مسجد امام علی ﴿ع﴾ اور مرکز اسلامی ہمبرگ
{ إِنّما يَعْمُرُ مَساجِدَ اللّهِ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَ الْيَوْمِ اْلآخِرِ وَ أَقامَ الصّلاةَ وَ آتَى الزّكاةَ وَ لَمْ يَخْشَ إِلاّ اللّهَ فَعَسى أُولئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدينَ }
“ خدا کی مساجد کو وہ لوگ تعمیر کرتے ہیں، جنھوں نے خدا اور قیامت کے دن پر ایمان لایا ھو، نماز قائم کرتے ہیں، زکوة دیتے ہیں اور خدا کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ہیں۔ امید ہے یہ ہدایت پانے والوں میں سے ھوں”۔
مسجد، دین مقدس اسلام کا دفاعی مورچہ ہے، اور پوری تاریخ میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ ﴿ص﴾ کے با وفا صحابیوں نے اس کا دفاع کیا ہے۔ مسجد کے کافی رول ہیں ان میں سے اہم رول اس کا عبادت کا مرکز ھونا اور مسلمانوں کے درمیان رابطہ بر قرار کرنے کی جگہ ہے۔ جس طرح ستارے آسمان کی زینت کا سبب ہیں، اسی طرح مساجد بھی زمین کی زینت ہیں اور مساجد میں مؤمنین کے دلوں میں خدا کا نور چمکتا ہے اور انھیں مستفید کرتا ہے۔ چنانچہ رسول خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے:“ المساجد انوار اللہ”، “ مسجدیں خدا کا نور ہیں”۔
یورپ کی بڑی اور مشہور مساجدوں میں سے ایک مسجد امام علی علیہ السلام اور مرکز اسلامی ہمبرگ ہے، جس کو مرجع عالی قدر مرحوم آیت اللہ العظمی بروجردی کی ہمت اور مؤمنین کی مدد سے تعمیر کیا گیا ہے۔
یہ باشکوہ مسجد اور اسلامی مرکز مسلمانوں کے مختلف گروہوں اور قومون کی عبادت اور اسلام کی ترویج کی جگہ ہے۔ یہ اسلامی مرکز مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کی توجہ کا سبب بنا ہے اور مختلف ممالک سے آنے والے سیاح اس کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ یورپ کے بہت سے مسلمانوں، خاص کر جرمنی کے لوگوں کے لئے اسلامی مرکز ھمبرگ کا نام جانا پہچانا ہے اور شاید بعض افراد دور دراز علاقوں سے کئی بار آکر اس مسجد اور مرکز اسلامی کو دیکھنے میں کامیاب ھوئے ھوں گے۔
اس مسجد کا آلستر نامی خوبصورت جھیل کے کنارے پر واقع ھونا اور مشرقی معماری کی دلکش عمارت، اس امر کا سبب بنی ہے کہ شہر ھمبرگ میں تازہ داخل ھونے والے افراد اور مختلف ممالک کے سیاح، اس مرکز کو شہر کی دیکھنے کے قابل دینی عمارت کے عنوان سے دیکھنے کے لئے آئیں۔ سالہا سال سے جرمنی کے سیاحت سے متعلق موسسات کی طرف سے شائع کئے جانے والے بروشروں میں شہر ھمبرگ کی قابل دید تاریخی عمارتوں کے عنوان سے اس مسجد کا نام درج ھوتا ہے۔
مسجد اور مرکز کی تعمیر کی تاریخ:
یکم اکتوبر 1957ء میں پہلی بار اس مسجد کے لئے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا گیا اور اسے اندراج کیا گیا۔ جس کا رقبہ3744.4مربع میٹر تھا۔
فروری 1960 عیسوی میں اس مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں پہلی گینتی مارنے سے 1963ء کے اواخر تک کام میں کبھی کبھی وقفوں کے باوجود عمارت کا ڈھانچہ کھڑا کیا گیا۔ لیکن ان ہی دنوں حضرت آیت اللہ العظمی بروجردی وفات پا گئے۔
1963عیسوی کے اواخر میں مسجد کی تعمیر کا کام کچھ مدت کے لئے رک گیا۔ عمارت تعمیر کرنے کی کمیٹی کو بجٹ ختم ھونے کی وجہ سے جرمنی کے بینکوں سے قرض لینا پڑا۔
1965عیسوی میں مراجع تقلید کی تائید سے شہید آیت اللہ ڈاکٹر بہشتی، اس مسجد کے امام جماعت کے عنوان سے منصوب ھوئے۔ وہ ایک فعال عالم دین اور دانشور تھے۔ انھوں نے یہ عہدہ سنبھالتے ہی اس مسجد اور مرکز اسلامی کی بنیادی تعمیرات کو سرعت بخشی۔
1966ء اور 1967عیسوی کے سالوں کے دوران مسجد کا اندرونی ایک حصہ اور مسجد کی دیواروں پر باہر سے ٹائیل لگانے کا کام مکمل کیا گیا اور اس سلسلہ میں ایران اور جرمنی کے مسلمانوں نے مالی مدد کی۔
آیت اللہ ڈاکٹر بہشتی کے دوسرے اہم کارناموں میں سے یہ تھا کہ انھوں نے مسجد کے ساتھ ایک اسلامی اور ثقافتی مؤسسہ کی بنیاد ڈالی تاکہ مختلف مذاہب اور فرقوں کے مسلمانوں کے لئے اسلامی اور ثقافتی سرگرمیاں انجام دینے کا موقع فراہم ھوجائے۔ اس طرح شہید بہشتی کی کوششوں کے نتیجہ میں 8 فروری 1966عیسوی کو “ مرکز ھمبرگ” کا قانونی طور پر اندراج کیا گیا اور اس مرکز نے جرمنی اور دوسرے یورپی ممالک کی سطح پر اپنی سرگرمیاں شروع کیں۔
1970عیسوی میں آیت اللہ بہشتی کے ایران لوٹنے کی مختصر مدت کے بعد ایران کی ظالم شاہی حکومت کے اشاروں پر جرمنی میں“ ملی بینک ” میں اس مسجد کی تعمیر کے بارے میں حساب کو بند کیا گیا اور اس طرح اس بینک نے مسجد اور مرکز کے کام کو جاری رکھنے کے لئے رقومات ادا کرنے سے انکار کیا۔ یہ اقدام اس مسجد اور مرکز کی سرگرمیوں کو مزید ضرر پہنچنے کا سبب بنا۔ لیکن بعض ہمدرد مسلمانوں کی انتھک کوششوں کے نتیجہ میں، اس مسجد کے مالی مشکلات کافی حد تک حل ھوگئے، اور1969عیسوی سے 1979عیسوی تک کی مدت کے دوران اس مسجد اور مرکز کے اہم کام من جملہ تقریروں کا ہال، مسجد کی بیرونی دیواروں کی زیبائی کا کام اور اس کا تہ خانہ مکمل کیا گیا۔
مسجد ھمبرگ کی عمارت:
مسجد ھمبرگ کی عمارت اس کے دو اہم حصوں پر مشتمل ہے: مسجد کا اصلی حصہ ایک دائرہ کی شکل میں ہے، کہ اس پر ایک بڑا گنبد قرار پایا ہے، جس کی بلندی 18میٹر اور قطر 13.5میٹر ہے۔ یہ گنبد سیمٹ کا بنا ھوا ہے اور اس پر تانبے کی تہ لگائی گئی ہے، اور اس کا رنگ سبز ہے اور اس نے مسجد کو ایک خاص زیبائی بخشی ہے۔
مسجد کی اندرونی دیواروں کو فیروزی رنگ کی ٹائیلوں سے مزین کیا گیا ہے۔ ان دیواروں پر خوشنما خط ثلث میں سورہ جمعہ اور سورہ اسراء کی چند ایات اور ان کا جرمنی زبان میں ترجمہ لکھا گیا ہے اس مسجد کے ٹائیل لگانے کا کام شہر مقدس مشہد کے ماہر استادوں نے انجام دیا ہے۔ مسجد کے قبلہ کی طرف ایک خوبصورت محراب ہے، جسے اینٹوں اور ٹائیلوں سے بنایا گیا ہے اور اس محراب کو بھی مشہد مقدس کے ماہر استادوں نے دوسال کی مدت میں تعمیر کیا ہے۔
محراب کے اوپر سورہ انعام کی آیت نمبر 162کی انتہائی خوبصورت انداز میں خطاطی کی گئی ہے۔ مسجد کے شبستان میں روزمرہ نماز جماعت، نماز جمعہ اور نماز عید الفطر اور نماز عیدقربان بجالائی جاتی ہے۔
گنبد کے دونوں اطراف میں دو مینار ہیں، جو رسول اللہ ﴿ص﴾ کے موذن، حضرت بلال ﴿رض﴾ کی اذان اور خدا کی وحدانیت کا اعلان کرنے کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ یہ دونوں مینار بھی سیمٹ کے بنے ھوئے ہیں اور ان کو باہر سے چھوٹی چھوٹی ٹائیلوں سے سجایا گیا ہے۔ ان میناروں میں سے ہر ایک کا قطر2.20 میٹر ہے اور ان کی بلندی 18میٹرہے۔ مسجد کا صدر دروازہ مغرب کی طرف کھلتا ہے اور اس کا باہر کا حصہ خوبصورت ٹائیلوں سے سجایا گیا ہے۔ یہ صدر دروازہ مسجد کی اصلی سطح سے قدرے بلند تر ہے اور مسجد میں داخل ھونے کے لئے اس کے دونوں طرف دو سیڑھیاں لگی ھوئی ہیں۔ ان سیڑھیوں اور صدر دروازہ کے سامنے پانی کا ایک منظر دکھائی دیتا ہے، جو اس مسجد کے بیرونی منظر کو طراوت اور شادابی بخشتا ہے۔
مسجد کے اطراف میں ایک شبستان ہے، اس میں تقریروں کا بڑا ہال، کتابخانہ، اداری دفاتر، وضوخانہ، بیت الخلاء، کچن اور مرکز اسلامی کی سرگرمیوں کا دفتر ہے۔
تقریروں اور اجتماعات کا ہال مسجد کے شبستان کے کنارے پر واقع ہے اور اس میں200 کرسیاں بچھانے کی گنجائش ہے۔ اس ہال میں بر وقت ترجمہ کا سسٹم نصب کیا گیا ہے اور اس میں مذہبی اور علمی تقریریں کی جاتی ہیں اور کانفرنسیں منعقد کی جاتی ہیں۔ تقریر کرنے کی جگہ کے پیچھے قرآن مجید کے سورہ نحل کی 125ویں آیت پر مشتمل ایک کتبہ نصب کیا گیا ہے۔