۱۶] لہذا ضروری ہے تمام شیعان حیدر کرار اس عظیم دن جمع ہو کر اپنے آقا و مولا کے حضور تجدید بیعت کریں اور عہد کریں کہ اسی راہ پر زندگی گزاریں گے جو مولا کا راستہ ہے اور اسی راہ پر چلیں گے جسے راہ علوی کہا جاتا ہے اب یہ ہر ایک مومن کے اوپر ہے کہ وہ اپنے مولا سے کیا عہد و پیمان کرتا ہے ، زندگی کی کامیابی سے لیکر قوم و معاشرہ کی ترقی میں حصہ لینے اور بے نقص و عیب زندگی گزارنے تک کا عہد ہم اپنے مولا سے اس دن کر سکتے ہیں اور یقینا اگر ہم نے یہ عیدا کیا تو ہمارے مولا ہمیں تنہا نہیں چھوڑیں گے بلکہ ہر اس جگہ ہمارا ہاتھ تھامیں گے جہاں ہمارے پیروں میں لغزش ہو۔ راہ مولا پر چلنے کے لئے ضروری ہے کہ کمزور وضعیف طبقہ کو تنہا نہ چھوڑا جائے اور ان لوگوں پر توجہ دی جائے جو کسی بھی سبب معاشرہ میں تنہا پڑ گئے ہیں اور ضعیف و ناتواں ہیں اور شاید اسی لئیے اس دن سب سے مسکرا کر ملنے سلام کرنے اور فقیروں کی ضرورت کو پورا کرنے اور ایک دوسرے کو ہدیہ دینے پر زور دیا گیا ہے [۱۷] تجدید عہد کو یاد گار بنانے کے لئے ہی شاید یہ اہتمام بھی کیا گیا ہے کہ جب مومنین ایک دوسرے سے ملیں تو ایک دوسرے کو تہنیت و مبارکباد پیش کریں [۱۸]تاکہ جب وہ مبارکباد پیش کریں تو ان کے ذہن میں رہے کہ جس ولایت کا ہم جشن منا رہے ہیں اور اسکی تہنیت و مبارکباد پیش کر رہے ہیں اس کے ہم سے تقاضے کیا ہیں ۔
ایک دوسرے سے ملاقات اور مبارکباد دینے کا دن :
یوں تو اسلام کے اکثر و بیشتر اراکین و اعمال میں اجتماعی پہلو غالب ہے وہ نماز جماعت ہو کہ نماز جمعہ مسجد میں نماز کی فضیلت ہو کہ حج کی نورانی فضا ہر ایک جگہ خاص اہتمام ہے کہ مومنین ایک دوسرے سے ملیں اسی طرح مختلف اعیاد میں بھی ایک دوسرے سے ملاقات کو مطلوب و مناسب قرار دیا گیا ہے لیکن عید غدیر میں یہ ایک خاص اہتمام ہے کہ ایک دوسرے سے متبسم ہو کر ملنا خندہ روئی کے ساتھ گلے لگنا اور عید کی مبارک باد دینا اس دن بہت اہم جانا گیا [۱۹] بلکہ خاص کر اس دن کو یوم تبسم قرار دیا گیا ہے [۲۰] مومن کا ایک دوسرے سے ملنا اتنا فضیلت کا حامل ہے حدیث میں ہے کہ ایک مومن اگر اس دن کسی مومن کے گھر جاتا ہے تو خدا ستر انوار سے اسکی قبر کو منور کرےگا ۔ نماز روزہ اور نیکیوں کے ذریعہ قرب الہی کو حاصل کرنے کا دن قرار دے [۲۱]کر روایات نے ہمیں اس کی عظمت و فضیلت کی طرف متوجہ کیا ہے ۔
عید غدیر پر ہماری بڑی ذمہ داری :
یقینا عید غدیر کے تمام اعمال و تمام تر عبادتیں بہت اہم ہیں جنہیں ہم سب کے لئیے بجا لانا اس لئیے ضروری ہے کہ آج ہمارے پاس جو کچھ بھی دولت ایمان ہے جو کچھ بھی شعور انسانیت ہے زندہ احساس ہے سب غدیر کے طفیل ہے ایسے میں ان عبادتوں کے ساتھ ساتھ غدیر کا تقاضا ہے کہ عالم اسلام میں رونما ہونے والے واقعات کے سلسلہ سے ہم اپنی ذمہ داری کو پہچانیں اور جہاں کہیں بھی مسلمانوں کو ستایا جا رہا ہے ان پر ظلم ہو رہا ہے ہم اسکی مخالفت کریں اور مظلوموں کا ساتھ دیں آج یمن کے جو حالات ہیں جس طرح معصوم بچوں کو وہاں پر بڑی طاقتوں کی ایماء پر کچھ مسلمان حکومتیں نشانہ بنا رہی ہیں یہ سب وہ باتیں ہیں جنکے بارے میں ہمیں اپنی ذمہ داری سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں ؟ میانمار کے روہنگیائی مسلمانوں کے جو حالات ہیں وہ سب ہم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ کوئی تو آگے بڑھے جو انکے مسائل کی چارہ جوئی کرے ۔ سوشل میڈیا پر اپنے اپنے طریقہ سے دنیا میں ہونے والے ظلم کے خلاف لوگوں کو متحد کریں اور جہاں لوگ پریشانیوں میں گھر ے ہیں ان سب کی امداد کے سلسلہ سے ایک بیدای کی مہم چلائیں ،ہندوستان جیسے ملک میں تمام ہی ادیان و مذاہب کے صلح پسند افراد کے ساتھ مل کر دنیا کے ظالمین کے خلاف خاص کر یمن پر مسلسل بم برسانے والے بہروپیوں کے خلاف احتجاج کریں کہ یہ غدیر کا ہم سے اولین مطالبہ ہے ۔ انشاء اللہ عید اکبر کے جشن کے ساتھ ساتھ ہم دیگر اعمال و عبادتوں کی انجام دہی کے ہمراہ دنیا کے مظلوم مسلمانوں اور یمن کے معصوم بچوں اور غزہ کے محصور باشندوں کو فراموش نہیں کریں گے ۔
حواشی :
[۱] ۔ قال ابو عبد الله (ع) :اذا کان يوم القيامة زفت اربعة يام الى الله عز و جل کما تزف العروس الى خدرها :يوم الفطر و يوم الاضحى و يوم الجمعةو يوم غدير خم . ( اقبال سيد بن طاووس : .۴۶۶ )
[۲] ۔ روى زياد بن محمد قال :دخلت على ابى عبد الله (ع) فقلت :للمسلمين عيد غير يوم الجمعة والفطر والاضحى ؟
قال : نعم ، اليوم الذى نصب فيه رسول الله (ص) اميرالمؤمنين (ع) . مصباح المتهجد : .۷۳۶، قيل لابى عبد الله (ع)
للمؤمنين من الاعياد غير العيدين و الجمعة ؟قال : نعم لهم ما هو اعظم من هذا ، يوم اقيم اميرالمؤمنين (ع) فعقد له رسول الله الولية فى اعناق الرجال والنساء بغدير خم . ( وسائل الشيعه ، ۷: ۳۲۵، ح .۵ )
[۳] ۔عن الصادق(ع) قال: هو عيد الله الاکبر،و ما بعث الله نبيا الا و تعيد فى هذا اليوم و عرف حرمته و اسمه فى السماء يوم العهد المعهود و فى الارض يوم الميثاق الماخوذ و الجمع المشهود. وسائل الشيعه، ۵: ۲۲۴، ح ۱٫
[۴] ۔ يوم غدير خم افضل اعياد امتى و هو اليوم الذى امرنى الله تعالى ذکره فيه بنصب اخى على بن ابى طالب علما لامتى، يهتدون به من بعدى و هو اليوم الذى کمل الله فيه الدين و اتم على امتى فيه النعمة و رضى لهم الاسلام دينا . ( امالى صدوق : ۱۲۵، ح .۸ )
[۵] قال ابو عبد الله (ع) :انه يوم عيد و فرح و سرورو يوم صوم شکرا لله تعالى . ( وسائل الشيعه ۷: ۳۲۶، ح .۱۰ )
[۶] ۔ قال ابو عبد الله (ع) :… هو يوم عبادة و صلوة و شکر لله و حمد له ، و سرور لما من الله به عليکم من ولايتنا ، و انى احب لکم ان تصوموه . ( وسائل الشيعه ۷: ۳۲۸، ح .۱۳ )
[۷] ۔ … تذکرون الله عز ذکره فيه بالصيام والعبادة و الذکر لمحمد و آل محمد ، فان رسول الله (ص) اوصى اميرالمؤمنين ان يتخذ ذلک اليوم عيدا ، و کذلک کانت الانبياء تفعل ، کانوا يوصون أوصيائهم بذلک فيتخذونه عيدا . ( وسائل الشيعه ۷: ۳۲۷، ح .۱ )
[۸] ۔ قال الرضا (ع) : حدثنى ابى ، عن ابيه (ع) قال : إن يوم الغدير فى السماء اشهر منه فى الارض . ( مصباح المتهجد : .۷۳۷ )
[۹] ۔ امام على (ع) :إن هذا يوم عظيم الشأن ، فيه وقع الفرج ، ورفعت الدرج و وضحت الحجج و هو يوم اليضاح والافصاح من المقام الصراح ، ويوم کمال الدين و يوم العهد المعهود … ( بحارالانوار ، ۹۷: .۱۱۶ )
[۱۰] ۔ قال ابو عبد الله (ع) :… و يوم غدير بين الفطر والاضحى و يوم الجمعة کالقمر بين الکوکب . ( اقبال سيد بن طاووس : .۴۶۶ )
[۱۱] ۔ والله لو عرف الناس فضل هذا اليوم بحقيقته لصافحتهم الملائکة فى کل يوم عشر مرات …و ما اعطى الله لمن عرفه ما ليحصى بعدد . ( مصباح المتهجد : .۷۳۸ )
[۱۳] ۔… و انه اليوم الذى اقام رسول الله (ص) عليا (ع) للناس علما و ابان فيه فضله و وصيه فصام شکرا لله عزوجل ذلک اليوم و انه ليوم صيام و اطعام و صلة الاخوان و فيه مرضاة الرحمن ، و مرغمة الشيطان . ( وسائل الشيعه ۷: ۳۲۸، ضمن حديث .۱۲ )، و تهابوا النعمة فى هذا اليوم ۔۔۔، امرنى رسول الله (ص) بذلک . ( وسائل الشيعه ۷: .۳۲۷ )
[۱۴] ۔ عن امير المؤمنين (ع) قال :فکيف بمن تکفل عددا من المؤمنين والمؤمنات و أنا ضمينه على الله تعالى الامان من الکفر والفقر ( وسائل الشيعه ۷: .۳۲۷ )
[۱۵] ۔… و لدرهم فيه بألف درهم لإخوانک العارفين ، فأفضل على اخوانک فى هذا اليوم و سر فيه کل مؤمن و مؤمنة . ( مصباح المتهجد : .۷۳۷ )
[۱۶] ۔ عن عمار بن حريز قال دخلت على ابى عبد الله (ع) فى يوم الثامن عشر من ذى الحجة فوجدته صائما فقال لى : هذا يوم عظيم عظم الله حرمته على المؤمنين و کمل لهم فيه الدين و تمم عليهم النعمة و جدد لهم ما أخذ عليهم من العهد و الميثاق . ( مصباح المتهجد : .۷۳۷ )
[۱۷] … اذا تلاقيتم فتصافحوا بالتسليم و تهابوا النعمة فى هذا اليوم ، و ليبلغ الحاضر الغائب ، والشاهد البين ، وليعد الغنى الفقير و القوى على الضعيف امرنى رسول الله (ص) بذلک . ( وسائل الشيعه ۷: .۳۲۷ )
[۱۸] قال على (ع) :عودوا رحمکم الله بعد انقضاء مجمعکم بالتوسعة على عيالکم ، والبر باخوانکم و الشکر لله عزوجل على ما منحکم ، و اجتمعوا يجمع الله شملکم ، و تباروا يصل الله الفتکم ، و تهانؤا نعمة الله کما هنا کم الله بالثواب فيه على أضعاف الاعياد قبله و بعده الا فى مثله … ( بحارالانوار ۹۷: .۱۱۷ )۔
[۱۹] ۔ عن على بن موسى الرضا (ع) :من زار فيه مؤمنا أدخل الله قبره سبعين نورا و وسع فى قبره و يزور قبره کل يوم سبعون ألف ملک و يبشرونه بالجنة . ( اقبال الاعمال : .۷۷۸ )
[۲۰] ۔ عن الرضا (ع) قال :… و هو يوم التهنئة يهنئ بعضکم بعضا ، فاذا لقى المؤمن أخاه يقول :« الحمد لله الذى جعلنا من المتمسکين بولية أمير المؤمنين و الائمة (ع) »و هو يوم التبسم فى وجوه الناس من اهل الايمان … ( اقبال : .۴۶۴ )
[۲۱] ۔ ينبغى لکم ان تتقربوا الى الله تعالى بالبر و الصوم و الصلوة و صلة الرحم و صلة الاخوان ، فان الانبياء عليهم السلام کانوا اذا اقاموا اوصياء هم فعلوا ذلک و امروا به . ( مصباح المتهجد : .۷۳۶ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔