اسلام ساری دنیا کے لئے اللہ کا آخری دین ہے۔ قرآن اللہ کی آخری کتاب ہے، حضرت محمد رسول اللہﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں اور مسلمان بہترین امت ہیں۔ یہ بہترین امت اپنی محدود سوچ کی وجہ سے آج برائے نام بہترین رہ گئی ہے۔ مسلمان ایک طرف تو اسلام کو عالمین کے لئے ایک دین قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف اسلامی تعلیمات کو اپنی انتہائی چھوٹی سوچ کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ایک طرف کہتے ہیں کہ اسلام لانے کے بعد انسان کی فضیلت کی میزان فقط تقویٰ ہے اور دوسری طرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رشتے داری کی بنیاد پر فضیلت کا اعلان کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اپنے اکابرین کی فضیلت یوں بیان کی جاتی ہے کہ جیسے نبی کا بیٹا، بیٹی، بیوی، ساس، سسر، داماد اور پوتا و نواسہ وغیرہ ہونا ہی باعث فضیلت ہے۔ ہماری اس محدود سوچ کی وجہ سے مستشرقین ہم پر تنقید کرتے ہیں اور منصف مزاج مسلمان بھی اس شک و تردید میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ نعوذ باللہ نبی اکرمﷺ بھی اپنوں کو نوازتے تھے، انہیں کے قصیدے پڑھتے تھے اور اُنہی کو دوسروں پر مقدم کرتے تھے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اسلامی اقدار کو ویسے ہی بیان کریں، جیسا کہ وہ ہیں۔ دینِ اسلام انسانوں کی تربیت و ہدایت اور کردار سازی کا دین ہے۔ اس دین میں جو حق پرست اور صاحب کردار ہے، وہی لائق تعظیم ہے۔ جو مومن و متقی ہے، چاہے جس نسل کا ہو، وہ بخارا کا ابوذر ؓ ہو یا مکے کا حمزہ ؓ ، یمن کا مقدادؓ ہو یا حبش کا بلالؓ ، قرن کا اویسؓ ہو یا حجاز کا عمار یاسرؓ، عرب کا حجر ابن عدی ہو یا عجم کا سلمانؓ۔۔۔ یہ سب اپنے اپنے کردار کی وجہ سے صاحب تعظیم ہیں نہ کہ نبی اکرمﷺ کی رشتے داری کی وجہ سے۔ کیا یہ سب ایک نسل سے ہیں؟ یہ جس نسل سے بھی تھے، ہم ان کی حق پرستی اور غیر متزلزل کردار کو سلام کرتے ہیں اور ان کے دشمنوں سے نفرت کرتے ہیں۔ اگر کوئی اسلام لانے کے بعد کردار کو کسی نسل کی میراث سمجھتا ہے تو وہ اسلام اور کردار دونوں کو نہیں سمجھا۔
اصل غلط فہمی یہ ہے کہ اہل بیت اور صحابہ کرام ؓ دونوں کے بارے بارے میں غلط تبلیغ کی گئی ہے۔ لوگوں کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ نبیﷺ کے اہل بیت کی فضیلت یہ ہے کہ یہ نبی ؐ کے گھر اور خاندان والے ہیں۔ اسی طرح صحابہ کو اس لئے فضیلت ہے کہ یہ نبی ؐ کے ساتھ والے ہیں۔ یہ دونوں غلط نظریات ہیں۔ نہ نبی (ص) کے گھر اور خاندان والوں میں سے ہونے کی وجہ سے سے کوئی صاحب فضیلت ہوتا ہے اور نہ ہی نبی کریمﷺ کے ساتھ ملنے ملانے کی وجہ سے۔ جو نبی (ص) کا جتنا مطیع اور فرمانبردار ہے، وہ اتنا ہی بافضیلت ہے، چاہے گھر اور خاندان سے ہو اور چاہے ملنے ملانے اور ساتھ رہنے والوں سے۔ نبی کے افرادِ خانہ میں سے ہونا یا نبی کے ساتھ میں ہونا یہ افراد کی شناخت ہے، اُن کی فضیلت نہیں ہے۔ مثلاً اگر ہم سے کوئی پوچھے کہ فلاں شخص کون ہے؟ تو ہم اس کے تعارف کے لئے بتاتے ہیں کہ یہ ہمارا اپنا ہے، ہمارے گھر کا فرد ہے، ہمارا داماد ہے، ہمارا بیٹا ہے، ہمارا کلاس فیلو ہے، ہمارا خادم اور غلام ہے۔۔۔ ان چیزوں سے تعارف ہوتا ہے، ان میں فضیلت نہیں ہوتی۔
اب مسلمانوں نے انہی چیزوں کو فضیلت کی میزان خیال کیا اور پھر انہی رشتوں اور رشتے داریوں کے ساتھ چپک گئے۔ اب رشتوں سے چپکنے کے لئے نبی کی بیٹیوں کی تعداد، دامادوں کی تعداد، ساس و سسر کے فضائل و تعداد و فلاں فلاں۔۔ حتی کہ اگر نبیﷺ نے فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی ؑ اس کا دروازہ ہیں تو یہ شہر کی بھی چھت اور روشندان گھڑ کر لے آئے۔ مسلمانوں نے اتنا بھی نہیں سوچا کہ نبی اکرمﷺ نے یہ جو حضرت علی کی فضیلت بیان کی ہے، یہ چچا زاد بھائی یا داماد ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ واقعتاً علم میں حضرت علی کا یہی مقام و مرتبہ ہے۔ واضح رہے کہ نبی اکرمﷺ رشتے داری کی بنیاد پر حضرت علی کے فضائل بیان نہیں کرتے تھے۔ ایسا کرنا مقام رسالت و نبوت کے خلاف ہے۔ نبی کریمﷺ اسی چیز کا اعلان کرتے تھے، جو حقیقت میں ویسی ہوتی تھی۔ یوں نہیں ہے کہ نبی اکرمﷺ رشتے داری کی بنیاد پر حضرت علی ؑکو بہادر اور شجاع کہتے تھے، یا میدان غدیر میں "من کنت مولا فھذا علی مولا" کا اعلان رشتے دار و داماد اور چچا زاد ہونے کی بنیاد پر تھا بلکہ یہ سارے اعزازات و فضائل حضرت علی ؑ نے کسب کئے تھے اور پیغمبرؐ نے ان کا اعلان کیا تھا۔
قطعاً ایسا نہیں تھا کہ دعوت ذوالعشیر میں حضرت علی ؑ خاموش بیٹھے رہے تھے۔ اسلام کی پہلی دعوت تبلیغ میں جب نبی اکرمﷺ نے یہ اعلان کیا کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے اور میں اس کا رسول ہوں، آج کے دن جو میری تصدیق کرے گا، وہ میرا جانشین بھی ہوگا اور وصی بھی، اس اعلان کے بعد یوں نہیں ہوا کہ حضرت علی ؑ بھی بغیر تصدیق کے خاموش بیٹھے رہے اور پھر بعد میں جب پیغمبر ؐ نے انہیں اپنی بیٹی دے کر داماد بنا لیا اور اس کے بعد ایک دم میدانِ غدیر میں یہ اعلان کر دیا کہ جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی ؑ مولا ہے، لہذا آو علیؐ کی بیعت کرو۔ عقل و منطق اور تاریخ سے ہٹ کر بھی جو آدمی ختمِ نبوت پر ایمان رکھتا ہے، وہ یہ بھی ایمان رکھتا ہے کہ نبی اکرم ؑ نے حضرت علی ؑکے جتنے فضائل بیان کئے، وہ رشتے داری کی وجہ سے نہیں تھے بلکہ امام علیؑ حقیقت میں ایسے ہی تھے۔
اب رہی یہ بات کہ پیغمبر (ص) نے اپنے اہل بیت (ع) کی فضیلت کیوں بیان کی!؟ اگر کوئی دل سے سمجھنا چاہے تو یہ واضح ہے کہ پیغمبر (ص) نے ان افراد کی (علیؑ و فاطمہ سلام اللہ علیہا و حسن ؑ و حسین ؑ) کی خود اپنے ہاتھوں سے اور اپنی آغوش میں تربیت کی تھی۔ یہ پیغمبر کی تربیت کے شہکار تھے اور پیغمبر (ص) ان کے وجود میں اپنی تربیت کے جوہر دیکھ رہے تھے۔ چنانچہ پیغمبرﷺ ان کی تربیت کی وجہ سے ان کی فضیلت بیان کرتے تھے نہ کہ اقربا پروری کی وجہ سے. پیغمبر نے ان کی جتنی بھی فضیلتیں بیان کیں، وہ پیغمبرﷺ کی سچی پیشین گوئیاں ثابت ہوئیں اور بعد ازاں ان شخصیات نے بھی اپنے کردار سے ثابت کیا کہ اللہ کے آخری اور صادق نبیﷺ نے ان کے بارے میں جو کچھ کہا، وہ رشتے داری کی بنیاد پر نہیں تھا بلکہ عین حقیقت پر مبنی تھا۔ اس میں کہیں بھی نسلی تعصب یا رشتے داری کا شائبہ تک نہیں۔
اگر رشتے ناطے باعث نجات ہوتے تو پیغمبرﷺ کی بیٹی فاطمہ ؑ نمازیں نہ پڑھتیں اور روزے نہ رکھتیں۔۔۔۔ امام علی (ع) جب نماز پڑھتے تھے تو آنسووں سے آپ کی داڑھی تر ہو جاتی تھی۔۔۔۔ امام حسن (ع) جب مصلی عبادت پر کھڑے ہوتے تھے تو خوف خدا سے آپ کا رنگ زرد ہو جاتا تھا۔۔۔۔ حضرت امام حسین عبادتِ خدا میں طولانی سجدے کرتے تھے۔۔۔ کیا یہ اطاعت ِخدا و رسولﷺ ہے یا نسل پرستی اور اقربا پروری۔۔۔ کیا ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ کہا یا ہمارے نبی کریمﷺ نے کبھی یہ کہا کہ بس رشتے داری کام دکھائے گی. دوسری طرف صحابہ کرام کو بھی نہیں سمجھا گیا۔ وہاں بھی پیغمبرﷺ کی اطاعت اور تربیت کے بجائے ہم نے خود سے معیار بنا لئے اور کردار کے بجائے وہاں بھی خالہ و خالو اور ساس و سسر اور ماموں و ممانی۔۔۔ جیسے رشتوں وغیرہ کے نام لے کر ہر قسم کے لوگوں کے فضائل لکھے بھی گئے اور بیان بھی کئے گئے، یوں رشتے داروں کے فضائل گھڑ کر صحابہ کرام ؓ کی توہین کی گئی۔
جب آپ رسول کے غیر مطیع افراد کو رشتے دار ہونے کی وجہ سے صحابہ کرام میں شام کریں گے تو اس سے نبی اکرمﷺ کے مطیع صحابہ کرام کی حق تلفی، توہین اور امت کی گمراہی کا دروازہ کھل جائے جائے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے بعد صرف نبی کی اطاعت و تربیت ہی معیار فضیلت ہے، باقی رشتے ناطے باعث نجات نہیں ہیں۔ نبی اکرمﷺ نے بھی اہل بیت کے جو فضائل بیان کئے ہیں، وہ اہلیت و حقیقت کے ترجمان ہیں، نہ کہ رشتے داری کی وجہ سے ہیں۔ صحابہ کرام کو بھی نبی اکرمﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کی وجہ سے ہی تقدس و شرف حاصل ہے، نہ کہ رشتوں و ناطوں کی وجہ سے۔ مقامِ ختمِ نبوت کے خلاف ہے کہ کسی میں ایک فضیلت و خوبی اور اہلیت نہ ہو اور نعوذ باللہ نبی اکرمﷺ اُس کے لئے اپنی رشتے داری کی وجہ سے وہ فضیلت بیان کر دیں۔
تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.