مسجد براثا کی تاریخ
یہ ایک مقدس مقام ہے جو وسط عراق میں موجود ہے، اور اس کی بہت پرانی تاریخ ہے، ابتداءِ عصورِ اسلامی میں یہ مسیحیوں کی ایک عبادت گاہ (صومعۃ) تھی، بعد میں جب اس کے راہب نے اسلام قبول کیا تو صومعہ کو مسجد میں تبدیل کردیا گیا۔ یہ یہ واقعہ سنہ ۳۷ ہجری قمری بمطابق ۶۵۴ عیسوی میں پیش آیا۔
براثا راہب کی کہانی
روایات میں آیا ہے کہ جب امیر کائنات سرکارِ امام علی ابن ابی طالب علیھما السلام نے جنگ نہروان میں خوارج کے ساتھ ہونے والا معرکہ فتح کرکے وسط عراق میں ( جسے آج کل بغداد کہا جاتا ہے) مسیحیوں کے صومعہ کے قریب پڑاو ڈالا، جہاں پر ایک مسیحی راہب رہتا تھا جس کا نام براثا تھا۔ آپؑ نے وہاں نماز پڑھی اور چار دن تک وہیں سکونت اختیار کی۔ انہی دنوں میں آپؑ اور اس راہب کے درمیان مکالمے بھی ہوتے رہے، اور امام علیؑ کی باتوں نے اس پر بہت ہی گہرا اثر ڈالا، اور راہب نے متاثر ہوکر مولیٰ علیؑ سے پوچھا:
کیا آپ نبی ہیں؟
امام علیؑ نے جواب دیا: نہیں میں نبی نہیں ہوں۔
براثا پھر سوال کرتا ہے: پھر آپ نبی کے وصی اور جانشین ہیں؟
امام علیؑ نے فرمایا: ہاں، میں نبی آخر الزمان کا وصی ہوں۔
ان سوالوں کے جواب سننے کے بعد راہب نے مولیٰ کے ہاتھوں اسلام قبول کیا، اور یہ کہا: کہ ہماری کتابوں میں ایک روایت موجود ہے جو یہ کہتی ہے اس جگہ پر نبی برحق یا اس کا وصی و جانشینِ برحق ہی نماز پڑھے گا۔
مزید کہتا ہے کہ میں نے پڑھا ہے کہ اس جگہ پر نبی برحق جو نیکوکاروں کا محافظ اور نگہبان ہے کا جانشین برحق إیلیا یعنی علی نماز پڑھے گا وہ نبی خاتم تمام گزشتہ انبیاء اور رسولوں کا خاتم ہوں گے، اس کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
اس دن سے یہ صومعہ (چرچ) مسجد بن گئی ہے۔ یہ واقعہ سنہ ۳۷ ہجری بمطابق ۶۵۴ میلادی عیسوی میں پیش آیا۔ راہب نے اسلام کو قبول کرنے کے بعد مولیٰ کے ساتھ کوفہ تک مرافقت کی۔
مسجد براثا قرن سوئم کے آواخر اور قرن چہارم کی ابتداء سے ہی شیعہ مسلمانوں کی عبادت گاہ بن گئی تھی، اور مکتب اہل البیت ؑ کے پیروکار اس وقت سے لیکر آج تک اسی میں اقامہ نماز کے ساتھ ساتھ دیگر شعائر دینی کا انعقاد کرتے آرہے ہیں۔ اور اس میں شیعوں کی مذہبی رسومات کی ادائیگی کی وجہ سے بنی عباس کے خلفاء غضبناک ہوتے رہے، یہاں تک بادشاہ مقتدر عباسی نے سنہ ۳۱۳ ہجری بمطابق ۹۲۵ عیسوی میں اس مسجد کو گراکر زمین بوس کردیا، اور اس میں موجود مؤمنین کو یرغمال بناکر اسیر بنایا، جب کہ اس وقت لوگ بڑی تعداد میں نماز جمعہ پڑھنے وہاں موجود تھے۔
پھر بہت عرصے کے بعد دوبارہ تعمیر نو کی گئی،چونکہ بنی عباس کے خلفاء ، حضرت علی ابن ابی طالب علیھما السلام سے دشمنی کی وجہ سے ہمیشہ مؤمنین کے تعاقب میں رہتے تھے ان کی اس وحشت اور دہشت کی وجہ سے وہاں لوگ نہیں آتے تھے، یہاں تک سنہ ۴۵۰ ہجری بمطابق ۱۰۵۸ قمری کو ان سے یہ برداشت بھی نہیں ہوسکی اوربنی عباس کے خلیفہ کے حکم پر مسجد کو مکمل طور پر بند کردیا، یوں یہ عظیم عبادت گاہ بہت عرصہ تک بغیر کسی مصلی کے باقی پڑی رہی، اوردسویں صدی میں اس کی تعمیر نو کی گئ ۔
گزشتہ صدی سنہ ۱۳۷۵ ھجری بمطابق ۱۹۵۰ عیسوی کو مؤمنین کی ایک جماعت نے اس کی پھر سے تعمیرنو آغاز کیا، اور اس وقت یہ مسجد، قبرستان اورضمیمہ جات سمیت ۴۰۰۰ مربع میٹر رقبہ پر مشتمل ہے، اور یہ مساحت اور ایریا ماضی کی نسبت بہت ہی کم ہے۔
مسجد براثا کی اہمیت
مسجد براثا کو ایک اہم مذہبی اور ثقافتی ورثہ شمار کیا جاتا ہے، جس کی بہت پرانی تاریخ ہے۔ روایات میں اس مسجد کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے، اور روایات کہتی ہیں بہت سارے انبیاء کرام علیھم السلام اور صالحین نے اس کی زیارت کی، ان زیارت کرنے والوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت دانیال علیہ السلام، حضرت ذوالکفل علیہ السلام، حضرت عیسی ابن مریم علیھما السلام، اور حضرت یوشع بن نون علیہ السلام شامل ہیں۔
مسجد کے مختلف حصے
یہ مسجد ایک بہت بڑا ہال، دو مینارے، ایک صحن، اور ایک کنویں جسے بئر امام علی علیہ السلام کہا جاتا ہے پر مشتمل ہیں۔ اسی طرح ایک قدیم مقبرہ اور بہت پرانی لائبریری جس میں ہزاروں کتابیں موجود ہیں کو بھی اس میں ضم کیا گیا ہے۔ عالم تشیع کے عظیم فقیہ، ممتاز شخصیت، اور عالم اسلام کے نامور مجتہد اور سکالر شیخ مفید اسی مسجد میں قیام فرماتے تھے، شیخ مفیدؒ اپنے زمانے میں علم، تقویٰ، اور کمال میں اپنی مثال آپ تھے، شیخ مفید خود ہی اس زمانے میں فکری اور اعتقادی کے لحاظ سے ایک عظیم مکتب تھے، جس کی گواہی دوست اور دشمن سبھی دیتے ہیں، مختلف مسالک، مکاتب، اقوام اور نسلوں کے لوگ آپ سے اپنی علمی پیاس بجھانے کی غرض اسی مسجد میں آتے تھے، یوں شیخ مفید کی زیرسرپرستی میں یہ مسجد ہروقت علمی مباحثے، مناظرے، مکالمے اور دروس پڑھنے والے علماء اور طلباء دینی سے بھری رہتی تھی۔ شیخ مفید نے اپنی حیات مبارکہ میں مختلف علوم اور موضوعاتِ فقہیہ پر دو سو سے زیادہ کتابیں مدون کی ہیں۔