صبر و بردباری انسان کی شخصیت کی ایک ایسی صفت ہے جو اس کے کردار کی نوعیت میں اہم کردار کی حامل ہے۔ تمام آسمانی ادیان میں صبر کو ایک پسندیدہ صفت قرار دیا گیا ہے۔ اسلام کے نزدیک صبر کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ حضرت امام علی علیہ السلام نے اسے ایمان کا سب سے اہم رکن بتایا ہے۔ اور فرمایا ہےکہ صبر کو ایمان سے وہی نسبت حاصل ہے جو سر کی بدن کے ساتھ ہوتی ہے۔ علم اخلاق کی بہت سے کتابوں میں بھی صبر کو ایک ممتاز اخلاقی فضیلت قرار دیا گیا ہےاور علمائے اخلاق نے صبر کی متعدد تعریفیں کی ہیں۔ مثلا عظیم ایرانی دانشور خواجہ نصیر الدین طوسی کے نزدیک صبر ناخوشگوار واقعات کے سامنے کے وقت نفس کا بے قرار نہ ہونا ہے۔ امام خمینی رح نے بھی اس کی تاثیرکے بارے میں فرمایا ہے کہ " صبر انسان کےکمال کا موجب اور تقوی کے ارتقاء ، خدا تعالی سے مانوس اور خدا کا انسان سے خوشنودی کا سبب ہے۔ "
قرآن کریم کے متعدد مقامات پر انسان کو صبرکی تلقین کی گئي ہے۔ جس پر عمل انسان کے بہتر انفرادی اور اجتماعی کردار کی ضمانت بن سکتا ہے۔ سامعین ہم اس پروگرام میں صبر کے بارے میں قرآن کریم کے بعض احکام بیان کریں گے۔
٭٭٭٭٭
قرآن کریم نے جن مقامات پر صبر سےکام لینے کاحکم دیا ہے ان میں سے ایک فیصلے کا مقام ہے۔ سورۂ یونس کی آخری آیت میں ارشاد ہوتا ہے " آپ صرف اس بات کا اتباع کریں جس کی آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے اور صبر کرتے رہیں یہاں تک کہ خدا کوئي فیصلہ کر دے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ "
اس آیت میں اللہ تعالی نے پیغمبر اکرم ص اور مسلمانون سے فرمایا ہےکہ جس چیز کی ان پر وحی کی گئي ہے اس کا اتباع کریں اور فیصلہ کرتے ہوئے صبرسے کام لیں۔
سورۂ ص کی اکیس سے چوبیس تک کی آیات میں بھی قرآن کریم نے حضرت داوود علیہ السلام کے ایک فیصلے کا واقعہ بیان کیا ہے ۔ حضرت داوود علیہ السلام نے عجلت پسندی میں ایک فیصلہ کیا لیکن بعد میں اس کی جانب متوجہ ہوگۓ۔ عموما ہوتا یہ ہے کہ عجلت پسندی میں فیصلہ کرنے سے انسان غلطی کر بیٹھتا ہے۔ فیصلے کے دوران بہت سے غلط رویوں اور غیر سنجیدہ باتوں کی وجہ عجلت پسندی ہی ہوتی ہے۔ دوسری جانب عجلت میں کیا گيافیصلہ غلط ہوتا ہے جس کے نتیجےمیں انسان کو ندامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ کوئي بھی نتیجہ اخذ کرنے سے قبل غور و فکر کرنا اس بات کا موجب بنتا ہےکہ انسان اپنے اعمال اور فیصلوں کے منفی نتائج کو مدنظر رکھے۔ در حقیقت صحیح فیصلہ انسان کی ساکھ میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اور یہ کامیابی اور سعادت سے ہمکنار ہونے کا ایک راستہ ہے۔
سورۂ والعصر میں اللہ تعالی نے اس بات کو بیان کیا ہے کہ جو صبر سے کام نہیں لیتے وہ نقصان اٹھاتے ہیں۔ ارشاد خدا وندی ہے۔
" قسم ہے عصر کی ۔ بے شک انسان خسارے میں ہے سوائے ان کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کۓ اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی وصیت و نصحیت کی۔ "
اگر ہم اس سورے کی نورانی آیات میں غور و فکر کریں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ قرآن کریم نے شروع میں وقت اور زمانے کی جانب اشارہ کیا ہے اور اس کے بعد صابرین کو سراہا ہے۔ مطلب یہ کہ وقت اور صبر کرنے والوں کے درمیان قریبی تعلق پایا جاتا ہے۔ عصر حاضر میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ وقت کے صحیح استعمال کے لۓ صبر کی صفت کا پایا جانا بہت ضروری ہے۔ ماہرین نفسیات نے مختلف افراد پر تحقیق کر کے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پریشان اور مضطرب انسانوں کا احساس یہ ہوتا ہے کہ وقت بہت سست رفتاری سے گزر رہا ہے اور وہ اس بات کے لۓ بے تاب ہوتے ہیں کہ وقت جلد گزر جائے۔ افسردگی میں مبتلا افراد بھی یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے وقت ٹھہر گیا ہو اور گزرنے کا نام ہی نہ لیتا ہو۔ اور جھگڑالو افراد کا وقت گزرنے کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب ہو گزر چکا ہوتا ہے۔ جبکہ دوراندیش افراد قلیل المیعاد اور طویل المیعاد مقاصد اپنے مدنظر رکھتے ہیں۔ اور کامیابی کے حصول کے لۓ صبر سے کام لیتے ہیں۔ بنابریں صبر کا فقدان انسان کی عمر ضائع ہونا کا سبب بنتا ہے۔
قرآن کریم نے جزا کے حصول کے سلسلے میں بھی صبر سےکام لینے کی تلقین فرمائی ہے۔ سورہ ہود کی آیت نمبر ایک سو پندرہ میں ارشاد ہوتا ہے۔ " اے پیغمبر آپ صبر سے کام لیں کہ خدا نیک عمل کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا ہے۔ "
عموما لوگ پاداش حصول کے لۓ کام انجام دیتے ہیں۔ بعض جزائیں کام کے فورا بعد انسان کو مل جاتی ہے اور بعض جزائيں دیر سے ملتی ہیں۔ عموما بڑی پاداش دیر سے ملتی ہے۔ اور اس کے حصول کے لۓ صبر و شکیبائي بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالی کی جانب سے ملنی والی پاداش وہ گرانقدر پاداش ہے جو انسان کو اخروی زندگي اور بہشت میں حاصل ہوگي۔ اس لۓ صبر سے تہی داماں انسان نیک اعمال اور عبادات سے گریز کرتے ہیں۔ وہ ابدی جنّت اور حقیقی کامیابی پر دنیوی امور کو ترجیح دیتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
قرآن کریم نے انسانوں کے لۓ صبر کا ایک اور نمونہ بیان کیا ہے تاکہ انسانوں کے درمیان الفت و محبت میں اضافہ ہو۔ اور وہ سعادت سے لبریز زندگی گزاریں۔اس سے مراد انتقام لینے کے موقع پر صبر کرنا ہے۔
قرآن مجید نے فرمایا ہے کہ " اور اگر تم ان سے بدلہ لینا چاہو تو صرف اسی قدر بدلہ لو جس قدر انھوں نے تم پر زیادتی کی ہے اور اگر تم صبر کرو تو بہرحال صبر کرنے والوں کے لۓ بہترین ہے۔"
اس آیت میں انتقام کے موقع پر صبر کرنے اور جوابی کارروائی سے اجتناب کرنے کو انتقام لینے سے بہتر قرار دیا ہے۔ انتقام لینے کے بجائے صبر کرنا انسان کی عزت و وقار کی علامت ہے۔ اوریہ بھی صفات خداوندی سے متصف ہونے کا ایک مرحلہ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی انسانوں کے ناپسندیدہ اعمال کو دیکھ رہا ہے۔ لیکن وہ فورا انتقام نہیں لیتا ہے۔ بلکہ وہ اپنے بندوں کو توبہ کاموقع فراہم کرتا ہے۔ اگرچہ انسانی سماج ، خاندانی نظام اور انسانوں کے تعلقات میں یہ پسندیدہ خلق حکمفرما ہوجائے تو لوگوں کی بہت سی مشکلات میں کمی واقع ہوجائے گی۔ طلاق کی شرح کم ہوجائے گی اور دوستیاں دشمنیوں میں تبدیل نہیں ہوں گی۔ دوسروں کی لغزشوں سے درگزر کرنا انسان کو ایک لذت بخش زندگی اور سکون سے ہمکنار کرتا ہے۔ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے اس سلسلے میں ارشاد فرمایا ہے۔ " معاف کرنے میں جو لذت ہے وہ انتقام لینے میں نہیں ہے۔ "
اللہ تعالی نے انسان کو نہ صرف صبر کی دعوت دی ہے بلکہ ان کو حکم دیا ہےکہ وہ ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کریں۔ سورۂ آل عمران کی آخری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
" اے ایمان والوں صبر کرو اور ایک دوسرے کو صبر کی رغبت دلاؤ"
صبر کرنا اور صبر کے سلسلے میں ایک دوسرے کی مدد کرنے سے صحتمند سماجی تعلقات کاراستہ ہموار ہوتا ہے۔ اوریہ زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ صبر سے انسان کے تقوی اور پرہیزگاری کو بھی تقویت ملتی ہے کیونکہ اس سے انسان کے اندر خدا تعالی کے فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم ہونے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
پس صبر کا انفرادی پہلو بھی ہوتا ہے اور اجتماعی پہلو بھی۔ صبر کا انفرادی پہلو یہ ہے کہ انسان عارضی خواہشات نفسانی ، غصے اور مشکلات سے اجتناب کرنے نیز پروردگار کی اطاعت اور عبادت کی انجام دہی کی طاقت و قوت حاصل کرلیتا ہے۔ اور اس کا سماجی پہلو یہ ہے کہ صبر دوسروں کے غلط رویۓ کے مقابل سب لوگوں کی ترقی و پیشرفت میں مدد کرتا ہے۔ اور انفرادی اور اجتماعی صبر کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں دوستی اورمحبت والفت کا ماحول قائم ہوجاتا ہے۔
جب سماجی تعلقات کی بنیاد صبر پر استوار ہو تو لوگوں کی نفسیاتی سلامتی کی ضمانت فراہم ہوتی ہے۔ جس کے باعث انسانوں کی سعادت کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ لیکن جس معاشرے میں انسان صبر سے کام نہ لیتے ہوں اس میں لڑائی جھگڑے ، کشیدگی ، ایک دوسرے کے خلاف سازش ، غیبت ، جھوٹ اور الزامات لگانے کا بازارگرم ہوتا ہے حقیقت یہ ہے کہ صبر کا فقدان انسان کے اندر خدا تعالی کی اطاعت کا جذبہ کم کردیتا ہے اور انسان بہتر طور پر مشکلات کا مقابلہ نہیں کرپاتا ہے۔
یورپی ماہرین نفسیات کی کتابوں میں بھی صبر پر خصوصی توجہ دی گئي ہے۔ البتہ ان ماہرین نفسیات نے صبر کے معنی شدت اور سخت کوشی کے بیان کۓ ہیں۔ اور ان کا خیال ہے کہ انسان کی شخصیت کی ایک اہم خصوصیت مشکلات میں اس کا ڈٹ جانا ہے۔ ان کہنا ہے کہ صابر اور سخت کوش انسان زندگی کے سلسلے میں احساس ذمےداری رکھتے ہیں اسی لۓ وہ زندگی میں پیش آنے والی مشکلات پر غلبہ حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ ماہرین نفسیات صبر اور سخت کوشی کو ایک ایسا ذریعہ جانتے ہیں جو مشکلات پر غلبہ حاصل کرنے میں انسان کی مدد کرتا ہے ۔
بنابریں سعادت و کامیابی کے حصول کے سلسلے میں صبر کے کردار پر نہ صرف ادیان الہی میں توجہ دی گئي ہے بلکہ ماہرین اور سماجی مفکرین نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔