یہ ایام ، عصمت کبری ، حوراء انسیہ ، دختر محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھاکی ولادت باسعادت کے مبارک ایام ہیں اور 20 جمادی الثانی یعنی حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا کی ولادت باسعادت کے پر مسرت اور مبارک و مسعود دن کو ایران میں "یوم خواتین اور مادر" کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔ فاطمہ زہراء (س) عالم بشریت خاص طور پر تمام خواتین کے لئے نمونۂ عمل ہیں ۔ کیوں کہ آپ نے ایک خاتون کےطورپر گھر اور معاشرے میں بہترین انداز میں اپنا کردار نبھایا ۔ حضرت زہرا (س ) نے ایک ماں کے کردار کو بنحو احسن ادا کیا ہے ۔ اور امام حسن اور امام حسین علیھما السلام اور جناب زینب و ام کلثوم سلام اللہ علیھما جیسے بے مثال بچوں کی تربیت کی اور معاشرے کو ایسے باکمال افراد پیش کئے کہ جن میں سے ہر کوئی ، عالم ، شجاع ، مومن اور اعلی و ارفع کردار سے مزین، نیز انسانی اقدار کا حامل اور معاشرے کے لئے مفید و موثر واقع ہوا ۔ دوسری جانب آج کی دنیا ، خاص طور پر مغرب کو درپیش مشکلات کی وجہ ، خواتین اور خاص طور پر ماں کے کردار کو اہیمت نہ دینا ہے ۔ خواتین کا ایک اہم اور فطری کردار ، ماں کا ہے ۔ فیمینزم تحریک اور مغربی سرمایہ دار معاشرے کے وجود میں آنے کے وقت سے ہی ماں کے کردار کو اس معاشرے میں کمزور کرنے اور حتی اسے ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور خواتین کے حقوق کے دفاع کے بہانے سے گھریلو اور مادرانہ حیثيت اور کردارپر سوالیہ نشان لگایاہے اور اسے عورت پر سب سے بڑا ظلم اور اس کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ماہرین کا خیال ہے کہ ماں ہونا ایک خاتون کے لئے انتہائی لذت بخش ہے ۔ کینیڈا کے ایک مصنف "ویلیم گارڈنر" لکھتے ہيں کہ ایک خاتوں کے لئے کوئی چيز اس سے زیادہ اہیمت نہیں رکھتی کہ وہ ایک انسان کو وجود عطا کرے اور اس کی تربیت و پرورش کرے ۔ دوسری طرف مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام نے ہم جنس پرستی کی ترویج کے ذریعے بھی کوشش کی ہے کہ مادرانہ کردار میں خدشہ پیدا کرکے، ان کو ہلکا بناکر پیش کرے ۔ واضح ہے کہ ہم جنس پرستی ، ایک عظیم گناہ ، انسانی فطرت کے خلاف اور بے راہ روی پر چل پڑنا ہے کہ جو انسان کو اس کے فطری تقاضے سے دور کردیتی ہے ۔ کوئی بھی انسان تن تنہا یا اپنے ہم جنس کے ساتھ ، کامل نہيں ہوسکتا بلکہ ایک مرد اور ایک عورت سے مل کر کامل بنتا ہے ۔ درحقیقت خداوند عالم نے انسان کی خلقت کچھ اس طرح سے کی ہے کہ وہ اپنی جنس مخالف کے بغیر ناقص ہے اور جنس مخالف سے ہی اس کی تکمیل ہوتی ہے ۔ اور یہ دو جنس کے افراد ، روحانی اور جسمانی اعتبار سے ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور باہمی زندگي گذارکر ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں ۔ انگریز فلم ساز اور سیاح " ڈيوڈ ھیوز " کہتے ہيں ۔ " عورت اور مرد مختلف نوعیت کے ہیں لیکن ان کے کردار کی تکمیل، باہمی زندگي سے ہوتی ہے اور خالص عورتوں اور یا خالص مردوں پر مشتمل ایک جنسی معاشرے کاافسانہ، محض ایک وہم و خیال ہے ۔" اس کے علاوہ عورت اور مرد کے درمیان شادی اور ان کی ازدواجی زندگي انسانیت کی بقاء کی ضامن ہے اور اسی مقدس بندھن اور رابطے سے نسل انسانی وجود میں آتی اور قائم و دائم رہتی ہے ۔ کیوں کہ دنیا کی خلقت کا مقصد، انسان کا وجود ، اس کی پرورش اور کمال کا حصول ہے ۔ اسی طرح ازدواجی زندگي کے ذریعے انسان کو فکری استقلال اور روحانی سکون حاصل ہوتا اور وہ کمال کے راستے تک رسائی حاصل کرتا ہے ۔ ایران کے مسلمان دانشور اور فلسفی استاد شہید مطہری اپنی کتاب " اسلام میں عورت کے حقوق کا نظام " میں لکھتے ہیں " خاندان کی تشکیل یعنی ایک طرح سے دوسروں کی سرنوشت سے آگاہ ہونا ہے - ازدواج ، اپنی انفرادی زندگي سے باہر نکلنے اور اپنی شخصیت میں وسعت پیدا کرنے کا پہلا مرحلہ ہے ۔ شادی اور کنبے کی تشکیل سے انسان میں جو پختگي آتی ہے اسے صرف شادی اور خاندان کی تشکیل کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ جیساکہ اس سے قبل کہا گیا کہ عورت کاایک اہم کردار اسکا ماں ہونا ہے ۔ عورت کا اپنے شوق و اشتیاق کے ساتھ ماں ہونا ، بچہ دار ہونا اوران کی حفاظت و پرورش کرنا، تمام عورتوں کی فطرت میں ودیعت کیا گيا ہے ۔ ماں ، بچے کے ساتھ اپنی بے پناہ محبت و مہربانی کے ذریعے، اس کے وجود کو عشق ومحبت سے مالا مال ، اور معاشرے کے لئے ایک صحیح وسالم اور توانا بچے کی تربیت کرسکتی ہے اور اسی طرح اپنی فطری ضرورت ، بچے کو وجود دے کر پورا کرسکتی ہے ۔ امریکی مصنف ڈاکٹر "ٹونی گرنٹ" اس بارے میں کہتے ہیں " بائیلوجیکل اعتبار سے ایک ماں کے وجود کو بذات خود میں ایک مسلمہ امر قرار دیتا ہوں اس لۓ کہ ایک عورت کا ماں ہونا ، اس کی ذات سے جدا نہيں ہے ۔ آج کی عورت اگر چہ مائل ہے کہ اپنی مردانہ خصوصیات پر بھروسہ کرے ۔۔۔ لیکن اس نے مادرانہ شوق و جذبے کاتحفظ کیا ہے اور ہمیشہ سے زيادہ اس کے اظہار کی جستجو ميں ہے ۔ مائیں ، اپنے بچوں کی نسبت لطیف احساسات و جذبات کی حامل ہوتی ہیں اور یہ احساس ایک ایسا عطیۂ الہی ہے جسے خداوند عالم نے عورت کے وجود میں ودیعت کردیا ہے ۔ اسلام میں عورت کے مادرانہ کردار کو انتہائی اہمیت دی گئی ہے ۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای معتقد ہیں کہ ایک عورت کا اہم ترین کردار جو وہ کسی بھی علمی و معلوماتی اور تحقیق و معنویت کی سطح پر انجام دیتی ہے ،اس کا وہی کردار ہے جو ایک ماں اور ایک بیوی کے طور پر وہ ادا کرتی ہے ۔وہ عورت کے اس کردار کو اس کے تمام کاموں سے اہم قرار دیتے ہیں کہ جسے کوئی اور انجام نہیں دے سکتا ۔اسی طرح آپ کا خیال ہے کہ با اخلاق ، خوش طبیعت و خوش فکر اور روحانی وجسمانی لحاظ سے سالم و تندرست انسان ، عورت کے ہی پر مہر و محبت دامن میں پرورش پاتا ہے اور ماں ، ہر تعمیر ساز اور پرورش دہندہ سے زیادہ، تعمیری کردار اور قدر و قیمت کی حامل ہے ۔ عورت کی زندگی کے خوبصورت ترین اور حساس ترین مراحل میں سے ایک ، حاملہ ہونے اور بچے کو دودھ پلانے کا مرحلہ ہے ۔ حاملہ ہونے کے وقت ، ماں اپنے وجود ميں ایک انسان کی پرورش کی ذمہ دار ہوتی ہے ۔عورت اس دوران اپنے بچے سے جذباتی رابطہ برقرار کرتی ہے ۔ علمی و سائنسی تجربوں اور تحقیقات کی بنیاد پر ، ماں جو اپنے بچے کی نگہداشت اور حفاظت کرتی ہے ، بچے کے مستقبل میں، ایک اہم حصہ رکھتی ہے ۔ بچے کی پیدائش کے بعد ، اس بچے سے ماں کا جذباتی رابطہ اسے دودھ پلانے سے بڑھ جاتا ہے ۔ ماں کا دودھ بچے کے لئے بہترین غذا ، اور اس کا فطری حق ہے ۔ حاملہ ہونے ، بچے کو وجود دینے اور دودھ پلانے کا دور، جو بچے کے جسمانی اور جذباتی ڈھانچے پر اثر انداز ہوتا ہے ، اس کی اہمیت کے پیش نظر ، اسلام نے خواتین کے لئے ، ترغیب کے غور طلب عوامل مد نظر قرار دیئے ہيں ۔ ایک روایت میں حضرت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے نقل کیا گيا ہے کہ " جس دوران عورت حاملہ رہتی ہے ، وہ روزہ دار ، شب زندہ دار اور ایسی مجاہدہ ہے جو راہ خدا میں اپنی جان و مال کے ساتھ جنگ کرتی ہے ۔ بچے کی پیدائش سے اٹھنے والے درد کا لمحہ لمحہ، عورت کے لئے ایک بندۂ مومن کے آزاد کرنے کا ثواب رکھتا ہے اور جب عورت بچے کو جنم دے دیتی ہے تواس کے لئے ایک ایسا اجر و ثواب ہے کہ جس کی عظمت و وسعت کو کوئی درک نہیں کرسکتا ۔ جب وہ اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے تو اس وقت بچے کی ہر چسکی ، فرزندان اسماعیل میں سے ایک غلام کو آزاد کرنے کے ثواب کے برابر ہوتی ہے اور روز قیامت اس عورت کے چہرےپر خدا ایک ایسا نور ساطع کریگا جو تمام اہل محشر کو حیرت ميں ڈال دیگا ۔ اور جب بچہ دودھ پی لیتا ہے تو ایک فرشتۂ الہی ماں کے پہلو پر ہاتھ رکھتا ہے اور کہتا ہے " اپنی زندگي کا دوبارہ آغاز کرو ، خدانے تمہارے تمام گذشتہ گناہوں کو بخش دیا ہے " ۔ وہ بچہ جسے ماں کادودھ نصیب ہوتا ہے وہ جسمانی اور جذباتی لحاظ سے بہت زیادہ صحیح و سالم ہوتا ہے اور بڑا ہوکر وہ ایک متوازن شخصیت کا حامل ہوتا ہے ۔ اسی طرح اسلام میں بچے سے ماں کی محبت کے اظہار کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور بہترین انداز ميں بچے کو لوریاں دینے کی تلقین دی گئ ہے جیسا کہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا بچے کو آغوش میں لے کر اسے یوں لوری دیتی تھیں " بیٹا حسن تم بھی اپنے بابا علی کی مانند بننا اور حق کے دامن کو کبھی نہ چھوڑنا ، جس خدا نے تمہیں نعمتیں دی ہیں اس کی بندگي کرو اور خطا کاروں اور گناہکاروں کو دوست نہ بناؤ ۔ ماں اپنے نئےانداز تربیت اوراعمال و کردار سے بچے کو اعلی اخلاق اور پسندیدہ آداب سے روشناس کراسکتی ہے ۔ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا ہیمشہ اپنی بے مثال محبتوں سے اپنے بچوں کو نوازتی تھیں اور ان میں کبھی بھی ماں کی مہر ومحبت کے اعتبار سے محرومیت کا احساس پیدا ہونے نہيں ہونے دیا۔ خود بھوکی اور پیاسی رہتی تھیں لیکن بچوں کو سیر و سیراب رکھتی تھیں ۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا اپنے بچوں کی تربیت کے مسئلے ميں اس طرح سے عمل کرتی تھیں کہ ان کے بچے کمال کی تلاش اور کمال حاصل کرنے کے ساتھ ہی ایک دوسرے کے ساتھ مہربان اور ہمدرد رہیں اور خاندانی روابط میں باہمی میل جول اور احترام کو مد نظر رکھیں ۔ یہی وجہ تھی کہ امام حسین علیہ السلام اپنے بڑے بھائی حضرت امام حسن علیہ السلام کا خاص احترام کرتے تھے ۔ اور اپنی بہن زینب سلام اللہ علیھا سے بیحد محبت کرتے اور ان کا احترام کرتے تھے ، باوجودیکہ حضرت امام حسین علیہ السلام سے چھوٹی تھیں ان کی تعظیم ميں اٹھ جایا کرتے تھے ۔ اس طرح سے بچے کی جسمانی اور روحانی تربیت میں ماں کا کردار انتہائي اہمیت کا حامل ہے لیکن مغربی دنیا اس کردار کو معمولی قرار دے کر حقیقت میں اپنی آئندہ کی نسل اور معاشرے پر ظلم کررہی ہے ۔