قائد انقلاب اسلامی نے گیارہ صفر چودہ سو بتیس ہجری قمری کو فقہ کے اجتہادی و استنباطی درس " درس خارج" سے قبل حسب معمول فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک قول مع تشریح بیان کیا۔ اس روایت میں شیطان کے غلبے سے بچنے کا طریقہ بتایا گيا ہے۔ یہ قول زریں، اس کا ترجمہ اور شرح پیش خدمت ہے؛
حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ دشمن (يہاں مراد شيطان ہے) كے مقابلے ميں انسان كو استقامت اور تقويت عطا كرنے والي اور اسے دشمن كے تسلط ميں جانے اور اس سے مغلوب ہونے سے بچانے والي سب سے پہلي چيز ہے؛ "واعظ من قلبه" انسان كا ناصح قلب۔ دل اگر بيدار و متنبہ ہو تو انسان كو نصيحت كرتا رہتا ہے۔
كتاب الفقيہ ميں منقول ہے؛ "قَالَ الصَّادِقُ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ع مَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَاعِظٌ مِنْ قَلْبِهِ وَ زَاجِرٌ مِنْ نَفْسِهِ وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ قَرِينٌ مُرْشِدٌ اسْتَمْكَنَ عَدُوَّهُ مِنْ عُنُقِه"
شافي، صفحه ي 652
ترجمہ و تشريح: حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ دشمن (يہاں مراد شيطان ہے) كے مقابلے ميں انسان كو استقامت اور تقويت عطا كرنے والي اور اسے دشمن كے تسلط ميں جانے اور اس سے مغلوب ہونے سے بچانے والي سب سے پہلي چيز ہے؛ "واعظ من قلبه" انسان كا ناصح قلب۔ دل اگر بيدار و متنبہ ہو تو انسان كو نصيحت كرتا رہتا ہے۔ انسان كے دل كو اپني نصيحت پر آمادہ كرنے اور اپني ذات كے لئے واعظ بنانے ميں صحيفہ سجاديہ اور ديگر كتب ميں منقول دعاؤں اور اسي طرح صبح كي بيداري كا بہت اہم كردار ہے۔ يہ چيزيں انسان كے دل كو اس كے لئے ناصح اور واعظ بنا ديتي ہيں۔ تو پہلي چيز ہے ناصح قلب۔ دوسري چيز ہے؛ "زاجر من نفسہ" يعني انسان كے اندر كوئي روكنے والا، منع كرنے والا اور خبردار كرنے والا ہو۔ اگر يہ دونوں چيزيں نہ ہوں اور " ولم يكن لہ قرين مرشد" رہنمائي كرنے والا كوئي ساتهي بهي نہ ہو جو اس كي رہنمائي اور مدد كر سكے، كہ جو شيطان كے غلبے سے بچانے والي تيسري چيز ہے، (تو عين ممكن ہے كہ اس پر شيطان غالب آ جائے)۔ اگر انسان كے اندر كوئي طاقت ايسي نہيں ہے جو اس كي ہدايت كرے، اس كے نفس كو قابو ميں ركهے تو اسے كسي دوست اور ہمنوا كي شديد ضرورت ہے۔ ايسا ہمنوا جس كے بارے ميں ارشاد ہوا ہے كہ " من يذكركم اللہ رويته" جس كا ديدار تمہيں اللہ كي ياد دلائے۔ اگر وہ شخص ايسے دوست سے بهي محروم ہے تو "استمكن عدوہ من عنقه" اس نے خود كو اپنے دشمن كا مطيع بنا ليا ہے، اپنے اوپر دشمن كو مسلط كر ليا ہے۔ دشمن سے مراد شيطان ہے۔ تو يہ چيزيں ضروري ہيں۔ انسان كا ضمير اسے نصيحت ديتا ہے۔ كسي بهي انسان كے لئے بہترين ناصح خود اس كا ضمير ہے كيونكہ انسان كبهي اپنے ضمير كي بات كا برا نہيں مانتا۔ اگر كسي اور نے نصيحت كي اور لہجہ ذرا سا سخت اور تند ہوا تو انسان برا مان جاتا ہے ليكن جب انسان كا ضمير نصيحت كرتا ہے، ملامت كرتا ہے، خود كو ناسزا كہتا ہے، سرزنش كرتا ہے تو يہ چيز بہت موثر واقع ہوتي ہے۔ يہ نصيحت اور موعظہ بہت ضروري ہے۔ اس كے ساته ساته ہي يا اس خصوصيت كے فقدان كي صورت ميں ايسے دوست اور ہمدرد كا ہونا ضروري ہے جو انسان كي مدد كرے۔