مہر نیوز ایجنسی، گروہ عقیدہ و دین؛ سات ذی الحجہ کو آسمان امامت کے پانچویں ستارے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا یوم شہادت ہے۔ آپ کا لقب باقر ہے جس کے معنی ہیں علوم کا پردہ چاک کرنے والا۔ آپ بنی ہاشم میں سب سے زیادہ علم وزھد اور تقوی کے مالک تھے جس کی دوست و دشمن سب گواہی دیتے تھے۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے زمانے کے تقاضے کو سمجھتے ہوئے حکمرانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا اور علوم وحیانی کی ترویج میں سرگرم رہے۔ آپ نے علم کو بند گلی سے نکال کر شکوفائی عطا کی اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے لئے بنیاد فراہم کی۔ اس دور کے جید علماء جن میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعض اصحاب اور اہل سنت علماء بھی شام تھے، نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔
امام محمد باقر علیہ السلام کے یوم شہادت کی مناسبت سے مہر نیوز نے آپ کی سیاسی اور علمی سیرت پر روشنی ڈالنے کے لئے حوزہ اور یونیورسٹی کے نامور استاد حجت الاسلام عبدالکریم پاک نیا سے گفتگو کی جو کہ قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔
حوزہ علمیہ کے استاد حجت الاسلام پاک نیا نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے دور امامت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی امامت کا دور ان ادوار میں شمار ہوتا ہے جب اسلامی تمدن اور فرھنگ کو شدید انحرافی خطرات لاحق تھے۔ بنی امیہ نے دینی تعلیمات میں تحریف اور انحراف ایجاد کرنے خطرناک منصوبے شروع کئے تھے۔ ان منصوبوں کی تکمیل کی خاطر خاندان نبوت کو وحشیانہ طریقے سے کربلا میں قتل کیا گیا۔ مدینہ والوں نے احتجاج کیا تو بے رحمی کے ساتھ کچل دیا گیا۔ عدالت خواہی کے لئے قیام کرنے والے علوی سادات کو تہہ تیغ کیا گیا۔ سخت ترین اقتصادی ناکہ بندی کی گئی۔ بنی امیہ اسلام کے فکری اور علمی آثار کو نابود کرنے کے درپے تھے۔ مال و دولت کے ذریعے بعض لوگوں کو حدیث گھڑنے کے لئے تیار کیا گیا۔
بنی امیہ کی یہ حرکات وقت کے امام سے پوشیدہ نہ تھیں۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے تعلیمی درسگاہ کی تاسیس کی اور نظریہ پردازی کے ذریعے اسلامی فرقوں کو ایک دوسرے کے نزدیک لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ نے اسلامی تہذیب و تمدن کو انحرافی راستے پر چلنے سے نجات دی۔ آپ نے جب دیکھا کہ الہی اور قرآنی علوم کی تعلیم کے لئے میدان کھلا ہے تو تمام علوم میں نئے باب کھولے۔ یہ وہی بشارت تھی جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دی تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اصحاب کے سامنے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی امامت پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے آپ کے علمی مقام و منزلت کے بارے میں بتایا تھا۔ آپ کو لقب اسی وجہ سے باقر رکھا گیا۔
حجت الاسلام پاک نیا نے کہا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا دور انتہائی حساس تھا۔ بنی امیہ کی سیاسی اور فکری سوچ کے حامل لوگ معاشرے میں رونما ہوئے۔ ان کے تفسیری، حدیثی اور تاریخی رجحانات عالم اسلام کے لئے بہت خطرناک تھے۔ داعش اور القاعدہ جیسے شدت پسند گروہ اسی فکر کا نتیجہ ہے۔ کسی خاص ہدف کے تحت اور کینہ کی بنیاد پر تاریخ نویسی کے باعث انحراف کا ماحول بن گیا تھا۔ بنی امیہ شیعوں کو خاک و خون میں نہلانے کے ساتھ ساتھ سنت نبوی کو مکمل ختم کرنا چاہتے تھے اسی لیے فکری اور مذہبی طور پر منحرف فرقے ایجاد کررہے تھے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اس دور میں بڑا جہاد کیا اور تمام منحرف فرقوں کے ساتھ خوب مقابلہ کیا۔ آپ کی علمی تحریک کی بنیاد منحرف فرقوں سے مقابلے پر استوار تھی۔ آپ نے گمراہ فرقوں سے متاثر افکار اور انحرافات کو معاشرے میں عیاں اور غلط ثابت کردیا۔ اس دور میں انبیاء کا معصوم نہ ہونا، اللہ کے لئے جسم ہونا، بیت المقدس کا کعبہ سے افضل ہونا وغیرہ ایسے اعتقادی انحرافات میں سے تھے جو عالم اسلام میں پیدا ہوئے اور امام محمد باقر علیہ السلام نے ان کا مقابلہ کیا۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے بعد آنے والے ائمہ نے بھی یہودیوں کے شبیہ نہ بنو جیسی تعبیروں کے ذریعے مسلمانوں میں پیدا ہونے والے فکری اور ثقافتی ناپسندیدہ اثرات کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اہل بیت علیہم السلام کے پیروکاروں نے بھی ان انحرافات کے مقابلے میں استقامت دکھائی اور خود کو گزند پہنچانے سے دور رکھا۔ آج استعماری طاقتوں کی جانب سے اسلام پر وارد ہونے والے اعتراضات کی جڑیں ان اسرائیلیات کے اندر پائی جاتی ہیں۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی برکت سے شیعہ کتابیں ان سے پاک ہیں۔
حجت الاسلام پاک نیا نے کہا کہ معاشرے میں مذاکرے کا ماحول پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔ معاشرے کے رہنما جدید طریقے پیش کرکے معاشرے کے رسم و رواج کو آگے بڑھاتے ہیں۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے زمانے جدید علوم متعارف کرائے اور غاصب حکمرانوں کے ایجاد کردہ انحرافی افکار سے اسلامی تمدن اور فرھنگ کو بچایا۔ آپ دین کا اصلی راستہ لوگوں کو دکھایا اور شبہات اور منحرف عقاید کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑے ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ دین میں حصول علم ایک اصل اور بنیادی امر ہے کیونکہ قرآن اور دین کو سمجھنا علم پر منحصر ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں کو علم حاصل کرنے کی تشویق کرتے ہوئے واجب قرار دیا۔ قرآنی تعلیمات میں علم حاصل کرنے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور علماء کو معاشرے میں فضیلت دی گئی ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ایک علمی تحریک شروع کی جس کی بنیادیں وحیانی اور نبوی علوم کے اندر پیوست ہیں۔ اگر آپ کی علمی محنتوں کو جدا کیا جائے تو اسلامی تمدن خطرات سے روبرو ہوجائے گا۔ اسلامی تمدن کو رونق اور شکوفائی عطا کرنے کے لئے اہل بیت کے علمی اثرات بہت ہی اہم اور قابل توجہ ہیں۔ شاگردوں اور ان علوم کے حافظوں اور وارثوں کی تربیت اسلامی تمدن کے تحفظ کے پہلووں میں سے ایک ہے۔
امام نے عملی طور پر مدارس کی تعمیر اور علمی محافل سجا کر علمی رجحان پر مبنی مذاکرے کی بنیاد رکھی اور اسے فروغ دیا۔ امام باقر علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام کے علمی اقدامات نے ایک ثقافت سے مالامال ایک مکتب کو وجود میں لایا جو بعد میں جعفری مکتب کے نام سے مشہور ہوا، یہ مکتبہ فکر جو باقاعدگی سے تمام شعبوں میں اہل بیت کے علوم کو پیش کرتا ہے، نصف صدی سے زیادہ ان دونوں شیعہ اماموں کی مسلسل محنت اور کوشش کا نتیجہ ہے۔
حوزہ علمیہ کے استاد نے مزید کہا کہ اس زمانے کے سیاسی معاشرے میں اس طرح کی پالیسی اختیار کرنا جب اموی اور بعد میں عباسی خلفاء اپنی حکومت کی بقا کے لیے کسی بھی قسم کی مخالفت برداشت کرنے کے لئے تیار نہ تھے، سیاسی اقدامات کے ساتھ ناممکن تھیں۔ امام نے اس دور میں اسلامی معارف کو بیان کیا اور دینی ثقافت کی ترویج کی۔ آپ خلافت کو اپنا اور اپنے آباء و اجداد کا حق سمجھتے تھے جس کو طاقت کے بل بوتے غصب کیا گیا تھا۔ آپ نے کھل کر حکمرانوں کی مخالفت کی اور ان کے خلاف موقف اپنایا۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے شیعوں اور اسلامی تمدن و تہذیب کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا۔ آپ اپنے زمانے کے معتبر ترین فرد شمار ہوتے تھے جس کا سب اعتراف کرتے تھے۔ اسی لئے ایران اور دوسرے علاقوں سے سینکڑوں لوگ مدینہ آکر آپ کی علمی محفلوں میں شرکت کرتے تھے۔ اہل بیت کی اس درسگاہ میں 4000 سے زائد طلباء نے استفادہ کیا۔
حجت الاسلام پاک نیا نے کہا کہ اگر علمی بنیادیں کمزور ہوں تو سب کچھ انحرافات اور شہات کے سیلاب میں بہہ جائیں گے۔ اس زمانے میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اس نکتے پر خصوصی توجہ کی اور دین اور مذہب کی علمی بنیادوں کو مستحکم کیا۔ شاگردوں کی تربیت اور علمی محافل سجا کر آپ نے بے نظیر اقدام کیا جو آج تک جاری ہے۔ آپ نے اپنے والد گرامی کے دور میں ہی معاشرے کو قریب سے مشاہدہ کیا تھا اور انحرافی افکار سے بخوبی واقف تھے۔ امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ نے امامت کا فریضہ سنبھالا اور علمی خدمات انجام دیں۔
انہوں نے کہا کہ امام علی مقام نے اگلے مرحلے میں بنی امیہ کے انحرافات کا مقابلہ کرنے کے لئے اسلامی علوم کی بنیاد رکھی۔ اگر یہ اقدام نہ کرتے تو بنی امیہ فکری اور ثقافتی انحرافات کے ذریعے دین کی جڑوں کو ہلاکر رکھ دیتے اور اس امت مسلمہ کو حقیقی راستے سے ہٹادیتے۔ آپ نے دانشوروں کے ساتھ علمی مذاکروں کے ذریعے دین کی بنیادوں کو سقوط سے نجات دی۔ آپ نے علم کو حقیقی پہچان اور شناخت عطا کی۔ آپ حقیقی معنوں میں علوم کے پردوں کو چاک کرنے والے تھے۔