سوڈانی عالم دین کا تاریخی فتوی: شیعہ مذہب کی پیروی جائز ہے
سوڈان کی ہیئۃالعلماء کے سربراہ پروفیسرمحمدعثمان صالح نے ایک فتوے کے ضمن میں مذہب اہل بیت (ع) کی پیروی کو جائز قرار دیتے ہوئے شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو فرض قرار دیا۔
رپورٹ کے مطابق ، اسلامی بیداری کے عروج کے اس زمانے میں، علاقے ـ بالخصوص شمالی افریقہ میں ـ امت مسلمہ کی ہمدرد شخصیات کی توجہ اسلام کے حلفیہ دشمنوں کا سامنا کرنے کے لئے ـ مسلمانان عالم کے اتحاد و اتفاق کی ضرورت کی طرف مبذول ہوئی ہے۔
سوڈان کی ہیئۃالعلماء کے سربراہ "پروفیسر شیخ محمد عثمان صالح" اہم اسلامی ملک "سوڈان" اور شمالی افریقہ کی اہم اسلامی شخصیات اور نامور علمائے دین میں سے ہے جنہوں نے مذہب حقہ جعفریہ اثنا عشریہ کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی پیروی کو جائزقرار دیتے ہوئے، اسلامی مذابب کے درمیان اتحاد و یکجہتی کو ان اہم موضوعات میں سے ایک قرار دیا جن کو خصوصی اہمیت دینے کی ضرورت ہے؛ چنانچہ انھوں نے زمانے کے اس حساس مرحلے میں اپنا تاریخی فتوی جاری کیا اور صہیونی ریاست سمیت اسلام کے تمام حلفیہ دشمنوں کے سامنے امت اسلام کے ہر فرد کو وحدت، یکجہتی اور یکدلی کی دعوت دی ہے۔
انھوں نے سوڈان سے شائع ہونے والے روزنامے "اخبارالیوم" مورخہ 13 دسمبر 2012 عیسوی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: "شیعہ اور سنی مذاہب کے درمیان نوے فیصد مسائل (اصول و فروع) مشترکہ ہیں؛ خداوند متعال نے قرآن مجید میں ہر مسلمان فرد کو مُخاطَب قرار دیا ہے اور ان کے درمیان فرق کا قائل نہیں ہوا ہے"۔
شیخ محمد عثمان صالح نے تمام عرب اقوام سے درخواست کی ہے کہ ایران، ترکی اور پاکستان کی ملتوں کے ساتھ متحد ہوجائیں اور اسلامی مذاہب کے درمیان اختلاف اور تفرقہ ڈالنے اور خلیج حائل کرنے کی غرض سے ہونے والی دشمنان اسلام کی منحوس سازشوں کو کامیاب نہ ہونے دیں۔
انھوں نے کہا: "آپ اندازہ لگائیں کہ اگر اہل سنت اور اہل تشیع کے دو مذاہب کے تمام پیروکار کفر کے سرغنوں کے مقابلے ميں متحد و متفق ہوجائیں تو کیا عظیم طاقت معرض وجود میں آئے گی! اور کیا حالت ہوگی جب سنی مذاہب کی قوت شیعہ مذہب کی طاقت کے ساتھ مل کر کفر کے خلاف متحد ہوجائیں؟
انھوں نے کہا: "اسلامی دنیا کی تمام تر توجہ صہیونی ریاست کی طرف مبذول ہونی چاہئے کیونکہ صہیونی ریاست مسلم امہ کا حقیقی دشمن ہے۔
پروفیسر شیخ محمد عثمان صالح نے تمام اقوام اور حکومتوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا: علاقے میں شیعہ فوبیا کے سلسلے میں ہونے والی سازش اور تشہیری مہم کا فوری طور پر سدّ باب کریں اور صہیونی ریاست کو ـ جو امت مسلمہ کا دشمن نمبر ایک ہے ـ شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنے کا موقع نہ دیں۔
عثمان صالح نے آخر میں مذاہب "اہل تشیع اور اہل تسنن" کے درمیان اشتراکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "شیعہ اور سنی کے دو مذاہب کے درمیان 90 فیصد اشتراکات پائے جاتے ہیں اور ان دو مذاہب کے درمیان جزوی اختلافات بھی محض تاریخی اختلافات ہیں"۔
پروفیسر شیخ محمد عثمان صالح نے یہ فتوی ایسے حال میں جاری کیا ہے کہ وہابی دین کے پیروکار ـ صہیونی اور مغرب کی طرف سے اسلام فوبیا (مغربی دنیا کو اسلام سے خوفزدہ کرنے) کے حوالے سے جاری تشہیری مہم کے موقع پر ـ شیعہ فوبیا (اور مسلمانوں کو مذہب شیعہ سے خوفزدہ کرنے) کی سازش پر عمل پیرا ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک میں شیعہ اور سنی کے درمیان تفرقہ ڈالنے کے حوالے سے مغربی اور صہیونی قوتوں کا ہاتھ بٹاتے ہوئے مسلمانوں کے جاری قتل عام میں ملوث ہیں۔
علاقے کے ممالک ـ بالخصوص شمالی افریقی ممالک ـ میں اسلامی بیداری کی لہر کے آغاز کے بعد اسلام اور مسلمین کے حلفیہ دشمن مختلف قسم کی سازشوں اور شبہات کے ذریعے خالص محمدی اسلام پر مبنی تفکر کی ترویج و فروغ کا راستہ روکنے کے درپے ہیں اور مختلف قسم کے منصوبوں سے اسلامی بیداری کی اس عظیم لہر کو منحرف کرکے اپنے مفاد میں ہائی جیک کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایسے حال میں پروفیسر شیخ محمد عثمان صالح جیسی نمایاں شخصیت کا تاریخی فتوی ـ جو دنیائے اسلام میں اثر و نفوذ کے مالک اور سوڈان و شمالی افریقہ کے صاحب رائے و نظر دینی راہنما ہیں ـ اسلامی امہ کی عظیم تحریک میں ایک نہایت اہم موڑ ثابت ہوسکتا ہے۔