امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شہادت کے وقت امت مسلمہ پر سلطنت عباسی کے خلفاء کا خوف و ہیبت طاری تھی، یہاں تک کہ امام کے ایک صحابی محمد بن سنان فرماتے ہیں کہ “سیف ھارون یقطر الدم” ہارون الرشید کی تلوار سے خون ٹپکتا رہتا تھا۔ اس وقت امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام تھے، جنہوں نے اس طوفانی دور میں تشیع کے شجرہ طیبہ کو گرنے نہیں دیا اور وہ نا امیدی جو امام موسیٰ ابن جعفر علیہ السلام کی شہادت کی وجہ سے چھا رہی تھی، اس کو وہیں روک کر اس شجرہ طیبہ کو مرجھانے سے بچایا اور عاشورا کے بعد آئمہ علیہم السلام کی جو دشمن سے مقابلے کی روش تھی اس کو اہداف الہیٰ کی جانب تسلسل بخشا۔ 198ھ میں جب مامون الرشید اپنے بھائی امین کو اقتدار کی جنگ میں شکست دے دیتا ہے، اس وقت اسے اپنی حاکمیت کے لئے سب سے بڑے خطرہ کا احساس ہوتا ہے، یعنی وجود مبارک امام رضا علیہ السلام۔
مامون تاریخ کے زیرک، عقلمند، عالم، ہوشیار بادشاہوں کے ناموں میں سے ایک اہم نام ہے، سوچتا ہے کہ جو کام یزید سے لیکر ہارون تک ظلم و بربریت کے پہاڑ ڈھانے اور کٹے ہوئے گلوں کے مینار بنانے کے باوجود نہیں رک سکا، اس کے لئے کسی اور حکمت عملی کو اپنانا ہوگا۔ ساتویں امام کی قید اور شہادت جب ان علویوں کے قیام کو روک نہیں سکی تو صرف قتل کئے جانے سے یہ کام یقیناً نہیں روکا جاسکتا۔ امام رضا علیہ السلام کو مدینہ سے خراسان لانا اور زبردستی ولایت عہدی قبول کرانا، ان کاموں سے مامون کئی اہداف کا حصول چاہتا تھا اور اگر منصب ولایت من اللہ نہ ہوتا تو یقیناً ان سازشوں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔
مامون کی زیر نظر یہ اہداف تھے:
قیاموں کی روک تھام:
تشیع اپنی مظلومیت اور تقدس کی بنیاد پر بنو عباس کے خلاف مختلف زمان و مکان میں مخفی یا علنی حالت قیام میں تھی، مامون ان اقدامات کے ذریعے اور امام علیہ السلام کو اپنے سیاسی نظام کا حصہ بنا کر ان قیاموں کی روک تھام اور ان کو سیاسی طور پر خاموش کرانا چاہتا تھا، کیونکہ اگر کسی گروہ کا رہبر و پیشوا اس خلافت کو قبول کرلے، مطلق العنان بادشاہ کا ولی عہد اور حکومتی امور میں صاحب اختیار ہو تو وہ نہ مظلوم کہلائے گا اور نہ ہی مقدس اور اس کے پیرو اور شیعہ یقیناً اس بنیاد پر خلافت کے خلاف قیام سے گریز کریں گے۔
خلافت کی مشروعیت:
ایک اور ہدف تشیع کی بنیاد کو متزلزل کرنا تھا، یعنی بنو امیہ و بنو عباس کی ظالم حکومتوں کو غاصب سمجھنا، مامون ان اقدامات کے ذریعے اپنی اور اپنے آباو اجداد کی حکومتوں کی مشروعیت ثابت کرنا چاہتا تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا کہ تشیع ایک بے بنیاد نقطہ پر کھڑی ہے، کیونکہ اگر وہ خلافتیں نامشروع تھیں تو مامون کی خلافت بھی جو ان کا تسلسل ہے، نامشروع قرار پائے گی، درحالیکہ امام رضا علیہ السلام اس سٹرکچر میں داخل ہونے اور مامون کی ولایت عہدی و جانشینی قبول کرکے اس کو مشروع اور جائز جانتے ہیں۔ پس اس کا مطلب یہ تھا کہ باقی خلیفہ بھی مشروع تھے اور یہ تشیع کا ایک جھوٹا ادعا تھا۔ نعوذ باللہ
آئمہ کے زہد و پاکیزگی کو غلط ثابت کرنا:
شیعوں کا دوسرا ادعا جو آئمہ علیہم السلام کے زہد و تقویٰ پر منحصر تھا اور آئمہ علیہم السلام کی دنیا سے بے رغبتی کو ثابت کرتا تھا، اس کو غلط ثابت کرنا بھی ایک ہدف تھا کہ جب تک دنیا ان ذوات مقدسہ کے ہاتھوں میں نہیں تھی تو دنیا سے زہد کا درس دیتے تھے، اب جبکہ دنیا کا مال و دولت و حکومت کے دروازہ ان کے لئے کھل چکے ہیں تو یہ اس کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ نعوذ باللہ
امام کو اپنے زیر اثر لانا:
امام علی رضا علیہ السلام جو مسلسل حکومت کے لئے خطرہ اور مبارزہ و مقاومت کا سرچشمہ تھے، ان کو اپنے بندوں کے ذریعے زیر نظر رکھنا اور اس سے ان کے شیعوں اور پیروکاروں کو جو ان کے گرد جمع رہتے تھے، ان کو بھی کنٹرول کیا جاسکتا تھا اور یہ کامیابی اس سے قبل بنی امیہ اور بنو عباس کا کوئی خلیفہ حاصل نہیں کرسکا تھا۔
امام اور امت میں فاصلہ:
امام علیہ السلام جو لوگوں کی امید اور مرجع تھے، انہیں اپنے محاصرے میں لے لینا، تاکہ رفتہ رفتہ عوامی رنگ ان سے دور ہو جائے اور خلافت کے بہانے ان کے اور لوگوں درمیان فاصلہ ایجاد کیا جاسکے، جس کے نتیجہ میں لوگوں کے دلوں میں امام علیہ السلام کی محبت کو کم کیا جاسکے۔
خود کو صاحب معنویت ثابت کرنا:
مامون کا ایک ہدف اپنے چہرہ کو صاف و پاکیزہ کرنا کہ جس کا جانشین ہی اس عالی مرتبہ پر فائز ہو کہ فرزند رسول صلی اللہ علیہ و وآلہ، مقدس و معنوی مقامات کا حامل تو وہ خلیفہ بھی جو اپنے بھائی اور رشتہ داروں سے نکل کر ایسے شخص کو اپنا جانشین بنائے، یقیناً ایک نیک و باتقویٰ انسان ہوگا۔
غلطیوں کی توجیہ:
جب عوام دیکھے گی کہ ایک ایسی شخصیت جو علم و تقویٰ کی عالیترین منازل پر فائز ہے اور اس خلافت میں شریک ہے تو خلافت کے نام پر جو کچھ انجام دیا جا رہا ہے اور جو ظلم و ستم اور خلافکاریاں انجام پا رہی ہیں، ان کی ایک توجیہ عوام کے سامنے امام کی شکل میں موجود ہوگی۔ ان تمام تدابیر کے باوجود، امام نے مامون کی سیاست کو خداوند متعال کی مدد سے بازیچہ اطفال میں بدل دیا اور مامون کی تمام تر پلاننگ اور تدابیر اسلام کے حق میں بدل دی۔
اپنی نارضایتی کا اعلان:
جب امام علیہ السلام مدینہ سے خراسان کی طرف بلائے گئے تو امام نے مدینہ کی فضا کو افسردگی و غمگینی سے پر کر دیا، اس طرح کہ لوگوں کو اندازہ ہوگیا کہ مامون سوء نیت کے ساتھ امام کو ان کے وطن سے دور کر رہا ہے۔ امام علیہ السلام نے اپنے رفتار و گفتار، دعا اور اشک کی زبان سے لوگوں کو یہ پیغام دے دیا کہ یہ سفر امام علیہ السلام کا آخری سفر ہے، جس سے لوگوں کے دلوں میں مامون کے لئے جو جگہ پیدا ہو رہی تھی، وہ کینہ اور بغض میں بدل گئی۔
مامون کے جبر کو عیاں کرنا:
جب مرو کے مقام پر امام علیہ السلام سے ولایت عہدی کا تقاضا کیا گیا تو امام علیہ السلام نے واضح طور پر اسے ٹھکرا دیا اور جب تک آپ کو قتل کی دھمکی نہ دی گئی تب تک قبول نہیں کیا۔ یہ خبر لوگوں میں پھیل گئی کہ امام کو زبردستی یہ عہدہ قبول کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ مامون کے افراد کیونکہ مامون کی ان سازشوں سے لاعلم تھے، اس خبر کو بعینہ منتشر کرتے گئے، حتی فضل ابن سہل لوگوں کے درمیان اس بات کو کہتا نظر آتا ہے کہ میں نے خلافت کو اتنا ذلیل و خوار کبھی نہیں دیکھا۔ امام علیہ السلام نے لوگوں کو یہ پیغام پہنچا دیا کہ میں اس خلافت کو قبول کرنے پر راضی نہیں ہوں اور یہ کام جبر و اکراہ کے ذریعے انجام دیا جا رہا ہے۔
امام علیہ السلام کی شرائط:
جبر و اکراہ کے باوجود امام علیہ السلام نے ولایت عہدی اس شرط پر قبول کی کہ خلافت کے کسی امور میں مداخلت نہیں کریں گے؛ جنگ، صلح، معزولی، منصوب کرنا، تدبیر امور کسی چیز میں امام رائے نہیں دینگے۔ مامون نے اس وقت سوچا کہ ابھی کام شروع ہوا ہے، قبول کر لیا جائے، بعد میں منوا لیا جائے گا اور اس طرح امام کو سیاست میں آہستہ آہستہ دھکیل دیا جائے گا۔ لیکن امام علیہ السلام نے ایسا اہتمام کیا کہ مامون کی یہ سازشین پانی پر تحریر کی مانند ہوگئیں۔ امام خلافت میں رہتے ہوئے بھی یہ ظاہر کرتے کہ وہ اس منصب اور خلافت سے راضی نہیں ہیں اور کسی قسم کے حکم یا ذمہ داری، مشورہ اور مداخلت سے بچتے۔ مامون مسلسل کوششوں میں لگا رہا اور امام اس کی تدابیر کو ٹھکراتے رہے۔
نماز عید:
نماز عید کے واقعے میں بھی امام علیہ السلام کو اس بہانے کہ لوگوں کو آپ کی قدر معلوم ہو، عید کی نماز پڑھانے کی دعوت دی تو امام نے انکار کیا، جب امام کو اس کام کے لئے مجبور کیا گیا تو اس شرط پر قبول کیا کہ وہ نمازِ عید رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امیر المومنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی طرز اور ان کی روش کے مطابق پڑھائیں گے۔ منظر یوں تھا کہ دروازہ کھلتا ہے اور امام علیہ السلام پا برہنہ باہر نکلتے ہیں، اس حال میں کہ ایک سادہ لباس، سفید عمامہ زیب تن ہے اور شباہت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیاں ہے، رخساروں پر آنسو رواں ہیں۔ لوگ امام علیہ السلام کے ہمرنگ ہونا شروع ہو جاتے ہیں، ننگے پاوں سادہ لباس سفید عمامہ، اللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد کی صدا بلند ہوتی ہے اور امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اکٹھے ہوتے جاتے ہیں۔ حیران و پریشان ہیں کہ یہ کیسی نماز ہے؟ یہ کیسا امام ہے؟ اگر یہ نمازِ عید ہے تو اس سے قبل جو مامون کے پیچھے پڑھیں وہ کیا تھیں۔؟ امام ایسا سادہ ہوتا ہے تو مامون کیا ہے؟ امام نے ان تمام دیواروں کو توڑ دیا، یہاں تک کہ مامون کو انقلاب کا خطرہ محسوس ہوا اور وہ امام کو روکنے پر مجبور ہوگیا۔
ولایت عہدی کو فرصت میں تبدیل کرنا:
امام علیہ السلام نے اس ولی عہدی کے معاملے کو فرصت میں تبدییل کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی تعلیمات اور تشیع کو تمام مسلمانوں اور دیگر مذاہب تک پہنچایا۔ امام کے دیگر مکاتب و مذاہب کے علماء سے مناظرے جو خود مامون، امام علیہ السلام کو نیچا دکھانے کے لئے منعقد کراتا تھا، امام علیہ السلام ان مناظروں کے ذریعے تشیع یعنی اسلام حقیقی کی ترویج کرتے تھے، اسی طرح مدح اہل بیت علیہم السلام جو اس سے قبل علی الاعلان انجام نہیں دی جاسکتی تھی، اسے ایک قانونی جواز مل گیا۔ تمام خطبوں میں اہل بیت علیہم السلام کے فضائل بیان ہونا شروع ہوگئے، لوگ حقانیت اہل بیت سے آشنا ہونے لگے اور آئمہ علیہم السلام کی شان میں اشعار و منقبت جگہ جگہ پڑھے جانے لگے۔
غیر شیعہ آبادیوں سے گزر:
مامون اتنا محتاط تھا کہ امام کو مدینہ سے خراسان ایسے راستوں سے لایا، جہاں شیعہ آبادی نہ ہو، یعنی قافلے کا گزر کوفہ اور قم کے نزدیک سے ہونے نہ دیا گیا لیکن امام نے تمام مقامات پر ولایت و اہل بیت علیہم السلام کی ترویج کی۔ اہواز میں امامت کی نشانیاں ظاہر کیں، بصرہ میں لوگوں کے دلوں میں گھر کرلیا، نیشاپور میں مشہور حدیث “سلسلۃ الذھب” کا بیان اور ولایت امام علیہ السلام کی شرط ان تمام تدابیر نے لوگوں کے دلوں حق کا بیج بو دیا۔
ولایت عہدی کے متن میں مامون نے امام علیہ السلام کی حقانیت اور انکے فضائل بیان کئے، سال بھر میں امام علیہ السلام کی شخصیت اتنی واضح ہوگئی کہ لوگ سمجھ گئے کہ ولایت عہدی کے باوجود امام علیہ السلام حکومت کی کسی چیز میں مداخلت نہیں کرتے، لوگوں کا امام سے رابطہ قلبی بڑھتا گیا اور ایسے حالات ہوگئے کہ مامون کی خلافت خطر میں پڑگئی۔ آخر میں جب کوئی اور راستہ نظر نہیں آیا اور ساری تدبیریں خاک میں ملتی نظر آئیں تو مامون نے بھی اپنے اجداد کی روش پر گامزن ہوتے ہوئے امام علیہ السلام کو شہید کرنے کا ارادہ کیا۔ خداوند متعال سے دعا ہے کہ ہم سب کو اہل بیت علیہم السلام کی سیرت کو جاننے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مامون تاریخ کے زیرک، عقلمند، عالم، ہوشیار بادشاہوں کے ناموں میں سے ایک اہم نام ہے، سوچتا ہے کہ جو کام یزید سے لیکر ہارون تک ظلم و بربریت کے پہاڑ ڈھانے اور کٹے ہوئے گلوں کے مینار بنانے کے باوجود نہیں رک سکا، اس کے لئے کسی اور حکمت عملی کو اپنانا ہوگا۔ ساتویں امام کی قید اور شہادت جب ان علویوں کے قیام کو روک نہیں سکی تو صرف قتل کئے جانے سے یہ کام یقیناً نہیں روکا جاسکتا۔ امام رضا علیہ السلام کو مدینہ سے خراسان لانا اور زبردستی ولایت عہدی قبول کرانا، ان کاموں سے مامون کئی اہداف کا حصول چاہتا تھا اور اگر منصب ولایت من اللہ نہ ہوتا تو یقیناً ان سازشوں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔
مامون کی زیر نظر یہ اہداف تھے:
قیاموں کی روک تھام:
تشیع اپنی مظلومیت اور تقدس کی بنیاد پر بنو عباس کے خلاف مختلف زمان و مکان میں مخفی یا علنی حالت قیام میں تھی، مامون ان اقدامات کے ذریعے اور امام علیہ السلام کو اپنے سیاسی نظام کا حصہ بنا کر ان قیاموں کی روک تھام اور ان کو سیاسی طور پر خاموش کرانا چاہتا تھا، کیونکہ اگر کسی گروہ کا رہبر و پیشوا اس خلافت کو قبول کرلے، مطلق العنان بادشاہ کا ولی عہد اور حکومتی امور میں صاحب اختیار ہو تو وہ نہ مظلوم کہلائے گا اور نہ ہی مقدس اور اس کے پیرو اور شیعہ یقیناً اس بنیاد پر خلافت کے خلاف قیام سے گریز کریں گے۔
خلافت کی مشروعیت:
ایک اور ہدف تشیع کی بنیاد کو متزلزل کرنا تھا، یعنی بنو امیہ و بنو عباس کی ظالم حکومتوں کو غاصب سمجھنا، مامون ان اقدامات کے ذریعے اپنی اور اپنے آباو اجداد کی حکومتوں کی مشروعیت ثابت کرنا چاہتا تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا کہ تشیع ایک بے بنیاد نقطہ پر کھڑی ہے، کیونکہ اگر وہ خلافتیں نامشروع تھیں تو مامون کی خلافت بھی جو ان کا تسلسل ہے، نامشروع قرار پائے گی، درحالیکہ امام رضا علیہ السلام اس سٹرکچر میں داخل ہونے اور مامون کی ولایت عہدی و جانشینی قبول کرکے اس کو مشروع اور جائز جانتے ہیں۔ پس اس کا مطلب یہ تھا کہ باقی خلیفہ بھی مشروع تھے اور یہ تشیع کا ایک جھوٹا ادعا تھا۔ نعوذ باللہ
آئمہ کے زہد و پاکیزگی کو غلط ثابت کرنا:
شیعوں کا دوسرا ادعا جو آئمہ علیہم السلام کے زہد و تقویٰ پر منحصر تھا اور آئمہ علیہم السلام کی دنیا سے بے رغبتی کو ثابت کرتا تھا، اس کو غلط ثابت کرنا بھی ایک ہدف تھا کہ جب تک دنیا ان ذوات مقدسہ کے ہاتھوں میں نہیں تھی تو دنیا سے زہد کا درس دیتے تھے، اب جبکہ دنیا کا مال و دولت و حکومت کے دروازہ ان کے لئے کھل چکے ہیں تو یہ اس کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ نعوذ باللہ
امام کو اپنے زیر اثر لانا:
امام علی رضا علیہ السلام جو مسلسل حکومت کے لئے خطرہ اور مبارزہ و مقاومت کا سرچشمہ تھے، ان کو اپنے بندوں کے ذریعے زیر نظر رکھنا اور اس سے ان کے شیعوں اور پیروکاروں کو جو ان کے گرد جمع رہتے تھے، ان کو بھی کنٹرول کیا جاسکتا تھا اور یہ کامیابی اس سے قبل بنی امیہ اور بنو عباس کا کوئی خلیفہ حاصل نہیں کرسکا تھا۔
امام اور امت میں فاصلہ:
امام علیہ السلام جو لوگوں کی امید اور مرجع تھے، انہیں اپنے محاصرے میں لے لینا، تاکہ رفتہ رفتہ عوامی رنگ ان سے دور ہو جائے اور خلافت کے بہانے ان کے اور لوگوں درمیان فاصلہ ایجاد کیا جاسکے، جس کے نتیجہ میں لوگوں کے دلوں میں امام علیہ السلام کی محبت کو کم کیا جاسکے۔
خود کو صاحب معنویت ثابت کرنا:
مامون کا ایک ہدف اپنے چہرہ کو صاف و پاکیزہ کرنا کہ جس کا جانشین ہی اس عالی مرتبہ پر فائز ہو کہ فرزند رسول صلی اللہ علیہ و وآلہ، مقدس و معنوی مقامات کا حامل تو وہ خلیفہ بھی جو اپنے بھائی اور رشتہ داروں سے نکل کر ایسے شخص کو اپنا جانشین بنائے، یقیناً ایک نیک و باتقویٰ انسان ہوگا۔
غلطیوں کی توجیہ:
جب عوام دیکھے گی کہ ایک ایسی شخصیت جو علم و تقویٰ کی عالیترین منازل پر فائز ہے اور اس خلافت میں شریک ہے تو خلافت کے نام پر جو کچھ انجام دیا جا رہا ہے اور جو ظلم و ستم اور خلافکاریاں انجام پا رہی ہیں، ان کی ایک توجیہ عوام کے سامنے امام کی شکل میں موجود ہوگی۔ ان تمام تدابیر کے باوجود، امام نے مامون کی سیاست کو خداوند متعال کی مدد سے بازیچہ اطفال میں بدل دیا اور مامون کی تمام تر پلاننگ اور تدابیر اسلام کے حق میں بدل دی۔
اپنی نارضایتی کا اعلان:
جب امام علیہ السلام مدینہ سے خراسان کی طرف بلائے گئے تو امام نے مدینہ کی فضا کو افسردگی و غمگینی سے پر کر دیا، اس طرح کہ لوگوں کو اندازہ ہوگیا کہ مامون سوء نیت کے ساتھ امام کو ان کے وطن سے دور کر رہا ہے۔ امام علیہ السلام نے اپنے رفتار و گفتار، دعا اور اشک کی زبان سے لوگوں کو یہ پیغام دے دیا کہ یہ سفر امام علیہ السلام کا آخری سفر ہے، جس سے لوگوں کے دلوں میں مامون کے لئے جو جگہ پیدا ہو رہی تھی، وہ کینہ اور بغض میں بدل گئی۔
مامون کے جبر کو عیاں کرنا:
جب مرو کے مقام پر امام علیہ السلام سے ولایت عہدی کا تقاضا کیا گیا تو امام علیہ السلام نے واضح طور پر اسے ٹھکرا دیا اور جب تک آپ کو قتل کی دھمکی نہ دی گئی تب تک قبول نہیں کیا۔ یہ خبر لوگوں میں پھیل گئی کہ امام کو زبردستی یہ عہدہ قبول کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ مامون کے افراد کیونکہ مامون کی ان سازشوں سے لاعلم تھے، اس خبر کو بعینہ منتشر کرتے گئے، حتی فضل ابن سہل لوگوں کے درمیان اس بات کو کہتا نظر آتا ہے کہ میں نے خلافت کو اتنا ذلیل و خوار کبھی نہیں دیکھا۔ امام علیہ السلام نے لوگوں کو یہ پیغام پہنچا دیا کہ میں اس خلافت کو قبول کرنے پر راضی نہیں ہوں اور یہ کام جبر و اکراہ کے ذریعے انجام دیا جا رہا ہے۔
امام علیہ السلام کی شرائط:
جبر و اکراہ کے باوجود امام علیہ السلام نے ولایت عہدی اس شرط پر قبول کی کہ خلافت کے کسی امور میں مداخلت نہیں کریں گے؛ جنگ، صلح، معزولی، منصوب کرنا، تدبیر امور کسی چیز میں امام رائے نہیں دینگے۔ مامون نے اس وقت سوچا کہ ابھی کام شروع ہوا ہے، قبول کر لیا جائے، بعد میں منوا لیا جائے گا اور اس طرح امام کو سیاست میں آہستہ آہستہ دھکیل دیا جائے گا۔ لیکن امام علیہ السلام نے ایسا اہتمام کیا کہ مامون کی یہ سازشین پانی پر تحریر کی مانند ہوگئیں۔ امام خلافت میں رہتے ہوئے بھی یہ ظاہر کرتے کہ وہ اس منصب اور خلافت سے راضی نہیں ہیں اور کسی قسم کے حکم یا ذمہ داری، مشورہ اور مداخلت سے بچتے۔ مامون مسلسل کوششوں میں لگا رہا اور امام اس کی تدابیر کو ٹھکراتے رہے۔
نماز عید:
نماز عید کے واقعے میں بھی امام علیہ السلام کو اس بہانے کہ لوگوں کو آپ کی قدر معلوم ہو، عید کی نماز پڑھانے کی دعوت دی تو امام نے انکار کیا، جب امام کو اس کام کے لئے مجبور کیا گیا تو اس شرط پر قبول کیا کہ وہ نمازِ عید رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امیر المومنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی طرز اور ان کی روش کے مطابق پڑھائیں گے۔ منظر یوں تھا کہ دروازہ کھلتا ہے اور امام علیہ السلام پا برہنہ باہر نکلتے ہیں، اس حال میں کہ ایک سادہ لباس، سفید عمامہ زیب تن ہے اور شباہت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیاں ہے، رخساروں پر آنسو رواں ہیں۔ لوگ امام علیہ السلام کے ہمرنگ ہونا شروع ہو جاتے ہیں، ننگے پاوں سادہ لباس سفید عمامہ، اللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد کی صدا بلند ہوتی ہے اور امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اکٹھے ہوتے جاتے ہیں۔ حیران و پریشان ہیں کہ یہ کیسی نماز ہے؟ یہ کیسا امام ہے؟ اگر یہ نمازِ عید ہے تو اس سے قبل جو مامون کے پیچھے پڑھیں وہ کیا تھیں۔؟ امام ایسا سادہ ہوتا ہے تو مامون کیا ہے؟ امام نے ان تمام دیواروں کو توڑ دیا، یہاں تک کہ مامون کو انقلاب کا خطرہ محسوس ہوا اور وہ امام کو روکنے پر مجبور ہوگیا۔
ولایت عہدی کو فرصت میں تبدیل کرنا:
امام علیہ السلام نے اس ولی عہدی کے معاملے کو فرصت میں تبدییل کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی تعلیمات اور تشیع کو تمام مسلمانوں اور دیگر مذاہب تک پہنچایا۔ امام کے دیگر مکاتب و مذاہب کے علماء سے مناظرے جو خود مامون، امام علیہ السلام کو نیچا دکھانے کے لئے منعقد کراتا تھا، امام علیہ السلام ان مناظروں کے ذریعے تشیع یعنی اسلام حقیقی کی ترویج کرتے تھے، اسی طرح مدح اہل بیت علیہم السلام جو اس سے قبل علی الاعلان انجام نہیں دی جاسکتی تھی، اسے ایک قانونی جواز مل گیا۔ تمام خطبوں میں اہل بیت علیہم السلام کے فضائل بیان ہونا شروع ہوگئے، لوگ حقانیت اہل بیت سے آشنا ہونے لگے اور آئمہ علیہم السلام کی شان میں اشعار و منقبت جگہ جگہ پڑھے جانے لگے۔
غیر شیعہ آبادیوں سے گزر:
مامون اتنا محتاط تھا کہ امام کو مدینہ سے خراسان ایسے راستوں سے لایا، جہاں شیعہ آبادی نہ ہو، یعنی قافلے کا گزر کوفہ اور قم کے نزدیک سے ہونے نہ دیا گیا لیکن امام نے تمام مقامات پر ولایت و اہل بیت علیہم السلام کی ترویج کی۔ اہواز میں امامت کی نشانیاں ظاہر کیں، بصرہ میں لوگوں کے دلوں میں گھر کرلیا، نیشاپور میں مشہور حدیث “سلسلۃ الذھب” کا بیان اور ولایت امام علیہ السلام کی شرط ان تمام تدابیر نے لوگوں کے دلوں حق کا بیج بو دیا۔
ولایت عہدی کے متن میں مامون نے امام علیہ السلام کی حقانیت اور انکے فضائل بیان کئے، سال بھر میں امام علیہ السلام کی شخصیت اتنی واضح ہوگئی کہ لوگ سمجھ گئے کہ ولایت عہدی کے باوجود امام علیہ السلام حکومت کی کسی چیز میں مداخلت نہیں کرتے، لوگوں کا امام سے رابطہ قلبی بڑھتا گیا اور ایسے حالات ہوگئے کہ مامون کی خلافت خطر میں پڑگئی۔ آخر میں جب کوئی اور راستہ نظر نہیں آیا اور ساری تدبیریں خاک میں ملتی نظر آئیں تو مامون نے بھی اپنے اجداد کی روش پر گامزن ہوتے ہوئے امام علیہ السلام کو شہید کرنے کا ارادہ کیا۔ خداوند متعال سے دعا ہے کہ ہم سب کو اہل بیت علیہم السلام کی سیرت کو جاننے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
تالیف: سید محمد روح اللہ رضوی