مسجد اعظم قم، ایک قدیمی ترین، بزرگ ترین اور زیبا ترین مسجد ہے۔ اس تاریخی مسجد کو حضرت آیت اللہ العظمی الحاج سید حسین طباطبائی بروجردی نے تعمیر کرایا ہے۔ اس میں ہر روز زائرین کی ایک بڑی تعداد نماز پڑھتی ہے۔
بارگاہ ملکوتی حضرت معصومہ ﴿ع﴾ کے جوار میں ھونے، معماری کا بے مثال نمونہ ھونے اور مراجع عظام کے توسط سے اس میں دروس خارج قائم ھونے کی وجہ سے اس مسجد کو کافی اہمیت اور شہرت حاصل ھوئی ہے۔
اس عظیم مسجد کی مساحت بارہ ہزار مربع میٹر ہے۔ نماز جماعت پڑھنے، اعیاد کی تقریبات اور سوگواری کی مجلسیں منعقد کرنے کے لئے مناسب جگہ نہ ھونے کی وجہ سے حضرت آیت اللہ العظمی بروجردی نے اس شاندار مسجد کی تعمیر کرائی ہے۔ اس عالیقدر مرجع تقلید کا اعتقاد تھا کہ بارگاہ حضرت امام رضا﴿ع﴾ کے جوار میں موجود مسجد گوہرشاد کے مانند معصومہ قم ﴿س﴾کے جوار میں بھی ایک شاندار مسجد ھونی چاہئے۔ لہذا مرحوم نے اپنی زندگی میں ہی1954 عیسوی میں حرم کے اطراف میں موجود مکانوں اور دوکانوں کو خرید کر اس مسجد کے شبستان پر واقع گنبد نیچے موجود محراب کی جگہ پر اس مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں پہلی گینتی ماری۔
اس مسجد کی زمین ایک مثلث شکل کی ہے، جس کا جنوبی ضلع تقریبا ایک سو بیس میٹر ہے اور اس کا قاعدہ شاید دس میٹر بھی نہ ھو۔
اس زمانہ کے ایک مشہور معمار الحاج حسین لرزادہ نے اس مشکل کے باوجود باشکوہ عمارت کو ہنرمندی کے ساتھ تعمیر کیا ہے۔ اس مسجد کی عمارت1960عیسوی میں مکمل ھوئی ہے اور معماری اور ٹائیل لگانے کے لحاظ سے فن کاری کا ایک بے مثال نمونہ ہے۔
اس مسجد کا گنبد تقریبا 1460مربع میٹر کا ہے اور عالم اسلام کا ایک بڑا گنبد شمار ھوتا ہے۔ اس گنبد اور مھراب کی ٹائیلیں بچھانے کا کام ایران کی قدیم کاشی کاری کا نمونہ ہے اور ثقافتی میراث شمار ھوتا ہے۔
تعمیر شدہ گنبد اور ایوان کے نیچے دو گوشواروں کے مانند دوشبستان ہیں جو پوری مسجد پر مشتمل ہیں۔
شبستانوں کے باہر دو ایوان ہیں، جو مسجد کا حصہ ہیں۔مسجد کے مغرب میں کتابخانہ کے مخزن کی عمارت، مطالعہ کا ہال، ایک چھوٹا ایوان، وضوخانہ اور حوض ہے ﴿ کہ آج نئے منصوبہ کے تحت انھیں منہدم کرکے دوسری جگہ پر بنایا جارہا ہے﴾۔ مسجد کے جنوب میں نسبتا ایک بڑے شبستان کے علاوہ ایک راہ رو ہے کہ اس کے بعد ایک چھوٹے صحن سے گزر کر ایک بڑے ریسٹورنٹ میں داخل ھوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچن، چوکیدار کی جگہ، کنواں اور اس کنوے کے پاس ایک خوبصورت حوض ہے اور یہ سب مسجد کی عمارت میں شامل ھوتے ہیں۔
مرحوم آیت اللہ العظمی بروجردی کا مرقد، ان کی وصیت کے مطابق مسجد اعظم کے مشرقی ضلع میں واقع ہے۔ مرحوم کے نواسے آیت اللہ علوی بروجردی اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: “پہلے اس جگہ پر ایک چھوٹا سا گھر تھا، جس کی مساحت 60 مربع میٹر تھی جو آیت اللہ العظمی بروجردی نے ذاتی پیسوں سے خریدا تھا اور اپنے دفن کی جگہ کو مشخص کرنے کے بعد باقی زمین کو مسجد کے لئے وقف کیا، اور ہمیشہ فرماتے تھے:“ چونکہ یہ جگہ حرم میں داخل ھونے کا راستہ ہے، اس لئے مجھے اسی جگہ پر دفن کرنا تاکہ زائرین کے جوتوں کی خاک میری قبر ہر ھو”۔
اس عالم ربانی کی رحلت کے بعد خود حضرت آیت اللہ العظمی بروجردی کی طرف سے مرتب شدہ وقف نامہ کے مطابق مرحوم کے بڑے بیٹے حجتہ الاسلام والمسلمین آقای محمد حسین طباطبائی بروجردی نے اس مسجد کے متولی کے عنوان سے ذمہ داری سنبھالی، اور نا تمام کام کو پائے تکمیل تک پہنچا دیا۔
مسجد کے مغربی ضلع میں ایک کتابخانہ کی تاسیس، مرحوم کی یادگار کے عنوان سے ہے۔ مرحوم کے زمانہ میں اس کتابخانہ کی مسؤلیت مرحوم حجتہ السلام والمسلمین حاج اقای ابوالقاسم دانش آشتیانی کو سونپی گئی تھی کہ اس زمانہ میں اس کتابخانہ میں دس ہزار کتابیں موجود تھیں۔ مرحوم آیت اللہ العظمی بروجردی کی رحلت کے چالیس دن بعد محمد حسین علوی اور دوسرے نامور شاعروں کی مدیحہ سرائی سے اس کتابخانہ کا افتتاح کیا گیا۔
اج، یہ عظیم کتابخانہ، قلمی نسخوں کے لحاظ سے ایران کے معتبر ترین اور سب سے اہم کتاب خانوں میں شمار ھوتا ہے، جہاں پر شیعوں کی ثقافتی میراث محفوظ ہے۔
یہ کتابخانہ جزوات، نفیس اور نایاب قلمی نسخوں، طبع شدہ کتابوں اور قابل اعتبار مجلات پر مشتمل ہے۔ ان مجلات کو تہران کے ایک بڑے ناشر مرحوم رمضانی نے عطیہ کے طور پر دیا ہے۔ اس کے علاوہ آقائے محسن اراکی کے نواسے آیت اللہ فرید محسنی نے بھی گراں قیمت کتابوں کی ایک بڑی تعداد اس کتابخانہ کے اختیار میں قرار دی ہے۔
اس وقت اس کتابخانہ میں ایک لاکھ سے زائد مطبوعہ کتابیں اور سات ہزار سے زائد قلمی نسخے موجود ہیں۔
چونکہ اس کتابخانہ میں کتابوں کا مخزن اور مطالعات کا ہال نہیں ہے، اس لئے تمام خطی ﴿قلمی﴾ کتابوں کے فلم برداری کی گئی ہے اور cd کی صورت میں مراجعین کو دی جاتی ہیں تاکہ محقیقین منابع تک رسائی پیدا کرسکیں۔ اس کتابخانہ کا ایک حصہ کیسٹوں پر مشتمل ہے، جس میں ماضی اور حال کے بڑے اساتذہ کے حوزوی دروس پر مشتمل 45 ہزار گھنٹوں کی کیسٹیں موجود ہیں۔
اس کتابخانہ کے مستقبل کے پروگرام میں عام لوگوں کے لئے کئی عمومی مطالعاتی ہال اور محقیقین کے لئے کئی خصوصی مطالعاتی ہال تعمیر کرنا ہے۔
مرمت اور تعمیر نو:
اس مسجد کے گنبد کی ٹائلیں خراب اور ٹوٹ چکی تھیں، اس لئے ان کی مرمت اور تعمیر نو کی ذمہ داری مرحوم کے نواسے حضرت آیت اللہ علوی بروجردی پر ہے۔ اس وقت اس مسجد کے دو میناروں، کتبہ اور دو محرابوں کے ﴿کاشی﴾ ٹائیلوں کا کام مکمل ھوا ہے۔
حرم مطہر حضرت معصومہ ﴿س﴾ کو وسعت دینے کے منصوبہ کے مطابق، مسجد کے مغرب میں دریا پر ایک بڑا صحن تعمیر کیا گیا ہے۔
آیت اللہ علوی بروجردی امید وار ہیں کہ: ہم قلمی اور سنگی نسخوں اور اسناد و مدارک کو محفوظ رکھنے کے لئے مناسب اور نئی اور مجہز عمارت تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ کتابخانوں کی عمارت تعمیر کرنے کے لئے اس وقت 3800مربع میٹر زمین پر کام شروع کیا گیا ہے اور مسجد کے مشرقی حصہ کو بھی خوشنما بنایا جائے گا۔ مسجد کے صحن میں ٹائیل بچھانا، دریا کی طرف محراب کی کاشی﴿ ٹائیل﴾ کاری اور گنبد کے نیچے 300 مربع میٹر پر کاشی﴿ٹائیل﴾ کاری، حضرت معصومہ﴿س﴾ کے روضہ کی طرف داخل ھونے کے لئے دو دروازے تعمیر کرنا اس نئے منصوبہ کا حصہ ہے”۔
انھوں نے اس سلسلہ میں مزید فرمایا:“ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ آیت اللہ العظمی بروجردی ﴿رہ﴾ کے مقبرہ اور اس کے سامنے والے راہ رو کو رواق کی صورت میں تبدیل کریں گے تاکہ زائرین اس سے استفادہ کرسکیں اور اس کام کے لئے دیواروں پر شیشہ نما سنگ کاری، آئینہ کاری اور ٹائیلوں ﴿کاشی﴾ کی مرمت کی ضرورت ہے”۔ اس کے علاوہ آیت اللہ علوی بروجردی نے شبستانوں کو خاص کر ان کی چھت اور نور افشانی کو مزین کرنا، زائرین وطلاب کی آسائش کے لئے مسجد کے اندر ائر کنڈشننگ کرنا، مسجد اعظم کے2400 مربع میٹر قالین کو بدلنا اور مسجد اعظم کی ایک مخصوص ویب سائٹ کھولنا اس مسجد کے مستقبل کے منصوبے میں شامل ہے۔
انھوں نے اضافہ کیا: حوزہ علمیہ سے متعلق” سمینار اور کانفرنسیں منعقد کرنے کے لئے ایک مناسب ہال اور ایک تھیٹر کو 500 مربع میٹر پر تعمیر کیا جائے گا۔