حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت پر خطباء و مداحان اہل بیت علیہم السلام سے خطاب

Rate this item
(0 votes)
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت پر خطباء و مداحان اہل بیت علیہم السلام سے خطاب

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیۃ اللہ فی الارضین.

میرے اعتبار سے تو یہ جلسہ یہیں تک کافی ہے۔ واقعی ہم نے بہت استفادہ کیا اشعار سے بھی، مضمون سے بھی، مدح کے کلام سے بھی، انداز، آواز اور ہر چیز سے۔ سب سے پہلے صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت کی عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالی کو فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی حرمت کا واسطہ دیتا ہوں کہ ہمارے اندر اس عظیم ہستی کی معرفت میں روز افزوں اضافہ کرے۔ اسی طرح آپ کے فرزند ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے یوم ولادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے فاطمی جہاد بنحو احسن انجام دیا اور کامیابی سے آگے بڑھے۔ ہمارے عزیز الحاج قاسم سلیمانی کی شہادت کا دن بھی ہے۔ ان شاء اللہ خداوند عالم نے جو فضل و کرم خاندان پیغمبر پر کیا ہے، خاندان پیغمبر کے اس حقیقی پیرو کی روح پر بھی نازل فرمائے۔ ہمیں بھی ان سے ملحق کرے اور ان کی شفاعت سے بہرہ مند فرمائے۔

میں نے 'تشریح و بیان کے جہاد' کے بارے میں کچھ نکات آمادہ کیے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ اس نشست میں وہ افراد تشریف فرما ہیں جو تشریح و بیان کے جہاد کے نقیب بن سکتے ہیں۔ اہل بیت کے مداحوں اور مکتب اہل بیت کی مدح سرائی کرنے والوں کی نشست مجاہدانہ تشریح و بیان کی نشست ہے۔ آج میرا موضوع گفتگو یہی ہے۔ دامن وقت میں جتنی گنجائش رہی اسی مقدار میں۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ممتاز اور نمایاں خصوصیات میں سے ایک نمایاں خصوصیت فاطمہ زہرا کا تشریح و بیان کا جہاد ہے۔ آپ نے دو بڑے منفرد اور معروف خطبے ارشاد فرمائے۔ ان دو میں سے ایک تو آپ کا وہی معروف خطبہ ہے: «اَلحَمدُ لِلَّهِ عَلىٰ‌ ما اَنعَمَ وَ لہ الشُّکرُ عَلىٰ ما اَلھم»(۲) اصحاب کے درمیان یہ خطبہ دیا۔ اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ نہج البلاغہ کے اعلی ترین خطبات کے ہم پلہ ہے۔ جو ماہرین بلاغت ہیں، جنہیں اس کا ادراک ہے، انہوں نے یہ رائے قائم کی ہے۔ حقائق و معارف سے مملو ہے۔ آپ کا ایک اور معروف خطبہ وہ ہے جو آپ نے مہاجر و انصار خواتین کو مخاطب کرکے دیا۔اَصبَحتُ وَ اللہِ عائِفۃ لِدُنیاکُم قالِیۃ لِرِجالِکُم»(۳) یا عائِفۃ لِدُنیاکُنَّ قَالِیۃً لِرِجالِکُنَّ» (۴) یہ دونوں خطبے رحلت پیغمبر کے بعد کی مختصر سی مدت میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے جہاد تشریح و بیان سے عبارت ہیں۔

آپ نے صحابہ کے درمیان جو خطبہ دیا اس کے بارے میں مرحوم مجلسی رضوان اللہ علیہ نے مختلف سلسلہ رواۃ کا ذکر کیا اور کئی سندیں پیش کی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی دیگر علما نے معتبر اور اہم سند بیان کی ہیں۔ ابن ابی الحدید اس خطبے کو نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں شیعہ کتب اور شیعہ علما سے یہ چیزیں نقل نہیں کر رہا ہوں۔ میں اہل سنت راویوں کے حوالے سے نقل کر رہا ہوں۔ (5) وہ بیان کرتے ہیں کہ کس کے حوالے سے اس خطبے کو نقل کیا ہے اور وہ شخص 'ثقہ' یعنی معتبر راوی ہے۔ ساتھ ہی اس کی خصوصیات بھی بیان کی ہیں۔ وہ افراد کہ اس خطبے کی روایت جن کے ذریعے نقل ہوئي ہے چند لوگ ہیں۔ ان میں ایک جناب عائشہ ہیں۔ عائشہ حضرت زہرا کے خطبہ فدکیہ کے نقل کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔جناب زید ابن علی سلام اللہ علیہ و علی ابیہ سے منقول ہے کہ میں نے دیکھا کہ آل ابی طالب کے بزرگ افراد اسے اپنے آباء و اجداد سے نقل کرتے تھے اور اپنی اولاد کو  اس کے بارے میں بتاتے تھے تاکہ تاریخ میں یہ خطبہ محفوظ رہے۔ آپ کی عبارت اس طرح ہے: رَاَیتُ مَشایِخَ آلِ اَبی طالِبٍ یَروونہ عَن آبائہِم وَ یُعَلِّمونہُ اَبنائہُم۔ (۶) یعنی یہ خطبہ اس قدر معتبر ہے، اس درجے تک ہے۔ اس خطبے میں مضمون کے اعتبار سے فکری نظم اور محکم دلائل کے ساتھ ساتھ الفاظ کا استحکام، مایہ ناز زبان اور خاص ادبی کشش بھی شامل ہو گئی ہے۔ آپ ذرا تصور کیجئے کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اٹھارہ سال کی خاتون، بیس سال کی خاتون، آپ کی حد اکثر عمر پچیس سال ذکر کی گئی ہے۔ ان مصائب کو برداشت کرتے ہوئے ایسے خطبے دیتی ہیں کہ بلاغت کی دنیا کی عظیم ہستیاں انگشت بہ دنداں رہ جاتی ہیں اور اسے بڑی حیرت سے دیکھتی ہیں۔

ایسے الفاظ و معانی سے آراستہ خطبے میں آپ وہ حقائق بیان فرماتی اور سامنے لاتی ہیں کہ جو لوگوں کی نظروں سے دور تھے یا لوگ ان کی طرف سے غافل تھے۔ اس خطبے میں بڑے معارف ہیں۔ اس میں توحید ہے، نبوت ہے، مسئلہ امامت و ولایت ہے، عدل و انصاف کا موضوع ہے۔ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے پیغمبر کے بعد یہ سنت قائم کی۔ آپ کے فرزندوں نے اور خاندان پیغمبر نے آپ کی پیروی فرمائی۔ امیر المومنین علیہ السلام کے خطبے، امام حسین علیہ  السلام کا علما کو مخاطب کرکے دیا جانے والا خطبہ جو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والا حیرت انگیز خطبہ ہے: اَنتُم اَیَّتہَا العِصابۃُ عِصابۃٌ بِالعِلمِ مَشھورَة ــ(۷) کوفہ میں حضرت زینب کا خطبہ، امام سجاد کا شام میں خطبہ، امام صادق علیہ السلام کا عرفات میں خطبہ جس میں آپ نے امامت کا مفہوم بیان فرمایا ہے۔: اَیّہَا النّاسُ اِنَّ رَسولَ اللہِ کانَ ھو الاِمام ــ(۸) یہ سب اسی سنت کا تسلسل ہیں جس کی داغ بیل صدیقہ طاہرہ نے ڈالی۔ یہ خطبہ دینے کی سنت اور حقائق کی تشریح و بیان کی سنت یہاں سے شروع ہوئی اور آگے بڑھتی رہی۔ جہاں تک ممکن تھا۔ کچھ مواقع ایسے بھی تھے جہاں یہ ممکن نہیں تھا۔

بعد میں اہل بیت کے اتباع میں محبان اہل بیت میں ممتاز اور نمایاں سخنوروں نے بھی اسی روش کو اپنایا اور شعر کی زبان میں حقائق بیان کئے۔ دوسرے اور اوسط درجے کے شعرا نہیں بلکہ صف اول کے شعرا نے۔ یہ معروف شعرا جن کے بارے میں آپ سنتے ہیں کہ انہوں نے اہل بیت کی مدح کی، اپنے زمانے میں دنیائے عرب کے صف اول کے شعرا تھے۔ فرزدق اپنے زمانے میں صف اول کے شاعر ہیں۔ کمیت اسدی صف اول کے شاعر ہیں، سید حمیری صف اول کے ممتاز شاعر ہیں۔ دعبل خزاعی صف اول کے شاعر ہیں۔ ابو الفرج اصفھانی نے ان شعرا کے تذکرے لکھے ہیں۔ بیس سے زیادہ جلدوں پر مشتمل کتاب اغانی میں جب سید حمیری تک پہنچتے ہیں تو چونکہ سید حمیری نے کھلے عام پوری صراحت کے ساتھ مخالفین اہل بیت کی ہجو کی ہے، تو کہتے ہیں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ اس عظیم شاعر کے بارے میں کچھ باتیں کروں۔ کیونکہ واقعی یہ بہت عظیم ہیں، لیکن بعض صحابہ کے بارے میں انہوں نے کچھ ایسی باتیں کی ہیں کہ ان کو مد نظر رکھتے ہوئے میں زیادہ باتیں نہیں کروں گا بس تھوڑی مقدار میں کچھ باتیں بیان کروں گا۔ یہ 'تھوڑی مقدار' 50 صفحات پر مشتمل ہے۔ ان تمام شعرا سے زیادہ جن کا انہوں نے وہاں تذکرہ لکھا ہے۔ یعنی اس شاعر کی یہ عظمت ہے۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے علوم اہل بیت کو بیان کیا ہے۔ یہ صرف شاعری نہیں ہے، اہل بیت کی معرفتوں کو بیان کرنا ہے۔ یہ سارے نام جو میں نے ذکر کیے اور اسی طرح دوسرے بھی ہیں۔ دوسرے بھی بڑے عظیم شعرا ہیں، ان میں سب سے نمایاں یہ ہیں۔ وہ اس نہج پر چلے۔ یہ ائمہ علیہم السلام کے زمانے اور ائمہ کے بعد کی کچھ مدت کی تاریخ سے مربوط ہے۔

ہمارے زمانے میں تشریح و بیان کا جہاد کرنے والی سب سے عظیم ہستی امام خمینی تھے۔ تشریح و بیان کے جہاد کے ذریعے جو سب سے بڑا کام انجام پایا وہ کام ہمارے عظیم قائد امام خمینی نے کیا۔ تشریح و بیان کے جہاد سے امام خمنیی نے وہ کارنامہ کیا کہ دوسرے افراد سافٹ پاور یا ہارڈ پاور کسی بھی شکل میں نہ تو انجام دے سکتے تھے اور نہ انہیں ایسی کوئی امید تھی۔ امام خمینی نے زبان سے اور منطقی بیان سے یہ کارنامہ انجام دیا۔ تشریح و بیان کا جہاد یہ ہوتا ہے۔ امام خمینی نے تحریک کے پہلے دن سے بیان کا سلسلہ شروع کیا تو اس دن تک جب آپ یہاں بہشت زہرا (تہران کا قبرستان) آئے اور کہا کہ میں اس حکومت کا منہ توڑ دوں گا، میں حکومت تشکیل دوں گا۔ (9) سب کچھ تشریح و بیان کے جہاد کے ذریعے ہوا۔ تشریح و بیان کے جہاد کے ذریعے آپ نے کیا کام کئے؟ تشریح و بیان کے جہاد کے ذریعے انہوں نے دیرینہ بد عنوان شرمناک ڈکٹیٹر اور استبدادی موروثی سلطنتی حکومت کو مٹا دیا اور اسلامی و دینی جمہوری حکومت تشکیل دی۔ تشریح و بیان کا جہاد ایسا ہوتا ہے۔ اس کی اتنی اہمیت ہے۔ یہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا سبق ہے جو اس طویل مدت میں جاری رہا اور امام خمینی تک پہنچا۔

علمائے دین کی جدوجہد اور علما کی تحریک کے زمانے میں کچھ دوسرے دھڑے بھی تھے جو کوشش کرتے تھے، کام کرتے تھے، محنت کرتے تھے، اسلحہ اٹھا کر میدان میں اتر پڑتے تھے۔ لیکن وہ کچھ نہیں کر پائے۔ یا کچل دئے گئے یا اپنے راستے سے بھٹک گئے۔ تشریح و بیان اسلامی جہاد و تحریک کی پہچان تھی۔ تہران میں ہم دوستوں کی نشست میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مشہد کا رہنے والا ایک نوجوان تھا، اسے میں پہچانتا تھا کہ وہ ان مسلح مارکسسٹ گروہوں میں شامل تھا۔ یکبارگی کسی کام سے وہاں آیا۔ اس سے ہماری بات شروع ہوئی۔ تھوڑی دیر بات ہوئی۔ یہ لوگ اس زمانے میں 'گروہ جنگل' کے نام سے معروف تھے۔ میں 1968 یا 1969 کی بات بتا رہا ہوں۔ میں نے کہا کہ آپ جب یہ سارے کام کر رہے ہیں تو عوام سے بات کیجئے۔ عوام کو معلوم ہی نہیں کہ آپ کون لوگ ہیں۔ اس نے کہا بھائی! یہ سب چیزیں اسلام اور مسلمانوں کی ہیں! یعنی انہیں تشریح و بیان کے جہاد پر کوئی یقین نہیں تھا۔ اس کی بات صحیح تھی۔ یہ ہماری روش تھی، اسلام کی روش تھی۔ ان کے پاس عوام کو قائل اور مطمئن کرنے والی باتیں نہیں تھیں، اس لئے وہ کامیاب نہیں ہوئے، مغلوب ہو گئے، کچل دئے گئے، ان میں بہت سارے تو منحرف ہو گئے۔ مگر امام خمینی نے تشریح و بیان کا راستہ اختیار کیا اور یہاں تک پہنچایا۔ یہ راستہ آج بھی جاری ہے۔

میں کیا عرض کرنا چاہ رہا ہوں؟ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج تشریح و بیان کے جہاد کی ذمہ داری آپ مداحان اہل بیت کے دوش پر ہے۔ حضرت صدیقہ طاہرہ کے ذریعے شروع کیے جانے والے اس مشن کو آج آپ آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہمیشہ ذہن میں رکھئے کہ اہل بیت کی مداحی سے کیا مراد ہے۔ مداحی سے مراد ان ہستیوں کے مشن کو انجام دینا ہے جنہوں نے تاریخ میں، اہل بیت کے دور میں مذہب کی حفاظت کی، تشیع اور شیعہ فکر کی حفاظت کی، یا ہمارے اس دور میں دنیا کو بدل دیا۔ ملک کے نظام کو طاغوتیت سے اسلامیت میں تبدیل کر دیا۔ یہ شعبہ اسی نورانی شعبے کا تسلسل ہے جس کا آغاز ان ہستیوں نے کیا۔ مداحی کو آپ اس نظر سے دیکھئے۔

مداحی کا ہنر اور 'ہیئت' نام کی یونٹ (ماتمی انجمن سے مشابہ) جس کا محور و مرکز مداح ہوتا ہے اور مداح کے ساتھ واعظ ہوتا ہے، یہ اسلامی معاشرے کی سافٹ پاور کا بہت اہم حصہ ہے۔ سافٹ پاور کا اثر و رسوخ ہارڈ پاور سے زیادہ ہوتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں جیسے امریکا جس کے پاس ایٹم بم ہے، گوناگوں پیشرفتہ اسلحے ہیں، بہت اہم سرمایہ کاری آرٹ، سنیما، ہالی وڈ اور تشہیرات وغیرہ پر کرتا ہے؟ کیوں؟ کیونکہ سنیما سافٹ پاور ہے، داستان نویسی اور فلم سافٹ پاور کا حصہ ہے۔ یہ چیز ہے جو اثر رکھتی ہے۔ ہارڈ پاور کا اثر عارضی ہوتا ہے اور بعد میں زائل ہو جاتا ہے۔  ہارڈ پاور کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ آتا ہے افغانستان میں بیس سال ٹھہرتا ہے، اربوں خرچ کرتا ہے اور آخر میں عوام کی شدید نفرت کے ماحول میں افغانستان سے فرار ہو جاتا ہے۔ یہ ہارڈ پاور ہے۔ ہارڈ پاور یعنی یہ کہ امریکہ تمام تر وسائل کے ساتھ آتا ہے اور پورے عراق پر قبضہ کر لیتا ہے، عراق کی حکومت گرا دیتا ہے اور اقتدار کی کرسی پر خود بیٹھ جاتا ہے اور تقریبا بیس سال بعد آج عراق میں سب سے زیادہ نفرت انگیز حکومت امریکی حکومت ہے۔ یہ ہارڈ پاور ہے۔ سافٹ پاور یعنی ایک گروہ جو بظاہر اقلیت میں ہے لیکن اس کا روحانی و معنوی اثر بہت ہے، وہ ساری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کر لیتا ہے۔ آج آپ دیکھئے کہ مظلوم فلسطینی جن کے پاس دفاع نفس کے لئے اسلحہ نہیں ہے، اپنی مظلومیت سے، اپنے صبر سے اور اپنی استقامت سے ساری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کر لینے میں کامیاب ہوئے۔ یعنی ہارڈ پاور اور سافٹ پاور کا فاصلہ اتنا زیادہ ہے، دونوں کی تاثیر میں اس قدر فرق ہے۔

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مدحیہ کلام اور مرثیے سے مربوط صنف یعنی یہی مداح حضرات کی صنف جو اسلامی معاشرے کی سافٹ پاور کا ایک مجموعہ اور ایک حصہ ہے، اسے یاد رکھنا چاہئے کہ اس کا کیا کام ہے، اسے کیا کرنا ہے اور اس کا فرض کیا ہے۔ اسلامی معارف و علوم آپ کے شعبے کے اصلی مضامین ہیں۔ تاریخ اہل بیت، آپ کے کام کے اصلی مضامین ہیں، مصائب اہل بیت بھی آپ کے کام کے اصلی مضامین ہیں۔ یہ سارے مضامین بہترین زبان اور بہترین اسلوب میں انہیں خصوصیات کے ساتھ کہ جس کا آپ شیعہ تاریخ میں تشریح و بیان کے جہاد کے اندر مشاہدہ کرتے ہیں، آج بھی بیان کئے جائیں۔ توقع یہ ہے۔ اگر قرآن کی پرکشش تلاوت ہو، اچھے اشعار بہترین آواز اور انداز میں پیش کئے جائیں، اس اچھی آواز اور دلکش آہنگ میں صحیح اور اعلی مضامین پیش کئے جائیں تو دنیا کے بہت سارے ہارڈ پاور سے اس کا رسوخ زیادہ ہوگا، اس کی تاثیر زیادہ ہوگی۔ اس چالیس پینتالیس سال میں اسلامی جمہوریہ اسی انداز سے آگے بڑھی ہے۔ اسلامی جمہوریہ کا تکیہ اور اعتماد ہارڈ پاور سے زیادہ سافٹ پاور پر ہے۔ آپ یقینا جانتے ہیں کہ میں ضرورتوں کے مطابق اور دشمن کی توانائیوں کے مطابق پیشرفتہ اسلحہ جات پر یقین رکھتا ہوں اور اس کی کوشش میں رہتا ہوں لیکن میرا نظریہ یہی ہے کہ ہارڈ پاور اور اسلحہ جات کے ساتھ فکری ہتھیار، زبانی قوت اور محکم و مدلل منطق کا ہتھیار ہمارے بیچ پھیلنا چاہئے۔ یہ ہماری توقع ہے۔ ہمیں اپنے شعرا سے توقع ہے، اپنے مداح حضرات سے توقع ہے، خوش الحان گلوکاروں سے توقع ہے۔

اس سافٹ پاور کے دو اہم انڈیکیٹر ہیں جن پر پوری توجہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ یعنی آپ اپنی کارکردگی کو ان دو پیمانوں کے ذریعے تولیے۔ جذبات برانگیختہ کر دینے اور حرکت پیدا کر دینے کی صلاحیت اور دوسری چیز صحیح سمت اور دقت نظر۔ یعنی ہدف بالکل درستگی کے ساتھ معین کیا جائے۔ دیکھئے ایک چیز جس پر ہم نے اپنے میزائلوں میں بھی بڑی توجہ دی ہے اور اس میں کامیاب بھی رہے ہیں، وہاں پہنچ چکے ہیں، صحیح نشانہ لگانا ہے۔ یعنی دو ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر ایک نشانہ لگاتا ہے اور عین اسی پوائنٹ پر جاکر گرتا ہے۔ یعنی اس پوائنٹ سے دس میٹر ادھر یا دس میٹر دوسری طرف نہیں! جو کام آپ انجام دے رہے ہیں اس میں بھی آپ اپنا نشانہ اس طرح لگائیے۔ یہ دونوں پیمانے مد نظر رکھئے۔ ایک تو یہ دیکھئے کہ جو باتیں آپ پیش کر رہے ہیں وہ کس حد تک جذبات و احساسات کو حرکت میں لا سکتی ہیں، دلوں کو کس قدر متاثر کر سکتی ہیں، کتنی حرکت پیدا کر سکتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ اس میں دقت نظر کتنی ہے۔ اقدام میں دقت نظر بہت اہم ہوتی ہے۔ کبھی یہ ہوتا ہے کہ ہم اچھا کام کرنا چاہتے ہیں، مگر جب بات کرتے ہیں تو اس بات کی نزاکتوں پر توجہ نہیں دیتے۔ نتیجتا ایسے وقت میں جب دنیائے اسلام کو اتحاد کی اشد ضرورت ہے اختلاف پیدا کر دیتے ہیں، خلیج پیدا کر دیتے ہیں۔ یہ دقت نظر نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ میری تاکید ہے کہ دینی معارف کو سمجھنے اور انہیں بیان کرنے میں دقت نظر سے کام لیا جائے۔ خوش قسمتی سے آج ہمارے ذاکرین اور مداح حضرات کی بڑی تعداد تعلیم یافتہ، پڑھی لکھی اور علمی مدارج طے کرنے والی، عربی داں، عربی فہم ہے، ان میں بہت سے ہیں جو قرآن سے بہت مانوس ہیں، روایتوں سے مانوس ہیں۔ آج یہی تو صورت حال ہے۔ آج مداح حضرات کی صنف ہماری نوجوانی کے ایام کے مداح حضرات جیسی نہیں ہے۔ مداحوں کی صنف عالی مرتبت اور پائے کی صنف ہے۔ ہماری توقع یہ ہے کہ معارف کو دقت نظر کے ساتھ، درستگی کے ساتھ مدح سرائی اور مرثیہ خوانی کے اسی ممتاز انداز میں سامعین تک منتقل کیا جائے۔ ہماری توقع یہ ہے۔

احادیث کی کتب سے آشنائی حاصل کیجئے، انسیت حاصل کیجئے، نہج البلاغہ سے خود کو مانوس کیجئے۔ نہج البلاغہ معارف و علوم کا سمندر ہے۔ نہج البلاغہ کے خطبوں کو جب آپ دیکھتے ہیں، خاص طور پر نہج البلاغہ کے بعض خطبے علم و معرفت میں اس طرح ڈوبے ہوئے ہیں کہ اس کے ایک لفظ کو انسان پھیلا سکتا ہے اور پوری ایک قوم کو متحرک کر سکتا ہے۔ صحیفہ سجادیہ سے خود کو مانوس کیجئے۔ صحیفہ سجادیہ کا قالب تو دعا کا قالب ہے، اس کے مندرجات میں تضرع ہے، دعا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس میں دینی معارف کا دریا موجزن ہے۔ صحیفہ سجادیہ مکتب اہل بیت میں بڑی حیرت انگیز شئے ہے۔ آپ غور کیجئے امام سجاد علیہ السلام صحیفہ سجادیہ میں سرحدوں کے محافظوں کے لئے دعا فرماتے ہیں۔ ایک دعا ہے جو سرحدوں کے محافظوں کے لئے ہے۔ اس وقت یہ کون لوگ تھے؟ ظاہر ہے کہ بنی امیہ کے سپاہی تھے۔ ان کے لئے دعا فرماتے ہیں۔ سرحدوں کا محافظ پھر سرحدوں کا محافظ ہے، اسلامی مملکت کی سرحدوں کی حفاظت کر رہا ہے، وہ کوئی بھی ہو۔ سرحدوں کے محافظ کے لئے دعا کرتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے سبق ہے۔

دنیائے اسلام کی سرحد آج غزہ میں ہے۔ دنیائے اسلام کی نبض آج غزہ میں دھڑک رہی ہے۔ وہ دنیائے کفر، دنیائے طاغوت، دنیائے استکبار کے مقابلے میں اور امریکا کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کا مد مقابل فریق صرف صیہونی حکومت نہیں ہے۔ امریکی صدر (10) صریحی طور پر کہتا ہے کہ میں ایک صیہونی ہوں۔ (11) وہ صحیح کہہ رہا ہے۔ وہی خباثت جو صیہونیوں میں پائی جاتی ہے ان کے اندر بھی موجود ہے۔ وہی مذموم اہداف جو ان کے ہیں اس شخص کے ذہن میں بھی ہیں۔ غزہ کے عوام ان لوگوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہمیں پتہ ہونا چاہئے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ خصوصیات میں سے ایک یہی ہے کہ تشریح و بیان کے مجاہد کو معلوم ہوتا ہے کہ آج اسے کیا چیز بیان کرنا ہے۔ اسے در پیش مسئلے کا علم ہونا چاہئے۔ آج آپ غزہ کو بیان کیجئے۔ آج آپ کو چاہئے کہ اسلامی نظام سے ہونے والی دشمنیوں کو بیان کریں۔ اسلامی جمہوریہ کے خلاف کئی طرح کی دشمنیاں برتی جا ہی ہیں، دشمنانہ اقدامات کئے جاتے ہیں۔ فوجی و اسلحہ جاتی اقدامات وغیرہ کی جو بات ہے تو دشمن اسے اپنے لئے مناسب نہیں سمجھ رہا ہے۔ لیکن سافٹ پاور کے لحاظ سے، صرف امریکہ نہیں بلکہ امریکہ کے پچھلگو اور اسلام کے مخالفین بھی فلم بناتے ہیں، جھوٹا پرچار کرتے ہیں اسلام کے خلاف اسلامی نظام کے خلاف۔ سینہ سپر ہوکر کھڑا ہو جانا چاہئے۔

 انتخابات ہمارے سامنے ہیں۔ (12) کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ انتخابات اس انداز سے ہیں جو اس ملت کے شایان شان ہے۔ کوشش کر رہے ہیں کہ عوام میں مایوسی پھیلائیں، بے اعتمادی پیدا کریں، یہ تاثر دیں کہ انتخابات کا کوئی فائدہ ہی نہیں، کوئی اثر ہی نہیں ہے۔ ایسے افراد کے مقابلے میں تشریح و بیان کا جہاد ڈھال بن کر کھڑا ہو جائے۔ ان کے مقابلے میں حقائق کو بیان کیا جائے۔ کچھ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ملکی نظم و نسق چلانے میں عوام کا کردار جو در اصل ملک میں دینی جمہوریت کے نفاذ کو ثابت کرنے کا ذریعہ ہے، کمزور پڑ جائے، تاکہ بزرگوار امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی بات غلط ثابت ہو جائے۔ ان کا ہدف یہ ہے کہ وعدہ خداوندی کو جھوٹا ثابت کر دیں۔ یہ مخاصمانہ روش ہے۔ اس معاندانہ روش کا مقابلہ کرنے کے لئے محنت کرنا چاہئے۔ جو بھی انتخابات کی مخالفت کرے گویا اس نے اسلامی جمہوریہ کی مخالفت کی ہے، اسلام کی مخالفت کی ہے۔ انتخابات ایک فریضہ ہے۔ یہ ایک اہم کام ہے، آج انتخابات کے تعلق سے اپنی ذمہ داری کا ادراک تشریح و بیان کے جہاد کے میدان کی مجاہد صنف کا ایک ہنگامی کام ہے۔

جب کچھ لوگ عوام میں اسلامی نظام کے بارے میں بدگمانی پیدا کرتے ہیں، عوام کو مستقبل کے تعلق سے مایوسی میں مبتلا کرتے ہیں، تو اسلامی نظام کے اندر جو ایک مضبوط پہلو ہوتا ہے وہ کمزوری میں بدل جاتا ہے۔ اسلامی نظام کا ایک اہم پہلو بد عنوانی سے لڑنا ہے۔ جیسے ہی کہیں کسی بد عنوانی کا پتہ چلتا ہے اور حکومت اور عہدیداران، عدلیہ کے عہیدیدار اور دوسرے افراد اس کے خلاف کارروائی کرنے کا ارادہ کرتے ہیں، کہ جو ایک مضبوط پہلو ہے، یہ بدعنوانی کے خلاف کارروائی ہے، تو اسی اثنا میں کچھ لوگ نمودار ہوتے ہیں جو یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ جناب! دیکھئے یہاں تو بدعنوانی پھیلی ہوئی ہے! ہاں صحیح بات ہے، بد عنوانی موجود ہے، مگر جو چیز کمزوری اور خامی شمار ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ بد عنوانی کو خاموشی سے برداشت کیا جانے لگے، بد عنوانی کا ساتھ دیا جائے۔ اگر بدعنوانی کے خلاف سختی سے کارروائی کی گئی تو یہ تعمیری پہلو ہے۔ اسی مضبوطی اور تعمیری پہلو کو کمزوری میں بدل دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے عناصرکے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہو جانا چاہئے۔ بزرگوار امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) ہرگز رعایت نہیں برتتے تھے، ہم کبھی کبھی رعایت برتتے تھے، لیکن امام خمینی کوئی رعایت نہیں دیتے تھے۔ بالکل صراحت کے ساتھ واضح لفظوں میں بات بیان کر دیتے تھے، جو بیان کرنا ضروری ہوتا تھا اسے بیان کر دیتے تھے۔ لوگوں کا نام بھی ذکر کر دیتے تھے، دھڑوں اور پارٹیوں کا نام ذکر کر دیتے تھے، تاکہ عوام کو پورا علم ہو جائے۔ اسی طرح سے امام خمینی اسلامی نظام کے ستونوں کو مضبوط کرنے میں کامیاب ہوئے۔ چالیس سال سے زیادہ وقت ہو چکا ہے لیکن آج بھی بحمد اللہ یہ عمارت رفعت حاصل کرتی چلی گئی ہے اور آئندہ بھی اس کی بلندی میں اضافہ ہوگا۔

ملت ایران کو اسلام سے محبت ہے۔ ملت ایران کو خود مختاری پسند ہے، قومی وقار پسند ہے۔ ملت ایران بڑی طاقتوں کی فرماں بردار بننے سے بیزار ہے۔ اسے یہ کلنک محسوس ہوتا ہے کہ طاغوتی شاہی دور کی طرح امریکی اور دوسری طاقتیں آکر اس ملت کے سامنے اترائیں اور اس پر حکم چلائیں۔ ملت ایران یہ چیزیں برداشت کرنے والی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کی پشت پناہ بن کر کھڑی ہے۔ کیونکہ اسلامی جمہوریہ کا نعرہ قومی وقار کا نعرہ ہے، قومی خود مختاری کا نعرہ ہے، قومی پیشرفت کا نعرہ ہے۔ یہی اسلامی جمہوریہ کے نعرے ہیں۔ ملت ایران کو ان سے لگاؤ ہے اور یہ راستہ اللہ کا راستہ ہے۔ جو راہ خدا ہے اور اللہ کے بندے جس پر چلتے ہیں اس سے کوئی بھی طاقت انہیں پیچھے نہیں ہٹا سکتی۔

تشریح و بیان کے قیمتی جہاد کو پوری توانائی اور قوت کے ساتھ ان شاء اللہ جاری رکھئے۔ اس گراں قدر میراث کو اپنے بعد والی نسل کو منتقل کیجئے۔ اگر نوجوانوں کو احساس ہو جائے کہ ان کے پیشرؤوں کے تعلق سے ان کا فریضہ کئی گنا زیادہ ہے تو ان شاء اللہ ہم روز بروز زیادہ پیشرفت کا مشاہدہ کریں گے۔

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۱ اس ملاقات کے آغاز میں کچھ شعرا اور مداحوں نے اہل بیت علیہم السلام کی مدح میں کلام پیش کیا۔

۲ بحارالانوار، جلد ۲۹، صفحہ ۲۲۰

۳ معانی ‌الاخبار، صفحہ ۳۵۴

۴ امالی طوسی، صفحہ ۳۷۴، مجلس نمبر 13

۵ شرح نهج‌ البلاغه، جلد ۱۶، صفحہ ۲۱۰

۶ ابن‌ ابی‌ الحدید. شرح نهج‌ البلاغه، جلد ۱۶، صفحہ ۲۵۲

۷ تحف‌ العقول، صفحہ ۲۳۷

۸ اقبال‌الاعمال، جلد ۱، صفحہ ۳۳۰

۹ صحیفه‌ امام، جلد ۶، صفحہ ۱۶؛ تہران کے قبرستان بہشت زہرا میں 1 فروری 1979 کا خطاب

۱۰ جو بائیڈن

۱۱  منجملہ جو بائیڈن کا دسمبر 2023 میں 'حانوکا' نام کی یہودیوں کی عید کے دن کا خطاب۔

۱۲ بارہویں پارلیمنٹ کے انتخابات اور ماہرین اسمبلی کے چھٹے دور کے انتخابات جو 1 مارچ 2024 کو منعقد ہونے والے ہیں۔  

Read 230 times