مسجدِ پیرس فرانس میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد ہے۔ یہ فرانس کے دارالحکومت پیرس کے قدیم حصے میں واقع ہے۔
اس مسجد کا باقاعدہ افتتاح 15جولائی 1926ء کو ہوا تھا اگرچہ اس میں پہلی نماز 1922ء میں پڑھی گئی تھی۔
مسجدِ پیرس کا مینار
یہ ایک ہیکٹر رقبے پر واقع ہے اور اس کا مینار 33 میٹر اونچا ہے۔ اس میں مدرسہ اور کتب خانہ قائم ہیں۔ اسے فرانس اور الجزائر کی حکومتیں مسجد کی ایک کمیٹی کی مدد سے مل کر چلاتی ہیں۔
•
تاریخ
مسجدِ پیرس کا ایک صحن
اس مسجد کا پہلا منصوبہ فرانس کی افریقی کمیٹی نے 1895ء میں بنایا تھا مگر اس وقت فرانسیسی حکومت نے اسے منظور نہ کیا۔ 1916ء میں جنگِ ورداں (Bataille de Verdun) میں پچاس ہزار مسلمان فرانس کی طرف سے جنگ کرتے ہوئے ہلاک ہوئے۔ یہ جنگ جرمنی سے ہوئی تھی۔ اسی طرح پہلی جنگِ عظیم میں فرانس کی مدد کرتے ہوئے ایک لاکھ مسلمان ہلاک ہوئے جن کا تعلق زیادہ تر شمالی افریقہ کے ممالک مراکش، تیونس اور الجزائر سے تھا۔ اس وقت یہ ممالک فرانس کے زیرِ تسلط تھے۔ اس مدد کی وجہ سے فرانس کی حکومت نے مسجد کی تعمیر کا منصوبہ منظور کر لیا۔ حکومت فرانس لے اس کی تعمیر کے لیے روپیہ فراہم کیا۔
1922ء میں تعمیر شروع ہوئی اور زیرِ تعمیر مسجد میں پہلی نماز پڑھی گئی۔ اس کا باقاعدہ افتتاح 15جولائی 1926ء کو فرانس کے اس وقت کے صدر گاستوں دومیغگ (Gaston Doumergue) نے کیا۔ یہ مسجد ایک سابقہ ہسپتال کی جگہ بنائی گئی جو پیرس کے مشہور باغِ اشجار (Jardin des plantes ) کے سامنے واقع تھا۔
طرزِ تعمیر
مسجد کا ایک اندرونی دروازہ
اس مسجد کو مراکش کے شہر فاس کی مشہور مسجد القرویین کی طرح تعمیر کیا گیا ہے جو 859ء میں تعمیر ہوئی تھی۔ اس کا مینار ایک اور مسجد 'جامع القیروان الاکبر' (جو تیونس کی ایک قدیم مسجد ہے) کی طرز پر بنایا گیا ہے۔
اس کا بیرونی دروازہ اور اندرونی دروازے اسلامی طرزِ تعمیر کا عمدہ نمونہ ہیں۔ اس کے کئی صحن ہیں جن میں خوبصورت فوارے لگے ہوئے ہیں۔ اس میں ایک مدرسہ، ایک کتاب خانہ، ایک کانفرنس روم، نماز کے لیے ایک ہال اور ایک ریستوراں شامل ہیں۔ ریستوراں میں بہت سے مسلمان اور غیر مسلم عربی کھانے شوق سے کھاتے ہیں۔
مسجد کی دیواریں حسین کاشی کاری سے مزین ہیں۔ مسجد کے اردگرد گھر اور دفاتر کے قائم ہونے کی وجہ سے اس کا حسن چھپ سا گیا ہے۔ مگر مسجد کے اندر داخل ہونے کے بعد اس کا حسن سامنے آجاتا ہے۔ اسے بہت سے فرانسیسی اور غیرملکی دیکھنے آتے ہیں۔
مسجد کی دیوار پر نقش و نگار
مسجد کا فرانس میں کردار
یہ مسجد مسلمانوں اور غیر مسلم فرانسیسیوں کے درمیان اتحاد اور محبت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ دوسری جنگِ عظیم میں فرانس پر جرمنی کے قبضہ کے دوران یہ مسجد فرانس کی آزادی کی تحریک (résistance) کو تحفظ فراہم کرتی رہی ہے۔ اس مسجد میں پیراشوٹ سے نیچے اترنے والے برطانوی فوجیوں نے بھی پناہ لی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے بہت سے یہودی خاندانوں کو بھی جرمنوں سے پناہ دیے رکھی جس کا جرمن افواج کو پتہ نہ چل سکا۔ ان پناہ گزین یہودیوں کی تعداد 1600 سے زیادہ تھی۔ ان کو مختلف طریقوں سے بچایا گیا۔ کچھ کو چھپا لیا گیا اور کچھ کے لیے جعلی دستاویزات مہیا کی گئیں کہ وہ مسلمان ہیں۔ کافی تعداد میں یہودیوں اور ان فرانسیسی عیسائیوں کو، جو جرمنوں کو درکار تھے، المغرب (الجزائر، تیونس، مراکش) یا جنوبی فرانس میں فرار کروایا گیا۔ اس وجہ سے بہت سے یہودی جرمنی کے عقوبت خانوں میں جانے سے بچ گئے۔ اس کے باوجود 1960ء کی دہائی میں فرانس کی فوج نے الجزائر میں بے شمار مظالم ڈھائے۔
موجودہ دور میں مسجد کو فرانس اور الجزائر کی حکومتوں کے تعاون سے اور ایک مسجد کمیٹی کی مدد سے چلایا جاتا ہے۔ اس سے فرانس کے مسلمانوں اور غیر مسلموں میں ایک خوشگوار رابطہ ہوتا ہے۔ اس مسجد میں ہر قومیت کے مسلمان مل سکتے ہیں کیونکہ یہ پیرس شہر کی مرکزی مسجد ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مساجد ہیں مگر وہ مختصر جگہ پر بعض جگہ ایک کمرہ پر مشتمل ہیں۔
نماز کی جگہ
سیاحت
مسجد سارا سال سیاحت کے لیے بھی کھلی رہتی ہے۔ اس میں عربی اور فرانسیسی زبانوں میں درس ہوتے ہیں جن میں غیر مسلم سیاح بھی شرکت کرتے ہیں۔
اندرونی صحن
علامہ اقبال کی نظر میں
حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے 1932ء میں دورۂ پیرس کے موقع پر اس مسجد کا دورہ کیا تھا اور بعد ازاں اپنے مجموعۂ کلام ضرب کلیم میں پیرس کی مسجد کے عنوان سے ایک نظم لکھی :
” مری نگاہ کمالِ ہنر کو کیا دیکھے
کہ حق سے یہ حرمِ مغربی ہے بیگانہ
حرم نہیں ہے، فرنگی کرشمہ بازوں نے
تنِ حرم میں چھپا دی ہے روحِ بت خانہ
یہ بت کدہ انہی غارت گروں کی ہے تعمیر
دمشق ہاتھ سے جن کے ہوا ہے ویرانہ “