انسان اگر اپنے وجود میں تھوڑی سی دقت کرے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ وہ اس عالم بیکراں کے اندر تن تنہا اُس صفر کے مانند ہے جسکا تعلق کسی ہندسہ سے نہ ہو۔ صفر اگر تنہا ہو تو اس کی کوئی حیثیت اور قیمت نہیں ہوتی ۔ صفر کا وجودمحض احتیاج ہے۔ صفر اپنی حیثیت بنانے اور اپنے وجود کو ظاہر کرنے میں ہندسہ کا محتاج ہے۔ اگر ہندسہ سے اپنا تعلق برقرار رکھے تو یہ صفر نہیں رہے گا بلکہ دس اور بیس کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ یہی حال ہے انسان کا۔ انسان بذات خود فقر محض اور احتیاج محض ہے انسان فقیر الی اللہ ہے''یا ایھا الناس انتم الفقراء الی اللہ واللہ ھو الغنی''(سورہ فاطر،١٥)بذات خود اس کی کوئی حیثیت اور قیمت نہیں ۔اس لیے کہ اس کے پاس اپنا کچھ نہیں ۔سب کچھ اس کے مالک کا دیا ہوا ہے اگر اپنے مالک سے تعلق اور رابطہ برقرار رکھے گا تو اس کی قیمت یہ ہو گی کہ وہ کائنات کی ہر شے سے اشرف اور برتر ہو گا اور اگر اپنے اس رابطہ کو منقطع کر دیا تو ''بل ھم اضل'' اور '' اسفل السافلین '' کی منزل میں آجائے گا اور اس کی کوئی ارزش و قیمت نہیں رہے گی۔
اپنے خالق اور پالنے والے سے رابطہ اور تعلق برقرار رکھنے کے ذرایع میں سے ایک عمدہ ذریعہ ''دعا'' ہے۔ دعا کو ''کلام صاعد''کہا جاتا ہے۔ اس لئے کہ دعا بندہ کا وہ کلام ہوتا ہے جو خدا کی طرف صعود کرتا ہے۔ دعا خدا سے ہم کلام ہونے اور اس سے راز و نیاز کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
دعا انسان کا فطری تقاضا ہے۔دعا یعنی مانگنا،طلب کرنا ۔ایک بچہ دنیا میں قدم رکھتے ہی رو کر ماں سے دودھ مانگتا ہے اور اپنی محتاجی کا اعلان کرتا ہے۔ اور مرتے دم تک دوسروں کا محتاج بنا رہتا ہے۔ اس دنیوی زندگی میں انسان کے پاس اورکوئی چارہ بھی نہیں ہے اگر کوئی باغیرت انسان پیدا ہو جائے جو یہ چاہے کہ بغیر کسی کی محتاجی اور کسی سے کچھ مانگے اس دنیا میں زندگی گذار لے تو شاید پیدا ہونے کے بعد ایک بھی دن زندہ نہ رہ سکے۔ اس لئے کہ کم سے کم زندہ رہنے کے لئے ماں کا محتاج ہونا پڑے گا۔غرض یہ کہ انسان ایسے عالم میں زندگی گذار رہا ہے جہاں ہر کام اسباب اور وسائل کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ رزق مختلف ذرایع اور اسباب کے واسطے انسان تک پہنچتا ہے مریض ہوتا ہے تو ڈاکٹر اور دوا کے ذریعے شفا ملتی ہے۔ پیاس لگتی ہے تو پانی کے ذریعے بجھتی ہے۔لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ اسباب اور وسائل اصل نہیں ہیں ۔ان اسباب کو سببیت دینے والا اور اسباب فراہم کرنے والا کوئی اور ہے۔ رزق اور دوا کے اندر تاثیر پیدا کرنے والا کوئی اور ہے۔ وہ نہ چاہے تو کھیت کے اندر بوئے ہوئے دانے کو دنیا کی کوئی طاقت اگا نہیں سکتی ۔وہ ہمیں سیر کرنا نہ چاہے تو ہم کتنا کھاتے رہیں سیر نہیں ہو سکتے ۔پانی پیتے رہیں کبھی پیاس نہیں بجھ سکتی ۔دوا ڈاکٹر نے دی مگر شفا دینے والا کوئی اور ہے۔ وہ شفا نہ دینا چاہے تو دوا کوئی اثر نہیں کر سکتی۔نازک مسئلہ یہ ہے کہ انسان ظاہری اسباب اور وسائل میں کھو جاتا ہے اور ان کے حقیقی مؤثر کی طرف متوجہ نہیں ہوتا جبکہ ’’لا موثر فی الوجود الا اللہ‘‘۔کمال تو یہ ہے کہ انسان ڈاکٹر سے دوا لے لیکن شفا خدا سے طلب کرے۔کھیت میں کام کرے لیکن رزق خدا سے طلب کرے۔ہر چیز کا مطالبہ اس سے کرے۔ اسے اچھا نہیں لگتا کہ اس کا بندہ اس کے علاوہ کسی اور کے آگے ہاتھ پھیلائے۔ خداوند عالم نے جناب موسیٰ (ع) سے کہا:
''یا موسیٰ سلنی کل ما تحتاج الیہ حتی علف شاتک و ملح عجینک''۔(بحار،٩٣،٣٠٣)اے موسیٰ اپنی ہر چیز حتی بکری کے لیے چارا اور اپنے کھانے کا نمک بھی مجھ سے مانگو۔
رسول خدا (ص) فرماتے ہیں : '' لیسأل احدکم ربہ حاجتہ کلھا حتی یسألہ شسع نعلہ اذا انقطع''(بحار ،٩٣،٢٩٥) تم میں سے ہر کوئی اپنی حاجت کو خدا سے طلب کرے حتی اگر جوتے کے تسمے ٹوٹ جائیں تو وہ بھی خدا سے مانگے۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ جب سب کچھ دینے والا وہی ہے تو انسان کیوں نہ ہر چیز اس سے مانگے ۔ اس سے مانگنے میں نہ کوئی عار ہے اور نہ کوئی ننگ۔ بلکہ انسان کے لئے باعث کمال اور فضیلت ہے کہ انسان ہمیشہ اپنا رابطہ اس سے برقرار رکھے اور اس کی بارگاہ میں دعا کرے۔ اور وہ سننے والا بھی ایسا ہے جو سب سے زیادہ انسان کے قریب ہے۔''اذا سألک عبادی عنی فانی قریب''( بقرہ،١٨٦) وہ انسان کی رگ گردن سے زیادہ اس کے قریب ہے۔''نحن اقرب الیہ من حبل الورید''(ق،١٦) وہ انسان اور اس کے قلب کے بیچ حائل ہو جاتا ہے''انّ اللہ یحول بین المرء وقلبہ''(انفال ٢٤) اس نے وعدہ دیا ہے کہ تم مجھے پکارو میں جواب دوں گا '' ادعونی استجب لکم'' (مومن۔٦٠) ،اجیب دعوت الداع اذا دعان (بقرہ،١٨٦)۔ جب اس نے استجابت دعا کا وعدہ دیا ہے تو ہم کیوں نہ اس سے دعا مانگیں کیوں نہ ہر حال میں اسی کے آگے ہاتھ پھیلائیں اور رسول اسلام(ص) سے منقول ہے کہ ''دعا مغز عبادت ہے''(بحار ،ج٩٣ ص ٣٠٢) دعا کے بغیر عبادت کوئی معنی نہیں رکھتی ۔دعا نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس سب کچھ ہے ہمیں خدا سے مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں اور یہ چیز عین کفر و استکبار ہے۔
دعا کی فضیلت
پیغمبر اکرم ۖفرماتے ہیں ''الدعاء افضل من قرائة القرآن''(المیزان ٢ ،٣٤)دعا قرآن پڑھنے سے بہتر ہے۔قرآن کی تلاوت کا مطلب یہ ہے کہ خداہم سے ہم کلام ہو رہا ہے اس لئے کہ قرآن اس کا کلام ہے۔ لیکن دعا کا مطلب یہ ہے کہ ہم خدا سے اپنا رابطہ برقرار کرنا چاہتے ہیں ہم خدا سے ہم کلام ہونا چاہتے ہیں اور یقینا یہ عمل فضیلت کا حامل ہے۔ دوسری روایت میں آنجناب ۖسے منقول ہے ''الدعاء سلاح المومن وعمود الدین ونور السموات والارض''(کافی،٢،٤٦٨)دعا مومن کا اسلحہ ہے، دین کا ستون ہے اور زمین اور آسمانوں کا نور ہے۔امیر المومنین فرماتے ہیں:'' نعم السلاح الدعاء''(غرر الحکم)سب سے بہترین اسلحہ دعا ہے۔
آج کے اس پیشرفتہ دور میں جہاں ایٹمی اسلحہ موجود ہو دعا کو ایک اسلحہ کے طور پر باور کرانا بہت سخت بات ہے اس لئے کہ اس اسلحے سے نہ شہروں کے شہر برباد کیے جا سکتے ہیں اور نہ ہزاروں جانیں لی جاسکتی ہیں ۔(مگر یہ کہ بدعا کا سہارا لیا جائے جس کی مثالیں طوفان نوح ،عذاب بنی اسرائیل وغیرہ) آج کے دور میں بہترین اسلحہ اسی کو کہا جاتا ہے جو ایک دفعہ کے وار سے ہزاروں جانیں اپنی لپیٹ میں لے اور دسیوں بستیاں اجاڑ دے۔ مگر آج دنیا والوں کو یہ حقیقت باور کر لینا چاہیے کہ ایک مومن اور خدا پرست انسان کے لئے سب سے بہترین اسلحہ ''دعا'' ہے۔جسکا مشاھدہ چند سال پہلے لبنان میں ہو چکا ہے۔ لبنان کی مقاوت اگر ایٹمی اسلحوں کے زور پر ہوتی تو اسرائیل ایٹمی اسلحے کے اعتبار سے دنیا میں چوتھا ملک ہے۔ لبنان تو اس کے مقابلے میں مٹھی بھر بھی نہیں تھا۔ مگر لبنان نے ایک عظیم کامیابی سے ہمکنار ہو کر اسرائیل کو یہ دکھلا دیا کہ جنگ صرف ایٹمی اسلحوں کے زور پر نہیں جیتی جا سکتی،ہمارے پاس وہ اسلحہ موجود ہے جسکے سامنے تمہارے بڑے بڑے ایٹمی اسلحہ ماند پڑ جاتے ہیں،جسے ہمارے عظیم الشان پیغمبر(ص) نے ہمیں ہدیہ کے طور پر دیا ہے اور وہ ہے ''دعا''۔
دعا کے مستجاب ہونے کے شرائط
آیات کی نگاہ میں
الف:دعا خوف اور رجاء کے ساتھ کی جائے۔
''وادعوہ خوفا وطمعا انّ رحمة اللہ قریب من المحسنین''(شوریٰ،٢٦)
انسان کو ہمیشہ خوف اور رجا کے بیچ میں رہنا چاہیے نہ خدا سے صرف خوفزدہ اچھی چیز ہے اور نہ فقط رجاء اور امید رکھنا اور اس کے عذاب سے نہ ڈرنا۔ دعا کرتے وقت بھی انسان کو ان دو حالتوں کے بیچ کی حالت اختیار کرنا چاہیے۔
ب:دعا تضرع اور گریہ کی حالت میں اور تنھائی میں ہونا چاہیے۔
''ادعوا ربکم تضرعا و خفیة''(اعراف ،٥٥)
اپنے پروردگار کو پکارو تضرع کے ساتھ اور تنہائی میں۔
ج: دعا کے ساتھ ساتھ ایمان اور عمل صالح بھی ضروری ہے۔
''و یستجیب الذین آمنوا وعملوا الصالحات ویزید ھم من فضلہ''(شوریٰ ،٢٦)
وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور اعمال صالح انجام دیتے ہیں ان کی درخواست (خدا) قبول کرتا ہے اور ان پر اپنا فضل اضافہ کرتا ہے۔
د: اخلاص
''فادعوا اللہ مخلصین لہ الدین''(مومن،١٤)
خدا کو پکارو اپنے دین کو اس کے لئے خالص کر کے۔
اخلاص قبولیت اعمال کی شرط ہے وہ عمل جسمیں اخلاص اور للٰہیّت نہ ہو خدا اس کو پسند نہیں کرتا ۔
روایات کی نگاہ میں
الف:معرفت خداوند
قال قوم للصادق ''ندعوا فلا یستجاب لنا؟'' ''قال لانکم تدعون من لا تعرفونہ''(بحار ٩٣،٣٧٦)
ایک گروہ نے امام صادق(ع) سے کہا : ہم دعا کرتے ہیں قبول نہیں ہوتی؟ امام نے فرمایا:تم اسے پکارتے ہو جس کی نسبت تمہیں معرفت نہیں ہے۔
انسان کے پاس خدا کی معرفت جتنی زیادہ ہوتی ہے اتنا اسے اپنا فقیر ہونا اورخدا کا محتاج ہونا زیادہ محسوس ہوتا ہے جس کی بنا پر زیادہ خدا سے متوسل ہوتا ہے اور دعا مانگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء اور آئمہ معصومین (ع) زیادہ خدا سے دعا مانگتے رہے ہیں۔ انہیں جتنی خدا کی معرفت ہوتی ہے اتنا اس سے اپنا رابطہ اور رشتہ محکم کرتے ہیں ۔اور جب وہ ہمیشہ خدا سے اپنا رشتہ جوڑے رکھتے ہیں تو خدا بھی ان کی باتوں کو سنتا ہے اور ان کی دعاوں کو مستجاب کرتا ہے۔
ب:عمل صالح
قال رسول اللہ ۖ:''یکفی من الدعا ء مع البرّ ما یکفی الطعام من الملح''(بحار٩٣،٣٧٦)
پیغمبر اکرم ۖفرماتے ہیں:دعا نیک عمل کے ساتھ ایسے ہے جیسے کھانے میں نمک ہو۔
ج:حلال رزق
قال رسول اللہ(ص) لمن قال لہ احب ان یستجاب دعائی''طھر مأکلک و لا تدخل فی بطنک الحرام''(وہی)
پیغمبر اکرم ۖ نے اس شخص کو جو یہ کہہ رہا تھا میں چاہتا ہوں کہ میری دعا قبول ہو،ارشاد فرمایا:اپنی غذا کو پاک کرو اور اپنے پیٹ میں حرام کو داخل مت کرو۔
لقمہ حرام انسان کی زبان کو بے تاثیر بنا دیتا ہے ایک اور روایت میں ہے کہ ایک لقمہ حرام کھانے سے چالیس دن تک انسان کی دعا قبول نہیں ہوتی اور اگر انسان زندگی بھر مال حرام کھاتا رہے تو ایسے شخص کی دعا تو بالکل قبول نہیں ہو سکتی ۔وہ افراد جو سالانہ خمس نہیں نکالتے سہم امام اور سہم سادات کو اپنے مال سے الگ نہیں کرتے اور ان کے غاصب بنے رہتے ہیں وہ لقمہ حرام اپنے پیٹ میں بھرتے ہیں ایسے افراد کو کبھی بھی قبولیت دعا کی توقع نہیں رکھنا چاہیے۔
د:حضور قلب
''ان اللہ لا یستجیب دعاء بظھر قلب ساہ فاذا دعوت فاقبل بقلبک ثم استیقن بالاجابہ''(کافی ٢،٣٧٣)
اس شخص کی دعا قبول نہیں ہوتی جس کا دل خدا کی طرف متوجہ نہ ہو جب بھی خدا کو پکارو تو حضور قلب سے پکارو پھر یقین کر لو کہ دعا قبول ہو گی۔
چار طرح کے لوگوں کی دعا قبول نہیں ہوتی
امام صادق فرماتے ہیں : چار گروہ ایسے ہیں جن کی دعا قبول نہیں ہوتی:
پہلا گروہ وہ لوگ ہیں جو گھر میں بیٹھے ہوں اور دعا کریں خدایا ہمیں رزق عطا کر۔ خدا ان سے کہتا ہے کیا میں نے تمہیں کام کرنے کا حکم نہیں دیا؟۔
دوسرا گروہ وہ لوگ ہیں جن کی بیویاں صالح نہ ہوں اور وہ ان کو برا بھلاکہتے اور مار پیٹ کرتے ہوں ۔خدا ان سے کہتا ہے کیا میں نے تمہیں ایسے موقع پر طلاق کا حکم نہیں دیا؟۔
تیسرا گروہ وہ افراد ہیں جو مال وثروت رکھتے ہیں لیکن اس کو اسراف اور حرام کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور پھر دعا کرتے ہیں خدایا ہمیں رزق عطا کر۔خدا ان سے کہتا ہے کیا میں نے قناعت سے کام لینے کو نہیں کہا تھا؟۔
اور چوتھا گروہ وہ لوگ ہیں جو اپنا مال بغیر گواہ کے قرض دیتے ہیں (اور جب واپس نہیں ملتا تو پریشان ہوتے ہیں اور دعا کرتے ہیں)خدا ان سے کہتا ہے کیا میں نے گواہ بنانے کا حکم نہیں دیا تھا ؟۔