صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی طرف سے جنگ بندی کے مذاکرات کی ناکامی کے بعد صیہونی فوج نے غزہ میں خونریزی کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے میں اسے دردناک ردعمل بھی ملا ہے۔ غزہ کی پٹی میں صیہونی حکومت کے سیاہ ریکارڈ میں ایک اور خونی جرم کا اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف مغربی کنارے میں غاصبوں کو نشانہ بنانا فلسطین سے متعلق تازہ ترین خبروں میں شامل ہے۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ غزہ پٹی میں پناہ گزینوں کے خیموں پر صیہونی حکومت کے جنگی طیاروں کے حملوں میں سو سے زیادہ فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔ صیہونی حکومت کے فوجیوں نے خان یونس کے ان علاقوں میں فلسطینی پناہ گزینوں کو نشانہ بنایا، جنہیں وہ محفوظ علاقے قرار دیتے تھے۔
غزہ پٹی کی ریلیف اینڈ ریسکیو آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر نے اعلان کیا ہے کہ ان حملوں کے نتیجے میں 40 سے زائد شہید اور 60 زخمی ہوئے ہیں۔ صہیونی فوجیوں نے امدادی گاڑیوں کو بھی نشانہ بنایا، جس سے غزہ پٹی کے جنوب میں ریسکیو اور ریلیف کا عمل نہایت مشکل ہوگیا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ صیہونی حکومت نے غزہ پٹی میں فلسطینی پناہ گزینوں کے خیموں کو نشانہ بنایا ہے، البتہ اس بار ان وحشیانہ حملوں کے متاثرین کی تعداد زیادہ ہے اور ان میں استعمال ہونے والے بموں کی مقدار نے اس پٹی میں خون کی ہولی کھیلی گئی ہے۔
صیہونی فوجیوں کا فلسطینی پناہ گزین کیمپ پر جان لیوا حملہ
فلسطینی وزارت صحت نے غزہ کی پٹی میں اعلان کیا ہے کہ گیارہ ماہ سے جاری اس پٹی پر صیہونی حکومت کے جارحیت کے متاثرین کی تعداد 40,988 شہید اور 94,825 زخمی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل "انتونیو گوٹیرس" نے بھی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس بات پر زور دیا ہے کہ "جب سے وہ اس تنظیم کے سیکرٹری جنرل کے طور پر منتخب ہوئے ہیں، انہوں نے اس سطح کی ہلاکت اور تباہی کبھی نہیں دیکھی، جس کا وہ غزہ میں مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے بھی اپنے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ "غزہ میں صیہونی حکومت کی طرف سے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے استعمال نے خطرناک اخلاقی اور قانونی خدشات پیدا کر دیئے ہیں۔"
فلسطینی وزارت صحت نے ایک بیان جاری کیا، جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ "غزہ میں صحت کا نظام ایک منظم جنگ اور بڑی تباہی سے دوچار ہے۔" اس حوالے سے ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے گذشتہ اکتوبر میں اعلان کیا تھا کہ ’’8700 سے زائد فلسطینی لاپتہ ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق غزہ پٹی سے ہے، جبکہ قابض حکام نے ان کے بارے میں نہ تو کوئی معلومات فراہم کی ہیں اور نہ ہی ریڈ کراس کو ان سے ملنے کی اجازت دی ہے۔ اسرائیلی حکومت نے 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ کی پٹی کے خلاف تباہی کی جنگ شروع کر رکھی ہے۔ اس عرصے کے دوران غزہ کی پٹی کے 70% مکانات اور بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا ہے اور بدترین محاصرہ اور شدید انسانی بحران کے ساتھ ساتھ بے مثال قحط اور بھوک نے اس علاقے کے مکینوں کی زندگیوں کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے انفارمیشن آفس نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی قابض فوج نے 120 اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو مکمل طور پر تباہ کردیا اور 340 دیگر یونیورسٹیوں اور اسکولوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ ان تمام جرائم کے باوجود صیہونی حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ 11 ماہ کی جنگ کے بعد بھی وہ ابھی تک اس جنگ کے اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ صیہونی حکومت کا مقصد تحریک حماس کو تباہ کرنا اور غزہ کی پٹی سے صیہونی قیدیوں کی واپسی ہے۔ دوسری جانب غزہ میں جنگ کے آغاز سے اب تک مغربی کنارے میں صیہونی مخالف کم از کم 4,973 آپریشن کیے جا چکے ہیں، جن کے دوران 38 آبادکار، 12 فوجی اور تین پولیس اہلکار ہلاک اور 285 دیگر زخمی ہوچکے ہیں۔
الکرامہ کراسنگ میں شوٹنگ کا نیا آپریشن
غزہ میں تقریباً 12 ماہ سے جاری جنگ اور تشدد کے دوران غزہ کے عوام کے خلاف قابض صہیونی فوج کی نسل کشی سے اردنی شہریوں اور فلسطینی نژاد اردنی باشندوں کے غم و غصے کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ مغربی کنارے میں حالیہ پیش رفت صیہونی مظالم کا ردعمل ہے۔ اردن اور مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر واقع الکرامہ کراسنگ پر شوٹنگ کی کارروائی میں تین صیہونیوں کی موت واقع ہوئی، اس گاؤں سے تعلق رکھنے والا 47 سالہ شہید "عبدالسلام خالد سلیم الزوبی" ہے۔ جو صبح 10 بجے کے قریب اردن اور مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر الکرامہ کراسنگ میں داخل ہوا اور اس کراسنگ میں موجود صہیونیوں پر پوائنٹ بلینک رینج سے فائرنگ شروع کر دی۔ اس کارروائی میں تین اسرائیلی مارے گئے اور آپریشن کے آپریٹر کو سکیورٹی فورسز نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
واضح رہے کہ اس شہادت پسندانہ آپریشن کے بعد اردنی باشندے پرجوش ہوئے اور انہوں نے مقبوضہ فلسطین کے درمیان گزرگاہ پر مٹھائیاں تقسیم کیں۔ قابض فوج پہلے ہی مغربی کنارے میں کشیدگی کے دائرہ کار میں توسیع اور ایک اور انتفاضہ کے قیام کے حوالے سے اپنی تشویش کا اعلان کرچکی ہے۔ جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک اسرائیل کی سکیورٹی سروسز کے بیانات نے اس دعوے کی تصدیق کی ہے کہ شاباک اور IDF نے مغربی کنارے میں 1,100 سے زیادہ بڑی کارروائیوں میں حصہ لیا ہے۔ ماضی میں، مزاحمتی کارروائیاں صرف جنین اور اس کے کیمپ کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے کے شمال میں منسلک علاقوں تک محدود تھیں۔ لیکن اب اسے مغربی کنارے کے جنوب تک بڑھا دیا گیا ہے
زیادہ اہم نکتہ یہ ہے کہ مغربی کنارے اور اسرائیل کے اندر کچھ گوریلا کارروائیاں ایسے نوجوان کرتے ہیں، جن کا تعلق کسی تنظیم سے نہیں ہے، جس نے اسرائیل کے لیے پہلے سے زیادہ مشکل بنا دی ہے۔ اسرائیل مغربی کنارے کو اپنی بنیادی کمزوری اور سب سے خطرناک محاذ سمجھتا ہے، کیونکہ یہ جغرافیائی طور پر اسرائیل کی گہرائی سے جڑا ہوا ہے۔ اگرچہ صیہونی حکومت مغربی کنارے میں مزاحمتی قوتوں کے خلاف نت نئے فوجی ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے، لیکن وہ صورت حال پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے اور مزاحمتی حملوں کا سلسلہ بتدریج اردن تک پھیل رہا ہے، جہاں پناہ گزینوں کی آبادی کا 60 فیصد سے زیادہ حصہ موجود ہے۔
مغربی کنارے میں انتفاضہ
Published in
مقالے اور سیاسی تجزیئے