مسجد صَخْرہ یا صَخرۃ مقدس بیت المقدس میں "موریا" نامی بلندی پر واقع مسجد ہے۔ یہ مسجد اور اس کا گنبد جو قبۃ الصخرہ کے نام سے مشہور ہے ایک بہت بڑی چٹان پر بنایا گیا ہے۔اس مسجد کو "مسجد صخرہ " اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ مسجد شہر بیت المقدس میں موریا کی بلندی پر ایک چٹان پر بنائی گئی ہے جو تینوں آسمانی آدیان یہودیت، مسیحیت اور اسلام میں مقدس شمار کی جاتی ہے۔ جبکہ مسلمانوں کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شب معراج کو اسی مقام سے آسمان کی طرف عروج کیا تھا۔
مسجد اقصی اور مسجد صخرہ انتہائی قریب ہونے کی وجہ سے بعض لوگ اس مسجد کے گنبد کو جو کہ مذکورہ چٹان کے اوپر بنایا گیا ہے،مسجد الاقصی کا گنبد خیال کرتے ہیں جوکہ خلط اور اشتباہ ہے کیونکہ مسجد الصخرہ کا گنبد گولڈ کلر میں جبکہ مسجد الاقصی کا گنبد سرمئی کلر میں ہے
مسجد صخرہ پہلی صدی ہجری میں عبد الملک بن مروان کے دور میں بنائی گئی اور بعد کے مختلف ادوار میں اس کی مرمت اور تعمیر نو ہوتی رہی ہے۔ مسجد الصخرہ یا قبۃ الصخرہ مسجد الاقصی کے علاقے میں بیت المقدس کے "موریا" نامی بلندی پر واقع ہے۔ مسجد الصخرہ کے گنبد کا رنگ سونے (گولڈ کلر) کا ہے جو ایک آٹھ ضلعی عمارت کے اوپر بنایا گیا ہے۔
اس عمارت کے ہر چاروں سمت ایک دورازہ کھلتا ہے۔ مسجد صخرہ کے جنوب مغربی حصے میں سنگ مرر کے ایک ستون کے نزدیک "قدم محمد" نامی مقام ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نقش پا ہے جو شب معراج کو آپ نے یہاں سے آسمانی کی طرف عروج فرمایا تھا۔ اسی طرح قبۃ الصخرہ کے نزدیک ایک مشہور مقام "قبۃ النبی" کے نام سے موجود ہے جہاں قدس شریف کے مکینوں کے مطابق حضرت خضر علیہ السلام نے نماز پڑھی ہیں۔ تزئین کے اعتبار سے قبۃ الصخرہ غنی ترین اسلامی عمارتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
جس چٹان پر "قبۃ الصخرہ" بنایا گیا ہے یہ مسجد حرم سے پہلے مسلمانوں کا قبلہ شمار ہوتا تھا۔
اس مسجد کی تعمیر کا کام سنہ 66 ہجری میں عبدالملک بن مروان کے دور خلافت میں بیت المقدس کے موریا نامی بلندی پر شروع ہوئی اور سنہ 72 ہجری میں مکمل ہوئی ۔ پھر اس کی مزید تعمیر بعد کے ادوار میں جاری رہی یہاں تک کہ سنہ 216 ھ میں عباسی خلیفہ مامون عباسی کے دور میں قبۃ الصخرہ کی دوبارہ مرمت ہوئی۔سنہ 407 ھ میں قدس شریف میں شدید زلزلہ آیا اور قبۃ الصخرہ ویران ہو گیا، سنہ 413 ھ یعنی خلافت فاطمیہ کے دور میں مسجد صخرہ دوبارہ تعمیر کی گئی۔ سنہ 460 ھ میں ایک اور زلزلے میں مسجد دوبارہ ویران ہو گئی جسے سنہ 467 ھ میں عباسی خلیفہ القائم بامراللہ کے دور میں دوبارہ تعمیر کی گئی۔