موسسۂ آل البیت للفکر الاسلامی کے سوالات کا جواب
سوال ۱ : جو مذاھب سنی نہیں ہیں کیاانہیں حقیقی اسلام کا جزو مانا جاسکتا ھے ؟
سوال ۲ : ھمارے زمانے میں کسی کو کافر کہنے کے کیا حدود ہیں ؟
الف : کیا روایتی اور قدیم مذاھب کے پیروکاروں کی تکفیر کرنا جائز ہے ؟
ب : کیا تصوف کی حقیقی طریقت کے سالکوں اور پیرووں کی تکفیر جائز ہے ؟
ان دو سوالوں نے مسلمانوں کے درمیان بحران پیدا کرکے ان کی صفوں میں انتشار پیدا کردیا ہے تمام مسلمین ایک امت ہیں جو ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں ان کی طرف بھیجی گئی کتاب قرآن ہے ان کا قبلہ بھی ایک ہے ان کے اصول دین پانچ ہیں خدا و رسول و معاد کی گواھی اور نماز ، زکات ، روزہ اور حج ۔ جو بھی ان اصول کو تسلیم کرتا ہے اور اس کا پابند ہے ، مومن ہے چاہے جس مذھب کا تابع ہو درحقیقت قرآن و سنت کی فہم کے مطابق کہ جو دین اسلام کا منبع ہیں اجتہاد ی مذاھب وجود میں آئے ہیں گرچہ اجتھاد کی راہیں گوناگوں ہیں اور مذاھب کے پیشوا تفسیر ، تاویل ، اقوال و آراء کے درمیان ترجیح دینے کے اصول و قواعد میں اختلاف نظر رکھتے ہیں اور اللہ کا یہ ارشاد اسی حقیقت کی عکاسی کررہاہے:
"يَا ایھا الَّذِينَ آمَنُواْ آمِنُواْ بِاللہ وَ رَسُولہ وَ الْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولہ وَ الْكِتَابِ الَّذِيَ اَنزَلَ مِن قَبْلُ وَ مَن يَكْفُرْ بِاللہ وَ مَلاَئِكَتہ وَ كُتُبہ وَ رُسُلہ والیوم الآخر فقد ضل ضلالا بعید ۔
ایمان والو اللہ رسول اوروہ کتاب جو رسول پر نازل ہوئي ہے اور وہ کتاب جو اس سے پہلے نازل ہوچکی ہے سب پر ایمان لے آو اور یاد رکھو کہ جو خدا، ملائکہ، کتب سماویہ، رسول اور روز قیامت کا انکار کرے گا وہ یقینا گمراہی میں بہت دور نکل گیا ہے ۔
یہ اصول ایمان تک پہنچنے کے لئے اساس و بنیاد ہیں اور کوئی بھی انسان اس وقت تک مومنین کے زمرہ میں شامل نہیں ھوسکتا جب تک کہ وہ خالق متعال کے وجود ، رسول خدا کی بعثت ، قرآن کی حقانیت اور قرآن سے پہلے نازل ھونے والی آسمانی کتابوں پر ایمان نہ لے آئے ۔
اور کفر بھی وہی چیز ہے جس کا آیت کے ذیل میں صراحت سے تذکرہ کیا گیا ہے :
(وَ مَن يَكْفُرْ بِاللّهِ وَ مَلاَئِكَتِهِ وَ كُتُبِهِ و َرُسُلِهِ وَ الْيَوْمِ الآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِيدًا) اس آیت کی نظر میں جواعمال کفر سے توصیف ہوئے ہیں وہ سب کے سب مجاز ھیں اور فقھاء و متکلمین نے صرف لوگوں کے گناھان کبیرہ اور دیگر معاصی کا مرتکب نہ ہونے اور ان کے اندر گناہوں سے نفرت پیدا کرنے نیز انہیں حتیٰ الامکان برائیوں اوران کی تباہی سے بچانے کے لئے بہت سےگناہوں کو کفر سے تعبیر کیا ہے اور چونکہ اس طرح کے اعمال و کردار انسانوں کے ایمان پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے بڑے خطرناک نتائج برآمد ہوتے ہیں اور سچے ایمان کہ جس کی طرف خدا و رسول نے قرآن و حدیث میں دعوت دی ہے اسکے ستونوں کے منہدم ہونےاور ان کے انکار پر منتہی ہوتے ہیں یہ بھی کہتے چلیں کہ یہ شدید تعبیریں بھی شرعی نصوص یعنی قرآن و حدیث سے اخذ ہوئی ہیں ۔
بعض گناہوں کے مجازی کفر ہونے پر دلیل ابن قدامہ کا کلام ہے کہ جو بےنمازی سے نفی کفر کے قول کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کی نسبت اکثر فقھاء جیسے ابوحنیفہ ، مالک ، اور شافعی کی طرف دیتے ہیں۔ آپ متفق علیہ احادیث سے استدلال کرتے ہیں کہ جو لا الہ الا اللہ کہنے والوں پر جھنم کی آگ کو حرام قرار دیتی ہیں اور جہنم سے نکلنے کا سبب لا الہ الا اللہ کہنے کو جانتی ہیں اور یہ کہ انسان کے دل میں نیکی بھی ہو چاہے ایک دانہ گندم کے بارابر ہی ہو ۔ آپ صحابہ اور اجماع مسلمین سے بھی اپنی بات پر استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں : ہم نے کسی زمانے میں نہیں دیکھا کہ کسی بےنمازی کو مسلمانوں نے غسل نہ دیا ہو اور اس کی نماز جنازہ نہ پڑہی ہو اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا ہو یا اس کے ورثہ کو میراث سے منع محروم کردیا ھو یا ورثہ کے مرجانے پر اسے میراث سے محروم کردیا ہو، کسی میاں بیوی کے اندر بےنمازی ہونے کے ناطے جدائی ڈال دی ہو جبکہ تارک الصلاۃ بہت ہیں اور اگر وہ واقعا کافر ہوتے تو ان پر یہ سارے قانون لاگو ہوتے۔
ابن قیم مدارج میں لکھتے ہیں : کفر دو طرح کا ہوتا ہے : کفر اکبر اور کفر اصغر کفر اکبر جہنم میں ہمیشہ جلنے کا باعث ہوتا ہے اور کفر اصغر جہنم میں ہمیشہ جلنے کے بغیر عذاب کا انتباہ ہوتا ہے ۔
اشاعرہ اور صوفیوں کے بارے میں ہماری رائے
اشاعرہ ، مذہب اہل سنت سے قریب ترین ہیں اور مسلمانوں کی بھاری اکثریت انہیں کے عقاید کی تابع ہے ابوالحسن اشعری بدعتوں کا مقابلہ کرتے تھے وہ عقاید میں بہت سی کتابوں کے مولف اور سنت کے طرفداروں میں سے تھے اور سنت کی نقلی دلیلوں کے علاوہ عقلی دلیلوں کو بھی استعمال کرتے تھے۔ اھل سنت اور اشاعرہ کے درمیان خداکے بعض صفات میں اختلاف کا سرچشمہ طریقۂ اجتھاد میں تفاوت ہے امام اشعری بڑی قیمتی کتابوں جیسے الابانۃ ، الموجز و المقالات کے مولف ہیں کہ جن میں انہوں نے ملحدوں کے عقاید اور اھل بدعت کے گروہوں جیسے معتزلیوں جھمیوں اور دوسروں کی تردید کی ہے ، ان کے جیسا شخص اگرچہ اسلامی عقاید پیش کرنے کی روش میں دوسروں سے اختلافات رکھتا ہے لیکن کبھی بھی مسلمانوں سے جدائی کا متہم نہیں ھو سکتا ہے ۔
صوفی لوگوں میں جو حق کے پرستار ہیں اورانہیں عقاید و اعمال کے پابند ہیں جو سارے مسلمین قبول کرتے ہیں لیکن ان کے وہ گروہ جو دین میں بدعت پھیلاتے ہیں وہ بدعتیں جن کی خدا نے اجازت نھیں دی ہے اسی لئے بہت سے اھل سنت نے ان کی طریقت میں ان کی ہمراہی کرنے سے گریز کیا ہے ۔
سوال ۳ : کون اسلام میں فتویٰ دے سکتا ہے ؟ لوگوں کو احکام شریعت کی طرف رھنمائی اور امر فتویٰ کے عھدہ کو سنبھالنے کی بنیادی شرطیں کیا ہیں اور مفتی کی تعریف کیاہے؟
جواب : مفتی وہ شخص ہے جس کے اندر وقایع کے درک کرنے اور ان سے متعلق شرعی احکام کی شناخت از روی دلیل آسانی سے بیان کرسکے اور فقہ کے اکثر مسایل کا حافظ ہو ۔
وہ بہت اہم اور بلند مرتبےکا حامل ہوتا ہے وہ علم پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وارث اور پروردگار عالم کی طرف سے احکام بیان کرنے والا ھوتا ہے خدا کے احکام کو بیان کرتا ہے اور ان کو لوگوں کے اعمال و کردار پر تطبیق دیتا ہے اسی لئے وہ اھل ذکر میں شمار کیا گیا ہے جن کی طرف رجوع کرنے کا خدا نے حکم صادر فرمایا ہے ارشاد ہوتا ہے :
(فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ) اھل ذکر سے پوچھو اگر نھیں جانتے۔
اور چونکہ مفتی ایسی عظمت و منزلت کا حامل ہے علماء نے ایسے شخص کے لئے جو اپنے آپ کو فتویٰ دینے کی منزل میں قرار دیتا ہے بہت سی شرطیں رکھی ہیں تاکہ اجتھاد کی صلاحیت کے علاوہ دیگر آداب و خصوصیت کا حامل ھونابھی ضروری ہے ۔ بعض شرطیں یہ ہیں :
پھلی : شرط یہ ہے کہ مفتی مسلمان ، بالغ ، عادل ، قابل اعتماد ، امانت دار ، پاک دامن اور زاھد و پارسا ہو ۔ دین میں بدعت ایجاد کرنے والا نہ ھو فسق و فجور اور مردانگی و مروت کے خلاف کاموں سے منزہ و پاک ھو ۔ اس لئے کہ اگر ایسا نہ ھوگا تو اس کی باتیں نامناسب اور ناقابل اعتبار ہوں گی اور فاسق کی خبر غیر قابل قبول ہے ۔
دوسری : فتویٰ جاری کرنے میں غفلت اور تساہلی کا مرتکب نہ ہو کیونکہ جو شخص تساہلی اورغفلت برتتا ہو اور اس عیب سے مشھور ہوجائے اس سے فتویٰ لینا جائز نہیں ہے مفتی کے اوپر واجبات میں سے ایک یہ ہے کہ جب تک کسی موضوع کو مکمل طریقہ سے سمجھ نہ لے اور اس کے بارے میں مکمل طور سے بحث و جستجو نہ کر لے اس کےبارے اظھار نظر نہیں کرنا چاہیئے۔ ذیل کی حدیث سنن دارمی میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوئی ہے کہ : اجرئکم علیٰ الفتویٰ اجرئکم علیٰ النار تم میں فتوی دینے کے سلسلہ میں سب سے زیادہ جرئت و جسارت کرنے والا آتش جھنم کے سلسلہ میں سب سے زیادہ جری و گستاخ ہے ۔
تیسری : اسے سمجھدار عاقل ، سالم ذھن ، استوار فکر ، صریح و آشکار کلام اور واضح و روشن تحریر والا ہونا چاہیئے اپنے استنباط میں صحیح راستہ اپنائے اور زندگی کے تمام مراحل میں جملہ واقعات و حوادث کا بڑی ہوشیاری کے ساتھ جائزہ لے۔
چوتھی : عربی زبان اور کلام کے محل و مقام سے اس طرح آشنا ہو کہ اسے خدا و رسول ص کے خطابات کی مراد سمجھنے کی توانائی و صلاحیت پیدا ہوجائے کیونکہ اسلامی شریعت و قانون سازی کا یکہ و تنھا مدرک و منبع عربی زبان ہے ۔
پانچوین : اللہ کی کتاب قرآن کے اندر محکم و متشابہ ، عام و خاص مجمل و مفصل اور ناسخ و منسوخ سے اس طرح آشنا ہو کہ ان کے اندر وارد احکام اور ان کے مضامین کو سمجھ سکے ۔
چھٹی : رسول خدا کی سنت قولی و عملی اس کی روایت کا انداز کہ متواتر ہے یا خبر واحد ، صحیح ہے یا فاسد و باطل ، رجال حدیث عادل ہیں یا مجروح سب سے آشنا ہو ۔
ساتویں : گذشتہ فقھاء کے مسالک سے آشنا اور مقامات اجماع و اختلافات کو جانتا ہو تاکہ احکام کا تابع رہے اور اجماع کے خلاف فتویٰ نہ دے اور اختلافی جگہوں پر اجتھادی فکر کا حامل ہو ۔
آٹھویں : قیاس اور احکام کے علل و اسباب سے آشنا ہو تاکہ فروع کو اصول کی طرف پلٹا سکے اور جدید مسائل میں علم و معرفت کا راستہ کھول سکے ۔
نوین : ان آداب کا پابند ہو جنہیں فقھاء نے مفتیوں کے لئے بیان فرمایا ہے جیسے : غیض و غضب ، خوف ، بھوک ، حواس باختگی اور خطرات کے موقع پران سے دامن چھڑانےکی کوشش میں فتویٰ نہ دے تاکہ میانہ روی اور بھرپور جانچ پڑتال کی حالت سے خارج نہ ہو اور حکم صادر کرنے میں صرف خداوند متعال کی خوشنودی مد نظر رکھے اور یہ آیت کریمہ اس کا نصب العین رہے :
(وَ أَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَآ أَنزَلَ اللّهُ وَ لاَ تَتَّبِعْ أَهْوَاءهُمْ وَ احْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللّهُ إِلَيْكَ ) اور ان کے درمیان اسی کے مطابق حکم کرو جس کا حکم خدانے تمھارے اوپر نازل فرمایا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو اور ان سے پرہیز کرتے رہو کہ کھیں وہ تمھیں اللہ کی بعض نازل کردہ چیزوں سے منحرف نہ کردیں ۔
متفی کو حرام یا شرعی مکروہ کی بنیاد پر فتوی نھیں دینا چاھئے اور نہ ہی اپنے فتووں میں دنیوی مفادات اور دفع ضرر کے جال میں پڑنا چاہیے اور نہ ہی وہ آمدنی نڑہانے کے لئے مباحات اور جواز کے چکر میں پڑے اسے چاہیئے کہ با وقار طریقہ سے فتویٰ صادر کرے تاکہ اس کے سامنے گستاخی و جرأت پیدانہ کریں مگر جھاں حکم خدا آشکار ھو ورنہ اسے چاھئے کہ مکمل چھان بین اور تحقیق و دقت سے کام لے تاکہ واضح جواب دے سکے اور اگر ایسانہ کرے اور فتویٰ صادر کرسکے تو اس کا یہ فتویٰ جہالت پر استوار ہوگا اور خدا و رسول ص پر افتراء کے برابر اور گناہ کبیرہ ھوگا اللہ کا ارشاد ھے :
( قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ وَ الإِثْمَ وَ الْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَ أَن تُشْرِكُواْ بِاللّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَ أَن تَقُولُواْ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ ) کھ دو کہ میرے پروردگار نے برائیوں کو حرام قرار دیا ہے چاہے وہ ظاہری ہوں یا باطنی اور گناہ ناحق سرکشی کو حرام اور خدا کا شرک قرار دینا کہ جس پر کوئی دلیل نازل نہیں ہوئی ہے اور جہالت کی بنیاد پر اللہ سے کسی چیز کے منسوب کرنے کو حرام قرار دیاہے۔
یہی وجہ ہے کہ بزرگوں سے پیہم نقل ہوا ہے کہ جب بھی ان سے کسی چیز کے متعلق سوال ہوتاتھا اور وہ اس کا جواب نہیں جانتے تھے تو کھ دیا کرتے تھے کہ میں نہیں جانتا ۔
اس کے علاوہ ذیل کی صفات کو بھی شرط کے طور اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
۱ ۔ مفتی کو چاہیئے کہ علم فقہ کو وسیع پیمانے پر حاصل کرچکا ہو اور فقہ میں میانہ روی اختیار کرے فقھی کتابوں کا مطالعہ کرکے مسائل کے سمجھنے کی نسبت کافی حد تک مہارت حاصل کرچکا ہو اور فقہ کے جزئی مسائل کی تحقیق میں ید طولیٰ رکھتا ہو ۔
۲ ۔ مورد نظر مسئلہ میں صادر شدہ اکثر فتاویٰ پر مکمل احاطہ و عبور رکھتا ہو اور محققین ، فقھاء اور مفتیوں کی کتابوں کو دیکھا ہو اور ایسے حکم کو ترجیح دے کہ جو فقھی اجتھاد میں قوی دلیل اور معتبر شرایط کی بنیاد پر صادر ہوا ہو اور شاذ و نادر اقوال کی طرف رجحان پیدا نہ کرے ۔
۳ ۔ وہ ھر حال میں شریعت کے مقاصد ، فقھی قواعد ، مسائل کے درمیان جزئی فرق اور صادرشدہ احکام کے نتائج کو ہمیشہ مدنظر رکھے ۔
۴ ۔ تمام فقھی مذاھب کی مورد اعتماد کتابوں خاص طور سے ان کی اصطلاحوں کی نسبت بھر پور طریقہ سے آگھی رکھتا ہو کیونکہ یہی اصطلاحیں فقھی نصوص کو سمجھنے کی کنجی ہیں ۔
۵ ۔ ذکر شدہ تمام مسائل کی پابندی پر شدید طرح سے ہو۔ خدا پسند راہ پرگامزن رہنے کے لئے اپنی پوری توانائی صرف کردے مومنین کے حال کی رعایت کرے کہ کہیں وہ مفتی نما کم مایہ افراد کے فتووں کی وجہ سے دشواریوں اور مشکلات میں گرفتار نہ ہو جائیں یہ سارے امور بنیادی مقصد میں بنیادی شرط کی حیثیت رکھتے ھیں ۔
خداوند متعال سے اطاعت اور رشد و ھدایت کی توفیق کا طلب گار ہوں ۔
وصلی اللہ علیٰ سیدنا و مولانا محمد و علیٰ آلہ و صحبہ و سلم
ڈاکٹر محمد حبیب بن خوجہ مجمع فقھ اسلامی کے مدیر اعلیٰ ۔
منبع : سايت تقريب