حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا تاریخ اسلام کی ان عظیم خواتین میں سے ہیں جن کے چار فرزندوں نے واقعہ کربلا میں اسلام پر اپنی جانیں نچھاور کیں ام البنین یعنی بیٹوں کی ماں ،آپ کے چار شجاع و بہادر بیٹے عباس، جعفر، عبد اللہ اور عثمان تھے حضرت علی بن ابی طالب کے شجاع و بہادر بچے امام حسین علیہ السلام کی نصرت و مدد کرتے ہوئے کربلا میں شہادت کے درجے پر فائز ہوگئے ۔
حضرت فاطمہ کلابیہ جن کا مشہور و معروف لقب ام البنین تھا۔ حضرت علی علیہ السلام کی شریک حیات تھیں-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لاڈلی بیٹی ، حضرت علی علیہ السلام کی شریک حیات حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت عظمی کو تقریبا پندرہ سال کا عرصہ گذر چکا تھا، حضرت علی علیہ السلام نے اپنے بھائی عقیل کو جو خاندان عرب کے حسب ونسب سے بہت زيادہ واقف تھے اپنے پاس بلایا اور ان سے فرمایا کہ آپ ایک بہادر خاندان سے ایک ایسی خاتون تلاش کریں جس سے بہادر بچے پیدا ہوں ۔ حضرت علی علیہ السلام جانتے تھے کہ سن اکسٹھ ہجری جیسے حساس اور پر آشوب زمانے میں اسلام کے دوام اور قانون و آئین محمدی کے احیاء کے لئے بہت زيادہ ایثار وقربانی کی ضرورت پیش آئے گی خصوصا حضرت علی علیہ السلام اس بات سے بھی باخبر تھے کہ کربلا کا واقعہ رونما ہوگا لہذا ضرورت تھی کہ ایسے موقع کے لئے ایک ایسا بہادر و جانباز فرزند موجود ہو جو کربلا میں امام حسین کی نصرت و مدد کرے ۔
جناب عقیل نے حضرت ام البنین کے گھرانے کے بارے میں بتایا کہ پورے عرب میں ان کے آباؤ و اجداد سے زيادہ بہادر کوئی نہ تھا علی علیہ السلام نے اس تجویز کو قبول کرلیا اور عقیل کو رشتہ لے کر جناب ام البنین کے والد کے پاس بھیجا ان کے والد اس مبارک رشتے سے بہت زيادہ خوش ہوئے اور فورا ہی اپنی بیٹی کے پاس گئے اور اس سلسلے میں ان کی مرضی معلوم کرنا چاہی، ام البنین نے اس رشتے کو سربلندی و افتخار سمجھ کر قبول کرلیا اور پھر اس طرح جناب ام البنین اور حضرت علی علیہ السلام رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے -
جناب ام البنین ایک بہادر و شجاع ، مستحکم و راسخ ایمان و ایثار اور فداکاری کا بہترین پیکر اور بافضیلت خاتون تھیں آپ کی اولادیں بھی نہایت ہی شجاع وبہادر تھیں لیکن ان کے درمیان حضرت عباس علیہ السلام ایک خاص مقام و مرتبہ کے حامل تھے آپ تمام شہداء تاریخ کے درمیان ستاروں کی طرح چمکتے تھے حضرت ام البنین کی تمام تر کوشش یہ تھی کہ جوانان اہل بہشت امام حسن و حسین اور علی و فاطمہ کی دو بیٹیوں زینب و ام کلثوم کی زندگی میں ماں کی کمی کو پورا کردیں اور بچے اس کمی کا احساس نہ کرسکیں ۔
حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا کی ایک خاص صفت یہ تھی کہ آپ زمانے کے حالات پر خاص نظر رکھتی تھیں حضرت ام البنین بنی امیہ کے ظالم و ستمگر حاکموں کی جارحیت کی جنہوں نے امام حسین علیہ السلام اور ان کے باوفا ساتھیوں کو شہید کیا تھا ہمیشہ مذمت کیا کرتی تھیں اور مجالس عزا منعقد کیا کرتی تھیں تاکہ کربلا کے شہیدوں کا ذکر ہمیشہ زندہ رہے اور ان مجلسوں میں خاندان عصمت و طہارت کی عورتیں شریک ہوکر کربلا کے شہیدوں پر آنسو بہاتی تھیں آپ اپنی تقریروں ، مرثیوں اور اشعار کے ذریعے شہیدان کربلا کی مظلومیت کو کائنات کے ہر فرد تک پہنچانا چاہتی تھیں۔
حضرت علی علیہ السلام کی شریک حیات جناب ام البنین کی عظمت و رفعت مسلمانوں کے درمیان مسلم تھی کیونکہ ہرایک کے ذہن و دماغ میں یہ بات موجود تھی کہ خدا کے نزدیک آپ کی بہت زيادہ عظمت و منزلت ہے آپ نے اپنے جگر گوشوں کو کمال اخلاص کے ساتھ خدا اور اسلام کی راہ میں قربان کیا تھا۔
بالآخر ایثار و قربانی اور کمال اخلاص و ایمان کی دولت سے سرشار عظیم خاتون ام البنین کا ستر ہجری میں انتقال ہوگیا - بعض مورخین نے آپ کی وفات کی تاریخ تیرہ جمادی الثانی سن چونسٹھ ہجری تحریر کیا ہے ۔
آپ کی قبرمبارک جنت البقیع میں حضرت امام حسن علیہ السلام کی قبر کے پاس موجود ہے ۔