سلیمانی

سلیمانی

جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو یقین تھا کہ فرعون اور اس کا لشکر اس نومولود بچے کو قتل کر دیں گے، حضرت موسی ع کی والدہ یہ سوچ رہی تھی کہ اب کیا کیا جائے!؟ خدا کی جانب سے الہام ہوا: "ڈرو مت اسے دودھ پلاؤ" جب خطرہ بڑھ جائے اور آپ کو خوف ہو کہ بچہ دشمن کے ہاتھ میں پہنچ جائے گا تو اس وقت آپ بچے کو دشمن کے حوالہ نہ کرے بلکہ بچے کو دریا میں پھینک دو۔ آخر ایک ماں اپنے بچے کو صندوق میں ڈال کر اس ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا میں پھینکنا کیسے برداشت کرتی؟ الہام ہوا اور ماں سے کہا :ہم آپ کے بچے کو واپس لوٹا دیں گے اور ہم اسے رسول بنادیں گے چنانچہ ہم نے اس بچے کو اس کی ماں تک لٹا دیا۔ تاکہ اس ماں کی آنکھیں روشن ہوجائیں اور وہ اداس نہ ہو- حضرت موسیٰ ع کی والدہ نے اللہ کے وعدے کو پورا ہوتے ہوے دیکھا۔ اللہ کے قطعی وعدوں میں سے ایک وعدہ امام زمانہ علیہ السلام کا ظہور ہے۔ یہ ایک ایسا وعدہ ہے جسے اللہ تعالی نے اپنے تمام انبیاء اور اولیاء کو دیا ہے۔ پیامبر گرامی اسلام ص نے فرمایا: "اے لوگو ! تمہارے لیے امام مہدی (عج) کے ظہور کی خوشخبری دیتا ہوں جو ایک اٹل حقیقت اور خدا کا وعدہ ہے خدا اپنے کیے ہوے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا اور وہ اپنے فیصلے کے خلاف کوئی کام نہیں کرتا، بیشک خدا حکیم اور باخبر ہے اور خدا کی فتح اور آسائیش قریب ہے۔(1)
جی ہاں! یقینا امام زمانہ ع ضرور ظہور فرمائیں گے، جس طرح حضرت موسیٰ کو ان کی والدہ کے پاس واپس لوٹا دیا اور نبوت پر فائز ہوگئے۔ لیکن بات یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم کہاں ٹہرے ہوئے ہیں؟ اور ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جب تک ہم اپنی اصلاح نہیں کرتے اپنے آپ کو نہ بنائیں اور امام زمانہ ع کے ظہور کے لیے راہ ہموار نہ کریں ہم امام زمانہ علیہ السلام کے حقیقی منتظرین میں شمار نہیں ہونگے! پس اگر ہم امام زمانہ علیہ السلام کے حقیقی اصحاب و اعوان میں سے شمار ہونا چاہیں تو ہمیں چاہیے ہم سب سے پہلے امام زمان علیہ السلام کے اصحاب کی خصوصیات اور صفات سے آشنا ہوجائیں،ان خصوصیات اور صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس عظیم الہی وعدے کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کریں۔ امام زمانہ علیہ السلام کے اصحاب اور ناصرین کی کچھ خصوصیات ہیں ہم یہاں مختصر طور پر کچھ صفات اور خصوصیات محترم قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:

1۔خدا اور بندوں کی باہمی محبت:

امام زمان علیہ السلام کے اصحاب کی پہلی خصوصیت سورہ مائدہ کی آیت نمبر 54 میں مذکور ہے جو دیگر صفات کے لئے سرچشمے کی حیثیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ "یہ لوگ خدا سے محبت اور عشق کرتے ہیں اور خدا کی رضا اور خشنودی کے علاوہ کچھ نہیں چاہتے ہیں یہ خدا کو چاہتے ہیں اور خدا سے محبت کرتے ہیں اور خدا بھی ان سے محبت کرتے ہیں(یُحِبُّهُمْ وَیُحِبُّونَهُ)

کون سے لوگ خدا سے محبت کرتے ہیں؟

منتظرین حقیقی امام زمانہ علیہ السلام خدا سے محبت کرتے ہیں،امام کے بتائے ہوے اصولوں اور احکام کی پیروی کرتے ہیں اور امام کی اطاعت کرتے ہیں۔
(إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِی)
اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے(پیغمبر) پیروی کرو(2)
افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ بعض اوقات، اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ یہ کام امام زمانہ علیہ السلام کو خوش کرتا ہے اس کے باوجود ہم اس کام سے غفلت برتتے ہیں اور اسے انجام نہیں دیتے اسی طرح بعض اوقات ہم جانتے ہیں کہ یہ کام امام زمانہ علیہ السلام کو ناراض کرسکتا ہے اس کے باوجود ھم اس کام کو انجام دیتے ہیں اور اپنے آپ کو شیطان کے دھوکے کی وجہ سے روک نہیں سکتے ہیں۔ امیر المومنین ع سے روایت ہے کہ آپ ع نے فرمایا:
الْقَلْبُ‏ الْمُحِبُ‏ لِلَّهِ‏ یُحِبُّ کَثِیراً النَّصَبَ لِلَّهِ وَالْقَلْبُ اللَّاهِی عَنِ اللَّهِ یُحِبُّ الرَّاحَةَ
خدا سے محبت کرنے والا دل خدا کی راہ میں مصائب اور مشقت کو برداشت کرتا ہے اور وہ دل جو خدا کی یاد سے بے خبر ہو وہ سکون اور راحت طلب ہوتا ہے۔(3)

انسان اگر کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ اس کی خدمت کرنا چاہتا ہے اور اس کی خاطر زحمتیں اور مشقتیں برداشت کرلیتا ہے،جس طرح ایک ماں اپنے بچے کے لیے زحمت اور مشقت برداشت کرکے اپنی نیندیں اس بچے پر قربان کر کے لطف اندوز ہوتی ہے اسی طرح منتظر واقعی بھی امام زمانہ علیہ السلام کی خاطر مختلف مشکلات اور سختیاں برداشت کرتا ہے یہ روایت اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتی ہے: جو دل خدا سے محبت کرتا ہے وہ خدا کی راہ میں مشقتیں اور زحمتیں برداشت کرتا ہے لیکن وہ دل جو خدا کی محبت سے غافل اور عاجز ہے وہ سکون طلب اور سستی کا طالب ہوتا ہے۔
امام صادق علیہ السلام نے ایک خوبصورت روایت میں اس دوستی کا معیار یوں بیان کیا ہے:
فَإِنَّ کُلَّ مَنْ خُیِّرَ لَهُ أَمْرَانِ: أَمْرُ الدُّنْیَا وَ أَمْرُ الْآخِرَةِ، فَاخْتَارَ أَمْرَ الْآخِرَةِ عَلَى الدُّنْیَا فَذَلِکَ الَّذِی یُحِبُّ اللَّهَ
جس شخص کو دو چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کرنے کا اختیار دیا جایے ، ایک دنیا ہے اور دوسری آخرت، اگر وہ آخرت کو ترجیح دے تو واضح ہو جائے گا کہ وہ اللہ سے محبت کرتا ہے۔لیکن اگر وہ دنیاوی معاملات کو آخرت پر ترجیح دے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس کے نزدیک خدا کی کوئی اہمیت نہیں ہے نعوذ باللہ اور خدا کی مرضی اس کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
یہ ہمارے لیے ایک بہت بڑا امتحان ہے کہ ہماری محبت خدا کی نسبت کتنی گہری ہے؟ اور ہم اللہ تعالی کی کتنی قدر کرتے ہیں؟
حضرت امام مہدی عج کے اصحاب امام حسین (ع) کے اصحاب کی طرح خدا کی رضا اور آخرت کو ہر چیز پر ترجیح دیتے ہیں اور دنیا کے عہدوں، اور وقتی لذتوں کی خاطر اپنی آخرت کو برباد نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ انتہائی مشکل حالات میں بھی، وہ اپنے محبوب کی رضایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں پس امام مھدی ع کے اصحاب اس آیت کا مصداق تام ہے (یحبھم و یحبونه)

2.مؤمنين کے سامنے عاجز اور دشمنوں کے سامنے سرسخت ہونا:

منتظرین اور اصحاب امام زمانہ ع کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ مومنین کے آگے حلیم اور مہربان ہوتے ہیں اور کافروں کے لیے سرسخت ہوتے ہیں۔‘‘
أَذِلَّةٍ عَلَى المُؤمِنینَ أَعِزَّةٍ عَلَى الکافِرینَ
امام زمانہ علیہ السلام کے منتظرین اور اصحاب مومنین کے ساتھ تکبر، اور غرور سے پیش نہیں آتے بلکہ ان کے ساتھ نرمی سے پیش آتے ہیں۔لیکن کفار اور منافقین کے سامنے نرمی سے پیش نہیں آتے بلکہ ان کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں۔

3۔خدا کی خاطر جہاد کرنے والے:

امام ع کے اصحاب اور منتظرین ہمیشہ جہاد کے لیے تیار رہتے ہیں۔
(یجاھدون في سبيل للہ)
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: امام مہدی کے اصحاب خدا کی راہ میں شہید ہونا چاہتے ہیں۔(4)
البتہ جہاد سے مراد جہاد اصغر اور جہاد اکبر دونوں ہیں-امام علی (ع) فرماتے ہیں: پیغمبر اکرم (ص) نے اصحاب کے ایک گروہ کو کہیں فوجی آپریشن کے لئے بھیجا اور جب وہ واپس آئے تو آپ نے ان سے فرمایا: "مبارک ہو تم لوگوں نے جہاد اصغر کوتو انجام دیا ہے لیکن جہادِ اکبر ابھی باقی ہے۔ اسی دوران اصحاب میں سے ایک صحابی نے پوچھا: یا رسول اللہ، جہاد اکبر سے کیا مراد ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرنا سب سے بڑا جہاد ہے۔(5)
دینی تعلیمات کی روشنی میں اسلامی سرزمین اور مسلمانوں کی جان ومال کی حفاظت اور دفاع اگرچہ واجب ہے ؛ لیکن اسے جہاد اصغر سے تعبیر کیا گیا ہے اور اپنے ھوا و ہوس کے خلاف لڑنے اور اپنی شہوتوں پر کنٹرول کرکے اپنے نفس سے لڑنے کو جہاد اکبر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جی ہاں، امام زمانہ علیہ السلام کے حقیقی منتظرین ہمیشہ شياطين کا مقابلہ کرتے ہیں اور ہمیشہ عبادت الہی میں مشغول رہتے ہیں -امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: میں امام زمانہ علیہ السلام کےاصحاب کو دیکھ رہا ہوں گویا وہ سب سجدے میں ہیں وہ راتوں کو شب بیداری کرتے ہیں، عبادت الہی میں گزارتے ہیں اور دن کو جہاد میں مشغول رہتے ہیں یعنی جہاد بالنفس ۔(6)

4۔اچھے اخلاق کا مالک ہونا:

امام زمانہ ع کے اصحاب اور منتظرین کی ایک اور خصوصیت اچھے اخلاق کا حامل ہونا ہے۔
مختصر کروں امام زمانہ علیہ السلام کے اصحاب اور منتظرین کا تقویٰ، علم اور ان کی معرفت ایسی ہوتی کہ تمام کائنات ان کے آگے سر تسلیم خم کر دیتی ہے اور زمین و آسمان ان کے وجود پر فخر کرتے ہیں۔ خدا اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے نزدیک کسی بھی شخص کا مقام اس کے علم اور اخلاص کی وجہ سے ہی بلند ہوتا ہے لیکن چونکہ امام مہدی ع کے اصحاب کو کوئی نہیں جانتا، اس لیے ہر کوئی اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرسکتا ہے کہ وہ امام مہدی ع کے اصحاب میں شامل ہو جائے۔

منابع و ماخذ
(1)۔امالی صدوق، ص352.
(2)۔آل عمران/31.
(3)۔مجموعه ورام، ج2، ص87.
(4)۔بحارالانوار، ج52، ص307.
(5)۔معانی الاخبار، ج 1، ص160.
(6)۔بحارالانوار، ج 52، ص 386.

تحریر: عرفان حیدر بشوی
بشکریہ:حوزہ نیوز ایجنسی

ایکنا نیوز کے مطابق برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ انہیں انسانی حقوق کی صورتحال کا اندازہ ہے لیکن یہ ملک دنیا میں چونکہ تیل کا سب سے زیادہ پروڈیوسز ہے، اس لئے وہ اس کے ساتھ تعلقات بنائے رکھنے پر مجبور ہیں۔

 

سنیچر کے روز سعودی عرب میں 81 لوگوں کو موت کی سزا اور اس کے لندن – ریاض تعلقات پر ممنکنہ اثرات کے بارے  جب  برطانوی وزیر صحت ساجد جاوید سے سوال کیا گیا تو انہوں نے آل سعود کے سامنے اپنی کمزوری ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ روابط میں ہم پوری طرح صاف ہیں لیکن یہ بھی اہم ہے کہ ہم مانیں یا نہ مانیں ریاض دنیا میں تیل کی پیداوار کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔

 

ساجد جاوید نے کہا کہ روس یوکرین جنگ کے سبب جو عالمی پیمانے پر توانائي کے شعبے میں بحران پیدا ہوا، اس کے حل کے لئے برطانوی وزیر اعظم سمیت دنیا کے دوسرے لیڈروں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ معقول طریقے سے تعاون کریں۔

 

قابل ذکر ہے کہ برطانوی وزیر اعظم اسی ہفتے سعودی عرب کا دورہ کرنے والے ہیں جس کا مقصد سعودی ولیعہد کو تیل کا پروڈکشن بڑھانے کے لئے تیار کرنا ہے تاکہ عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی قیمت کو قابو میں کیا جا سکے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق آیت اللہ سید محمد علی علوی گرگانی (رہ) 1940ء میں نجف اشرف میں حضرت صدیقہ طاہرہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ایام ولادت میں پیدا ہوئے۔ آپ کی ولادت سے آپ کے والد گرامی بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ سے پہلے ان کے ہاں چند بیٹوں کی پیدائش ہوئی تھی لیکن وہ بچپن میں ہی فوت ہو جاتے تھے۔ آپ کے والد گرامی نے بارگاہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام میں توسل کیا اور حضرت سے عالم و صالح فرزند کی درخواست کی۔

آیت اللہ علوی گرگانی (رہ) کے والد گرامی آیت اللہ سید سجاد علوی ایک رات عالم خواب میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ حضرت نے انہیں عنقریب ایک بیٹے کی ولادت کی خوشخبری سنائی اور ان سے کہا کہ اس کا نام "علی" رکھنا۔

جب ان کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی تو باپ نے پہلے سات دن کے مستحب کی رعایت کرتے ہوئے "محمد" نام رکھا اور پھر حضرت علی علیہ السلام سے وعدہ نبھاتے ہوئے ان کا نام "علی" نام رکھا۔

آیت اللہ علوی گرگانی (رہ) کی عمر جب 7 سال ہوئی تو آپ اپنے باپ کے ہمراہ ایران آگئے اور قرائت اور قرآن کریم کی تعلیم کے بعد اپنے باپ کے پاس علوم عربی کی تعلیم حاصل کرنے کا آغاز کیا اور کتاب مغنی، مطوّل اور کتاب اللمعہ کا کچھ حصہ اپنے باپ کے پاس ہی پڑا۔

جب ان کی عمر 16 سال ہوئی تو آپ اپنے والد اور علاقہ کے کچھ افراد کے ہمراہ زیارات عتبات عراق، بیت اللہ الحرام، بیت المقدس اور شام کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ وہ اس سفر کے دوران اپنے ہمسفر افراد کو شرعی اور دینی مسائل سے بھی آگاہ کرتے رہے۔

سفر حج کے بعد آپ نجف اشرف میں دینی تعلیم کے حصول کے لئے رہنا چاہتے تھے لیکن مرحوم آیۃ اللہ العظمی حکیم رحمتہ اللہ علیہ جب آپ کے والد بزرگوار سے ملنے کے لئے آئے اور آپ کے ارادے سے آگاہ ہوئے تو فرمایا "اگر یہ حوزہ علمیہ قم میں دینی تعلیم حاصل کریں تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ حوزہ علمیہ قم فنِ تدریس اور فن خطابت دونوں سکھاتا ہے"۔ پس آپ حوزہ علمیہ قم آگئے اور

یہاں آیت اللہ شیخ عبدالکریم حائری، آیت اللہ شیخ ابوالقاسم قمی، آیت اللہ شیخ محمد علی حائری قمی، آیت اللہ مجاہدی تبریزی، آیت اللہ طباطبائی، آیت اللہ میرزا محمد فیض قمی، آیت اللہ شیخ محمد علی حائری قمی جیسے نامور اساتذہ کے سامنے زانوی تلمذ تہہ کیا اور چار سال کے مختصر عرصہ میں باقی ماندہ سطوح کی تعلیم حاصل کی۔

آیت اللہ علوی گرگانی (رہ) نے اپنے دینی تعلیم کے دوران جن بزرگ اور نامور اساتذہ سے استفادہ کیا وہ مندرجہ ذیل ہیں: آیت اللہ العظمی بروجردی(رہ) ، حضرت امام خمینی (رہ)، آیت اللہ العظمی سید محقق داماد(رہ)، آیت اللہ شیخ علی شاہرودی (رہ)، آیت اللہ شیخ محمد علی اراکی(رہ)، آیت اللہ مرتضیٰ حائری یزدی (رہ)۔

اس کے علاوہ آیت اللہ علوی گرگانی (رہ) حوزہ علمیہ قم میں تعطیلات کے ایام میں موسم گرما میں نجف اشرف میں زیارات سے مشرف ہونے کے علاوہ سات سال تک جن بزرگ اساتذہ کے درس میں جاتے رہے وہ یہ ہیں: حضرت امام خمینی (رہ)، آیت اللہ العظمی خوئی (رہ)، آیت اللہ العظمی شاہرودی (رہ)، آیت اللہ العظمی باقر زنجانی (رہ)۔

آیت اللہ علوی گرگانی (رہ) نے اپنی چالیس سالہ تدریس کے دورانیہ میں بے شمار فاضل علماء کی تربیت بھی کی جو اس وقت ملک کے مختلف علاقوں میں خدمت دین میں مشغول ہیں۔

آیت اللہ علوی گرگانی (رہ) نے زمانۂ طالب علمی کے اوائل سے ہی تبلیغ دین پر خصوصی توجہ دی اور ماہ مبارک رمضان کے ایام میں لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کیلئے تبلیغ دین کے لیے جاتے رہے۔ آپ 18 سال کی عمر تک ہر جمعرات اور جمعہ کو تہران میں مسجد فاطمیہ میں معارف اسلامی کے بیان کے لیے جاتے رہے۔

آپ نے فقہی، اصولی، حدیثی، رجالی اور دیگر دینی موضوعات پر متعدد کتب بھی تحریر کی ہیں۔ جن میں سے کچھ کتابیں جو شائع بھی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

المناظر الناضرة فی احکام العترة الطاهرة (ج ۱، بخشی از کتاب طهارت)

لئالی لاصول (۶ج. مباحث الفاظ و اصول عملیه)

نور الهدی فی التعلیق علی العروة الوثقی

التعلیقة علی تحریر الوسیلة (۲ ج)

اجوبة المسائل (۲ ج) –جوابات استفتائات از طهارت تا دیات.

انوار اخلاقی یا ره توشه پارسایان (۳ ج).

توضیح المسائل (عربی و اردو میں ترجمه ہو چکی ہے).

مناسک حج (عربی و اردو میں ترجمه ہو چکی ہے).

استفتائات و مناسک و ادعیه حج

احکام جوانان

احکام بانوان

کلید سعادت (خواتین کے لئے احکام و استفتائات و نصایح اخلاقی). تحریر:سید مجتی فاطمی

گلچینی از درسهای اخلاق

احکام کسب و کار

استفتائات حج و عمره

احکام خمس

روزه سپر مؤمن۔

اس کے علاوہ ان کی دسیوں کتابیں ابھی تک زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوئی ہیں۔

مسجد جامع« الفار» یا مقامی زبان میں « سمان کوتو بالی» جس کو « لال مسجد» بھی کہا جاسکتا ہے سری لنکا کے شهر کولمبو میں واقع ہے جو قدیم ترین مسجد اور سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ مذکورہ مسجد سال ۱۹۰۹ کو مکمل کی گیی۔
 
 
 
ایام شعبانیہ کے حوالے سے آستان مقدسہ حسینی در میں بڑی تعداد میں زائرین اور عاشقان اهل بیت(ع) حاضر ہوتے ہیں۔

یمن کی حکومت کے نگران اعلی نے کہا ہے کہ ہم جارح سعودی اتحاد کی جانب سے یمن کا محاصرہ جاری رہنے پر خاموش نہیں بیٹھیں گے اور اس نے ملت یمن کے خلاف بہت سے جرائم کا ارتکاب کیا ہے

یمن کی تحریک انصاراللہ کے سربراہ اور یمنی حکومت کے نگران اعلی عبدالملک بدرالدین الحوثی نے صوبہ البیضاء میں الزاہر قبائل کے وفود سے ملاقات میں کہا کہ یمن کے خلاف اقتصادی جنگ کا مقصد ہماری قوم کو اذیتیں پہنچانا اور ان کی پریشانیوں کو بڑھانا ہے۔

الحوثی نے مزید کہا کہ یمن کے خلاف جارحیت کے پہلے دن سے ہی دشمن جان بوجھ کر جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے اور یمنی عوام کا محاصرہ کئے ہوئے ہے۔

الحوثی نے مزید کہا کہ وہ صوبہ البیضاء میں امن و استحکام کو مضبوط بنانے اور اس علاقے کے عوام اور حکومت کے درمیان تعاون کے خواہاں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ سعودی عرب اور امارات کے حکام نے امریکہ اور صیہونی حکومت کے ساتھ کھلا اتحاد  تشکیل دے رکھا ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے ماسکو دورے پہنچنے پر کہا کہ یوکرین کا بحران، پابندیاں اور ویانا مذاکرات ان ملاقات کا اہم محور ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم واضح طور پر یوکرین ، افغانستان،یمن اور دنیا کے کسی کونے میں جنگ کی مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جیسا کہ ہم پابندیوں کی مذمت کرتے ہیں اور ممالک اور اقوام کے خلاف یکطرفہ پابندیوں کے رویے کوغلط طریقہ سمجھتے ہیں، اسی طرح ہم یوکرین کے مسئلے کے سیاسی حل پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔

امیر عبداللہیان نے کہا کہ خیالات اور خبروں میں کہا گیا ہے کہ اگر ہم امریکہ اور دیگر مغربی فریقین کے ساتھ ویانا میں کسی معاہدے پر پہنچ جائیں، تو ممکن ہے کہ روسی فریق  ویانا مذاکرات میں کافی حمایت اور مدد نہ کرے۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے گزشتہ ہفتے مسٹر لاوروف کے ساتھ اپنی ٹیلی فون پر بات چیت سے ایسے نتیجے کا اخذ نہیں کیا ہے اور مجھے امید ہے کہ ہم آج کی بات چیت میں ویانا میں ایران کے ساتھ ایک مضبوط، پائیدار اور اچھے معاہدے تک پہنچنے کیلیے روس کے چلنے والے راستے میں ایک واضح نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔

ویانا میں معاہدے تک پہنچنے کیلیے روس کی کوششوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں: امیر عبداللہیان

ایرانی وزیر خارجہ کا دورہ ماسکو

ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ ہم ویانا میں پابندیوں کے ہٹانے کے لیے مذاکرات میں معاہدے تک پہنچنے کیلیے روس کی  تعمیری کوششوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

انہوں نے ایرانی صدر کے حالیہ دورہ روس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم آج دونوں ممالک کے تعلقات میں ہونے والی پیش رفت پر بات چیت کے لیے یہاں آئے ہیں۔ کسی بھی بین الاقوامی پیش رفت سے قطع نظر روس کے پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات کی ترقی اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے اہم ہے اور ڈاکٹر رئیسی کے حالیہ دورے اور مسٹر پیوٹن کے ساتھ حالیہ ملاقات کے دوران دونوں ممالک کے درمیان اہم معاہدوں پر دستخط کئے گئے ہیں۔

امیر عبداللہیان نے بتایا کہ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ اور میں نے سنجیدگی سے دونوں صدور کےدرمیان معاہدوں کے نفاذ کیلیے پوری کوشش کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج یوکرین، افغانستان، یمن، شام، فلسطین اور دیگر بین الاقوامی مسائل میں پیش رفت پر بات چیت اور مشاورت کا ایک اہم موقع ہے۔

روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے ایرانی وفد کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ ہم سیاسی سطح پر تفصیلی اور مسلسل بات چیت کر رہے ہیں جو ماسکو میں صدارتی سطح پر طے پانے والے معاہدوں پر عملدرآمد کا باعث بنے گی۔

انہوں نے دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان واقعات کے باوجود، دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم 80 فیصد بڑھ کر تقریباً 4 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ قدرتی طور پر، بین الاقوامی سطح پر دونوں ممالک کے درمیان تعاون بہت اچھا ہے اور ہم آستانہ عمل کے فریم ورک میں شام کے بحران کو مدد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

جوہری معاہدے کی بحالی کیلیے مذاکرات آخری مرحلے میں پہنچ گئے ہیں: لاوروف

ایرانی وزیر خارجہ کا دورہ ماسکو

روس کے وزیر خارجہ نے اپنے ایرانی ہم منصب کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ایران جوہری معاہدے کی بحالی سے متعلق بات چیت آخری مرحلے میں داخل ہو گئی ہے اور دونوں ممالک تعاون کی نئی سطح کو حتمی شکل دینے کے لیے نئی دستاویزات تیار کر رہے ہیں۔

روس کی سپوتنک خبر رساں ایجنسی نے لاوروف کے حوالے سے کہا کہ ہم ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مسائل کے حل کے لیے جوہری معاہدے کی بحالی کے آخری مرحلے میں پہنچ چکے ہیں اسی لیے مجھے یقین ہے کہ اس معاہدے کا بہت امکان ہے۔       

لاوروف نے کہا کہ ایران اور روس دونوں باہمی تعاون کی نئی سطح کو باضابطہ شکل دینے کے لیے نئی دستاویزات تیار کر رہے ہیں۔

ایکنا نیوز کے مطابق ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے انسانی حقوق کے دعویدار ملکوں کے دوغلے موقف پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بے گناہوں کو سزائے موت دئے جانے پر ان کی خاموشی ایک مذموم حرکت ہے۔

 

صدر مملکت سید ابراہیم رئیسی نے سعودی عرب میں بے گناہ انسانوں کی سزائے موت پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مغربی ملکوں کا دوہرا معیار اور انسانی حقوق کو ایک حربے کے طور پر استعمال کرنا اور اسی طرح بے گناہوں کی سزائے موت پر انسانی حقوق کے دعویدار ملکوں کی خاموشی شدیدا قابل مذمت ہے۔

 

انھوں نے کہا کہ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی ممالک انسانی حقوق کے مسئلے کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ بین الاقوامی اداروں، تنظیموں اور اسی طرح دنیا کے آزاد ذرائع ابلاغ کو چاہئے کہ اس سلسلے میں اپنی خاموشی توڑیں۔

 

واضح رہے کہ سعودی عرب میں ہفتے کے روز اکیاسی افراد کو سزائے موت دی گئی ہے جن میں سے اکتالیس افراد شیعہ تھے۔  سعودی حکومت نے انہیں مختلف بہانوں سے گرفتار کر کے جیلوں میں بند کر دیا تھا اور پھر سزائے موت دیدی۔

 رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حاج سید محمد علی علوی گورگانی کی رحلت پر تعزیتی پیغام ارسال کیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی کے پیغام کا متن حسب ذیل ہے:



آیت اللہ حاج سید محمد علی علوی گورگانی کی رحلت مدرسہ قم کو اور ان کے تمام شاگردوں، عقیدت مندوں اور تقلید کرنے والوں کو، خاص کر گلستان کے مومنین کو جو اس بزرگ اور ان کے والد محترم جناب حاج سید سجاد علوی سے خصوصی عقیدت رکھتے تھے۔ ۔ میں ان سے اور ان کے معزز بچوں سے تعزیت کرتا ہوں۔

اس عظیم مجتہد نے انقلاب کے مختلف مسائل اور ملکی مسائل میں ہمیشہ عوام کے ساتھ وفاداری اور مقدس نظام کی حمایت کی ہے اور انہوں نے گرانقدر خدمات انجام دی ہیں جن سے خدا کے فضل اور رحمت کا حصول ہوتا ہے۔

میں اللہ تعالیٰ سے ان کی سربلندی کے لیے دعا گو ہوں اور مجھے امید ہے کہ وہ اپنے پاکیزہ اجداد سے مل جائیں گے۔

taghribnews

﴿۱﴾ ہر روز ستر مرتبہ کہے :اَسْتغْفِرُ اﷲ وَ اَسْئَلُه التَّوْبَةَ
﴿۲﴾ ہر روز ستر مرتبہ کہے : اَسْتغْفِرُ اﷲ الَّذِیْ لَا
بخشش چاہتا ہوں اﷲ سے اور توبہ کی توفیق مانگتا ہوں بخشش کا طالب ہوں اﷲ سے کہ جس کے سوا کوئی
اِلَه اِلَّا هوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَ اَتُوْبُ اِلَیْهبعضروایات میں الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ کے الفاظ
معبودنہیں وہ بخشنے والا مہربان ہے زندہ نگہبان ہے اورمیں اسکے حضور توبہ کرتا ہوں زندہ و پائندہ بخشنے والا مہربان
الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ سے قبل ذکر ہوئے ہیں۔
بخشنے والا مہربان
پس جیسے بھی عمل کرے مناسب ہے روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ماہ کا بہترین عمل استغفار ہے اور اس مہینے میں ستر مرتبہ استغفار کرنا گویا دوسرے مہینوں میں ستر ہزار مرتبہ استغفار کرنے کے برابر ہے۔

﴿۳﴾ صدقہ دے اگرچہ وہ نصف خرما ہی کیوں نہ ہو، اس سے خدا اسکے جسم پر جہنم کی آگ کو حرام کردے گا ۔
امام جعفر صادق -سے ماہ رجب کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایاتم ماہ شعبان کے روزے سے کیوں غافل ہو ؟ راوی نے عرض کی ، فرزند رسول(ص) ! شعبان کے ایک روزے کا ثواب کس قدر ہے؟ فرمایا قسم بخدا کہ اس کااجر و ثواب بہشت ہے۔ اس نے عرض کی۔ اے فرزند رسول(ص) ! اس ماہ کا بہترین عمل کیا ہے؟ فرمایا کہ صدقہ و استغفار ، جو شخص ماہ شعبان میں صدقہ دے ۔ پس خدا اس صدقے میں اس طرح اضافہ کرتا رہے گا، جیسے تم لوگ اونٹنی کے بچے کو پال کر عظیم الجثہ اونٹ بنا دیتے ہو چنانچہ یہ صدقہ قیامت کے روز احد کے پہاڑ کی مثل بڑھ چکا ہوگا۔

﴿۴﴾ پورے ماہ شعبان میں ہزار مرتبہ کہے:
لاَ اِلٰه اِلَّا اﷲ وَلَا نَعْبُدُ اِلَّا اِیَّاه مُخْلِصِیْنَ لَه الدِّیْنَ وَلَوْ کَرِه الْمُشْرِکِیْنَ
اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور ہم عبادت نہیں کرتے مگر اسی کی ہم اس کے دین سے خلوص رکھتے ہیں اگرچہ مشرکوں پر ناگوار گزرے
اس ذکر کا بہت زیادہ ثواب ہے، جس میں ایک جز یہ ہے کہ جو شخص مقررہ تعداد میں یہ ذکر کرے گا اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار سال کی عبادت کا ثواب لکھ دیا جائے گا ۔

﴿۵﴾ شعبان کی ہر جمعرات کو دو رکعت نماز پڑھے ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد سو مرتبہ سورہ توحید پڑھے اور نماز کے بعد سو مرتبہ درود شریف پڑھے تاکہ خدا دین و دنیا میں اس کی ہر نیک حاجت پوری فرمائے واضح ہو کہ روزے کا اپنا الگ اجر و ثواب ہے اور روایت میں آیا ہے کہ شعبان کی ہر جمعرات کو آسمان سجایا جاتا ہے تو ملائکہ عرض کرتے ہیں ، خدایا آج کا روزہ رکھنے والوں کوبخش دے اور ان کی دعائیں قبول کر لے۔ ایک حدیث میں مذکور ہے کہ اگر کوئی شخص ماہ شعبان میں سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھے تو خدا وند کریم دنیا و آخرت میں اس کی بیس بیس حاجات پوری فرمائے گا۔

﴿۶﴾ ماہ شعبان میں درود شریف بکثرت پڑھے۔

﴿۷﴾ شعبان میں ہر روز وقت زوال اور پندرہ شعبان کی رات کو امام زین العابدین- سے مروی صلوات پڑھے:
اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ شَجَرَة النُّبُوَّة، وَمَوضِعِ الرِّسالَة، وَمُخْتَلَفِ
اے معبود! محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما جو نبوت کا شجر رسالت کا مقام، فرشتوں کی آمد و رفت
الْمَلائِکَة وَمَعْدِنِ الْعِلْمِ، وَٲَهلِ بَیْتِ الْوَحْیِ ۔ اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ
کی جگہ، علم کے خزانے اور خانہ وحی میں رہنے والے ہیں اے معبود! محمد(ص) وآل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما
الْفُلْکِ الْجارِیَة فِی اللُّجَجِ الْغامِرَة، یَٲْمَنُ مَنْ رَکِبَها، وَیَغْرَقُ مَنْ تَرَکَها، الْمُتَقَدِّمُ
جو بے پناہ بھنوروں میں چلتی ہوئی کشتی ہیں کہ بچ جائے گا جو اس میں سوار ہوگا اور غرق ہوگا جو اسے چھوڑ دے گا ان سے آگے نکلنے والا
لَهمْ مارِقٌ، وَالْمُتَٲَخِّرُ عَنْهمْ زاهقٌ، وَاللاَّزِمُ لَهمْ لاحِقٌ ۔ اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ
دین سے خارج اور ان سے پیچھے رہ جانے والا نابود ہو جائے گا اور ان کے ساتھ رہنے والا حق تک پہنچ جائے گا اے معبود! محمد(ص)
وَآلِ مُحَمَّدٍ الْکَهفِ الْحَصِینِ، وَغِیاثِ الْمُضْطَرِّ الْمُسْتَکِینِ، وَمَلْجَاََ الْهارِبِینَ
و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما جو پائیدار جائے پناہ اور پریشان و بے چارے کی فریاد کو پہنچنے والے، بھاگنے اور ڈرنے والے کیلئے جائے
وَعِصْمَة الْمُعْتَصِمِینَ ۔ اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ صَلاة کَثِیرَة تَکُونُ
امان اور ساتھ رہنے والوں کے نگہدار ہیں اے معبود محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما بہت بہت رحمت کہ جوان کے لیے وجہ خوشنودی
لَهمْ رِضاً وَ لِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ٲَدائً وَقَضائً بِحَوْلٍ مِنْکَ وَقُوَّة یَا رَبَّ الْعالَمِینَ
اور محمد(ص) وآل محمد(ع) کے واجب حق کی ادائیگی اور اس کے پورا ہونے کاموجب بنے تیری قوت و طاقت سے اے جہانوں کے پروردگار
اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ الطَّیِّبِینَ الْاَ بْرارِ الْاَخْیارِ الَّذِینَ ٲَوْجَبْتَ
اے معبود محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما جو پاکیزہ تر، خوش کردار اور نیکو کار ہیںجن کے حقوق تو نے واجب کیے
حُقُوقَهمْ وَفَرَضْتَ طاعَتَهمْ وَوِلایَتَهمْ ۔ اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاعْمُرْ
اور تو نے ان کی اطاعت اور محبت کو فرض قرار دیا ہے اے معبود محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور میرے دل کو اپنی
قَلْبِی بِطاعَتِکَ وَلاَ تُخْزِنِی بِمَعْصِیَتِکَ وَارْزُقْنِی مُواساة مَنْ قَتَّرْتَ عَلَیْه مِنْ رِزْقِکَ
اطاعت سے آباد فرما اپنی نافرمانی سے مجھے رسوا و خوار نہ کر اور جس کے رزق میں تو نے تنگی کی ہے مجھے اس سے ہمدردی کرنے کی
بِما وَسَّعْتَ عَلَیَّ مِنْ فَضْلِکَ، وَنَشَرْتَ عَلَیَّ مِنْ عَدْلِکَ، وَٲَحْیَیْتَنِی تَحْتَ ظِلِّکَ
توفیق دے کیونکہ تو نے اپنے فضل سے میرے رزق میں فراخی کی مجھ پر اپنے عدل کوپھیلایا اور مجھے اپنے سائے تلے زندہ رکھا ہے
وَهذا شَهرُ نَبِیِّکَ سَیِّدِ رُسُلِکَ شَعْبانُ الَّذِی حَفَفْتَه مِنْکَ بِالرَّحْمَة وَالرِّضْوانِ الَّذِی
اور یہ تیرے نبی(ص) کا مہینہ ہے جو تیرے رسولوں کے سردار ہیں یہ ماہ شعبان جسے تو نے اپنی رحمت اور رضامندی کے ساتھ گھیرا ہوا ہے
کانَ رَسُولُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْه وَآلِه وَسَلَّمَ یَدْٲَبُ فِی صِیامِه وَقِیامِه فِی لَیالِیه
یہ وہی مہینہ ہے جس میں حضرت رسول اپنی فروتنی سے دنوں میں روزے رکھتے اور راتوں میں صلوٰۃ و قیام کیا کرتے تھے
وَٲَیَّامِه بُخُوعاً لَکَ فِی إکْرامِه وَ إعْظامِه إلی مَحَلِّ حِمامِه اَللّٰهمَّ فَٲَعِنَّا عَلَی
تیری فرمانبرداری اور اس مہینے کے مراتب و درجات کے باعث وہ زندگی بھر ایسا ہی کرتے رہے اے معبود! پس اس مہینے میں ہمیں
الاسْتِنانِ بِسُنَّتِه فِیه، وَنَیْلِ الشَّفاعَة لَدَیْه اَللّٰهمَّ وَاجْعَلْه لِی شَفِیعاً مُشَفَّعاً،
ان کی سنت کی پیروی اور ان کی شفاعت کے حصول میں مدد فرما اے معبود؛ آنحضرت(ص) کو میرا شفیع بنا جن کی شفاعت مقبول ہے اور
وَطَرِیقاً إلَیْکَ مَهیَعاً وَاجْعَلْنِی لَه مُتَّبِعاً حَتّی ٲَلْقاکَ یَوْمَ الْقِیامَة عَنِّی راضِیاً، وَعَنْ
میرے لیے اپنی طرف کھلا راستہ قرار دے مجھے انکا سچا پیروکار بنادے یہاں تک کہ میںروز قیامت تیرے حضور پیش ہوں جبکہ تو مجھ
ذُ نُوبِی غاضِیاً، قَدْ ٲَوْجَبْتَ لِی مِنْکَ الرَّحْمَۃَ وَالرِّضْوانَ، وَٲَ نْزَلْتَنِی دارَ الْقَرارِ
سے راضی ہو اور میرے گناہوں سے چشم پوشی کرے ایسے میں تو نے میرے لیے اپنی رحمت اور خوشنودی لازم کر رکھی ہو اور مجھے
وَمَحَلَّ الْاَخْیارِ ۔
دارالقرار اور صالح لوگوں کے ساتھ رہنے کی مہلت دے

﴿۸﴾ابن خالویہ سے روایت ہے کہ امیرالمومنین -اور ان کے فرزندان ماہ شعبان میں روزانہ جو مناجات پڑھا کرتے تھے وہ یہ ہے:
اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاسْمَعْ دُعائِی إذا دَعَوْتُکَ، وَاسْمَعْ نِدائِی إذا
اے معبود! محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور جب میں تجھ سے دعا کروں تو میری دعا سن جب میں تجھے پکاروں تو میری
نادَیْتُکَ وَٲَ قْبِلْ عَلَیَّ إذا ناجَیْتُکَ فَقَدْ هرَبْتُ إلَیْکَ وَوَقَفْتُ بَیْنَ یَدَیْکَ مُسْتَکِیناً لَکَ
پکار کو سن جب میں تجھ سے مناجات کروں تو میری پر توجہ فرما کہ تیرے ہاں تیزی سے آیا ہوں میں تیری بارگاہ میں کھڑا ہوں اپنی بے
مُتَضَرِّعاً إلَیْکَ راجِیاً لِما لَدَیْکَ ثَوابِی وَتَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِی وَتَخْبُرُ
چارگی تجھ پر ظاہر کر رہا ہوں تیرے سامنے نالہ و فریاد کرتا ہوں اپنے اس ثواب کی امید میں جو تیرے ہاں ہے اور تو جانتا ہے جو کچھ
حاجَتِی وَتَعْرِفُ ضَمِیرِی، وَلاَ یَخْفی عَلَیْکَ ٲَمْرُ مُنْقَلَبِی وَمَثْوایَ
میرے دل میں ہے تو میری حاجت سے آگاہ ہے اور تو میرے باطن سے باخبر ہے دنیا اور آخرت میں میری حالت تجھ پرمخفی نہیں اور
وَما ٲُرِیدُ ٲَنْ ٲُبْدِیََ بِه مِنْ مَنْطِقِی، وَٲَ تَفَوَّہَ بِه مِنْ طَلِبَتِی، وَٲَرْجُوه لِعاقِبَتِی، وَقَدْ
جس کا میں ارادہ کرتا ہوں کہ زبان پر لاؤں اور اسے بیان کروں اور اپنی حاجت ظاہر کروں اور اپنی عافیت میں ا س کی امید رکھوںتو
جَرَتْ مَقادِیرُکَ عَلَیَّ یَا سَیِّدِی فِیما یَکُونُ مِنِّی إلی آخِرِ عُمْرِی مِنْ سَرِیرَتِی
یقینا تیرے مقدرات مجھ پر جاری ہوئے اے میرے سردار جو میں آخر عمر تک عمل کروں گا میرے پوشیدہ اور ظاہرا کاموں میں سے
وَعَلانِیَتِی وَبِیَدِکَ لاَ بِیَدِ غَیْرِکَ زِیادَتِی وَنَقْصِی وَنَفْعِی وَضَرِّی إلهی إنْ حَرَمْتَنِی
اور میری کمی بیشی اور نفع و نقصان تیرے ہاتھ میں ہے نہ کہ تیرے غیر کے ہاتھ میں میرے معبود! اگر تو نے مجھے محروم کیا
فَمَنْ ذَا الَّذِی یَرْزُقُنِی وَ إنْ خَذَلْتَنِی فَمَنْ ذَا الَّذِی یَنْصُرُنِی إلهی ٲَعُوذُ بِکَ مِنْ
تو پھر کون ہے جو مجھے رزق دے گا اور اگر تو نے مجھے رسو کیا تو پھر کون ہے جو میری مدد کرے گا میرے معبود! میں تیرے غضب اور تیرا
غَضَبِکَ وَحُلُولِ سَخَطِکَ إلهی إنْ کُنْتُ غَیْرَ مُسْتَٲْهلٍ لِرَحْمَتِکَ فَٲَنْتَ ٲَهلٌ ٲَنْ تَجُودَ
عذاب نازل ہونے سے تیری پناہ مانگتا ہوںمیرے معبود: اگر میں تیری رحمت کے لائق نہیں پس تو اس چیز کا اہل ہے کہ مجھ پر اپنے
عَلَیَّ بِفَضْلِ سَعَتِکَ إلهی کَٲَ نِّی بِنَفْسِی واقِفَه بَیْنَ یَدَیْکَ وَقَدْ ٲَظَلَّها حُسْنُ تَوَکُّلِی
عظیم تر فضل سے عطا و عنایت فرمائے میرے معبود! گویا میں خود تیرے سامنے کھڑا ہوں اور تجھ پر میرے حسن اعتماد اور توکل کا سایہ
عَلَیْکَ فَقُلْتَ مَا ٲَ نْتَ ٲَهلُه وَتَغَمَّدْتَنِی بِعَفْوِکَ ۔ إلهی إنْ عَفَوْتَ
پڑرہا ہے پس تو نے وہی کچھ کیا جو تیری شان کے لائق ہے اور تو نے مجھے اپنے دامن عفو میں لے لیا میرے معبود: اگر تو مجھے معاف
فَمَنْ ٲَوْلی مِنْکَ بِذلِکَ وَ إنْ کانَ قَدْ دَنا ٲَجَلِی وَلَمْ یُدْنِنِی مِنْکَ عَمَلِی فَقَدْ جَعَلْتُ
کرے تو کون ہے جو اس کا تجھ سے زیادہ اہل ہو اور اگر میری موت قریب آگئی ہے اور میرا کردار مجھے تیرے قریب کرنے والا نہیں تو
الْاِقْرارَ بِالذَّنْبِ إلَیْکَ وَسِیلَتِی ۔ إلهی قَدْ جُرْتُ عَلی نَفْسِی فِی النَّظَرِ لَها فَلَھَا
میں نے اپنے گناہ کے اقرار کو تیری جناب میں اپنا وسیلہ قرار دے لیا ہے میرے معبود! میںنے اپنے نفس کی تدبیر میں اس پر ظلم کیا
الْوَیْلُ إنْ لَمْ تَغْفِرْ لَها ۔ إلهی لَمْ یَزَلْ بِرُّکَ عَلَیَّ ٲَیَّامَ حَیاتِی فَلا تَقْطَعْ بِرَّکَ عَنِّی
اگر تو اسے بخشے تو یہ ہلاکت وبربادی ہے میرے معبود ایام زندگی میں تیرا احسان ہمیشہ مجھ پر ہوتا رہا پس بوقت موت اسے مجھ سے قطع
فِی مَماتِی ۔ إلهی کَیفَ آیَسُ مِنْ حُسْنِ نَظَرِکَ لِی بَعْدَ مَماتِی وَٲَ نْتَ لَمْ تُوَلِّنِی إلاَّ
نہ فرما میرے معبود! میں مرنے کے بعد تیرے عمدہ التفات سے کیونکر مایوس ہوں گا جبکہ میں نے اپنی زندگی میں تیری طرف سے
الْجَمِیلَ فِی حَیَاتِی ۔ إلهی تَوَلَّ مِنْ ٲَمْرِی مَا ٲَ نْتَ ٲَهلُه، وَعُدْ عَلَیَّ بِفَضْلِکَ عَلی
سوائے نیکی کے کچھ اور نہیں دیکھا میرے معبود! میرے امور کا اس طرح ذمہ دار بن جو تیرے شایاں ہے اور مجھ گنہگار پر اپنے فضل
مُذْنِبٍ قَدْ غَمَرَه جَهلُه ۔ إلهی قَدْ سَتَرْتَ عَلَیَّ ذُ نُوباً فِی الدُّنْیا وَٲَ نَا ٲَحْوَجُ إلی
سے توجہ فرما جسے نادانی نے گھیر رکھا ہے میرے معبود! تو نے دنیا میں میرے گناہوں کی پردہ پوشی فرمائی جبکہ میں آخرت میں
سَتْرِها عَلَیَّ مِنْکَ فِی الاَُْخْری إذْ لَمْ تُظْهرْها لاََِحَدٍ مِنْ عِبادِکَ الصَّالِحِینَ
اپنے گناہوں کی پردہ پوشی کا زیادہ محتاج ہوں میرے معبود! یہ تیرا احسان ہے کہ تو نے میرے گناہ اپنے نیک بندوں میں سے کسی پر
فَلا تَفْضَحْنِی یَوْمَ الْقِیامَة عَلی رُؤُوسِ الْاَشْهادِ إلهی جُودُکَ بَسَطَ ٲَمَلِی
ظاہر نہیں کیے پس روز قیامت بھی مجھے لوگوں کے سامنے رسوا و ذلیل نہ فرما میرے معبود! تیری عطا میری امید پر چھائی ہوئی ہے اور
وَعَفْوُکَ ٲَفْضَلُ مِنْ عَمَلِی إلهی فَسُرَّنِی بِلِقائِکَ یَوْمَ تَقْضِی فِیه بَیْنَ عِبادِکَ
تیرا عفو میرے عمل سے برتر ہے میرے معبود! اپنی ملاقات سے مجھے شاد فرما جس روز تو اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کرے گا
إلهی اعْتِذارِی إلَیْکَ اعْتِذارُ مَنْ لَمْ یَسْتَغْنِ عَنْ قَبُولِ عُذْرِه فَاقْبَلْ عُذْرِی یَا ٲَکْرَمَ
میرے معبود! تیرے حضور میری عذر خواہی اس شخص کی طرح ہے جو قبول عذر سے بے نیاز نہیں پس میرا عذر قبول فرما اے سب
مَنِ اعْتَذَرَ إلَیْه الْمُسِیئُونَ۔ إلهی لاَ تَرُدَّ حاجَتِی، وَلاَ تُخَیِّبْ طَمَعِی
سے زیادہ کرم کرنے والے کہ جس کے سامنے گنہگار عذر خواہی کرتے ہیں میرے مولا میری حاجت رد نہ فرما میری طمع میںمجھے
وَلاَ تَقْطَعْ مِنْکَ رَجائِی وَٲَمَلِی ۔ إلهی لَوْ ٲَرَدْتَ هوانِی لَمْ تَهدِنِی
ناامید نہ کر اور میں تجھ سے جو امید و آرزو رکھتا ہوں اسے قطع نہ کرمیرے معبود اگر تو میری خواری چاہتا ہے تو میری رہنمائی نہ فرماتا اور
وَلَوْ ٲَرَدْتَ فَضِیحَتِی لَمْ تُعافِنِی ۔ إلھِی مَا ٲَظُنُّکَ تَرُدُّنِی فِی حاجَة قَدْ ٲَفْنَیْتُ
اگر تو میری رسوائی چاہتا تو میری پردہ پوشی نہ کرتا، میرے معبود! میں یہ گمان نہیں کرتا کہ تو میری وہ حاجت پوری نہ کرے گا جو میں عمر
عُمْرِی فِی طَلَبِها مِنْکَ ۔ إلهی فَلَکَ الْحَمْدُ ٲَبَداً ٲَبَداً دائِماً سَرْمَداً یَزِیدُ وَلاَ یَبِیدُ
بھر تجھ سے طلب کرتا رہاہوں، میرے معبود! حمد بس تیرے ہی لیے ہے ہمیشہ ہمیشہ پے در پے اور بے انتہا جو بڑھتی جاتی ہے اور کم
کَما تُحِبُّ وَتَرْضی إلهی إنْ ٲَخَذْتَنِی بِجُرْمِی ٲَخَذْتُکَ بِعَفْوِکَ وَ إنْ ٲَخَذْتَنِی
نہیں ہوتی جو تجھے پسند ہے اور تجھے بھلی لگتی ہے، میرے معبود! اگر تو مجھے جرم پر پکڑے گا تو میں تیری بخشش کا دامن تھام لوں گا اگر
بِذُنُوبِی ٲَخَذْتُکَ بِمَغْفِرَتِکَ، وَ إنْ ٲَدْخَلْتَنِی النَّارَ ٲَعْلَمْتُ ٲَهلَها ٲَ نِّی ٲُحِبُّکَ
مجھے گناہ پر پکڑے گا تو میں تیری پردہ پوشی کا سہارا لوں گا اور اگرتو مجھے جہنم میں ڈالے گا تو میں اہل جہنم کو بتاؤں گا کہ میں تیرا چاہنے
إلهی إنْ کانَ صَغُرَ فِی جَنْبِ طاعَتِکَ عَمَلِی فَقَدْ کَبُرَ فِی جَنْبِ رَجائِکَ ٲَمَلِی
والا ہوں میرے خدا! اگر تیری اطاعت کے سلسلے میں میرا عمل کمتر ہے تو بھی تجھ سے بخشش کی امید رکھنے میں میری آرزو بہت بڑی
إلهی کَیْفَ ٲَنْقَلِبُ مِنْ عِنْدِکَ بِالْخَیْبَۃِ مَحْرُوماً وَقَدْ کانَ حُسْنُ ظَنِّی بِجُودِکَ ٲَنْ
ہے، میرے خدا! کس طرح میں تیری درگاہ سے مایوسی میں خالی ہاتھ پلٹ جاوں جبکہ میں تیری عطا سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ تو مجھے
تَقْلِبَنِی بِالنَّجاة مَرْحُوماً إلهی وَقَدْ ٲَ فْنَیْتُ عُمْرِی فِی شِرَّة السَّهوِ عَنْکَ، وَٲَبْلَیْتُ
رحمت و بخشش کے ساتھ پلٹائے گا، میرے خدا ہوا یہ کہ میں نے تجھے فراموش کرکے اپنی زندگی برائی میں گزاری اور میں نے اپنی
شَبابِی فِی سَکْرَة التَّباعُدِ مِنْکَ ۔ إلهی فَلَمْ ٲَسْتَیْقِظْ ٲَیَّامَ اغْتِرارِی بِکَ، وَرُکُونِی
جوانی تجھ سے دوری اور غفلت میںگنوائی میرے خدا؛ تیرے مقابل جرأت کرنے کے دوران میں ہوش میں نہ آیا اور تیری ناخوشی
إلی سَبِیلِ سَخَطِکَ إلهی وَٲَنَا عَبْدُکَ وَابْنُ عَبْدِکَ قائِمٌ بَیْنَ یَدَیْکَ مُتَوَسِّلٌ بِکَرَمِکَ
کے راستے پر چلتا گیا پھر بھی اے معبود؛ میں تیرا بندہ اور تیرے بندے کا بیٹا ہوں اور تیرے ہی لطف و کرم کو وسیلہ بنا کر تیری بارگاہ
إلَیْکَ إلهی ٲَنَا عَبْدٌ ٲَتَنَصَّلُ إلَیْکَ مِمَّا کُنْتُ ٲُواجِهکَ بِه مِنْ قِلَّة اسْتِحْیائِی مِنْ
میں آکر کھڑا ہوں، میرے خدا! میں وہ بندہ ہوں جو خود کو تیری طرف کھینچ لایا ہے جبکہ میں تیری نگاہوں کا حیا نہ کرتے ہوئے تیرے
نَظَرِکَ، وَٲَطْلُبُ الْعَفْوَ مِنْکَ إذِ الْعَفْوُ نَعْتٌ لِکَرَمِکَ ۔ إلهی لَمْ یَکُنْ لِی حَوْلٌ
مقابل اکڑا ہوا تھا میں تجھ سے معافی مانگتاہوں کیونکہ معاف کردینا تیرے لطف و کرم کا خاصہ ہے میرے خدا! میں جنبش نہیں کرسکتا تا
فَٲَنْتَقِلَ بِه عَنْ مَعْصِیَتِکَ إلاَّ فِی وَقْتٍ ٲَیْقَظْتَنِی لَِمحَبَّتِکَ، وَکَما ٲَرَدْتَ ٲَنْ ٲَکُونَ
کہ تیری نافرمانی کی حالت سے نکل آؤں مگر اس وقت جب تو مجھے اپنی محبت کی طرف متوجہ کرے کہ جیسا تو چاہے میں ویساہی بن
کُنْتُ فَشَکَرْتُکَ بِ إدْخالِی فِی کَرَمِکَ، وَ لِتَطْهیرِ قَلْبِی مِنْ ٲَوْساخِ الْغَفْلَة
سکتا ہوں پس میں تیرا شکر گذار ہوں کہ تو نے مجھے اپنی مہربانی میں داخل کیا اور میں تجھ سے جو غفلت کرتا رہاہوں میرے دل کو اس
عَنْکَ ۔ إلهی انْظُرْ إلَیَّ نَظَرَ مَنْ نادَیْتَه فَٲَجابَکَ، وَاسْتَعْمَلْتَه بِمَعُونَتِکَ
سے پاک کردیا میرے خدا! مجھ پر وہ نظر کر جو تو تجھے پکارنے والے پر کرتا ہے تو اس کی دعا قبول کرتا ہیپھر اس کی یوں مدد کرتا ہے گویا
فَٲَطاعَکَ، یَا قَرِیباً لاَ یَبْعُدُ عَنِ الْمُغْتَرِّ بِه، وَیا جَواداً لاَ یَبْخَلُ عَمَّنْ رَجا
وہ تیرا فرمانبردار تھا اے قریب کہ جو نافرمان سے دوری اختیار نہیں کرتا اور اے بہت دینے والے جو ثواب کے امیدوار کے کیے کمی
ثَوابَه ۔ إلهی هبْ لِی قَلْباً یُدْنِیه مِنْکَ شَوْقُه، وَ لِساناً یُرْفَعُ إلَیْکَ صِدْقُه، وَنَظَراً
نہیں کرتا، میرے خدا! مجھے وہ دل دے جس میں تیرے قرب کاشوق ہو۔ وہ زبان عطا فرما جو تیرے حضور سچی رہے اور وہ نظر دے
یُقَرِّبُہُ مِنْکَ حَقُّه۔ إلهی إنَّ مَنْ تَعَرَّفَ بِکَ غَیْرُ مَجْهولٍ، وَمَنْ لاذَ بِکَ غَیْرُ مَخْذُولٍ
جس کی حق بینی مجھے تیرے قریب کرے، میرے خدا! بے شک جسے تو جان لے وہ نامعلوم نہیں رہتا جو تیری محبت میں آجائے وہ بے
وَمَنْ ٲَ قْبَلْتَ عَلَیْہِ غَیْرُ مَمْلُولٍ ۔ إلهی إنَّ مَنِ انْتَهجَ بِکَ لَمُسْتَنِیرٌ، وَ إنَّ مَنِ
کس نہیں ہوتا اور جس پر تیری نگاہ کرم ہو وہ کسی کا غلام نہیں ہوتا، میرے خدا! بے شک جو تیری طرف بڑھے اسے نور ملتا ہے اور جو تجھ
اعْتَصَمَ بِکَ لَمُسْتَجِیرٌ، وَقَدْ لُذْتُ بِکَ یَا إلهی فَلا تُخَیِّبْ ظَنِّی مِنْ رَحْمَتِکَ،
سے وابستہ ہو وہ پناہ یافتہ ہے، ہاں میں تیری پناہ لیتا ہوں اے خدا؛ مجھے اپنے دوستوں میں قرار دے جن کا مقام یہ ہے
وَلاَ تَحْجُبْنِی عَنْ رَٲْفَتِکَ ۔ إلهی ٲَقِمْنِی فِی ٲَهلِ وِلایَتِکَ مُقامَ مَنْ رَجَا
کہ وہ تیری محبت کی بہت امید رکھتے ہیں، میرے خدا! مجھے اپنے ذکر کے ذریعے اپنے ذکر کا
الزِّیادَة مِنْ مَحَبَّتِکَ ۔ إلهی وَٲَ لْهمْنِی وَلَهاً بِذِکْرِکَ إلی ذِکْرِکَ، وَهمَّتِی فِی رَوْحِ
شوق اور ذوق دے اور مجھے اپنے اسمائ حسنیٰ سے مسرور ہونے اور اپنے پاکیزہ مقام سے دلی سکون حاصل کر
نَجاحِ ٲَسْمائِکَ وَمَحَلِّ قُدْسِکَ إلهی بِکَ عَلَیْکَ إلاَّ ٲَلْحَقْتَنِی بِمَحَلِّ ٲَهلِ طاعَتِکَ
نیکی ہمت دے میرے خدا تجھے تیری ذات کا واسطہ ہے کہ مجھے اپنے فرمانبردار بندوں میں شامل کرلے
وَالْمَثْوَی الصَّالِحِ مِنْ مَرْضاتِکَ، فَ إنِّی لاَ ٲَقْدِرُ لِنَفْسِی دَفْعاً، وَلا ٲَمْلِکُ لَها نَفْعاً ۔
اور اپنی خوشنودی کے مقام تک پہنچادے کیونکہ میں نہ اپنا بچاؤ کرسکتا ہوں اورنہ اپنے آپ کو کچھ فائدہ پہنچاسکتاہوں ،
إلهی ٲَ نَا عَبْدُکَ الضَّعِیفُ الْمُذْنِبُ، وَمَمْلُوکُکَ الْمُنِیبُ فَلا تَجْعَلْنِی مِمَّنْ صَرَفْتَ
میرے خدا؛ میں تیرا ایک کمزور و گنہگار بندہ اور تجھ سے معافی کا طلب گار غلام ہوں پس مجھے ان لوگوں میں نہ رکھ جن سے تو نے توجہ
عَنْه وَجْهکَ وَحَجَبَه سَهوُه عَنْ عَفْوِکَ ۔ إلهی هبْ لی کَمالَ الانْقِطاعِ إلَیْکَ، وَٲَنِرْ
ہٹالی اور جن کی بھول نے انہیںتیرے عفو سے غافل کر رکھا ہے میرے خدا مجھے توفیق دے کہ میں تیری بارگاہ کا ہوجاؤں اور ہمارے
ٲَبْصارَ قُلُوبِنا بِضِیائِ نَظَرِها إلَیْکَ، حَتَّی تَخْرِقَ ٲَبْصارُ الْقُلُوبِ حُجُبَ النُّورِ
اورہمارے دلوں کی آنکھیں جب تیری طرف نظر کریں تو انہیں نورانی بنادے تا کہ یہ دیدہ ہائے دل حجابات نور کو پار کرکے تیری
فَتَصِلَ إلی مَعْدِنِ الْعَظَمَة، وَتَصِیرَ ٲَرْواحُنا مُعَلَّقَة بِعِزِّ قُدْسِکَ ۔ إلهی وَاجْعَلْنِی
عظمت و بزرگی کے مرکز سے جاملیں اور ہماری روحیں تیری پاکیزہ بلندیوں پر آویزاں ہوجائیں میرے خدا؛ مجھے ان لوگوں میںرکھ
مِمَّنْ نادَیْتَہُ فَٲَجابَکَ، وَلاحَظْتَه فَصَعِقَ لِجَلالِکَ، فَناجَیْتَه سِرّاً
جن کو تو نے پکارا تو انہوں نے جواب دیا تو نے ان پر توجہ فرمائی تو انہوں نے تیرے جلال کا نعرہ لگایا ہاں تو نے انہیں باطن میں پکارا
وَعَمِلَ لَکَ جَهراً ۔ إلهی لَمْ ٲُسَلِّطْ عَلی حُسْنِ ظَنِّی قُنُوطَ الْاَیاسِ، وَلاَ انْقَطَعَ
اور انہوں نے تیرے لیے ظاہر میں عمل کیا ، میرے خدا؛ میں نے اپنے حسن ظن پر ناامیدی کو مسلط نہیںکیا اور تیرے
رَجائِی مِنْ جَمِیلِ کَرَمِکَ ۔ إلهی إنْ کانَتِ الْخَطایَا قَدْ ٲَسْقَطَتْنِی لَدَیْکَ فَاصْفَحْ
لطف و کرم کی توقع قطع نہیں ہونے دی ہے، میرے خدا؛ اگر تیرے نزدیک میری خطائیں نظر انداز کردی گئی ہیںتو میری جو توکل تجھ
عَنِّی بِحُسْنِ تَوَکُّلِی عَلَیْکَ ۔ إلهی إنْ حَطَّتْنِی الذُّنُوبُ مِنْ مَکارِمِ لُطْفِکَ فَقَدْ
پر ہے اس کے پیش نظر میری پردہ پوشی فرمادے، میرے خدا؛ اگر گناہوں نے مجھے تیرے کرم کی برکتوں سے دور کردیا ہے تو بھی
نَبَّهنِی الْیَقِینُ إلی کَرَمِ عَطْفِکَ ۔ إلهی إنْ ٲَنامَتْنِی الْغَفْلَة عَنِ الاسْتِعْدادِ
یقین نے مجھے تیری عنایت و مہربانی سے آگاہ کر رکھا ہے میرے خدا؛ اگر میں نے خواب غفلت میں پڑکر تیری بارگاہ میں حاضری کی
لِلِقائِکَ فَقَدْ نَبَّهتْنِی الْمَعْرِفَة بِکَرَمِ آلائِکَ ۔ إلهی إنْ دَعانِی إلَی النَّارِ عَظِیمُ عِقابِکَ
تیاری نہیں کی تو بے شک معرفت نے مجھے تیری مہربانیوں سے باخبر کردیا ہے، میرے خدا؛ اگر تیری سخت سزا مجھے جہنم کی طرف
فَقَدْ دَعانِی إلَی الْجَنَّة جَزِیلُ ثَوابِکَ ۔ إلهی فَلَکَ ٲَسٲَلُ وَ إلَیْکَ ٲَبْتَهلُ
بلارہی ہے تو بھی تیرا بہت زیادہ ثواب مجھے جنت کی سمت لیے جاتا ہے، میرے خدا؛ میں بس تیرا سوالی ہوں تیرے آگے زاری کرتا
وَٲَرْغَبُ، وَٲَسْٲَ لُکَ ٲَنْ تُصَلِّیَ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَٲَنْ تَجْعَلَنِی مِمَّنْ یُدِیمُ
ہوں تیرے پاس آیا ہوں اور تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور یہ کہ مجھے ایسا قرار دے جو ہمیشہ تیرا
ذِکْرَکَ، وَلاَ یَنْقُضُ عَهدَکَ، وَلاَ یَغْفُلُ عَنْ شُکْرِکَ، وَلاَ یَسْتَخِفُّ بِٲَمْرِکَ ۔
ذکر کرتا رہا، جس نے تیری نافرمانی نہیں کی، جو تیرا شکر ادا کرنے سے غافل نہیںہوا اور جس نے تیرے فرمان کو سبک نہیں سمجھا،
إلهی وَٲَلْحِقْنِی بِنُورِ عِزِّکَ الْاَ بْهجِ فٲَکُونَ لَکَ عارِفاً وَعَنْ سِواکَ مُنْحَرِفاً، وَمِنْکَ
میرے خدا؛ مجھے اپنی روشن تر عزت کو نور تک پہنچادے تا کہ میں تجھے پہچان لوں، تیرے غیر کو چھوڑدوں اور تجھ سے
خائِفاً مُراقِباً یَا ذَا الْجَلالِ وَالْاِکْرامِ وَصَلَّی اﷲُ عَلی مُحَمَّدٍ رَسُولِه وَآلِه
ڈرتے ہوئے تیری جانب متوجہ رہوں اے سب مرتبوں اور عزتوں کے مالک اور اللہ اپنے رسول محمد مصطفی(ص) پررحمت نازل فرمائے
الطَّاهرِینَ وَسَلَّمَ تَسْلِیماً کَثِیراً ۔
اور ان کی پاکیزہ آل(ع) پر اور سلام بھیجے کہ جو سلام بھیجنے کاحق ہے۔