امام جعفر صادقؑ مسلمانوں کے چھٹے امام ہیں، شیعہ و سنی سب کے ہاں آپ کا عظیم مقام ہے۔ جناب ابو حنیفہ آپ کو مسلمانوں میں سب سے زیادہ علم و معرفت کا حامل سمجھتے تھے۔ وہ آپؑ کو مسلمانوں میں سب سے زیادہ دین شناس اور علم و معرفت کا حامل قرار دیتے تھے۔ ابن ابی الحدید المعتزلی کا کہنا ہے کہ جناب ابو حنیفہ، احمد بن حنبل اور شافعی مستقیم یا غیر مستقیم امام صادقؑ کے شاگرد رہے ہیں. اسی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ حقیقت میں دینِ اسلام نے ایک ہی جڑ سے نشو و نما پائی ہے۔ آپ کی امامت کے دوران چونکہ بنی امیہ اپنے زوال کے ایام سے گزر رہے تھے، اسلئے آپ کو دوسرے آئمہ کی نسبت زیادہ علمی امور کی انجام دہی کا موقع ملا۔ آپ کے شاگردوں اور راویوں کی تعداد 4000 ہزار تک بتائی گئی ہیں۔
اہل بیتؑ سے منسوب احادیث میں سے اکثر احادیث امام صادقؑ سے نقل ہوئی ہیں۔ اسی بنا پر شیعہ مذہب کو مذہب جعفریہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آپؑ نے امام علیؑ کا مرقد جو اس وقت تک مخفی تھا، مشخص فرمایا اور اپنے پیروکاروں کو دکھایا۔ حدیثی منابع کے مطابق آپ نے امام کاظمؑ کو اپنے بعد بعنوان امام اپنے اصحاب کے سامنے متعارف کروایا۔ امام صادقؑ کے دور امامت میں بنی امیہ اپنی اقتدار اور بقا کی جنگ لڑ رہی تھے، اسی بنا پر لوگوں کو کسی حد تک مذہبی آزادی نصیب ہوئی، جس سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے امام عالی مقام نے مختلف موضوعات پر علمی مباحث کا سلسلہ شروع فرمایا۔ اس علمی اور مذہبی آزادی جو آپ سے پہلے والے اماموں کو کمتر نصیب ہوئی تھی کی وجہ سے علم دانش کے متلاشی آپ کے علمی جلسات میں آزادی سے شرکت کرنے لگے۔ یوں فقہ، کلام اور دیگر مختلف موضوعات پر آپ سے بہت زیادہ احادیث نقل ہوئیں۔ ابن حَجَر ہیثمی کے بقول لوگ آپ سے علم و معرفت کے خزانے دریافت کرتے تھے اور ہر جگہ آپ ہی کا چرچا تھا۔
ابو بحر جاحظ لکھتے ہیں کہ ان کی فقہ اور علم پوری دنیا میں پھیل چکا تھا۔ حسن بن علی وَشّاء لکھتے ہیں کہ انہوں نے 900 لوگوں کو دیکھا جو مسجد کوفہ میں امام صادقؑ سے حدیث نقل کرتے تھے۔ امام صادقؑ کے متعلق لکھی گئی کتابوں کی تعداد 800 تک بتائی جاتی ہے، جن میں سے ایک اخبار الصادق مع ابی حنیفہ و اخبار الصادق مع المنصور ہے جسے محمد بن وہبان دبیلی نے چوتھی صدی ہجری میں لکھا، اس سلسلے کی قدیمی کتابوں میں سے ہیں۔ "آپ سے متعلق بعض دوسری کتابوں میں زندگانی امام صادق جعفر بن محمدؑ مصنف سید جعفر شہیدی، الامام الصادقؑ و المذاہب الاربعۃ، مصنف اسد حیدر، پیشوائے صادق، مصنف سید علی خامنہ ای اور موسوعۃ الإمام الصادق، مصنف باقر شریف قَرَشی کا نام لیا جا سکتا ہے"۔ سنہ 1378 ہجری میں الأزہر یونیورسٹی مصر کے چانسلر شیخ محمود شلتوت نے مذہب جعفریہ کو سرکاری طور پر قبول کرنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کو بھی جائز قرار دیا۔
تألیفات امام صادق:
امام صادقؑ کا اپنے اصحاب کے نام خط۔، یہ خط امامؑ کی ان سفارشات پر مشتمل ہے جو آپ نے زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالے سے اپنے پیروکاروں کیلئے ارشاد فرمایا ہے۔ یہ خط کتاب کافی میں بھی آیا ہے۔ رسالہ شرایع الدین بہ روایت اَعمَش۔ یہ رسالہ اصول دین اور فروع دین کے متعلق ہے جسے ابن بابویہ نے نقل کیا ہے۔ قرآن کی تفسیر سے متعلق ایک خط کا ایک حصہ "الرسالۃ الأہوازیہ" یہ خط آپ نے اہواز کے گورنر نجاشی کو تحریر فرمایا تھا, جس کا متن شہید ثانی کی کتاب کشف الریبہ میں آیا ہے۔ توحید المُفَضَّل یا کتاب فکِّر۔ یہ رسالہ خدا شناسی سے متعلق امامؑ کے ارشادات کا خلاصہ ہے جسے آپ نے مُفَضَّل بن عمر کیلئے ارشاد فرمایا تھا اور اس کتاب میں "فَکِّر یا مُفَضَّل" (اے مفضل غور و فکر کرو) کی تکرار کی وجہ سے قدیم زمانے میں یہ کتاب "کتاب فَکِّر" کے نام سے بھی مشہور تھی۔
"رسالہ اَہلیلَجہ" اس رسالے میں امام صادقؑ نے کسی ہندوستانی ڈاکٹر کے ساتھ خدا کے وجود کو ثابت کرنے کی غرض سے گفتگو فرمائی ہے۔ نجاشی نے اس کتاب کو "بِدءُالخَلق و الحَثُّ عَلَی الاِعتبار" کے نام سے یاد کیا ہے۔ تفسیر امام صادقؑ کے نام سے مشہور کتاب، تفسیر النُعمانی بھی آپ کی احادیث پر مشتمل ہے۔ بعض کتابیں ایسی ہیں جو آپؑ کے شاگردوں نے آپ کے ارشادات سے اقتباس کرتے ہوئے تحریر کی ہیں۔ من جملہ ان کتابوں میں سے بعض جو شایع ہوئی ہیں درج ذیل ہیں: "الجعفریات" یا "الاَشعَثیات" مصنف محمد بن محمد بن اشعث۔ "نثر الدُرَر" اس کتاب کے متن کو ابن شُعبہ حَرّانی نے تحف العقولمیں نقل کیا ہے۔ "الحِکَم الجعفریہ" امامؑ کے مختصر کلام کا مجموعہ جس کے راوی سلمان بن ایوب ہیں اور اس کا متن کتاب فرائِدُ السَمَطَین میں جوینی نے نقل کیا ہے۔
شاگرد اور روات:
بعض علما نے اپنی کتب میں تقریبا 3200 راویوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے امام صادقؑ سے حدیث نقل کی ہیں۔ کتاب الارشاد میں آپ کے راویوں کی تعداد 4000 تک نقل کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امام صادقؑ کے راویوں سے متعلق ابن عقدہ کی ایک کتاب تھی جس میں انہوں نے بھی ان کی تعداد 4000 بتائی ہیں۔ اصول اربع مائہ کے اکثر مصنفین امام صادق کے شاگرد تھے۔ اسی طرح دوسرے آئمہ کی نسبت آپ کے شاگردوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہیں۔ جو آئمہ معصومین کے اصحاب میں سب سے زیادہ مورد اعتماد راویوں میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ کے بعض مشہور شاگردوں کے نام درج ذیل ہیں: "زُرارَۃ بن اَعین، بُرَید بن معاویہ، جَمیل بن دَرّاج، عبداللہ بن مُسکان، عبداللہ بن بُکَیر، حَمّاد بن عثمان، حماد بن عیسی، اَبان بن عثمان، عبداللہ بن سنان، ابو بصیر، ہشام بن سالم، ہشام بن حَکَم وغیرہ شامل ہیں۔ امام صادقؑ کے شاگردوں کے مناظرے پر مبنی حدیث جسے کَشّی نے نقل کی ہے، سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی شاگرد مختلف علمی شعبوں میں تخصص رکھتے تھے۔ اس حدیث کے مطابق حُمران بن اَعیَن علوم قرآنی میں، اَبان بن تَغلِب ادبیات عرب میں، زُرارہ فقہ میں اور مومن الطاق اور ہِشام بن سالم علم کلام میں تخصص رکھتے تھے۔ اسی طرح علم کلام میں تخصص رکھنے والے آپ کے دیگر شاگردوں میں حُمران بن اَعیَن، قیس ماصِر اور ہشام بن حَکَم کا نام لیا جا سکتا ہے۔
مناظرات اور علمی گفتگو:
حدیثی منابع میں امام صادقؑ اور دوسرے مذاہب کے متکلمین نیز بعض ملحدین کے درمیان مختلف مناظرات اور علمی گفتگو نقل ہوئی ہیں۔ ان مناظرات میں سے بعض میں امام علیہ السلام کے شاگردوں نے اپنے متعلقہ شعبوں میں آپ کی موجودگی میں دوسروں کے ساتھ مناظرہ کئے ہیں۔ ان مناظروں میں امام عالی مقام مناظرے کی نگرانی فرماتے اور کبھی کبھار ضرورت پڑنے پر خود بھی بحث میں حصہ لیتے تھے۔ مثلا ایک شامی جو آپ کے شاگردوں کے ساتھ مناظرہ کرنے کا خواہاں تھا، امام نے ہشام بن سالم جو علم کلام میں تخصص رکھتا تھا سے اس شامی کے ساتھ مناظرہ کرنے کا حکم دیا۔ اسی طرح ایک اور شخص جو خود امامؑ سے مناظرہ کرنا چاہتا تھا، آپ نے فرمایا پہلے جس موضوع پر بھی گفتگو کرنا چاہتا ہے آپ کے شاگردوں سے مناظرہ کرنے کا کہا اور ان پر غالب آنے کی صورت میں اپنے ساتھ مناظرہ کرنے کا حکم فرمایا۔ اس شخص نے قرآن سے متعلق حُمران بن اَعیَن کے ساتھ ادبیات عربی سے متعلق اَبان بن تَغلِب کے ساتھ فقہ میں زُرارہ اور کلام میں مؤمن طاق اور ہِشام بن سالم کے ساتھ مناظرہ کیا اور ہر میدان میں وہ مغلوب ہوا۔
احمد بن علی طبرسی نے اپنی کتاب الاحتجاج میں امام صادقؑ کے مناظرات کو جمع کیا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں:
ایک منکر خدا کے ساتھ خدا کے وجود پر مناظرہ۔
ابوشاکر دَیصانی کے ساتھ خدا کے وجود پر مناظرہ۔
ابن ابی العوجاء کے ساتھ خدا کے وجود پر مناظرہ۔
ابن ابی العوجاء کے ساتھ عالَم کے حدوث پر مناظرہ۔
خدا کے منکر ایک شخص کے ساتھ خدا کے وجود اور بعض دیگر مسائل پر طولانی مناظرہ۔
امام ابوحنیفہ کے ساتھ حکم شرعی کے استنباط کے طریقے خاص کر قیاس سے متعلق مناظرہ۔
معتزلہ کے بعض علماء کے ساتھ حاکم کے انتخاب کا طریقہ کار اور بعض دوسرے فقہی مسائل پر مناظرہ۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے علوم دینیہ تک ہی نشر و اشاعت کو محدود نہیں رکھا بلکہ دیگر علوم مثلا ریاضیات و فلسفہ و علوم افلاک اور کیمسٹری جیسے علوم کے لئے بنیادیں ڈالیں اور آپ کے مشہور شاگردوں میں کیمیادان جابر بن حیان بھی شامل ہے۔
شہادت:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو منصور کے حکم پر زہر دی گئی جس کے باعث امام علیہ السلام کی شہادت واقع ہوئی۔۔ضرورت اس امر کی ہےکہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی تاسی (سنت) میں ہم بھی تمام علوم کے حصول کے لیے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لائیں تاکہ ہم ہر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق افراد کی ہر ممکنہ خدمت کر سکیں۔۔سلام ہو آپ پر اے منبعِ علم و معرفت کہ آپ سے علم و معرفت کے چشمے پھوٹتے ہیں۔
اہل بیتؑ سے منسوب احادیث میں سے اکثر احادیث امام صادقؑ سے نقل ہوئی ہیں۔ اسی بنا پر شیعہ مذہب کو مذہب جعفریہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آپؑ نے امام علیؑ کا مرقد جو اس وقت تک مخفی تھا، مشخص فرمایا اور اپنے پیروکاروں کو دکھایا۔ حدیثی منابع کے مطابق آپ نے امام کاظمؑ کو اپنے بعد بعنوان امام اپنے اصحاب کے سامنے متعارف کروایا۔ امام صادقؑ کے دور امامت میں بنی امیہ اپنی اقتدار اور بقا کی جنگ لڑ رہی تھے، اسی بنا پر لوگوں کو کسی حد تک مذہبی آزادی نصیب ہوئی، جس سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے امام عالی مقام نے مختلف موضوعات پر علمی مباحث کا سلسلہ شروع فرمایا۔ اس علمی اور مذہبی آزادی جو آپ سے پہلے والے اماموں کو کمتر نصیب ہوئی تھی کی وجہ سے علم دانش کے متلاشی آپ کے علمی جلسات میں آزادی سے شرکت کرنے لگے۔ یوں فقہ، کلام اور دیگر مختلف موضوعات پر آپ سے بہت زیادہ احادیث نقل ہوئیں۔ ابن حَجَر ہیثمی کے بقول لوگ آپ سے علم و معرفت کے خزانے دریافت کرتے تھے اور ہر جگہ آپ ہی کا چرچا تھا۔
ابو بحر جاحظ لکھتے ہیں کہ ان کی فقہ اور علم پوری دنیا میں پھیل چکا تھا۔ حسن بن علی وَشّاء لکھتے ہیں کہ انہوں نے 900 لوگوں کو دیکھا جو مسجد کوفہ میں امام صادقؑ سے حدیث نقل کرتے تھے۔ امام صادقؑ کے متعلق لکھی گئی کتابوں کی تعداد 800 تک بتائی جاتی ہے، جن میں سے ایک اخبار الصادق مع ابی حنیفہ و اخبار الصادق مع المنصور ہے جسے محمد بن وہبان دبیلی نے چوتھی صدی ہجری میں لکھا، اس سلسلے کی قدیمی کتابوں میں سے ہیں۔ "آپ سے متعلق بعض دوسری کتابوں میں زندگانی امام صادق جعفر بن محمدؑ مصنف سید جعفر شہیدی، الامام الصادقؑ و المذاہب الاربعۃ، مصنف اسد حیدر، پیشوائے صادق، مصنف سید علی خامنہ ای اور موسوعۃ الإمام الصادق، مصنف باقر شریف قَرَشی کا نام لیا جا سکتا ہے"۔ سنہ 1378 ہجری میں الأزہر یونیورسٹی مصر کے چانسلر شیخ محمود شلتوت نے مذہب جعفریہ کو سرکاری طور پر قبول کرنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کو بھی جائز قرار دیا۔
تألیفات امام صادق:
امام صادقؑ کا اپنے اصحاب کے نام خط۔، یہ خط امامؑ کی ان سفارشات پر مشتمل ہے جو آپ نے زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالے سے اپنے پیروکاروں کیلئے ارشاد فرمایا ہے۔ یہ خط کتاب کافی میں بھی آیا ہے۔ رسالہ شرایع الدین بہ روایت اَعمَش۔ یہ رسالہ اصول دین اور فروع دین کے متعلق ہے جسے ابن بابویہ نے نقل کیا ہے۔ قرآن کی تفسیر سے متعلق ایک خط کا ایک حصہ "الرسالۃ الأہوازیہ" یہ خط آپ نے اہواز کے گورنر نجاشی کو تحریر فرمایا تھا, جس کا متن شہید ثانی کی کتاب کشف الریبہ میں آیا ہے۔ توحید المُفَضَّل یا کتاب فکِّر۔ یہ رسالہ خدا شناسی سے متعلق امامؑ کے ارشادات کا خلاصہ ہے جسے آپ نے مُفَضَّل بن عمر کیلئے ارشاد فرمایا تھا اور اس کتاب میں "فَکِّر یا مُفَضَّل" (اے مفضل غور و فکر کرو) کی تکرار کی وجہ سے قدیم زمانے میں یہ کتاب "کتاب فَکِّر" کے نام سے بھی مشہور تھی۔
"رسالہ اَہلیلَجہ" اس رسالے میں امام صادقؑ نے کسی ہندوستانی ڈاکٹر کے ساتھ خدا کے وجود کو ثابت کرنے کی غرض سے گفتگو فرمائی ہے۔ نجاشی نے اس کتاب کو "بِدءُالخَلق و الحَثُّ عَلَی الاِعتبار" کے نام سے یاد کیا ہے۔ تفسیر امام صادقؑ کے نام سے مشہور کتاب، تفسیر النُعمانی بھی آپ کی احادیث پر مشتمل ہے۔ بعض کتابیں ایسی ہیں جو آپؑ کے شاگردوں نے آپ کے ارشادات سے اقتباس کرتے ہوئے تحریر کی ہیں۔ من جملہ ان کتابوں میں سے بعض جو شایع ہوئی ہیں درج ذیل ہیں: "الجعفریات" یا "الاَشعَثیات" مصنف محمد بن محمد بن اشعث۔ "نثر الدُرَر" اس کتاب کے متن کو ابن شُعبہ حَرّانی نے تحف العقولمیں نقل کیا ہے۔ "الحِکَم الجعفریہ" امامؑ کے مختصر کلام کا مجموعہ جس کے راوی سلمان بن ایوب ہیں اور اس کا متن کتاب فرائِدُ السَمَطَین میں جوینی نے نقل کیا ہے۔
شاگرد اور روات:
بعض علما نے اپنی کتب میں تقریبا 3200 راویوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے امام صادقؑ سے حدیث نقل کی ہیں۔ کتاب الارشاد میں آپ کے راویوں کی تعداد 4000 تک نقل کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امام صادقؑ کے راویوں سے متعلق ابن عقدہ کی ایک کتاب تھی جس میں انہوں نے بھی ان کی تعداد 4000 بتائی ہیں۔ اصول اربع مائہ کے اکثر مصنفین امام صادق کے شاگرد تھے۔ اسی طرح دوسرے آئمہ کی نسبت آپ کے شاگردوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہیں۔ جو آئمہ معصومین کے اصحاب میں سب سے زیادہ مورد اعتماد راویوں میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ کے بعض مشہور شاگردوں کے نام درج ذیل ہیں: "زُرارَۃ بن اَعین، بُرَید بن معاویہ، جَمیل بن دَرّاج، عبداللہ بن مُسکان، عبداللہ بن بُکَیر، حَمّاد بن عثمان، حماد بن عیسی، اَبان بن عثمان، عبداللہ بن سنان، ابو بصیر، ہشام بن سالم، ہشام بن حَکَم وغیرہ شامل ہیں۔ امام صادقؑ کے شاگردوں کے مناظرے پر مبنی حدیث جسے کَشّی نے نقل کی ہے، سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی شاگرد مختلف علمی شعبوں میں تخصص رکھتے تھے۔ اس حدیث کے مطابق حُمران بن اَعیَن علوم قرآنی میں، اَبان بن تَغلِب ادبیات عرب میں، زُرارہ فقہ میں اور مومن الطاق اور ہِشام بن سالم علم کلام میں تخصص رکھتے تھے۔ اسی طرح علم کلام میں تخصص رکھنے والے آپ کے دیگر شاگردوں میں حُمران بن اَعیَن، قیس ماصِر اور ہشام بن حَکَم کا نام لیا جا سکتا ہے۔
مناظرات اور علمی گفتگو:
حدیثی منابع میں امام صادقؑ اور دوسرے مذاہب کے متکلمین نیز بعض ملحدین کے درمیان مختلف مناظرات اور علمی گفتگو نقل ہوئی ہیں۔ ان مناظرات میں سے بعض میں امام علیہ السلام کے شاگردوں نے اپنے متعلقہ شعبوں میں آپ کی موجودگی میں دوسروں کے ساتھ مناظرہ کئے ہیں۔ ان مناظروں میں امام عالی مقام مناظرے کی نگرانی فرماتے اور کبھی کبھار ضرورت پڑنے پر خود بھی بحث میں حصہ لیتے تھے۔ مثلا ایک شامی جو آپ کے شاگردوں کے ساتھ مناظرہ کرنے کا خواہاں تھا، امام نے ہشام بن سالم جو علم کلام میں تخصص رکھتا تھا سے اس شامی کے ساتھ مناظرہ کرنے کا حکم دیا۔ اسی طرح ایک اور شخص جو خود امامؑ سے مناظرہ کرنا چاہتا تھا، آپ نے فرمایا پہلے جس موضوع پر بھی گفتگو کرنا چاہتا ہے آپ کے شاگردوں سے مناظرہ کرنے کا کہا اور ان پر غالب آنے کی صورت میں اپنے ساتھ مناظرہ کرنے کا حکم فرمایا۔ اس شخص نے قرآن سے متعلق حُمران بن اَعیَن کے ساتھ ادبیات عربی سے متعلق اَبان بن تَغلِب کے ساتھ فقہ میں زُرارہ اور کلام میں مؤمن طاق اور ہِشام بن سالم کے ساتھ مناظرہ کیا اور ہر میدان میں وہ مغلوب ہوا۔
احمد بن علی طبرسی نے اپنی کتاب الاحتجاج میں امام صادقؑ کے مناظرات کو جمع کیا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں:
ایک منکر خدا کے ساتھ خدا کے وجود پر مناظرہ۔
ابوشاکر دَیصانی کے ساتھ خدا کے وجود پر مناظرہ۔
ابن ابی العوجاء کے ساتھ خدا کے وجود پر مناظرہ۔
ابن ابی العوجاء کے ساتھ عالَم کے حدوث پر مناظرہ۔
خدا کے منکر ایک شخص کے ساتھ خدا کے وجود اور بعض دیگر مسائل پر طولانی مناظرہ۔
امام ابوحنیفہ کے ساتھ حکم شرعی کے استنباط کے طریقے خاص کر قیاس سے متعلق مناظرہ۔
معتزلہ کے بعض علماء کے ساتھ حاکم کے انتخاب کا طریقہ کار اور بعض دوسرے فقہی مسائل پر مناظرہ۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے علوم دینیہ تک ہی نشر و اشاعت کو محدود نہیں رکھا بلکہ دیگر علوم مثلا ریاضیات و فلسفہ و علوم افلاک اور کیمسٹری جیسے علوم کے لئے بنیادیں ڈالیں اور آپ کے مشہور شاگردوں میں کیمیادان جابر بن حیان بھی شامل ہے۔
شہادت:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو منصور کے حکم پر زہر دی گئی جس کے باعث امام علیہ السلام کی شہادت واقع ہوئی۔۔ضرورت اس امر کی ہےکہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی تاسی (سنت) میں ہم بھی تمام علوم کے حصول کے لیے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لائیں تاکہ ہم ہر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق افراد کی ہر ممکنہ خدمت کر سکیں۔۔سلام ہو آپ پر اے منبعِ علم و معرفت کہ آپ سے علم و معرفت کے چشمے پھوٹتے ہیں۔
تحریر: ذہین کاظمی