حوزہ علمیہ تہران کے استاد حجت الاسلام علم الھدی کی مہر نیوز کے نمائندے سے گفتگو
تیس ذی القعدہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے۔ تین اماموں کو بچپن میں امامت کا عظیم منصب ملا؛ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کو سات سال کی عمر میں امامت ملی، حضرت امام علی نقی علیہ السلام نو سال اور حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ پانچ سال کی عمر میں امامت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے۔
امامت کے عہدے کے عظمت کو مدنظر رکھتے ہوئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ نوعمری میں کس طرح اس عظیم منصب سے عہدہ برآ ہوسکتے ہیں؟ معمولا انسان پندرہ سال کی عمر میں بلوغت کو پہنچتا ہے اور چالیس کے بعد اس کی عقل کامل ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی امامت کے حوالے سے کئی لوگوں سے سوالات کئے کہ ایک سات سالہ بچہ کس طرح معاشرے کی ہدایت کی عظیم ذمہ داری لے سکتا ہے؟ کیا سات سال کا بچہ بڑی عمر کے انسان کی طرح دواندیشی اور فہم و فراست سے یہ فریضہ انجام دے سکے گا؟
اس دور میں خاص و عام میں یہ سوال گردش کرتا تھا خصوصا عباسی حکومت کے طرفداروں اور اہل بیت کے دشمنوں نے اس سوال کو ہر جگہ دہرایا۔ مامون عباسی نے اس نکتے کو لے کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی کوشش کی۔
انہوں نے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام اور اس زمانے کے جید علماء کے درمیان علمی مناظرے کی محفلیں سجائیں لیکن امام عالی مقام نے دندان شکن جواب دے کر ہر قسم کے شک و تردید کو ختم کیا اور دشمنوں کی سازشوں کا ناکام بنایا۔
اس حوالے سے مہر نیوز کے نمائندے نے حوزہ علمیہ تہران کے استاد حجت الاسلام سید محمد باقر علم الھدی سے گفتگو کی اور اسی موضوع کے حوالے سے کئی سوالات کئے۔
ان کے ساتھ ہونے والی گفتگو قارئیں کے لئے پیش کی جاتی ہے؛
حجت الاسلام سید محمد باقر علم الھدی نے کہا کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام اور دوسرے ائمہ علیہم السلام نے غیر مسلم دانشوروں کے ساتھ بھی علمی گفتگو اور مناظرے کئے۔ اس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ اہل بیت علیہم السلام علمی مرکز ہیں۔ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے مختلف علمی محافل میں شرکت کرکے حاضرین کو اپنے برجستہ جوابات سے حیرت زدہ کردیا۔ امام عالی مقام کو چھوٹی عمر میں امامت نصیب ہوئی اس کے باوجود آپ نے علمی مناظروں میں حصہ لیا اور دوسرے کو حیرت میں ڈال دیا۔ شیعہ عقیدے کے مطابق ائمہ علم الہی کے حامل ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امام جود علیہ السلام کم عمری میں ہی علمی محافل میں شریک ہوتے تھے اور لوگوں کو حق اور حقیقت سے آگاہ کرتے تھے۔ ایک سال حج کے ایام میں تقریبا 80 علماء اور دانشور حج کے لئے بغداد سے روانہ ہوئے۔ مدینہ میں انہوں نے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے ملاقات کی۔ اس وقت آپ کے چچا عبداللہ بن موسی بھی آپ کے گھر میں داخل ہوئے۔ محفل میں موجود کسی شخص نے عبداللہ بن موسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ فرزند رسول ہیں۔ جو پوچھنا چاہیں پوچھیں۔
بغداد سے آنے والے علماء نے کچھ سوالات کئے لیکن عبداللہ ان کا جواب نہ دے سکے۔ محفل میں موجود شیعہ غمگین ہوئے اور کہنے لگے کہ کاش کوئی ان کے سوالوں کا جواب دینے والا ہوتا! اتنے میں گھر کا دروازہ کھلا اور حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کا غلام داخل ہوا اور کہا کہ امام عالی مقام تشریف لارہے ہیں۔ لوگ اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے۔ امام جواد علیہ السلام جو اس وقت نوجوان تھے، نے سب کے سوالوں کا الگ الگ اور اطمینان بخش جواب دیا۔
حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد مامون عباسی نے خود اہل بیت کا دوست اور محب ثابت کرنے کے لئے اپنی بیٹی کا حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے عقد کرایا۔ مامون امام کی علمی منزلت اور فہم و فراست سے آگاہ تھا اس لئے سے امام کو ابتدا میں سرکوب کرنے کے لئے شادی سے پہلے مناظرے کی ایک محفل سجادی جس میں بزرگ علماء اور دانشوروں کو دعوت دی تاکہ ان کے مشکل سوالات کا امام جواب نہ دے سکیں اور ان کے علمی مقام میں کمی آئے۔
مامون نے اپنے دور کے مشہور عالم اور قاضی یحیی ابن اکثم کو کہا کہ ہر ممکن طریقے سے امام کو لاجواب کردے۔ یحیی نے بھی مامون سے وعدہ کیا اور کامیابی کی صورت میں مالی فوائد کا اقرار لیا۔
جب محفل سجائی گئی تو یحیی نے مامون سے اجازت لی تاکہ امام سے کچھ سوالات کرے۔ اس نے سوال کیا کہ کوئی احرام کی حالت میں شکار کرے تو کیا حکم ہے؟
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ شخص شکار کرتے وقت حرم کے احاطے میں تھا یا باہر؟ شکار حرام ہونے کا علم رکھتا تھا یا نہیں؟
عمدا شکار کیا تھا یا غلطی سے؟ آزاد تھا یا غلام؟ بچہ تھا یا بالغ؟ پہلی مرتبہ شکار کیا تھا یا کئی مرتبہ؟ پرندے کا شکار کیا تھا یا کسی اور جانور کا؟ جانور چھوٹا تھا یا بڑا؟ دوبارہ شکار کا ارادہ رکھتا ہے یا پشیمان ہوا ہے؟ دن کو شکار کیا تھا یا رات کو؟ حج کے احرام میں تھا یا عمرہ کے؟
ان سوالوں کے سننے کے بعد یحیی پریشان ہوگیا اور اس کی زبان جواب دے گئی۔ محفل میں حاضر شرکاء نے امام کو داد تحسین دی۔ اس وقت مامون نے کہا کہ جیسا میں نے سوچا وہی ہوا۔
حجت الاسلام علم الھدی نے حضرت امام جود علیہ السلام کے ایک علمی مناظرے کی روداد سناتے ہوئے کہا کہ معتصم عباسی کے دور میں چور کا ہاتھ کاٹنے کا واقعہ پیش آیا۔ ایک شخص نے چور کا ہاتھ کاٹنے کا تقاضا کیا تو معتصم نے علماء سے سوال کیا کہ ہاتھ کو کہاں سے کاٹا جائے۔ بعض نے کہا کہ کلائی سے کاٹیں؛ بعض نے کہنی سے کاٹنے کا مشورہ دیا۔
معتصم نے امام جواد علیہ السلام سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ چور کی انگلیاں کاٹی جائیں۔ کیونک اللہ نے فرمایا ہے کہ سجدہ کے اعضاء خدا کے لئے ہیں۔ جو اعضاء خدا کے لئے ہوں ان کو کاٹا نہیں جاسکتا۔
انہوں نے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے مناظروں اور دوسرے طریقوں سے درباری علماء اور قاضیوں کی کم علمی اور بے بضاعتی کو ثابت کیا اور علمی صلاحیتوں کا مظاہرہ ہوئے خود کو امامت کے عظیم عہدے کا لائق ثابت کیا۔ امام عالی مقام نے اس طرح عمومی اذہان میں عقیدہ امامت کو مزید مضبوط اور مستحکم کیا۔