جب رسول خدا (ص) حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی ولادت کے موقع پر علی (ع) و فاطمہ (س) کے گھر تشریف لائے تو آپ نے نومولود بچی کو اپنی آغوش میں لیا۔ اس کو پیار کیا اور سینے سے لگایا۔ اس دوران علی (ع) و فاطمہ (س) نے کیا دیکھا کہ رسول خدا (ص) بلند آواز سے گریہ فرما رہے ہیں۔ حضرت فاطمہ (س) نے آپ سے رونے کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا "بیٹی، میری اور تمہاری رحلت کے بعد اس پر بہت زیادہ مصیبتیں پڑیں گی۔
آپ کی خوش قسمتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی تربیت کرنے والی ماں سیدہ نساء العالمین حضرت فاطمہ (س) ہیں، وہ فاطمہ جو دختر رسول ہے، جس کی رضا میں خدا راضی اور جس کے غضب سے خدا غضبناک ہوتا ہے۔ وہ فاطمہ جو بضعۃ الرسول ہے، جو خاتون جنت ہے، وہ فاطمہ کہ جس کی عبادت پر پروردگار مباہات فرماتا ہے، وہ فاطمہ جس کی چکی جبرئیل علیہ السلام چلاتے ہیں۔ اگر باپ کو دیکھیں تو حیدر کرار جیسا باپ ہے، آپ نے امام علی (ع) جیسے باپ کی زیر نگرانی پرورش پائی ہے۔ اس کے علاوہ پیغمبر اکرم (ص)، جو تمام انسانوں کے لئے "اسوہ حسنہ" ہیں، نانا کی حیثیت سے آپ کے پاس موجود ہیں۔ لہذٰا یہ آپ کے افتخارات میں سے ہے کہ آپ نے رسول خدا (ص)، امام علی (ع) اور فاطمہ زہرا (س) جیسی بے مثال شخصیات کی سرپرستی میں پرورش پائی۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی تربیت کس قدر بہترین اور مقدس ماحول میں ہوئی۔
کربلا کا واقعہ انسانی تاریخ میں ایک بے مثال واقعہ ہے۔ لہذٰا اس کو تشکیل دینے والی شخصیات بھی منفرد حیثیت کی حامل ہیں۔ حضرت امام حسین (ع) اور ان کے جانثاروں نے ایک مقدس اور اعلٰی ہدف کی خاطر یہ عظیم قربانی دی لیکن اگر حضرت زینب سلام اللہ علیہا اس عظیم واقعے کو زندہ رکھنے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتیں تو بلاشک وہ تمام قربانیان ضائع ہو جاتیں۔
بلاشبہ اسی وجہ سے انہیں "شریکۃ الحسین" کا لقب دیا گیا ہے۔ اگر امام حسین علیہ السلام اور ان کے جانثاروں نے اپنی تلواروں کے ذریعے خدا کی راہ میں جہاد کیا تو شریکۃ الحسین سلام اللہ علیہا نے اپنے کلام اور اپنے خطبات کے ذریعے اس جہاد کو اس کی اصلی منزل تک پہنچایا۔
ثانئ زہرا سلام اللہ علیھا پیدائشی طور غیر معمولی فہم و فراست کی حامل تھیں اور اسی بنیاد پر وہ حکمتِ علوی کی وارث قرار پائیں۔ آپ نہ صرف لسان اللہ (یعنی علیؑ ) کی گہر افشانی پر ہمہ تن گوش بن جاتی تھیں بلکہ کم سنی سے ہی اپنے والد کے حضور اپنی ذکاوت کا مظاہرہ کرتیں۔ تاریخ میں ان عظیم باپ بیٹی کی مختصر مگر معنی خیز گفتگو درج ہے۔ جس کے مطالعے سے بآسانی یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ جس علم و معرفت کے سرچشمے کا نام علیؑ ہے، اس کے ایک مظہر کا نام زینب ہے۔
ابنِ زیاد اور یزید کے دربار قلعۂ خیبر سے کچھ کم نہ تھے ۔ مشکل کشا کی بیٹی نے یزیدیت کے فلک بوس محلوں کو زمیں بوس کرکے ثابت کر دیا کہ وہ فاتحِ خندق و خیبر کی حقیقی وارث ہیں۔
سلام عصمتِ زہرا کی ورثہ دار سلام
سلام جرأتِ حیدرؑ کی یادگار سلام
سلام سبطِ نبیؑ کی شریکِ کار سلام
سلام مملکتِ غم کی تاجدار سلام
وقارِ مریمؑ و حوّا سلام ہو تجھ پر
سلام ثانئ زہراؑ سلام ہو تجھ پر