فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان خود سے متعلق چیزوں اور اپنے عزیزوں سے زیادہ محبت کرتا ہے اور اس میں کبھی کبھی حد سے بھی بڑھ بھی جاتا ہے، خصوصاً جب انسان کے نفس کی تربیت نہ ہوئی ہو تو اپنے عزیز اور محبوب کا ہر عمل بھلا لگتا ہے، اگرچہ اصولوں اور قوانین کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ پس کسی کے لئے ہم جیسے عام انسان کی تائید، تصدیق اور تشویق زیادہ اہمیت نہیں رکھتی، چونکہ ہم اکثر اپنے احساسات و عواطف اور جذبات سے متاثر ہوتے ہیں، لیکن تاریخ میں ایسی ہستیاں بھی گزری ہیں، جنہوں نے کبھی بھی کوئی بات جذبات، احساسات اور عواطف کی بنیاد پر نہیں کہی، ان میں سے ایک ہستی ایسی بھی ہے، جب کسی سے اظہار محبت کرتی ہے اور حد سے زیادہ چاہت دکھاتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتی، ان کی محبت اور دشمنی ہمیشہ خدا کے لئے ہوتی ہے۔
تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ *مَایَنطَقُ عَنِ الھَوَا اِن ھُوَ اَلاَّ وَحیٍ یُّوحَی* کی مالک شخصیت جب کسی ہستی سے اتنی محبت کا اظہار کرتی ہے تو یقیناً انسانی جذبات اور احساسات سے ہٹ کر یہ عمل انجام دے رہی ہوتی ہے، جس کا اظہار وہ خود اپنے بہت سے فرامین میں کرچکی ہے، جس میں اپنے لاڈلوں سے اظہار محبت ہمیشہ کچھ معمول سے ہٹ کر کیا ہے، کبھی حسنین شریفین کے لئے ناقہ بنتے نظر آئے تو کبھی خطبہ دینے کے دوران منبر سے اتر کر ان کو اپنی گود میں لیتے تو کبھی فرامین کے ذریعے دنیا والوں کو ان کی اہمیت اور شخصیت بتانے کی کوشش کی۔ ان ہستیوں کی طہارت اور اہمیت کی گواہی قرآن نے دی ہے، لیکن اس کے باوجود امت مسلمہ نے آپ کے جانے کے فوراً بعد ان ہستیوں کی حرمت کا کوئی پاس نہیں رکھا۔ طرح طرح کی تہمتیں لگائیں اور اذیتیں پہنچانے سے گریز نہیں کیا۔
امام حسن مجتبیٰ (ع) کی ولادت
?الارشاد میں مرحوم شیخ مفید علیہ الرحمہ کے مطابق آپ کی کنیت ابو محمد ہےو شہر مدینہ میں پندرہ رمضان المبارک تیسری ہجری کو آپ کی ولادت ہوئی۔ آپ کی ماں دختر رسول فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے ایک ایسے جنت کے کپڑے میں لپیٹ کر (کہ جو جبرئیل رسول خدا کے لئے جنت سے لایا تھا) اپنے بابا کے پاس لے آئیں اور آنحضرت نے آپ کا نام حسن رکھا۔(1) جبکہ بعض دیگر حدیثی کتب کے مطابق جب آپ کی ولادت ہوئی تو حضرت فاطمہ (س) نے علی علیہ السلام سے فرمایا ہمارے اس بچے کے لئے نام رکھیں، آپ نے فرمایا اس بچے کو نام رکھنے میں، میں رسول خدا پر سبقت نہیں لوں گا۔ جب رسول اللہ تشریف لائے تو آپ ہی نے دائیں کان میں اذان، بائیں کان میں اقامت پڑھی اور علی علیہ السلام سے پوچھا اس بچے کے لئے کیا نام رکھا ہے۔؟ آپ نے فرمایا یارسول اللہ میں نام رکھنے میں آپ پر سبقت نہیں لوں گا اس وقت آنحضرت نے فرمایا میں بھی اپنے رب پر سبقت نہیں لوں گا، اسی وقت جبرئیل نازل ہوئے اور کہا کہ آپ کو اللہ نے مبارک باد دی ہے اور فرمایا ہے کہ آپ اور علی کی نسبت موسیٰ اور ہارون کی سی ہے(علی کو آپ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی) لہذا اس بچے کا ہارون کے بیٹے کا نام رکھ دیں، آپ نے پوچھا ان کا نام کیا تھا؟؟ جبرئیل نے کہا شبّر فرمایا میری زبان عربی ہے، کیا رکھوں۔؟ فرمایا حسن، اس طرح آنحضرت نے آپ کا نام حسن رکھا۔۔۔(2)
امام حسن قرآن کی نگاہ میں
❄️ تمام شیعہ علماء اور بعض اہل سنت علماء کے مطابق امام حسن علیہ السلام آیہ تطہیر کے مصادیق میں سے ہیں۔ آیہ تطہیر آپ کے گھر والوں کی طہارت اور
پاکیزگی پر گواہ ہے۔ "إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً"(3) آپ اصحاب مبابلہ میں سے ہیں، جن کی شان میں آیہ مباہلہ نازل ہوئی، جس کے بارے میں اہل سنت علماء کا بھی اتفاق ہے۔ "فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ"(4) آیہ مودت آپ ہی کے اقرباء کی شان میں نازل ہوئی، جس میں آپ کی محبت کو واجب قرار دیا گیا ہے۔(5)
سورہ دھر کی آیت 5 سے دس تک آپ ہی کے گھرانے کی شان میں نازل ہوئیں۔ مرحوم علامہ امینی نے الغدیر میں اس آیت کا شان نزول اہل بیت علیہم السلام ہونے کو اہل سنت کی 34 کتابوں سے ذکر کیا ہے اور مرحوم قاضی نوراللہ شوشتری نے ان کی 36 کتابوں سے نقل کیا ہے۔(6)
امام حسن پیغمبر گرامی اسلام (ص) کی نظر میں
?آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے ایسے اوصاف کے ذریعے اپنے نواسوں کو یاد کیا ہے کہ اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ آپ کی مرتبت حضور کی نگاہوں
میں کتنی تھی۔ آپ کی فضلیت کے لئے صرف حدیث ثقلین کافی ہے، جس میں اہل بیت کو قیامت تک کے لئے قرآن کا ہم پلہ اور قرآن سے جدا ناپذیر قرار دیا۔۔۔ براء بن عازب کہتے ہیں "رایت النبی صلی اللہ والحسن علی عاتقہ یقول اللھم انی احبہ فاحبہ۔۔" "میں نے رسول خدا کو یہ کہتے ہوئے سنا، جب آپ کے پاس امام حسن بیٹھے تھے، اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر" اور ایک روایت میں آپ فرماتے ہیں "اللّهُمَّ إنّي اُحِبُّهُ فأحِبَّهُ، و أحِبَّ مَن يُحِبُّهُ"(7) پيامبر خدا صلى الله عليه و آله نے امام حسن عليہ السلام کے بارے میں فرمایا: "خدايا! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے اور اس کے دوستوں سے بھی محبت کر۔۔" رسول اللہ کی وہ حدیث جو امام حسین علیہ السلام کے بارے میں معروف ہے، اسی مضمون کے ساتھ امام حسن کے بارے میں بھی ملتی ہے: "قال رسول الله (صلی الله علیه وآله وسلم):«حَسَنٌ مِنّی وَاَنا مِنه، اَحَبّ اللهُ مَن اَحَبّه.." آنحضرت نے فرمایا حسن مجھ سے ہے اور میں حسن سے ہوں، خدا اس سے محبت کرتا ہے، جو حسن سے محبت کرتا ہے"(8)
كنز العمّال کی روایت ہے: وفَدَ المِقْدامُ بنُ مَعْدِيكَرِب و عَمرو بنُ الأسودِ إلى قِنِّسْرِينَ، فقالَ معاويةُ للمِقْدامِ: أعَلِمْتَ أنّ الحسنَ بنَ عليٍّ تُوفّي؟ فاسْتَرجَعَ المِقدامُ، فقالَ لَه معاويةُ: أتَراها مُصيبةً؟! قال: و لِمَ لا أراها مُصيبةً و قد وضَعَهُ رسولُ اللّه ِصلى الله عليه و آله في حِجْرِهِ فقالَ: هذا مِنّي؟!(9) "مقدام بن معديكرب و عمرو بن اسود قِنّسرين گئے۔ معاويہ نے مقدام سے کہا: تمہیں پتہ ہے کہ حسن بن على کی وفات ہوئی ہے۔؟ مقدام نے آيہ «إنّا للّه و إنّا إليه راجعون» پڑھی۔ معاويہ نے اس سے کہا: آيا اس کو مصیبت سمجھتے ہو؟! مقدام نے جواب میں کہا: کیسے مصيبت نہ سمجھوں، جبکہ پيغمبر خدا صلى الله عليه و آله وسلم نے اس کو اپنے زانو پر بٹھایا اور فرمایا یہ مجھ سے ہے۔۔۔" رسول اللہ سے منقول ہے، ھَذا (حسن) مِنّی و حُسین من علی رضی اللہ عنھما۔۔ "یہ (حسن) مجھ سے ہے اور حسین علی سے"(10) ابو ہریرہ ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ میں جب بھی حسن بن علی کو دیکھتا ہوں، میری آنکھوں سے آنسوؤ جاری ہوتے ہیں، چونکہ میں نے خود رسول اللہ کو دیکھا کہ اپنے لبوں کو حسن کے لبوں پر رکھ کر فرماتے تھے: اللھم اِنِّی اُحَبہ فاحبہ واحب من یُحبّہ.. "خدایا میں اس (حسن) سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے اور اس سے محبت کرنے والوں سے محبت رکھ ۔۔۔۔"(11 )
امام حسن اور یاد خدا
امام حسن جب بھی مسجد جاتے سر مبارک کو آسمان کی طرف کرکے بارگاہ الہیٰ میں فرماتے تھے، خدایا تیرا مہمان تیرے در پر آیا ہے، اے نیکی دینے والے رب، ایک گنہگار تیری بارگاہ میں آیا ہے، اے کریم! تیرے خوبصورت فضل و کرامت کا واسطہ میرے گناہوں سے درگذر فرما۔۔ آپ جب بھی عبادت کے لئے تیار ہوتے تو آپ کا رنگ تغییر کرتا تھا اور جسم لرزنے لگتا تھا۔(12)
امام کی زندگی کے مراحل
☀️امام کی زندگی دو مرحلوں میں تقسیم ہوتی ہے، امامت سے پہلے اور بعد کی زندگی۔۔ خود امامت سے پہلے کی زندگی یعنی علی علیہ السلام کی شہادت سے پہلے کی زندگی تین حصوں میں تقسیم ہوتی ہے۔
1۔ آپ کا بچپنا: یعنی 7 سال اپنے نانا رسول خدا کے ساتھ گزارے، اس مختصر عرصے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے مختلف مواقع میں آپ کی فضیلت اور اہمیت کو بیان کرنے سے کوئی فرصت فروگزار نہیں کی۔ جب بھی موقعہ ملتا تھا، ان دونوں ہستیوں کا تعارف کرایا اور ان دونوں کو جنت کے جوانان کے سردار قرار دیا۔
2۔ خلفاء ثلاثہ (تینوں خلفاء کا دور)* ان ادوار میں بھی آپ نے اپنے بابا کے ساتھ اسلام کی خدمت میں گزاری۔ بلاذری سند معتبر کے ساتھ انساب الاشراف میں لکھتے ہیں: «وَحَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ حماد بن سلمه، عن هشام ابن عُرْوَه، عَنْ عُرْوَه قَالَ: خَطَبَ اَبُو بَکْرٍ یوما فجاء الحسن فقال انْزِلْ عَنْ مِنْبَرِ اَبِی۔۔۔۔۔۔۔ عروه نقل کرتا ہے، ایک دن ابوبکر خطبہ دے رہا تھا. امام حسن (علیه السّلام) آئے۔۔ آپ نے ایک مرتبہ بلند آواز میں فرمایا میرے بابا کے منبر سے اتر جا، ابوبکر نے کہا قسم بہ خدا درست کہا، یہ منبر تیرے باپ کا ہے، نہ میرے باپ کا۔۔(13)
3۔ اپنے بابا کی حکومت کا دور: جہاں تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ تینوں جنگوں (جمل، صفین، نہروان) میں آپ کا کردار نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ جنگ جمل کے لئے افرادی قوت جمع کرنے میں محمد بن ابی بکر اور محمد بن جعفر جب کوفہ سے ناکام لوٹے تو آپ اور عمار گئے اور تاریخ نگاروں کے مطابق آپ نے ابو موسیٰ اشعری کو والی کوفہ کے منصب سے برطرف کرکے مسجد کوفہ میں ایک ایسا خطبہ دیا، جس سے ہزاروں کا لشکر اپنے ہمراہ لانے میں کامیاب ہوئے۔۔۔(14) جنگ صفین میں بھی آپ کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔ رسول خدا کے دونوں نواسوں کی جنگ دیکھ کر علی علیہ السلام نے فرمایا، ان دونوں کو جنگ سے روکو، کہیں ان کی شہادت سے نسل رسول منقطع نہ ہو جائے۔۔۔۔
آپ کی امامت کا دور
?یہ دور دو حصوں پرمشتمل ہے، لوگوں کی بیعت سے صلح تک اور صلح سے شہادت تک، گرچہ ظاہری طور پر بھی امام حسن کی بیعت بھی باقی خلفاء کی بیعت کی طرح تمام تقاضوں کے مطابق ہوئی۔ آپ نے اپنے بابا کی شہادت کے بعد ایک معنی خیز خطبہ ارشاد فرمایا! "اے لوگوا اس رات میں قرآن نازل ہوا اور جناب عیسیٰ بن مریم کو آسمان پر اٹھایا گیا اور یوشع بن نون قتل ہوئے اور میرے بابا بھی اس رات کو شہید ہوئے۔ خدا کی قسم میرے بابا سے پہلے اور بعد کے اوصیاء میں سے کوئی بھی ان سے پہلے بہشت میں نہیں جائے گا، جب بھی رسول خدا ان کو جنگجووں سے لڑنے بھیجتے تو جبرئیل دائیں طرف اور میکائیل بائیں طرف لڑتے تھے، انہوں نے کوئی مال و دولت نہیں چھوڑی۔۔۔۔۔"(15) امام کے خطبے کے بعد عبیداللہ بن عباس اٹھے اور مسلمانوں کو بیعت کرنے پر آمادہ کیا اور کہا: اے لوگو یہ تمہارے پیغمبر کے فرزند اور تمہارے امام کے جانشین ہیں۔۔ لہذا اس کی بیعت کریں۔۔ لوگوں نے آپ کی بیعت کی اور کہا آپ سب سے زیادہ شائستہ ہیں۔(16) لیکن معاویہ نے ان تمام اصولوں کو پامال کرتے ہوئے آپ کی حکومت کو ماننے سے انکار کیا اور آپ پر جنگ مسلط کی گئی۔
دشمنوں کا امام کی شخصیت پر وار
?یہ امام اس وقت بھی اور آج بھی مظلوم ہیں۔ جھوٹی تاریخ اور جعلی روایتوں کے ذریعے اس عظیم ہستی کی شخصیت کو پامال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بنی امیہ کی پوری مشینری کی طرف سے علی و آل علی کے خلاف ان کی شخصیت کو کم اور خراب کرنے کے لئے طرح طرح کی روایتیں گھڑی گئیں اور خصوصاً امام حسن کی شخصیت کو خراب کرنے میں ناداں دوستوں اور آگاہ دشمنوں خصوصاً منصور عباسی کے مکروہ عزائم نے سب سے زیادہ اپنا کردار ادا کیا۔ بنی عباس نے بنی ہاشم پر ہونے والے مظالم کو وسیلہ اور انتقام خون حسین علیہ السلام کا دلسوز نعرہ لگا کر اقتدار حاصل کیا، لیکن جب اقتدار پر مکمل قابض ہوگئے تو پھر یہ ان لوگوں نے بھی بنی امیہ کی سیرت کو ہی اپنانا شروع کر دیا، جس پر اولاد حسن بن علی کی طرف سے مختلف ادوار میں حکومت بنی عباس کے ظلم کے خلاف شورش برپا کر دی۔ ان بغاوتوں کو دبانے اور آل حسن کی تحریکوں کو ناکام اور بےاثر کرنے کے لئے امام حسن کی شخصیت کشی کی گئی، تاکہ لوگ اولاد حسن بن علی کا ساتھ نہ دیں۔
اس میں ہمارے ہی کچھ سادہ لوح افراد اور کچھ بزرگوں کے سہو قلم کی وجہ سے اپنی کتابوں میں ان واقعات کو لکھ ڈالا، جو کہ تحلیل اور تحقیق کے طالب ہیں۔
صلح امام کی پیچیدگیوں کو امام کے بعض قریبی اصحاب بھی سمجھنے سے قاصر رہے، امام کے قریبی ساتھی حجر بن عدی جیسی ہستی نے بھی زبان اعتراض اور شکایت دراز کی، جس پر *وَغَمَزَالحُسَینُ حُجرَ* امام حسین (ع) نے حجر کو خاموش کرایا۔(17) آپ علیہ السلام نے صلح خوشی سے نہیں کی بلکہ آپ پر مسلط کی گئی تھی، لیکن امام کی بہترین تدبیر نے معاویہ کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے نمایاں کر دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی فرماتے ہیں کہ اگر صلح امام حسن نہ ہوتی تو واقعہ کربلا بھی نہ ہوتا، اگر واقعہ کربلا نہ ہوتا تو آج پوری دنیا سے اٹھنے والی تحریکیں بھی نہ ہوتیں۔۔(18)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1) الارشاد شیخ مفید، جلد دوم، ص 1
2) معانی الاخبار، ص 57، علل الشرائع، ص137، بحارالانوار، ص 43/ص 240 حدیث8
3) سورہ احزاب آیت 33
4) آل عمران/61
5) شورا 23
6) الغدیر، ج،3 ص107/ احقاق الحق، ج 3، ص157
7) كنز العمّال: 37640 (ماخوذ از کتابخانه احادیث الشیعه)
8) مجلسی بحار الانوار، ج43، ص 306
9) كنز العمّال: 37658 (ماخوذ از کتابخانہ احادیث الشیعہ)
10) مسند احمد 132/4 چاپ مصر1313ھ ماخوذ از پیشوایان ہدایت گروہ مولفان سید منذر حکیم، وسام بغدادی، مجمع جہانی اہل بیت
11) تاریخ دمشق ابن عساکر 10/7، چاپ دارالفکر1405ھ
12) مناقب 180/3 بحارالانوار 339/43
13) بلارزی احمد بن یحی انساب الاشراف ج 3، ص 26/صواعق محرقہ 175۔۔ تاریخ الخلفا۔
14) پیشوای ہدایت سبط اکبر، ص 116 (سید منذ الحکیم و گروه مولفان)
15) امالی، ص 192
16) ابوالفرج اصفهانی مقاتل الطالبین، ص 34
17) انسان 250 ساله (مجموعه تقاریر رہبر انقلاب اسلامی)
18) دو امام مجاہد، ص 11(رہبر انقلاب کی تقاریر کا مجموعہ)
تحریر: محمد علی شریفی