امام موسي کاظم عليہ السلام کي حيات طيبہ کا مختصر جائزہ

Rate this item
(0 votes)

امام موسي کاظم عليہ السلام نے مختلف حکاّم دنيا کے دور ميں زندگي بسر کي آپ کا دور حالات کے اعتبار سے نہايت مصائب اور شديد مشکلات اور خفقان کا دور تھا ہرآنے والے بادشاہ کي امام پرسخت نظر تھي ليکن يہ آپ کا کمالِ امامت تھا کہ آپ انبوہ مصائب کے دورميں قدم قدم پر لوگوں کو درس علم وہدايت عطافرماتے رہے، اتنے نامناسب حالات ميں آپ نے اس دانشگاہ کي جوآپ کے پدر بزرگوارکي قائم کردہ تھي پاسداري اور حفاظت فرمائي آپ کا مقصد امت کي ہدايت اورنشرعلوم آل محمد تھا جس کي آپ نے قدم قدم پر ترويج کي اور حکومت وقت توبہرحال امامت کي محتاج ہے -

چنانچہ تاريخ ميں ملتا ہے کہ ايک مرتبہ مہدي جو اپنے زمانے کا حاکم تھا مدينہ آيا اور امام مو سيٰ کاظم سے مسلۂ تحريم شراب پر بحث کرنے لگا وہ اپنے ذہنِ ناقص ميں خيال کرتا تھا کہ معاذاللہ اس طرح امام کي رسوائي کي جائے ليکن شايد وہ يہ نہيں جانتا تھا کہ يہ وارث باب مدينتہ العلم ہيں چنانچہ امام سے سوال کرتا ہے کہ آپ حرمتِ شراب کي قران سے دليل ديجيے امام نے فرمايا ’’خداوند سورۂ اعراف ميں فرماتا ہے اے حبيب !کہہ دو کہ ميرے خدا نے کارِ بد چہ ظاہر چہ مخفي و اثم و ستم بنا حق حرام قرار ديا ہے اور يہا ں اثم سے مراد شراب ہے ‘‘ امام يہ کہہ کر خاموش نہيں ہوتے ہيں بلکہ فرماتے ہيں خدا وند نيز سورۂ بقر ميں فرماتا ہے اے ميرے حبيب! لوگ تم سے شراب اور قمار کے بارے ميں سوال کرتے ہيں کہہ دو کہ يہ دونوں بہت عظيم گناہ ہے اسي وجہ سے شراب قرآن ميں صريحاً حرام قرار دي گئي ہے مہدي، امام کے اس عالمانہ جواب سے بہت متاثر ہوا اور بے اختيارکہنے لگا ايسا عالمانہ جواب سوائے خانوادۂ عصمت و طہارت کے کوئي نہيں دے سکتا يہي سبب تھا کہ لوگوں کے قلوب پر امام کي حکومت تھي اگر چہ لوگوں کے جسموں پر حکمران حاکم تھے- ہارون کے حالات ميں ملتا ہے کہ ايک مرتبہ قبرِ رسول اللہ پر کھڑ ے ہو کر کہتا ہے اے خدا کے رسول آپ پر سلام اے پسرِ عمّو آپ پر سلام - وہ يہ چاہتا تھا کہ ميرے اس عمل سے لوگ يہ پہچان ليں کہ خليفہ سرور کائنات کا چچازاد بھائي ہے - اسي ہنگام امام کاظم قبر پيغمبر کے نزديک آئے اورفرمايا’’اے ا کے رسول! آپ پرسلام‘‘اے پدر بزرگوار! آپ پرسلام‘‘ ہارون امام کے اس عمل سے بہت غضبناک ہوا- فوراً امام کي طرف رخ کر کے کہتا ہے ’’آپ فرزند رسول ہونے کا دعوہ کيسے کرسکتے ہيں ؟جب کہ آپ علي مرتضيٰ کے فرزندہيں - امام نے فرماياتونے قرآن کريم ميں سورۂ انعام کي آيت نہيں پڑھي جس ميں خدا فرماتا ہے ’’قبيلۂ ابراہيم سے داۆد، سليمان، ايوب، يوسف، موسيٰ، ہارون، زکريا، يحييٰ، عيسيٰ، اورالياس يہ سب کے سب ہمارے نيک اورصالح بندے تھے ہم نے ان کي ہدايت کي اس آيت ميں اللہ نے حضرت عيسيٰ کو گزشتہ انبياء کا فرزند قرار ديا ہے - حالانکہ عيسيٰ بغير باپ کے پيدا ہوئے تھے - حضرت مريم کي طرف سے پيامبران سابق کي طرف نسبت دي ہے اس آيۂ کريمہ کي رو سے بيٹي کا بيٹا فرزند شمار ہوتا ہے - اس دليل کے تحت ميں اپني ماں فاطمہ کے واسطہ سے فرزند نبي ہوں - اس کے بعدامام فرماتے ہيں کہ اے ہارون! يہ بتا کہ اگر اسي وقت پيغمبر دنيا ميں آجائيں اور اپنے لئے تيري بيٹي کا سوال فرمائيں تو تو اپني بيٹي پيغمبر کي زوجيت ميں دے گايا نہيں ؟ ہارون برجستہ جواب ديتا ہے نہ صرف يہ کہ ميں اپني بيٹي کو پيامبر کي زوجيت ميں دونگا بلکہ اس کارنامے پرتمام عرب و عجم پر افتخار کرونگا امام فرماتے ہيں کہ تو اس رشتے پر تو سارے عرب و عجم پر فخر کريگا ليکن پيامبر ہماري بيٹي کے بارے ميں يہ سوال نہيں کر سکتے اس لئے کہ ہماري بيٹياں پيامبر کي بيٹياں ہيں اور باپ پر بيٹي حرام ہے امام کے اس استدلال سے حاکم وقت نہايت پشيمان ہوا- امام موسيٰ کاظم نے علم امامت کي بنياد پر بڑے بڑے مغرور اور متکبر بادشاہوں سے اپنا علمي سکّہ منواليا امام قدم قدم پر لوگوں کي ہدايت کے اسباب فراہم کرتے رہے- چنانچہ جب ہارون نے علي بن يقطين کو اپنا وزير بنانا چاہا اورعلي بن يقطين نے امام موسيٰ کاظم سے مشورہ کيا تو آپ نے اجازت ديدي امام کا ہدف يہ تھا کہ اس طريقہ سے جان و مال و حقوق شيعيان محفوظ رہيں- امام نے علي بن يقطين سے فرمايا تو ہمارے شيعوں کي جان و مال کو ہارون کے شر سے بچانا ہم تيري تين چيزوں کي ضمانت ليتے ہيں کہ اگر تو نے اس عہد کو پورا کيا تو ہم ضامن ہيں- تم تلوار سے ہرگز قتل نہيں کئے جاۆگے- ہرگز مفلس نہ ہو گے- تمہيں کبھي قيد نہيں کيا جائے گا- علي بن يقطين نے ہميشہ امام کے شيعوں کو حکومت کے شر سے بچايا اور امام کا وعدہ بھي پورا ہوا- نہ ہارون، پسر يقطين کو قتل کرسکا- نہ وہ تنگدست ہوا- نہ قيد ہوا- لوگوں نے بہت چاہا کہ فرزند يقطين کو قتل کرا ديا جائے ليکن ضمانتِ امامت، علي بن يقطين کے سر پر سايہ فگن تھي - ايک مرتبہ ہارون نے علي بن يقطين کو لباس فاخرہ ديا علي بن يقطين نے اس لباس کو امام موسيٰ کاظم کي خدمت ميں پيش کر ديا مولا يہ آپ کي شايانِ شان ہے- امام نے اس لباس کو واپس کر ديا اے علي ابن يقطين اس لباس کو محفوظ رکھو يہ برے وقت ميں تمہارے کام آئے گا ادھر دشمنوں نے بادشاہ سے شکايت کي کہ علي ابن يقطين امام کاظم کي امامت کا معتقد ہے يہ ان کو خمس کي رقم روانہ کرتا ہے يہاں تک کہ جو لباس فاخرہ تو نے علي ابن يقطين کو عنايت کيا تھا وہ بھي اس نے امام کاظم کو دے ديا ہے- بادشاہ سخت غضب ناک ہوا اور علي ابن يقطين کے قتل پر آمادہ ہو گيا فورا علي ابن يقطين کو طلب کيا اور کہا وہ لباس کہاں ہے جو ميں نے تمہيں عنايت کيا تھا؟ علي ابن يقطين نے غلام کو بھيج کر لباس، ہارون کے سامنے پيش کر ديا ہارون بہت زيادہ خجالت زدہ ہوا يہ ہے تدبير امامت اور علم امامت-

Read 2550 times