جیسا کہ آپ جانتے ہیں، انسان بہت سے دوسرے موجودات عالم فطرت کی طرح ظہور ، ترقی و تنزل کے مراحل طے کرتا ہے ۔ انسان کی زندگی بچپن ، جوانی اور پیری تین مرحلوں پر محیط ہوتی ہے ۔سورہ روم کی آیت نمبر 54 میں ا ن تین مرحلوں کو یوں بیان کیا گیا ہے ، اللہ ہی وہ ہے جس نے تم سب کو کمزور پیدا کیا اس کے بعد تمہیں طاقت عطاکی اور پھر طاقت کے بعد تم میں کمزوری اور ضعیفی کو قرار دیا وہ جو چاہتا ہے پیدا کردیتا ہے کہ وہ صاحب علم بھی ہے اور صاحب قدرت بھی ہے ۔ زندگی کے ان تین مرحلوں میں انسان جوانی کے دور میں بہت سے کام انجام دے سکتا ہے ،اس لئے کہ یہ دور انسان کی طاقت اور صلاحیتوں کے عروج کا دور ہوتا ہے ،جوانی کام کاج ، سعی وکوشش اور امید ونشاط کا وقت ہے ، انسان کی زندگی میں بہت سی اہم تبدیلیاں اسی دوران رونما ہوتی ہیں اور اسی دوران فرد کی سرنوشت اور اس کے مختلف پہلو معین ہوتے ہیں ۔ اس نکتہ کے پیش نظر کہ انسان دنیا میں صرف ایک بار آتا ہے اور اس کی زندگی کا اہم ترین دور جوانی کا ہی دور ہوتا ہے اس لئے ہمیں چاہئیے کہ اس دور کی حساسیت کو درک کریں اوراس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں ۔ جوانی کا دور بہت ہی اہم دور ہے کہ اسلام نے ہمیشہ اس دور میں مختلف انداز اور شکلوں میں پر ثمر اور بہتر طور پر استقادہ کرنے کی تاکید ہے ۔ زندگی میں جوانی کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام جوانی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ انسان دو چیزوں کی قدروقیمت اور اس کی اہمیت کوانھیں کھودینے کے بعد ہی جانتا ہے ، ایک جوانی اور دوسری صحت وتندرستی ۔ جوانی کادور زندگی کا اہم ترین دور ہوتا ہے اگرچہ جوان کو پہلے مرحلے میں کسی قسم کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا اور وہ اپنی کھوئی ہوئی شخصیت کی تلاش میں رہتا ہے ،چنانچہ وہ اپنی اہم فطری صلاحیتوں پر توجہ کرے اور اپنے تشخص کو پالے اور اس سنہرے موقع سے استفادہ کرلےتو اس کی زندگی کی بنیادیں مضبوط ومستحکم ہوجائیں گي اور وہ منزل کمال تک پہونچ جائے گا ۔درحقیقت جوان کے اندر ذھنی طور پر یہ صلاحیت پائی جاتی ہے کیونکہ وہ اس خالی اور زر خیز زمین کی طرح سے ہے جو بوئے جانے والے ہر بیج کو اگانے اور اس کی پروش کے لئے تیار ہے ۔
ایک جوان کواپنی اعلی ومضبوط جسمانی اور فکری طاقت اور توانائیوں کے ذریعہ روشن اور نامعلوم مستقبل کے لئے گراں بہا توشہ کی ضرورت ہے تاکہ وہ صحیح وسالم منزل مقصود تک پہونچ سکے اور یہ توشہ وہی معنویت ہے جو خدا سے انس وقربت اور اس کے احکامات پر عمل کرنے سے حاصل ہوتا ہے ۔ معنویت کی پرورش اور معنی امور پر توجہ ایک جوان کو منزل سعادت وکمال تک پہونچاسکتی ہے ۔ معنویت کی طرف رجحان ایک ایسی صفت اور خصلت ہے جو نوجوانوں کو زیور زینت سے آراستہ کردیتی ہے اور نئی نسل ہر زمانے میں دنیا کی اصلاح اور عدل وانصاف کو پھیلانا چاہتی ہے ۔ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بھی جوانی میں خود سازی ،تربیت اور تہذیب نفس کی اہیمت کے بارے میں جوانوں کومخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ آپ لوگ ابھی سے جہاد اکبر ( خود سازی ) کے لئے کھڑے ہوجائیں اور اپنی جسمانی طاقت کو ہاتھ سے نہ جانے دیں اور اصلاح کے بارے میں اپنی جوانی کو بڑھاپے تک نہ پہونہچنے دیں ، انسان جب تک جوان ہے اور اس کے جسم میں طاقت اور اس کی روح لطیف ہے اوراس میں برائیوں کی جڑیں مضبوط نہیں ہوئی ہیں لہذا وہ اپنی اصلاح کرسکتا ہے ، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اے جوانو:تم بہتر طریقہ سے اپنے نفس کو پاک کرسکتے ہو کیونکہ خدا سے زیادہ قریب ہو ۔
جوانی میں معنویت کا اثر یہ ہے کہ سماج میں اس کا احترام کیا جاتا ہے ۔ جوان معنویت اور پاکیزہ سیرت کے ذریعہ اپنے اعلی ونیک مزاج اور افکار کا اعلان کرتا ہے اور اپنے نیک اور اچھے اخلاق وکردار سے خدا سے انس وقربت حاصل کرنے میں دوسروں پر برتری حاصل کرتا ہے ،دوسرے بھی اس کا احترام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ خدا کی یاد اس سے قریب ہونے کی کوشش جوانوں کو دل وجان سے اپنی طرف مشغول کرلیتی ہے ، ایسا جوان جس نےمعنویت کی لذت کو چکھ لیا ہے وہ اس لذت کو دنیا کی فانی اور نقصان دہ لذتوں سے عوض نہیں کرتا ۔ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام بھی اس بڑے معنوی اثر پر تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ { دین انسان کی حفاظت کرتا ہے }
نماز ،روزہ ، توسل اور قرآن کریم کی تلاوت سے انسان کو قلبی سکون ملتا ہے جو مادی امور سے ہرگزنہیں حاصل ہوسکتا ۔ دوسری طرف روحانی اور معنوی امور کی طرف توجہ دینے سے انسان کو ایسا سکون ملتا ہے کہ اسے کبھی بھی تنہائی اور ذلت و خواری کااحساس نہیں ہوتا ۔ سورہ مریم کی آیت نمبر 96 میں ارشاد ہے کہ بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے عنقریب خدا لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا کردےگاجس کے مطابق جوان معنویت اور تہذیب نفس کے ذریعہ اپنے لئے سکون فراہم کرتا ہے اور اس کی محبت میں لوگوں کے دل اس کی طرف جھک جاتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ اپنی زندگی کے باقی مراحل کے لئے سکون و اطمینان کے ساتھ قدم اٹھاتا ہے ۔ جوان جب معنوی امور کی طرف توجہ دیتا ہے تو اس کا ایک اثر یہ ہے کہ جوان شجاع ودلیر ہوجاتا ہے اور وہ کسی سے نہیں ڈرتا ۔ جو اپنی زندگی میں روحانی اور معنوی امور سے بہرہ مند ہوتا ہے وہ اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ دنیا میں رونما ہونے والےتمام واقعات اور پیش آنے والے مسائل خدا کے ہاتھ میں ہیں اور اس نے دنیا کو انسان کی ترقی وکمال کے لئے پیدا کیا ہے لہذا وہ اپنے ہدف تک پہونچنے کے سلسلے میں نامساعد حالات اور مشکلات سے نہیں گھبراتا اور سعادت وکمال کے راستے میں اگر خطرناک دشمنوں کا سامنا بھی ہوتا ہے تو وہ پریشان نہیں ہوتا بلکہ اس کے برعکس شجاعت وبہادری کے ساتھ تمام مشکلات کا مقابلہ کرتا ہے ۔جوان لوگ معنوی امور پر توجہ اور اپنے اندر مذھبی حس پیدا کرکے مستقبل میں پیش آنے والی بہت سی مشکلات کو دورکر سکتے ہیں ۔جو شخص معنویت کو زیادہ اہمیت دیتا ہے وہ اس شخص کی مانند ہے جس کی پشت پر کوئ طاقتور انسان ہو جو پر خم وپیچ راستوں میں اس کی مدد کررہا ہو ۔ بنا بر ایں اس طرح کے افراد ان لوگوں کے مقابلے میں یقینا کامیاب وکامران ہیں جو معنوی امور پر زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں۔
قرآن کریم فطری طور پر انسانی کمال و ترقی کے لئے ہدایت وتربیت کی بہترین کتاب ہے اس لئے اس کتاب مقدس سے بہرہ مند ہونے کے لئے بہترین زمانہ اور وقت جوانی کا دور ہے اور انسان کی فلاح ورستگاری کے لئے یہ عقلانی ترین روش ہے کہ انسان جوانی میں قرآن کریم سے مانوس ہو ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جوشخص جوانی میں قرآن سیکھتا یا مانوس ہوجاتا ہے تو قرآن اس کے خون اور گوشت میں اس طرح سے رچ بس جائےگا جس طرح سے خون انسان کی رگوں میں دوڑنے لگتاہے ۔ فطری بات ہے کہ اگر قرآن کریم انسان کے خون اور گوشت میں رچ بس جائےگا تو اسے قرآنی تربیت حاصل ہوگی اور اسےقرآن کریم کی پاک اور معنوی زندگی مل جائے گي اور وہ خودبھی فلاح و نجات پائے گا اور معاشرے کی فلاح ورستگاری کا بھی باعث بنے گا ایسا انسان حقیقی صالحین کا مصداق ہے جس کے فقدان سےانسانیت رنج ومصیبت میں مبتلا ہے ۔
جوانی کادور ہر انسان کے لئےشیرین اور زندگی کا بے مثال موسم شمار ہوتا ہے اگر چہ یہ دور طولانی نہیں ہے مگر اس کے یادگار اور طویل اثرات انسان کی زندگی میں ہمیشہ باقی رہتے ہیں ، اسی لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان کی زندگی کا فیصلہ کن دور جوانی کا دور ہوتا ہے ۔ ان نکات کے پیش نظر رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت العظمی خامنہ ای جوانوں سے خطاب میں فرماتے ہیں کہ افسوس ہے کہ جوان طبقہ اپنے پاک اور نورانی دلوں ، نفس اور پاکیزہ زندگی کو خدا کی محبت اور یاد کے علاوہ دوسری چیزوں سے آلودہ کرے ، رہبر انقلاب اسلامی جوانوں سے خطاب میں فرماتے ہیں کہ تم لوگ دنیا کو صرف ایک وسیلہ قرار دو ، آپ ا س مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ۔ قرآن کریم نےہماری توجہ کواس بنیادی مسئلےکی طرف مبذول کرایا ہے کہ خداکی سمت حرکت پاکیزہ زندگی ہے ۔سورہ انفال کی چوبسویں آیت میں خدا ارشاد فرماتا ہےکہ اے ایمان والوں اللہ ورسول کی آواز پو لبیک کہو جب وہ تمہیں اس امر کی طرف دعوت دیں جس میں تمہاری زندگی ہے اور یاد رکھوکہ خداانسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور سب کواس کی بارگاہ میں حاضر کیا جائے گا ، خدا ورسول نے اس آیت میں تمہیں پاکیزہ زندگی گذارنے کی دعوت دی ہے ۔ پاکیزہ زندگی یہ ہے کہ انسان کی زندگی خدا کی راہ میں اور اعلی اہداف تک پہونچنے کے لئے ہو ۔ اعلی ہدف یہ ہے کہ انسان کو خدا کی قربت حاصل ہو اور اس کی زندگی نیک اور اچھے اخلاق سے مزین ہو ۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای فرماتے ہیں کہ اعلی ہدف تک پہونچنے کے لئے مادی اور معنوی دونوں وسائل کی ضروت ہے تاکہ ان وسائل کے ذریعہ انسان میں تحرک پیدا ہو اور وہ خدا اور پاک وپاکیزہ زندگی کی طرف اپنا قدم بڑھائے ۔