پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے فورا بعد اسلامی معاشرے میں بہت سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگئے، اور ان لوگوں کی طرف سے جن کو پانچواں ستون کہا جاتا ہے اسلامی معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرنے اور معاشرے کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنے کی بہت بڑی کوششیں ہوئیں، خاص طور پر عہد رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جو سازشین چل رہی تھیں وہ نہایت ہی خطرناک تھیں۔
یہ کام مسلسل اورمنظم طریقےسے پے در پے رونما ہونے والے واقعات کے ذریعے شروع ہوا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مخالف گروہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے منتخب شدہ افراد کو ان کے شرعی حق سے محروم کرنے کے لیے مختلف نشستوں اور میٹینگز کرتا رہا،اور نتیجتا ان نشستیں کے بعد ایک اہم میٹینگ سقیفہ بنی ساعدہ کے مقام پر منعقد ہوئی ہے جسے سقیفہ کانفرنس بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کانفرنس میں مخالفین نے آپس میں متحد رہنے اور باہمی مشورے کی ضرورت پر اتفاق کیا، اگرچہ اس کے نتیجے میں انھیں پاک پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجہیز، تکفین اور تدفین میں شرکت سے محروم ہی کیوں نہ ہونا پڑا۔ یہاں تک کہ انہوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی آخری وصیت کرنے سے بھی روکا، جب کہ یہ رسالت الٰہیہ کا تسلسل بلکہ رسالت الٰہیہ کا ایک اہم حصہ اور جزء تھا۔ یہ وصیت اس لیے بھی اہم تھی کہ اسی کے ذریعے اس دین مقدس اسلام کے استمرار کا طریقہ کار، اس میں واقع ہونے والے مختلف ادوار، اور اس کے لیے موزون رہبر ورہنما (جن کو امام وقت کہا جاتا ہے) کا انتخاب اور ان کے نام کا اعلان بھی ہونا تھا
ثقیفہ بنی ساعدہ پر ہونے والی کانفرنس جو حقیقت میں ایک بڑی سازش تھی اور یہ پانچویں کالم، منافقین، کمزور ایمان والے اور بے ایمان لوگوں کے ارادوں کو واضح کرتی تھی، اس کانفرنس کے ذریعہ حضرت ابوبکر کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سیاسی خلیفہ نامزد کردیا گیا۔
ثقیفہ بنی ساعدہ کے شرکاء میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صف اول کے تربیت یافتہ افراد جنہوں نے اسلام کو طلوع ہوتے دیکھا تھا، اورجنہوں نے اسلام کے لیے بڑی قربانیاں دی تھیں، نیز وہ کہ جو علم و فضل اورتقوی وپرہیزگاری میں اپنی مثال آپ ہونے کے علاوہ شجاعت بہادری اور دیگر کمالات میں سب سے افضل تھے وہ شریک ہی نہیں تھے جن میں سر فہرست امام علیؑ کی ذات گرامی ہے، اسی طرح اس میں عمار یاسرؓ، عباسؓ، فضل بن عباسؓ، مقدادؓ، سلمانؓ، ابوذر غفاریؓ اور دیگر بنی ہاشم کے افراد سرے سے موجود ہی نہیں تھے ۔
باوجود اس کے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں امامت کے منصب اور اماموں کو واضح کردیا تھا، اور یہ بتا چکے تھے کہ امامت ایک منصب الٰہی ہے جو نبوت کا تسلسل ہے صرف اس فرق کے ساتھ کہ وحی کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے اور دین کی بقاء امامت کی ذمہ داری ہے، لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو نظر انداز کیا جب کہ ابتداٗ ہی سے لوگوں کے ذہنوں میں امامت، اس کا مفہوم، اس کی اہمیت،اور ضرورت کو ڈال دیا گیا تھا اور وہ ان کے ذہنوں میں موجود تھی کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاں پر بھی اور جس طرح بھی ممکن تھا لوگوں پر انفرادی اور اجتماعی طور پر اس نکتے کو واضح کردیا تھا۔
مگر افسوس کہ خلافت کے دعویٰ داروں نے ان تمام تر حقائق کے باوجود اپنی مرضی کے فیصلوں کو تھوپنے، اور اپنی مصلحتوں کو ہی فوقیت دینے کو ترجیح دی، یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انکی زندگی کے آخری لمحات میں وصیت بھی لکھنے نہیں دی، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب نعوذ باللہ نسیان اور ہذیان کی نسبت دی، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امت کی نجات اور فلاح کے لئےجو کچھ لکھوانا چاہ رہے تھے آپ کو ایسا کرنے نہیں دیا، اس کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد صف اول کے اصحاب کو سیاست اور دیگر اہم امور میں شرکت کرنے سے روکا گیا، اور بہت عجلت میں خلافت کا اعلان کردیا گیا۔