روز دحوالارض کے فضائل اور اعمال

Rate this item
(0 votes)
روز دحوالارض کے فضائل اور اعمال

 روز دحوالارض 25 ذوالقعدہ کا دن ہے۔ ذیل میں اس بابرکت دن کے بعض اعمال اور فضائل کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔     

* دحوالارض کیا ہے اور اس دن کے اعمال کیا ہیں؟

ذو القعدہ کا پچیسواں دن وہ دن ہے کہ جب زمین کو کعبہ کے نیچے بچھایا گیا اور یہی وجہ ہے کہ یہ دن اور اس کی رات ان نیک دن اور راتوں میں سے ایک ہے کہ جن میں خدا  اپنے بندوں پر رحمت فرماتا ہے اور اسلامی روایات کے مطابق اس دن میں قیام و عبادت کرنے کا بہت زیادہ اجر و ثواب ہے۔ اور روز دحوالارض ان دنوں میں سے ایک ہے کہ سال بھر میں جس میں روزہ رکھنے کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔

"دحو" کے لغوی معنی وسعت دینے اور پھیلانے کے ہیں۔ [1] اور دحوالارض کا مطلب ہے زمین کو پھیلانا اور زمین کو وسعت دینا اور وہ چیز جسے وسعت دی جائے یا پھیلا دیا جائے اسے (دحو الشیء) کہا جاتا ہے۔ [2]

قرآن کی یہ آیت "و الارض بعد ذلک دحها"[3] بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

یعنی "اور اس کے بعد زمین کو (انسانوں اور دیگر مخلوقات کے فائدے کے لئے) پھیلا دیا۔"

اور جو حضرت علی (علیہ السلام) کی دعا میں وارد ہوا ہے کہ: اللّهم داحی المدحوات، یعنی اے زمین کو وسعت دینے والے اور بڑھانے والے۔ [۴] اس سے مراد یہ ہے کہ خدا نے زمین کو کعبہ اور اس کے مقام سے پھیلادیا اور دحوالارض کہ جو 25 ذوالقعدہ کا دن ہے، اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اس دن خدا نے خانہ کعبہ کو ظاہر کیا اور خدا نے زمین کو اسی مقام سے پھیلانا شروع کیا اور اسی وجہ سے اسے "دحوالارض" کہا جاتا ہے  یعنی زمین کو پھیلانے اور وسعت دینے کا دن۔

احادیث و روایات اور متون اسلامی میں اسی مسئلہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جیسا کہ شیخ طوسی کہتے ہیں:

دحوالارض کہ جو 25 ذوالقعدہ کے دن پر اطلاق ہوتا ہے کہ اس دن خدا نے کعبہ کے نیچے زمین کو وسعت بخشی۔ [۵] اور اس دن روزہ اور غسل مستحب ہے اور خاص طور پر روزہ رکھنا کہ جس کا ثواب ساٹھ سال کی عبادت کے ثواب کے برابر ہے۔

امام رضا علیہ السلام سے روایت ہے کہ 25 ذی القعدہ کا دن وہی دحوالارض کا دن ہے کہ جب خدا نے زمین کو خانہ کعبہ کے نیچے پھیلادیا اور اس دن حضرت ابراہیم اور حضرت عیسی (علیہما السلام) متولد ہوئے۔ [6] البتہ یہ تاریخ قمری تاریخ کے مطابق ہے اور میلادی تاریخ کے منافی نہیں ہے۔

سورہ آل ​​عمران کی آیت نمبر 96 کے مطابق کہ جس میں کہا گیا ہے: إِنَّ أَوَّلَ بَیْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِی بِبَکةَ مُبَارَکا وَ هُدًی لِّلْعَالَمِینَ [۷]

یعنی وہ پہلا مکان کہ جو لوگوں کی عبادت گاہ کے لئے بنایا گیا تھا وہ خانہ کعبہ ہے۔ جہاں خلائق کے لئے برکت اور ہدایت ہے۔

روز دحوالارض کے اعمال

 روزہ رکھنا:

روز دحوالارض ان چار دنوں میں سے ایک ہے کہ سال بھر میں جس میں روزہ رکھنے کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے اور روایت میں آیا ہے کہ اس دن کا روزہ ستر سال روزہ رکھنے کے برابر ہے اور ایک دوسری روایت کے مطابق اس دن کا روزہ ستر سال کا کفارہ ہے اور جو شخص اس دن کا روزہ رکھتا ہے اور اس کی رات کو عبادت میں بسر کرتا ہے تو اس کے لئے سو سال کی عبادت کا ثواب لکھا جاتا ہے اور جو موجودات آسمان و زمین کے درمیان ہیں وہ اس شخص کے لئے استغفار  کرتے ہیں جو اس دن میں روزہ رکھتا ہے۔ اور یہ وہ دن ہے جس میں خدا کی رحمت پھیلائی جاتی ہے اور اس دن خدا کی عبادت کرنے اور اس کے ساتھ راز و نیاز کرنے کا بہت عظیم ثواب ہے اور اس دن روزہ رکھنے، عبادت کرنے، ذکرِ خدا اور غسل کرنے کے علاوہ مزید دو اعمال وارد ہوئے ہیں:

 نماز:

شیعہ کتب میں روایت ہوئی نماز کا پڑھنا۔ اور وہ نماز دو رکعت ہے کہ جو  چاشت (دن  کا پہلا آدھا حصہ) کے وقت پڑھی جاتی ہے۔ سورۂ حمد کے بعد پانچ بار سوره والشمس پڑھے اور سلام کے بعد پڑھے: لا حَوْلَ وَ لا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ الْعَلِی الْعَظِیمِ۔ پھر دعا کرے اور کہے: یا مُقِیلَ الْعَثَرَاتِ أَقِلْنِی عَثْرَتِی یا مُجِیبَ الدَّعَوَاتِ أَجِبْ دَعْوَتِی یا سَامِعَ الْأَصْوَاتِ اسْمَعْ صَوْتِی وَ ارْحَمْنِی وَ تَجَاوَزْ عَنْ سَیئَاتِی وَ مَا عِنْدِی یا ذَا الْجَلالِ وَ الْإِکْرَامِ۔

دعا:

 اس دعا کی تلاوت کرنا مستحب ہے جو شیخ نے مصباح میں ذکر کی ہے:

اللَّهُمَّ دَاحِی الْکَعْبَةِ وَ فَالِقَ الْحَبَّةِ وَ صَارِفَ اللَّزْبَةِ وَ کَاشِفَ کُلِّ کُرْبَةٍ أَسْأَلُکَ فِی هَذَا الْیوْمِ مِنْ أَیامِکَ الَّتِی أَعْظَمْتَ حَقَّهَا وَ أَقْدَمْتَ سَبْقَهَا وَ جَعَلْتَهَا عِنْدَ الْمُؤْمِنِینَ وَدِیعَةً وَ إِلَیکَ ذَرِیعَةً وَ بِرَحْمَتِکَ الْوَسِیعَةِ أَنْ تُصَلِّی عَلَی مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ الْمُنْتَجَبِ فِی الْمِیثَاقِ الْقَرِیبِ یوْمَ التَّلاقِ فَاتِقِ کُلِّ رَتْقٍ وَ دَاعٍ إِلَی کُلِّ حَقٍّ وَ عَلَی أَهْلِ بَیتِهِ الْأَطْهَارِ الْهُدَاةِ الْمَنَارِ دَعَائِمِ الْجَبَّارِ وَ وُلاةِ الْجَنَّةِ وَ النَّارِ وَ أَعْطِنَا فِی یوْمِنَا هَذَا مِنْ عَطَائِکَ الْمَخْزُونِ غَیرَ مَقْطُوعٍ وَ لا مَمْنُوعٍ [مَمْنُونٍ] تَجْمَعُ لَنَا بِهِ التَّوْبَةَ وَ حُسْنَ الْأَوْبَةِ یا خَیرَ مَدْعُوٍّ وَ أَکْرَمَ مَرْجُوٍّ یا کَفِی یا وَفِی یا مَنْ لُطْفُهُ خَفِی الْطُفْ لِی بِلُطْفِکَ وَ أَسْعِدْنِی بِعَفْوِکَ وَ أَیدْنِی بِنَصْرِکَ وَ لا تُنْسِنِی کَرِیمَ ذِکْرِکَ بِوُلاةِ أَمْرِکَ وَ حَفَظَةِ سِرِّکَ وَ احْفَظْنِی مِنْ شَوَائِبِ الدَّهْرِ إِلَی یوْمِ الْحَشْرِ وَ النَّشْرِ وَ أَشْهِدْنِی أَوْلِیاءَکَ عِنْدَ خُرُوجِ نَفْسِی وَ حُلُولِ رَمْسِی وَ انْقِطَاعِ عَمَلِی وَ انْقِضَاءِ أَجَلِی اللَّهُمَّ وَ اذْکُرْنِی عَلَی طُولِ الْبِلَی إِذَا حَلَلْتُ بَینَ أَطْبَاقِ الثَّرَی وَ نَسِینِی النَّاسُونَ مِنَ الْوَرَی وَ أَحْلِلْنِی دَارَ الْمُقَامَةِ وَ بَوِّئْنِی مَنْزِلَ الْکَرَامَةِ وَ اجْعَلْنِی مِنْ مُرَافِقِی أَوْلِیائِکَ وَ أَهْلِ اجْتِبَائِکَ وَ اصْطِفَائِکَ وَ بَارِکْ لِی فِی لِقَائِکَ وَ ارْزُقْنِی حُسْنَ الْعَمَلِ قَبْلَ حُلُولِ الْأَجَلِ بَرِیئا مِنَ الزَّلَلِ وَ سُوءِ الْخَطَلِ اللَّهُمَّ وَ أَوْرِدْنِی حَوْضَ نَبِیکَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ وَ اسْقِنِی مِنْهُ مَشْرَبا رَوِیا سَائِغا هَنِیئا لا أَظْمَأُ بَعْدَهُ وَ لا أُحَلَّأُ وِرْدَهُ وَ لا عَنْهُ أُذَادُ وَ اجْعَلْهُ لِی خَیرَ زَادٍ وَ أَوْفَی مِیعَادٍ یوْمَ یقُومُ الْأَشْهَادُ اللَّهُمَّ وَ الْعَنْ جَبَابِرَةَ الْأَوَّلِینَ وَ الْآخِرِینَ وَ بِحُقُوقِ [لِحُقُوقِ] أَوْلِیائِکَ الْمُسْتَأْثِرِینَ اللَّهُمَّ وَ اقْصِمْ دَعَائِمَهُمْ وَ أَهْلِکْ أَشْیاعَهُمْ وَ عَامِلَهُمْ وَ عَجِّلْ مَهَالِکَهُمْ وَ اسْلُبْهُمْ مَمَالِکَهُمْ وَ ضَیقْ عَلَیهِمْ مَسَالِکَهُمْ وَ الْعَنْ مُسَاهِمَهُمْ وَ مُشَارِکَهُمْ اللَّهُمَّ وَ عَجِّلْ فَرَجَ أَوْلِیائِکَ وَ ارْدُدْ عَلَیهِمْ مَظَالِمَهُمْ وَ أَظْهِرْ بِالْحَقِّ قَائِمَهُمْ وَ اجْعَلْهُ لِدِینِکَ مُنْتَصِرا وَ بِأَمْرِکَ فِی أَعْدَائِکَ مُؤْتَمِرا اللَّهُمَّ احْفُفْهُ بِمَلائِکَةِ النَّصْرِ وَ بِمَا أَلْقَیتَ إِلَیهِ مِنَ الْأَمْرِ فِی لَیلَةِ الْقَدْرِ مُنْتَقِما لَکَ حَتَّی تَرْضَی وَ یعُودَ دِینُکَ بِهِ وَ عَلَی یدَیهِ جَدِیدا غَضّا وَ یمْحَضَ الْحَقَّ مَحْضا وَ یرْفِضَ الْبَاطِلَ رَفْضا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَیهِ وَ عَلَی جَمِیعِ آبَائِهِ وَ اجْعَلْنَا مِنْ صَحْبِهِ وَ أُسْرَتِهِ وَ ابْعَثْنَا فِی کَرَّتِهِ حَتَّی نَکُونَ فِی زَمَانِهِ مِنْ أَعْوَانِهِ اللَّهُمَّ أَدْرِکْ بِنَا قِیامَهُ وَ أَشْهِدْنَا أَیامَهُ وَ صَلِّ عَلَیهِ [عَلَی مُحَمَّدٍ] وَ ارْدُدْ إِلَینَا سَلامَهُ وَ السَّلامُ عَلَیهِ [عَلَیهِمْ] وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَکَاتُهُ۔

مزید مطالعه کے لئے رجوع کریں:

۱ـ ترجمه تفسیر المیزان، ج ۳، آیت الله محمد باقر موسوی همدانی

۲ـ صحبای حج، آیت الله جوادی آملی

۳ـ مفاتیح الجنان، شیخ عباس قمی

منابع تحریر:

[۱]. زبیدی، محمد مرتضی، تاج العروس، بیروت: مکتبة الحیاة، (بی تا)، ج۲، ص۳۰۴

[۲]. طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، نشر ثقافة اسلامی، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۱۴

[۳]. نازعات / ۳۰

[۴]. ابن منظور، لسان العرب، نشر ادب الحوزه، ۱۴۰۵ق، ج۱۴، ص۲۵۱ و نهج البلاغه، خطبه ۷۲

[۵]. شیخ طوسی، مبسوط، تهران، حیدری، (بی تا)، ج۱، ص۲۸۲

[۶]. عاملی، سید محمد، مدارک الاحکام، قم، مهر، ۱۴۱۰ق، ج۶، ص۲۶۵

[۷]. آل عمران / ۹۶

Read 894 times