اسلام كے تيسرے رہبر كى اور ان كى اولاد و اصحاب كى دشت كربلا ميں جاں بازي، فداكارى اور شہادت آپ كى زندگى كا اہم ترين واقعہ ہے_ جس نے عقل و خرد كو جھنجوڑ كر ركھ ديا، تمام واقعات كے اوپر چھاگيا_ اور ہميشہ كے لئے تاريخ كے صفحات پر زندہ جاويد و پائيدار بن گيا_ دنياميں پيش آنے والا ہر واقعہ_ چا ہے وہ كتنا ہى بڑا اور عظيم كيوں نہ ہو _ اس كو تھوڑے ہى دن گذرنے كے بعد زندگى كا مدّ و جزر فراموشى كے سپرد كرديتا ہے اور مرور زمانہ اس كے فروغ ميں كمى كرديتاہے اور اوراق تاريخ پر سوائے اس كے نام كے كچھ باقى نہيں بچتا_
ليكن بہت سے واقعات ايسے ہيں كہ زمانہ گذرجانے كے بعد بھى ان كى عظمت گھٹتى نہيں اللہ والوں كى تاريخ اور وہ انقلابات جو آسمانى پيغمبروں اور الہى عظيم رہبروں كے ذريعہ آئے ہيں، يہ تمام كے تمام واقعات چونكہ خدا سے متعلق و مربو ط ہيں اس لئے ہرگز بھلائے نہيں جاسكيں گے اور مرور زمانہ كا كوئي اثر قبول نہيں كريں گے_
حضرت حسين (ع) بن على (ع) كى تحريك اور كربلا كا خونين حادثہ و انقلاب ،انسانى معاشرہ كى ايك اہم ترين سرگذشت ہے، اس حقيقت پر تاريخ و تجربہ روشن گواہ ہيں_
عاشور كى خون آلود تاريخ كے تجزيہ ميں دوسرے مطالب سے پہلے چند مطالب توجہ كے قابل اور تاريخى لحاظ سے زبردست تحقيق كے محتاج ہيں جنہيں اختصار سے بيان كيا جارہا ہے:
1) امام حسين (ع) كے قيام كے اسباب
2) امام حسين (ع) كى تحريك و انقلاب كى ماہيت
3) امام حسين (ع) كے انقلاب كے اثرات و نتائج
انقلاب حسين (ع) ابن على (ع) كا اہم اور واضح سبب ايك انحرافى سلسلہ تھا جو اس وقت اسلامى حكومت كى مشينرى ميں رونما ہوچكا تھا _ اور لوگوں ميں اموى گروہ كے تسلط كى بنا پر دين سے انحراف اور اجتماعى ظلم و ستم مكمل طور پر نماياں تھا_ يزيد كے خلاف امام حسين (ع)كا قيام اس بناپر تھا كہ وہ اموى حكومت كا مظہر تھا، وہ حكومت جو ملت كے عمومى اموال كى عياشي، رشوت خورى ، با اثرا فراد كے قلوب كو اپنى طرف كھينچنے اور آزادى دلانے والى تحريكوں كو ختم كرنے ميں خرچ كرتى تھي، وہ حكومت جس نے غير عرب مسلمانوں كا جينا دشوار كر كے ان كو ختم كردينے كى ٹھان لى تھى اور جس نے عرب مسلمانوں كے شيرازہ اتفاق كو بكھير كر ان كے درميان نفاق اور كينہ كا بيج بوديا تھا _
وہ حكومت جس نے اموى خاندان كے مخالفين كو جہاں پايا وہيں قتل كرديا_ ان كے مال كو لوٹ ليا، وہ حكومت جس نے قبائلى عصبيت كى فكر كو برانگيختہ كرديا مسلمانوں كے اجتماعى وجود كيلئے خطرہ بن گئي تھى _
وہ حكومت جو كہ اسلام كے پيغام كے تحقق، قوانين و حدود اور اجتماعى عدالت كے اجراء كى بجائے ايك ايسے پليد شخص كے ہاتھ كا كھلونہ تھى جو كہ محمد(ص) كى رسالت اور ان پر وحى كے نزول كا انكار كر رہا تھا_ يزيد اپنے دادا ابوسفيان كى طرح تھا ، جس كا كہنا تھا '' اب حكومت بنى اميہ كے قبضہ ميں آگئي ہے خلافت كو گيند كى طرح گھماتے رہو اور ايك دوسرے كى طرف منتقل كرتے رہو ... ميں قسم كھا كر كہتا ہوں كہ نہ كوئي جنّت ہے نہ جہنّم'' (1) يزيد بھى ان تمام باتوں كو ايك خيال سے زيادہ نہيں سمجھتا تھا_ (2)
امام حسين (ع) نے ايسے حالات ميں انقلاب كے لئے ماحول كو سازگار پايا آپ(ع) نے خود اس وصيت ميں جو اپنے بھائي محمد حنفيہ كو كى تھي، اپنے قيام كے بارے ميں لكھا كہ '' ميرے قيام كى وجہ ہوا و ہوس اور بشرى ميلانات نہيں ہيں ، ميرا مقصد ستمگرى اور فتنہ و فساد پھيلانا نہيں ہے _ بلكہ ميرا مقصد تو اپنے جد رسول (ص) خدا كى امت كى خراب حالت كى اصلاح كرنا ہے_ ميرا مقصد امر بالمعروف اور نہى عن المنكر ہے ميں چاہتا ہوں كہ اپنے جد رسول خدا كى سيرت اور اپنے باپ(ع) على كے راستہ پرچلوں ...'' (3)
اسى طرح حر بن يزيد رياحى سے ملاقات كے بعد اپنى ايك تقرير ميں آپ(ع) نے اپنے قيام كى تصريح كى اور فرمايا : '' اے لوگو پيغمبر خدا (ص) نے فرمايا ہے كہ جو كسى ايسے ظالم فرمان روا كو ديكھے جو حرام الہى كو حلال شمار كرتا ہوخدا سے كيے گئے عہد و پيمان كو توڑتا ہو اس كے پيغمبر كى سنت كى مخالفت كرتاہو، خدا كے بندوں پرظلم و ستم كرتا ہو ا ور ان تمام باتوں كے باوجود زبان و عمل سے اپنى مخالفت كا اظہار نہ كرے تو خدا اس كو اسى ظالم فرمان روا كے ساتھ ايك ہى جگہ جہنّم ميں ركھے گا_
اے لوگو انہوں نے ( يزيد اور اس كے ہمنواؤں نے) شيطان كى اطاعت كا طوق اپنى گردن ميں ڈال ليا ہے اور خدائے رحمن كى پيروى ترك كردى ہے فساد پھيلاركھا ہے اور قوانين الہى كو معطل كرركھا ہے، بيت المال كو انہوں نے اپنے لئے مخصوص كرليا_ حلال خدا كو حرام اور حرام الہى كو حلال سمجھ ليا ہے_ ميں اسلامى معاشرہ كى قيادت كے لئے تمام لوگوں سے زيادہ حق دار ہوں اور ان مفاسد سے جنگ اور ان خرابيوں كى اصلاح كے لئے سب سے پيش پيش ہوں ...'' (4)
امام حسين (ع) نے معاويہ كے زمانہ ميں قيام كيوں نہيں كيا؟
ممكن ہے كہ يہاں يہ سوال پيش آئے كہ معاويہ كے زمانہ ميں متعدد عوامل ايسے پيدا ہوگئے تھے جو قيام و انقلاب كا تقاضا كرتے تھے اور حسين(ع) ابن على (ع) ان تمام عوامل سے آگاہ تھے اور آپ نے ان خطوط ميں جو معاويہ كے جواب ميں لكھے تھے ان اسباب كو بيان بھى كيا ہے_ (5) پھر آپ (ع) نے معاويہ كے زمانہ ميں قيام كرنے سے كيوں گريز كيا؟
جواب: تمام وہ عوامل و مسائل جنہوں نے امام حسن (ع) كو معاويہ سے صلح كرنے كے لئے مجبور كيا وہى عوامل امام حسين (ع) كے لئے بھى قيام سے باز رہنے كا سبب بنے_ (6) عراقى معاشرہ پر مسلط حاكم كى حقيقت كو پہچاننے ميں امام حسين (ع) اپنے بھائي حسن (ع) سے كم نہ تھے_ وہ بھى اپنے بھائي كى طرح لوگوں كى كاہلى اور اسلامى معاشرہ كى افسوسناك صورت حال ديكھ رہے تھے كو اس وقت آپ نے عراق كے لوگوںقيام كرنے كى ترغيب دلانے كے بجائے عظيم مقصد كے لئے آمادہ اور مستعد كرنے كو ترجيح دي_
عراق كے شيعوں نے ايك خط ميں امام حسين (ع)سے درخواست كى كہ وہ معاويہ كے خلاف قيام كرنے كے سلسلہ ميں ان كى قيادت كريں_ حسين ابن على (ع) نے موافقت نہيں كى اور جواب ميں لكھا:
'' ... ليكن ميرى رائے يہ ہے كہ انقلاب كا وقت نہيں ہے جب تك معاويہ زندہ ہے، اپنى جگہ بيٹھے رہو_ اپنے گھر كے دروازوں كو اپنے لئے بندركھو اور اتہام كى جگہ سے دور رہو _'' (7)
معاويہ اور يزيد كى سياست ميں فرق
معاويہ كے زمانہ ميں امام حسين (ع) كا انقلاب برپا كرنے كے لئے نہ اٹھنے اور يزيد كے زمانہ ميں اٹھ كھڑے ہونے كا اصلى سبب ان دونوں كى سياسى روش كے اختلاف ميں ڈھونڈھنا چاہيے_
دين و پيغمبر (ص) كے تضاد ميں معاويہ كى منافقانہ روش بہت واضح اور اعلانيہ تھي_ وہ اپنے كوصحابى اور كاتب وحى كہتا تھا اور خليفہ دوم كى ان پر بے پناہ توجہ اور عنايت تھي، اس كے علاوہ ان اصحاب پيغمبر(ص) كى اكثريت كو جن كى لوگ تعظيم و احترام كرتے تھے ( جيسے ابوہريرہ، عمرعاص، سمرة، مغيرہ بن شعبہ و غيرہ ...) كو حكومت و ولايت او رملك كے تمام حساس كاموں كى انجام دہى كے لئے مقرر
كيا تا كہ لوگوں كے حسن ظن كا رخ اپنى طرف موڑليں ، لوگوں كے درميان صحابہ كے فضائل اور ان كے دين كے محفوظ رہنے كى بہت سى روايتيں اور ايسى روايتيں_ كہ وہ جو بھى كريں معذور ہيں _ گھڑ لى گئيں ، نتيجہ ميں معاويہ جو كام بھى كرتا تھا اگر وہ تصحيح او ر توجيہ كے قابل ہوتا تھا تو كيا كہنا ورنہ بہت زيادہ بخششوں اور عنايتوں كے ذريعہ معترض كے منہ كو بند كرديا جاتا تھا اور جہاں يہ وسائل موثر نہيں ہوتے تھے انہيں خواہش كے پرستاروں كے ذريعہ ان كو ختم كرديا جاتا تھا_ جيسا كہ دسيوں ہزار حضرت على (ع) كے بے گناہ چاہنے والوں كے ساتھ يہى رويہ اختيار كيا گيا:
معاويہ تمام كاموں ميں حق كا رخ اپنى طرف موڑ لينا چاہتا تھا اور امام حسن (ع) اور امام حسين (ع) كا ظاہرى احترام كرتا تھا وہ بہت زيرك اور دور انديش تھا اسے يہ معلوم تھا كہ حسين ابن على (ع) كا انقلاب اور ان كا لوگوں كو قيام كے لئے دعوت دينا ميرى پورى حكومت اور اقتدار كے لئے خطرہ بن سكتا ہے_ اس لئے كہ اسلامى معاشرہ ميں حسين (ع) كى عظمت او ران كے مرتبہ سے معاويہ بخوبى واقف تھا_
اگر حسين (ع) ابن على (ع) معاويہ كے زمانہ ميں قيام كرتے تو اس بات كا قوى امكان تھا كہ معاويہ آپ (ع) كے انقلاب كو ناكام كرنے كے لئے ايسى روش اختيار كرتا كہ جو اسى جگہ كامياب ہوجاتى اور امام (ع) كے انقلاب كو عملى شكل دينے سے پہلے ہى زہر كے ذريعہ شہيد كرديا جاتا اور اس طرح معاويہ اپنے كو خطرہ سے بچاليتا جيسا كہ حسن (ع) ابن على (ع) ، سعد ابن وقاص اور مالك اشتر كو قتل كرنے ميں اس نے يہى رويہ اختيار كيا تھا_
ليكن يزيد كى سياسى روش اس كے باپ كى سياسى روش سے كسى طرح بھى مشابہ نہ تھى وہ ايك خود فريب اور بے پروا نوجوان تھا اس كے پاس زور زبردستى كے علاوہ كوئي منطق نہ تھى وہ عمومى افكار كو ذرہ برابر بھى اہميت نہيں ديتا تھا_
وہ اعلانيہ طور پر اسلام كى مقدس باتوں كو اپنے پيروں كے نيچے روند تا تھا اور اپنى خواہشات پورى كرنے كے لئے كسى چيز سے باز نہيں رہتا تھا، يزيد كھلے عام شراب پيتا، راتوں كو نشست اور بزم ميں بادہ خوارى ميں مشغول رہتا اور گستاخى سے كہتا تھا:
'' اگر دين احمد ميں شراب حرام ہے تو اس كو دين مسيح بن مريم ميں پيو'' (8)
يزيد مسيحيت كى تعليمات كى اساس پر پلا تھا اور وہ دل سے اس كى طرف مائل تھا_ (9)
اور دين اسلام سے اس كا كوئي ربط نہيں تھا جبكہ اسلام كى بنياد پروہ لوگوں پر حكومت كرناچاہتا تھا_ اس طرح سے جو نقصانات اسلام كو معاويہ كے زمانہ ميں پس پردہ پہنچ رہے تھے اب وہ يزيد كے ہاتھوں آشكار طور پرپہنچ رہے تھے_
اپنى حكومت كے پہلے سال اس نے حسين ابن على (ع) اور ان كے اصحاب كو شہيد كيا ان كے اہل بيت كو اسير كيا_
حكومت كے دوسرے سال اس نے پيغمبر(ص) كے شہر _مدينہ_ كے لوگوں كے مال اور ناموس كو اپنے لشكر والوں پر مباح كرديا اور اس واقعہ ميں چارہزار آدميوں كو اس نے قتل كيا_
تيسرے سال خانہ كعبہ _ مسلمانوں كے قبلہ_ پر اس نے منجنيق سے سنگ بارى كى _
ايسے سياسى اور اجتماعى حالات ميں حسين (ع) ابن على (ع) نے انقلاب كے لئے حالات كو مكمّل آمادہ پايا_ اب بنى اميہ كے مزدور، عمومى افكار كو قيام حسين(ع) ابن علي(ع) كے مقاصد كے بارے ميں بدل كر اس كو '' قدرت و تسلط كے خلاف كشمكش'' كے عنوان سے نہيں پيش كرسكتے تھے اس لئے كہ بہت سے لوگ يہ ديكھ رہے تھے كہ حكومت كى رفتار دينى ميزان اور الہى تعليمات كے خلاف ہے_
اور يہ بات خود مجوّز تھى كہ حسين (ع) ابن على (ع) اپنے سچے اصحاب كو جمع كريں اور حكومت كے خلاف قيام كريں ايسا قيام جس كا مقصد اسلام اور سيرت پيغمبر(ص) كو زندہ كرنا تھا نہ كہ خلافت اور قدرت حاصل كرنا_
انقلاب كى ماہيت
امام حسين (ع) كى تحريك ميں ايك اہم مسئلہ اس كى كيفيت و ماہيت كا تجزيہ ہے_ آيا امام حسين (ع) كا اقدام ايك انقلاب تھا يا ايك اتفاقى دھماكہ تھا؟ كچھ لوگ جو انسانى مقدس واقعات كو ہميشہ محدود اور مادى ترازو پر تولتے ہيں وہ قيام كربلا كى تفسير و تعبير اپنى نادانى اور جہالت كى بناء پر ايك حادثاتى دھماكے سے كرتے ہيں_(10) اس سلسلہ ميں كہتے ہيں كہ كبھى مادى واقعا ت ميں تدريجى تغيرات اس حد تك پہنچ جاتے ہيں كہ وہ واقعہ ديگر تغيرات كو قبول نہيںكرسكتا، انجام كار جزئي تغيرات ايك نئي چيز كو وجود ميں لاتے ہيں يہ قانون، معاشرہ اور تاريخ ميں حاكم ہے_ معاشرہ ايك حدتك ظالموں كے ظلم كو قبول كرتا ہے جب وہ اس مرحلہ ميں پہنچ جاتا ہے كہ اب اس سے قبوليت كى توانائي ختم ہوجاتى ہے تو نتيجہ ميں حكومت كرنے والے نظام كے خلاف ايك دھماكہ كى شكل ميں انقلاب آجاتا ہے _
اس بنياد پر لوگ كہتے ہيں كہ : '' اميرالمؤمنين(ع) كى شہادت كے بعد اموى مشينرى كا مسلمان ملت پر دباؤ بڑھ گيا تھا اور معاويہ كے مرنے كے بعد اس كے بيٹے يزيد نے اس دباؤ كو دوگنا كرديا تھا اس فشار كى بناپر حسين (ع) كے صبر كا پيمانہ لبريز ہوگيا اور ان كا قيام اسى دھماكہ كا پيش خيمہ تھا_
امام حسين (ع) كى تحريك كے بارے ميں ايسے فيصلے كا سوتا مادى تجزيہ كرنے والوں كے عقيدہ سے پھوٹتا ہے اور اگر وہ قيام امام حسين (ع) كى تاريخ كے متن كو ملاحظہ كرتے اور حقيقت بين اورحق كے شيدائي ہوتے تو ايسا فيصلہ نہ كرتے_
امام حسن (ع) كى شہادت كے بعد سے معاويہ كى موت تك كے امام حسين (ع) كے اقوال اوروہ خط و كتابت جو ان كے اور معاويہ كے درميان ہوئي ہے، جس ميں امام (ع) كا موقف واضح طور پر معاويہ كے خلاف تھا اور آپ معاويہ كو مورد سوال قرار ديتے اور اس كے خلاف قيام كى دھمكى ديتے تھے_
اسى طرح وہ تقريريں جو مختلف موقعوں پر امام حسين (ع) نے كى ہيں اگر ان سب كو ديكھا جائے تو يہ سارى چيزيں ہم كو اس بات كا پتہ ديتى ہيں كہ ابوعبداللہ الحسين (ع)كى وہ تحريك بہت منظم تھى جس كا نقشہ آزاد منش افراد كے سردار كھينچ رہے تھے اور امت كو اس راستہ پر اس نقشہ كے مطابق عمل كرنے كى دعوت دے رہے تھے اس كے بعد اب قيام سيد الشہداء _كو ايك ناگہانى حادثہ يا دھماكہ كيسے كہا جاسكتا ہے ... اگر يہ انقلاب ايك انجانا دھماكہ ہوتا تو اسے بہتر آدميوں ميں منحصر نہيں رہنا چاہئے تھا_ بلكہ اس كو معاشرہ كے تمام افراد كو گھير لينا چاہيے تھا امام حسين (ع) كے آگاہانہ انقلاب كو بتانے والے تاريخى قرائن كا ايك سلسلہ اب پيش كيا جارہا ہے _
يزيد كيلئے بيعت ليتے وقت امام(ع) كى تقرير
لالچ اور دھمكى كے ذريعہ معاويہ نے يزيد كى ولى عہدى كے لئے اہم شخصيتوں كے ايك گروہ كى موافقت حاصل كرلى تھى جب حسين ابن على (ع) كے سامنے بات ركھى گئي تو آپ نے اپنى ايك تقرير ميں فرمايا:
'' تم نے اپنے بيٹے كے كمال اور تجربہ كارى كے سلسلہ ميں جو تعريف كى وہ ہم نے سُني، گويا تم ايسے آدمى كے بارے ميں بات كررہے ہو جس كو ياتو تم نہيں پہچانتے ہو يا اس سلسلہ ميں فقط تم كو علم ہے_جيسا چاہيے تھا يزيد نے ويسا ہى اپنے كو پيش كيا اور اس نے اپنے باطن كو آشكار كرديا_ وہ كتوں سے كھيلنے والا كبوتر باز اور ہوس پرست شخص ہے جس نے اپنى عمر ساز و آواز اور عيش و عشرت ميں گذارى ہے_ كياہى اچھا ہوتا كہ تم اس كام سے صرف نظر كرتے اور اپنے گناہ كے بوجھ كو اور گراں بار نہ بناتے (11) ''
معاويہ كے نام امام حسين (ع) كا خط
امام حسين (ع)نے ايك مفصل خط معاويہ كو لكھا اور اس كے بڑے بڑے جرائم كويا دلايا ، جن ميں سر فہرست پرہيزگار، بزرگ اور صالح اصحاب اور شيعيان على _كا قتل تھا، فرمايا:
'' اے معاويہ تمہارا كہنا ہے كہ ميں اپنى رفتار و دين اور امت محمد(ص) كا خيال ركھوں اور اس امت ميں اختلاف و فتنہ پيدا نہ كروں_ ميں نہيں سمجھتا كہ امت كے لئے تمہارى حكومت سے بڑا كوئي اور فتنہ ہوگا_ جب ميںاپنے فريضہ كے بارے ميں سوچتا ہوں اور اپنے دين اور امت محمد(ص) پر نظر ڈالتاہوں تو اس وقت اپنا عظيم فريضہ يہ سمجھتا ہوں كہ تم سے جنگ كروں ...''
پھر آخر ميں فرمايا:
'' تمہارے جرائم ميں غير قابل معافى ايك جرم يہ ہے كہ تم نے اپنے شراب خوار اور كتوں سے كھيلنے والے بيٹے كے لئے لوگوں سے بيعت لى ہے(12) _''
منى ميں امام حسين (ع) كى تقرير
معاويہ كى حكومت كے آخرى زمانہ ميں سرزمين منى پر نو سوسے زيادہ افراد كے مجمع ميں، جس ميں ، بنى ہاشم اور اصحاب رسول (ص) ميں سے بزرگ شخصيتيں شامل تھيں_ امام حسين(ع) نے
ملك پر حكومت كرنے والے نظام كے بارے ميں استدلالى بيان كے ذريعہ بحث كى اور ان سے يہ خواہش كى كہ ان كى باتوں كو دوسروں تك پہنچائيں اور اپنے شہروں ميں واپس پہنچ جانے كے بعد اپنے نظريہ سے امام(ع) كو مطلع كريں_ امام حسين (ع)نے معاويہ كو اپنى تنقيد كا نشانہ بناتے ہوئے اپنى تقرير كا آغاز كيا اور ملت اسلاميہ خصوصاً پيروان على (ع) كے بارے ميں معاويہ جن جرائم كا مرتكب ہوا تھا كو ياد دلايا 13_
عراق كى طرف روانگى سے پہلے امام حسين(ع) كى تقرير
آٹھ ذى الحجہ كو عراق روانگى سے پہلے امام حسين (ع)نے لوگوں كے ايك مجمع ميں حج نہ كرنے اور عراق كى طرف جانے كى وضاحت كى اور فرمايا:
'' ايك دلہن كے گلے كے ہار كى طرح موت انسان كى گردن سے بندھى ہوئي ہے ميں اپنے بزرگوں كا اس طرح مشتاق ہوں جس طرح حضرت يعقوب (ع) حضرت يوسف كے مشتاق تھے_ ميں يہيں سے اس جگہ كا مشاہدہ كر رہا ہوں جہاں ميں شہادت پاؤں گا اور بيابانى بھيڑيے ميرے بدن كے ٹكڑے ٹكڑے كرديں گے'' پھر فرمايا:'' جو لوگ اس راستہ ميں خون دينے اور خدا سے ملاقات كرنے كے لئے آمادہ ہيں وہ ميرے ساتھ آئيں ميں انشاء اللہ صبح سويرے روانہ ہو جاؤں گا 14_
كيا ان تمام تقريروں، كربلا ميں شب عاشور اپنے اصحاب كو رخصت كر دينے اور بيعت سے چشم پوشى كرنے كے باوجود يہ كہنا روا ہے كہ امام (ع) كے قيام كو ايك ناگہانى دھما كہ سمجھ ليا جائے؟ وہ ليڈر جو لوگوں كے غم و غصّہ اور ناراضگى سے فائدہ حاصل كرنا چاہتا ہو كيا وہ ايسى باتيں زبان پر لاسكتا ہے_
انقلاب كے اثرات و نتائج
دوسرا اہم مسئلہ يہ ہے كہ كيا حسينى (ع) انقلاب اس وقت كے معاشرہ كو كوئي فائدہ پہنچا كر ضرورى كاميابى حاصل كر سكا يا دنيا كے بہت سے شكست خوردہ انقلابات كى طرح ناگہانى طور پر شعلہ ور ہوا اور پھر بجھ كر رہ گيا؟
عاشور كے انقلاب كے اثراب كو سمجھنے كے لئے ہم فورى يقينى كاميابى يا حكومت پر قبضہ اور قدرت حاصل كر لينے كى ( منطق) سے ماوراء ہو كر ديكھيں، اس لئے كہ وہ دلائل موجود ہيں جو اس بات كا پتہ ديتے ہيں كہ ابو عبداللہ الحسين(ع) اس سرنوشت سے آگاہ تھے جس كا وہ انتظار كر رہے تھے_ اس بنا پر فورى كاميابى قيام حسينى (ع) كا مقصد نہيں تھي_ آپ جانتے تھے كہ ان حالات ميں فورى طور جنگى كاميابى ممكن نہيں ہے_
ان مطالب كے مجموعہ سے يہ پتہ چلتا ہے كہ ہم كو انقلاب حسينى (ع) سے ايسے نتائج كى توقع نہيں كرنى چاہيے جو عام طور پر سارے انقلابات سے حاصل ہوتے ہيں بلكہ ہم كو آپ كے انقلاب كے اثرات و نتائج كو مندرجہ ذيل باتوں ميں ڈھونڈنا چاہئے:
1_ امويوں كے جھوٹے دينى نفوذ كو ختم كرنا اور زمانہ جاہليت كى بے دينى و الحاد كى اس روح كو واضح كرنا جو حكومت اموى كے، مخالف اسلام اعمال كى توجيہ كرتى تھي_
2_ ہر ايك مسلمان كے ضمير ميں گناہ كے احساس كو عام كرنا اور اس كو اپنے اوپر تنقيد كرنے كى حالت ميں تبديل كر دينا تا كہ اس كى روشنى ميں معاشرہ اور زندگى ميں ہر آدمى اپنى حيثيت كو معين كرے_
3_ اسلامى معاشرہ ميں پھيلنے والى برى باتوں كے خلاف مبارزہ اور جنگ كى روح كو اس غرض سے برانگيختہ كرنا كہ اسلامى قدروں كااعادہ اور اس كا استحكام ہوجائے_
الف _ امويوں كے جھوٹے دينى نفوذ كو ختم كرنا
اموى يہ دكھا نے كے لئے كہ وہ پيغمبر (ص) كے جانشين ہيں اور انكى حكومت، خدا كے تعيين كردہ احكام كے مطابق ہے، لوگوں كے دينى عقائد سے فائدہ حاصل كر رہے تھے اور ان كا مقصد تھا كہ ہر طرح كى ممكنہ تحريك كى پہلے ہى سے مذمت كى جائے اور دين كے نام پر اپنے لئے اس حق كے قائل ہوجائيں اور ہر طرح كے تمّرد كو چاہے وہ اپنى سمجھ سے كتنے ہى حقدار كيوں نہ ہوں، ختم كرديا جائے_
اس غرض سے وہ زبان پيغمبر (ص) سے منسوب جھوٹى حديثوں كے ذريعہ لوگوں كو دھوكہ ديتے _ اس طرح _ لوگوں كا حكومت اموى پر ايسا ايمان ہوگيا تھا كہ وہ اموى حكومت حدود دين سے چاہے جتنى بھى خارج كيوں نہ ہوجائے، لوگ پھر بھى اموى حكومت كے خلاف قيام كو حرام سمجھتے تھے_
امويوں نے اپنے كثيف اعمال پر كس حد تك دين كا پردہ ڈال ركھا تھا اس كو واضح كرنے كے لئے ہم يہاں انقلاب حسيني(ع) سے دو تاريخى نمونے نقل كر رہے ہيں:
1_ ابن زياد نے لوگوں كو مسلم كى مدد سے روكنے كے لئے جو خطبہ ديا اس ميں اس نے كہا:
'' واعتصموا بطاعة اللہ وطاعة ائمتكم '' 15
خدا اور اپنے پيشوا ( ائمہ) كى اطاعت كرو_
2_ عَمر وبن حجّاج زُبيدى _ كربلا ميں اموى سپاہ كے كمانڈروں ميں ايك كمانڈر نے جب ديكھا كہ بعض سپاہى حسين (ع) سے مل كر ان كى ركاب ميں جنگ كر رہے ہيں تو اس نے چلاكر كہا '' اے اہل كوفہ اپنے امير كى اطاعت كرو اور جماعت كے ساتھ رہو اور اس كو قتل كرنے كے سلسلہ ميں اپنے دل ميں كوئي شك نہ آنے دو جو دين سے خارج ہوگيا اور جس نے امام كى مخالفت كي16
ايسے ماحول ميں نقلى دينى نفوذ كو ختم كرنے كے لئے سب سے زيادہ اطمينان بخش راستہ يہ تھا كہ كوئي ايسا شخص اس كے خلاف قيام كرے جو تمام افراد ملت كى نظر ميں مسلّم دينى امتيازات كا حامل ہو تا كہ حكومت اموى كے كريہہ چہرہ سے دينى نقاب اتار كر پھينك دے اور اس كى گندى ماہيت كو آشكار كردے_
ايسا مجاہد فى سبيل اللہ سوائے حسين (ع) بن علي(ع) كے اور كوئي دوسرانہ تھا اس لئے كہ آپ كا دوسروں كے دلوں ميں نفوذ و محبوبيت اور خاص احترام تھا_ انقلاب حسين (ع) كے بالمقابل يزيد كے رد عمل نے اسلام اور اموى حكومت كے درميان حد فاصل كھينچ دى اور اموى حكومت كى حق كے خلاف ماہيت كو روشن كرديا_ جو مظالم بنى اميہ نے حسين (ع) ،ان كے اصحاب اور اہل بيت (ع) پرڈھا ئے تھے اس كى وجہ سے ان كے وہ سارے دينى اور مذہبى رنگ مكمل طور پر اڑگئے جو انہوں نے اپنے اوپر چڑھا ركھے تھے اور اس كام نے ان كى مخالف دين ماہيت كو آشكار كرديا_
حسين ابن على (ع) نے اپنى مخصوص روش سے امويوں كى دينى پايسى كو خطرہ ميں ڈال ديا انہوں نے جنگ شروع كرنے كے لئے اصرار نہيں كيا اور امويوں كو اس بات كى فرصت دى كہ وہ ان كو اور ان كے اصحاب كو قتل كرنے سے گريز كريں ليكن ان لوگوں كو حسين (ع) اور ان كے اصحاب كا خون بہانے كے علاوہ اور كچھ منظور نہيں تھا_ اور يہى بات امويوں كى زيادہ سے زيادہ رسوائي كا باعث بني_
انہوں نے حسين(ع) كے ساتھ سختى سے كام لے كر در حقيقت اسلام سے جنگ كى اور حسين (ع) ابن على (ع) نے بھى اس بات سے مناسب فائدہ اٹھايا اور ہر مناسب موقع پر اس نكتہ پر تكيہ كيا اور اپنے درخشاں موقف كو مسلمانوں كے سامنے پيش كيا_
ب _ احساس گناہ
انقلاب حسين (ع) كا دوسرا اثر خصوصاً اس كا اختتامى نقطہ تمام افراد ميں احساس گناہ كا پيدا كرنا اور ضمير كى بيدارى تھى جس كے بعد وہ آپ كى مدد كے لئے دوڑ پڑے، ليكن نہيں آئے، گنہگار ہونے كا احساس اور وجدان و عقل كى توبيخ و سرزنش، ان لوگوں كے دلوں ميں جنہوں نے مد د كا وعدہ كر كے مددنہيں كي، اسى كربلا كے عصر عاشور سے ابن زياد كے لشكر كے درميان عامل قوى تھا _ اس احساس گناہ كے دو پہلو ہيں، ايك طرف يہ احساس، گنہگار كو اپنے جرم و گناہ كے جبران پر ابھارتا ہے اور دوسرى طرف ايسے گناہ كے ارتكاب كا سبب بننے والوں كے لئے لوگوں كے دلوں ميں كينہ اور عداوت پيدا كرتا ہے_
ضمير كى بيدارى اورگناہ كا احساس ہى تھا جس نے انقلاب كے بعد بہت سى اسلامى جمعيتوں كو اپنے گناہ كا جبران كرنے كى غرض سے كوششيں كرنے پر ابھارا اور امويوں كے بارے ميں لوگوں كے دلوں ميں زيادہ سے زيادہ كينہ اور عداوت پيدا كيا_
اس وجہ سے واقعہ كربلا كے بعد امويوں كو متعدد انقلابات سے روبرو ہونا پڑ ا ان سب كا سرچشمہ ان كا اصلى سبب انقلاب حسين(ع) ، انقلابى افراد كا امويوں كى مدد سے انكار اور ان سے انتقام لينے كا جذبہ تھا_
امام حسين(ع) كے پس ماندگان كى اسيرى كے زمانہ كى تقريريں بھى اس سلسلہ ميں بہت موثر ثابت ہوئيں_
ج _ روح جہاد كى بيداري
حسين (ع) ابن على (ع) كى شہادت كے بعد جنگ و جہاد كى روح امت اسلامى ميں جاگ اٹھي_ انقلاب سے پہلے انفرادى اور اجتماعى بيماريوں كا ايك سلسلہ، اسلام كے تحفظ كى راہ ميں مسلمانوں كے انقلاب لانے سے مانع تھا_ ليكن امام حسين (ع) كے انقلاب نے، انقلاب كى تمام انفرادى و اجتماعى ركاوٹوں كو توڑ ديا اور اسلام كے پيكر ميں ايك نئي روح پھونك دي_
حسين(ع) بن على (ع) كے انقلاب كے بعد بہت سى ايسى تحريكيں معرض وجود ميں آئيں جن كو اسلامى معاشرہ كے افراد كى پشت پناہى اور حمايت حاصل تھي_ ذيل ميں ہم ان تحريكوں ميں سے چند كا ذكر كريں گے_
1_ شہادت حسينى (ع) كا پہلا براہ راست ردّ عمل پيغمبراكرم (ع) كے ايك صحابى سليمان بن صرد كى قيادت ميں انقلاب، توّابين كے نام سے شہر كوفہ ميں ظاہر ہوا_ اس تحريك ميں بزرگ شيعوں اور اميرالمؤمنين (ع) كے اصحاب ميں سے ايك گروہ نے شركت كي_
توّابين كى تحريك 61 ھ سے شروع ہوئي اور يزيد كى زندگى تك پوشيدہ طور پر لوگوں كو خون حسين (ع) كا بدلہ لينے كے لئے دعوت ديتى رہي_ ان لوگون نے يزيد كے مرنے كے بعد احتى اط اور رازدارى كو ختم كرديا اور اعلانيہ طور پر اسلحہ اور لشكر جمع كركے آمادہ كارزار ہوگئے_ انكا نعرہ '' يالثارات الحسين (ع) '' تھا ان كے قيام كا جو شيوہ تھا اس سے ان كى پاك بازى اور اخلاص كا پتہ چلتا تھا_ 17''
2_ انقلاب توابين كے بعد انقلاب مدينہ شروع ہوا_ حضرت زينب كبرى سلام اللہ عليہا مدينہ واپسى كے بعد انقلاب كى كوشش كرتى رہيں اس طرح كہ مدينہ ميں يزيد كا مقرر كردہ حاكم، مدينہ كے حالات كے خراب ہونے سے خوف زدہ ہوگيا اور جناب زينب (ع) كى كاركردگى كى رپورٹ اس نے يزيد كو بھيجي، يزيد نے جواب ميں لكھا كہ '' لوگوں كے ساتھ زينب (ع) جو رابطہ قائم كر رہى ہيں اس كو منقطع كردو 18''
اسى زمانہ ميں اہل مدينہ كى نمائندگى كرتے ہوئے ايك وفد شام پہنچا اور واپس آنے كے بعد اس نے اہل مدينہ كے مجمع ميں تقرير كى اور يزيد پر ان لوگوں نے تنقيد كى ، ان كى حقائق پر مبنى تقريروں كے بعد اہل مدينہ نے قيام كيا، يزيد كے گور نر كوان لوگوں نے مدينہ سے نكال ديا پھر يزيد كے حكم سے شام كى خون كى پياسى فوج نے شہر مدينہ پر حملہ كرديا اور نہايت سختى اور خباثت كے ساتھ اس نے قيام مدينہ كو كچل ڈالا_ اور لشكر كے سپہ سالار نے تين دن تك مدينہ كے مسلمانوں كى جان، مال اور عزت و آبرو كو اپنے سپاہيوں كے لئے مباح قرار ديا_ 19
اس كے بعد 67 ھ ميں ''مختار ابن ابى عبيدہ ثقفى نے عراق ميں انقلاب برپا كيا اور خون حسين (ع) كا انتقام ليا_
اس طرح مختلف تحريكيں اور انقلابات ايك دوسرے كے بعد رونما ہوتے رہے يہاں تك كہ بنى اميہ كے خاتمہ پر يہ سلسلہ ختم ہوا_
حوالہ جات
1 الاغاتى جلد 6/ 356_
2 مقاتل الطالبين / 120 ،البدايہ والنہايہ / 197_
3 '' ... انى لم اخرج اشراً و لا بطراً و لا مفسداً و لا ظالماً و انما خرجت لطلب الاصلاح فى امة جدى صلى اللہ عليہ و آلہ و اريد ان آمر بالمعروف و انھى عن المنكر و اسير بسيرة جدى و ابى على بن ابى طالب ...''(بحار ج 44 / 329 مناقب جلد 4/ 89_
4 ''ان رسول اللہ قال من را ى سلطاناً جائراً مستحلاً لحرم اللہ ناكثاً لعھد اللہ مخالفاً لسنة رسول اللہ يعمل فى عباداللہ بالاثم و العدوان فلم يغير ما عليہ بفعل و لا قول _ كان حقاً على اللہ ان يدخلہ مدخلہ، اَلا وان ھؤلاء قد لزموا طاعة الشيطان و تركو طاعة الرحمن و اظہر الفساد و عطلوا الحدود و استاثروا بالفى و احلوا حرام اللہ و حرموا حلالہ، و انا ا حق من غير ...'' تاريخ طبرى ج / 403 ، كامل ابن اثير ج 4 / 48 مقتل مقوم 218 مقتل ابى مخنف_
5 امام حسين (ع) نے جو خط معاويہ كو لكھا تھا اس كے متن سے آگاہى كے لئے كتاب الامامہ و السياسة ج 1ص155 ص 157 ص 160 ملاحظہ فرمائيں_
6 امام حسن كى زندگى كى تاريخ كى تحقيق ميں ہم ان اسباب كى طرف اشارہ كرچكے ہيں_
7 اخبار الطوال / 221 ، ثورة الحسين / 161 ، انساب الاشراف بلاذرى ج 3/17 ، 152_
8 فان حرمت يوماً على دينفخذھا على دين المسيح بن مريم(تتمہ المنتہى / 43)
9 سمو المعنى عبداللہ علائي / 59_
10 اس تفسير كى بنياد، ديالكتيك (جدليات) كے اصول چہارگانہ پر استوار ہے جو كميت كو اصل نام كے ساتھ كيفيت ميں تبديل كرتاہے_
11 الامامہ و السياسہ ج1 / 160، 161_
12 الامامہ والسياسہ ج 1 ص 156، انساب الاشراف ج 2 ترجمہ معاويہ ابن ابى سفيان ،بحار الانوارجلد 44/212_122
13 اصل سليم بن قيس /183_186 مطبوعہ نجف_
14 لہوف/41، بحار جلد 44/366_367، مناقب 4/29'' خطّ الموت على ولد آدم َفخَظَّ القلادة على جيد الفتاة وَ ما ا ولہَنى الى اَسلافى اشتى اقَ يَعقُوبَ الى يُوسُف، وَ خُيّرَ ليّ مصرع: اَنَا لا قيہ، كانّى باَوصالى يَتَقَطَّعُہا عَسَلانُ الفَلَوات بَينَ النَّواويس و كَربَلا من كان فينا باذلاً مہجتہ موصّلناً عَلى لقاء اللہ نفسہ فليرحَل معنا فانّى راحل مصبحاً انشاء اللہ _
15 تاريخ طبرى ج 5/368 ، بحار ج 44/348_
16 تاريخ طبرى ج 5/435، كامل ابن اثير ج 4/67_
7 1 انقلاب توابين كے واقعہ كى تفصيل طبرى نے اپنى تاريخ كى جلد 5/ 551 _ 568 پر لكھا ہے_
18 زينب كبرى تاليف جعفر النقدي/ 120، ثورة الحسين تاليف محمد مہدى شمس الدين_
19 طبرى ج 5/482_ كامل ابن اثير ج 4/111_ 113 اور يہ واقعہ تاريخ ميں واقعہ حرّہ كے نام سے مشہور ہے_