انسان کے سقوط میں ریاکاری کاکردار

Rate this item
(4 votes)

انسان کے سقوط میں ریاکاری کاکردارمعاشرے میں ایسے افراد موجود ہیں جو صرف دوسروں کو خوش کرنے یا اپنے عمل کو ظاہر کرنے کی نیت سے کام کرتے ہیں اس طرح کے افراد اپنے کاموں میں خداکی مرضی کو نظر انداز کرتے ہیں ۔ اپنے رفتار وکردار میں خدا کو نظر انداز اور حد سے زیادہ ظواہر پر توجہ کرنے سے ریا کاری پیدا ہوتی ہے اور اس طرح کے افراد کو ریاکار کہا جاتا ہے ۔

ریا ایک ناپسند خصلت ہے کہ انبیاء کرام اور ائمہ طاہرین علیہم السلام نے بڑی شدت کے ساتھ اس سے منع کیا ہے کیونکہ ریاکاری انسان کو شرک کی طرف ڈھکیل دیتی ہے اور انسانیت کے مرتبے سے اس کے سقوط کا باعث بنتی ہے ۔

ریا کے لغوی معنی تظاہر اور خود نمائی کے ہیں اور اصطلاح میں اس نیک اوراچھے کام کو کہتے ہیں جسے انسان خدا کے لئے نہیں بلکہ تظاہر ،خود نمائی اور لوگوں کو دکھانے کے قصد سے انجام دیتا ہے یہ کام چاہے عبادی ہوں جیسے نماز چاہے غیر عبادی ہوں جیسے دوسروں کی مدد کرنا ۔ریاکار شخص دوسروں کی تعریف سے خوش ہوتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے اس کے کام کو دیکھیں اور اس کی تعریف کریں حالانکہ خلوت اور تنہائی میں وہ اس کام کو انجام دینا نہیں چاہتا بلکہ اسے چھوڑ دیتا ہے ۔درحقیقت ریاکار دوسروں کو دکھانے کی غرض سے کام انجام دینے کی کوشش کرتا ہے تاکہ لوگ اس کی تعریف اور تمجید کریں اگر اس کی تعریف نہ کی جائے تو وہ دوبارہ اس عمل کو انجام نہیں دیتا ۔

ریا کاری سے انسان کا عمل نابود ہوجاتا ہے اوراس کےعمل کو اندر سے دیمک کی طرح کھوکھلا کردیتی ہے جس کے نتیجے میں اس کا عمل بے اثر اور بیکار ہوجاتا ہے۔ ریا کی نیت سے عبادت کرنے والی کی فکر یہ ہوتی ہے کہ لوگ اس کی عبادت اور عمل کو پسند کریں اس کی توجہ اس طرف قطعانہیں ہوتی کہ خدا بھی اس کی عبادت یاعمل کو پسند کرتا ہے یا نہیں ! حالانکہ مؤمن کا عقیدہ ہے کہ خدااپنے بندوں کے اعمال کو دیکھتا ہے اور نیک کام کرنے والوں کو ضرور پاداش دے گا۔بنابر ایں اسے لوگوں کی طرف کسی چیز کی نہ تو توقع ہوتی ہے ناہی تعریف وتمجید کا خواہاں ہوتا ہے ۔

ممکن ہے کہ شروع میں انسان ریاکاری پر مبنی عمل اور اس عمل کے درمیان تشخیص نہ دے سکے جسے بغیر ریاکاری کے انجام دیا ہے ۔ ریاکاری کی پہلی اور روشن علامت احسان جتانا ہے ۔اگر انسان کوئی کام انجام دے کر لوگوں پر احسان جتائے تو اس کے عمل کا اجر اور ثواب ختم ہوجاتا ہے ۔سورہ بقرہ کی آیت نمبر دوسو چونسٹھ میں ارشاد ہوتا ہے کہ اے ایمان والو! اپنے صدقات کو منت گذاری اور اذیت سے برباد نہ کرو اس شخص کی جو اپنے مال کو دنیا کو دکھانے کے لئے صرف کرتاہے اوراس کا امیان نہ خدا پر ہے اور نہ آخرت پر اس کی مثال اس صاف چٹان کی ہے جس پر گرد جم گئی ہوکہ تیز بارش کے آتے ہی بالکل صاف ہوجائے ،یہ لوگ اپرنی کمائی پوبھی اختیار نہیں رکھتے امو اللہ کافروں کی ہدایت نہيں کرتا ۔اس آیت میں منت گذاری ،اذیت اور ریاکاری کو ایک ہی ردیف میں شمار کیا گیا ہے اور انھیں اعمال وصدقات کی بربادی اور بطلان کا سبب قرار دیاگیا ہے حتی اس آیت کے مطابق ریاکار شخص خدا وآخرت پر ایمان نہیں رکھتا ۔

اسلام کی نظر میں ریاکاری ایک مذموم عمل ہے جو ریاکاری کرتا ہے وہ مؤمن نہیں ہے ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ریاکاری مکمل شرک ہے ۔جو لوگوں کے لئے کام کرتا ہے اس اجرت لوگوں پر ہے اور جو خدا کے لئے کام کرتاہے اس کا اجر اور ثواب خدا کے ذمہ ہے ۔ عبادات میں سب سےا ہم مسئلہ نیت کا ہے ۔ نیت ہر عبادت کی روح شمار ہوتی ہے اور عبادت کی اہمیت اور قبولیت کا تعلق بھی نیت سے ہے ۔ اگر نیت میں اشکال ہو اور خدا کے لئے نہ ہو اگر چہ وہ عبادت کتنی ہی اہم اور بڑی کیوں نہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ ہم اپنے روز مرہ کی عبادات اورمسائل میں بھی نیت کی اہمیت کے بہت زیادہ قائل ہیں اور خالص نیت سے انجام پانے والے کاموں کی قدر کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر اگر تمہارا دوست ملاقات کے وقت تم سے خیریت پوچھتے وقت تم پر قربان اورفدا ہونے کے الفاظ استعمال کرے اور کہے کہ میں تمہیں بہت زیادہ چاہتا ہوں، تمہاری بہت زیادہ یاد آرہی تھی اگر تم یہ جان لو کہ اس نے یہ تمام باتیں محبت میں کہی ہیں تو اس کی یہ باتیں تمہارے لئے بہت ہی اہم اور قابل قدر ہوں گی جس کے نتیجے میں تم بھی اس سے زیادہ محبت کرنے لگو گے ۔لیکن اگر تمہیں معلوم ہوجائے کہ اس نے یہ باتیں تمہیں فریب دینے کے لئے کہی ہیں تاکہ تم سے فائدہ اٹھائے تو تم کبھی بھی اس کی باتوں پر توجہ نہیں دوگے اور ناہی اس کے احترام کے قائل ہوگے ۔ بلکہ وہ جتنا بھی ان باتوں کو دوہرائے گا اس سے نفرت بڑھتی جائے گی ۔ ظاہر میں دونوں کا عمل ایک جیسا ہوگاکیونکہ نیت سے عمل کا پتہ چل جاتاہے ۔بنابرایں یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے کہ مؤمن اور ہوشیار افراد کام کی اہمیت کے بارے میں اس کے ظاہری آثار کو نہیں دیکھتے ہیں بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ اس نے کس نیت سے اس کام اور عمل کو انجام دیا ہے ۔

ریاکاری کے مقابلے میں اخلاص ہے ۔اخلاص یہ ہے کہ انسان کام کو صرف خدا کی مرضی اور اس کے فرمان کی انجام دھی کے قصد سے انجام دے اس کے علاوہ دوسرا کوئی قصد یا نیت نہ ہو ۔ ایسا شخص اپنے عمل کو کبھی بھی دوسروں کو دکھانے کے لئے انجام نہیں دے گا تاکہ لوگ اس کی تعریف کریں بلکہ صرف خدا کے لئے انجام دیتا ہے ۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ کوئی دوسروں کے سامنے کوئی عمل انجام دے اور لوگ اس کی تعریف کریں لیکن اہم یہ ہے کہ اس نے کسی کو دکھانے کے لئے یہ عمل انجام نہیں دیا ہے بلکہ صرف خدا کے لئے انجام دیا ہے ۔البتہ قابل ذکر ہے کہ انسان خلوص نیت سے اور صرف خدا کے لئے عمل انجام دے ۔ بعض مواقع پر دوسروں کی موجود گی میں عبادت کرنا یاعمل انجام دینا ایک امر مستحب ہے ۔ سورہ ابراہیم کی اکتسیویں آیت میں انفاق کے بارے ارشاد ہوتاہے کہ آپ میرے ایماندار بندوں سے کہہ دیجئے کہ نمازیں قائم کریں اور ہمارے رزق میں سے خفیہ اور علانیہ ہماری راہ میں انفاق کریں ۔

کسی بھی عمل کو ریاکاری سے محفوظ رکھنا بہت بڑا کام ہے ،جو بھی خدا کے لئے کام کرے اور اپنے اعمال کو صرف خدا کی مرضی کے لئے انجام دے تو خدا کے نزدیک اس کا مقام بلند اور بالا ہے ۔ سورہ انسان پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلبیت اطہار علیہم السلام یعنی حضرت علی علیہ السلام ، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ،حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہم السلام کے خالصانہ عمل کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ اس گھرانے نے تین روز متواتر اپنے افطار کو مسکین ، یتمیم اور اسیر کودئیے اور اس عمل کو صرف خدا اور اس کی مرضی کے حصول کے لئے انجام دئیے لہذا خدا وند متعال نے ان کے خالصانہ عمل کو قبول کرلیا اور ان کے کام کی تمجید میں سورہ انسان کو نازل فرمایا تاکہ وہ سب کے لئے نمونہ عمل قرار پائیں ۔

بعض علماء اور عرفاء بیان کرتے ہیں اگر آپ ریا کاری سے بچنا چاہتے ہیں حتی آپ نے نیک عمل کرنے کا جو ارادہ کیا ہے وہ بھی آپ کے ذھن میں نہ آئے اور صرف یہ کہے کہ خدا کا لطف وکرم تھا اور اس عمل سے آپ لذت محسوس کریں اور بار بار اپنے ذھن میں اس عمل کو دہراتے رہیں تودر حقیقت آپ نے اپنے عمل کے خلوص میں کمی کی ہے ۔ پس اگر آپ نے کسی کی مدد کی ہے یا آپ نے راہ خدا میں جہاد کیا ہے ، خدا کے لئے قلم چلایا ہے اور خدانے جو حکم دیا ان سب پر عمل کیا ہے تو انھیں بار بار اپنے ذھن میں لانے کی کوشش نہ کریں کیونکہ ریا مادہ رائ سے ہے جس کے معنی رویت اور دیکھنےکے ہیں ۔ عمل کی تکرار کے ساتھ انسان اپنے عمل کو جو انجام دیا ہے اسے بہت بڑا دیکھے گااسی لئےوہ اپنی تعریف وتمجید کی زيادہ سے زیادہ امید بھی رکھے گا ۔ریا کاری سے بچنے کا ایک راستہ اپنے نفس کا محاسبہ کرنا ہے یعنی ہر شخص کو اپنے روزانہ کے عمل کا محاسبہ کرنا چاہئیے اور اپنے رفتار کردار اور اپنے تمام کاموں کا جائزہ لینا چاہئیے ۔اس عمل سے انسان کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی نیت کے بارے زیادہ دقت کرے اور اپنے ظاہری اور باطنی تمام کاموں کے بارے میں اپنی نیت کو پہچانے اور اس سلسلے میں وہ سستی سے کام نہ لے ۔ کام کے بارے میں اس محاسبہ سے اسے ریاکاری کو پہچاننے میں مدد ملے گی ۔

کتاب چہل حدیث کے باب محاسبہ میں موجود بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی نصیحتوں پر ختم کررہے ہیں ۔ اے عزيز ! تم غفلت سے بیدار ہوجاؤ اور کام کے بارے میں غور وفکر کرو اور اپنے نامہ اعمال پر نظر ڈالو اور ان اعمال سے ڈرو جن اعمال کو تم نے عمل صالح کی نیت سے انجام دیاہے ،جیسے نماز ،روزہ اور حج وغیرہ یہ اعمال کہیں عالم آخرت میں تمہارے لئے ذلت وگرفتاری کا سبب نہ بن جائیں ۔ تم دنیا میں اپنے اعمال کا حساب کتاب کرلو کیونکہ یہ بہترین موقع ہے اور اگرتم اس دنیا میں اپنا محاسبہ نہیں کیا اور اپنا حساب کتاب درست نہیں کیا تو قیامت کے دن جب تمہارے اعمال کا جائزہ لیا جائےگا تو تم بڑی مصیبت میں گرفتار ہوجاؤ گے ، حساب کتاب کے وقت خدا کے انصاف سے ڈرو اور غرور وتکبر سے پرہیز کرو اور نیک عمل کے سلسلے میں جد وجہد کرنے سے کبھی بھی دریغ نہ کرو۔

Read 3204 times