ايران کے خلاف مغربي اور صيہوني حلقوں کي پروپيگنڈہ مہم جو ناوابستہ تحريک کے سربراہي اجلاس کے وقت اپنے عروج پر تھي، اجلاس کي کاميابي کے بعد پھيکي پڑگئي ہے ليکن دوسري شکل ميں اب بھي جاري ہے -
صيہوني حلقوں کي کوشش ہے کہ وہ ايران کے خلاف بعض اسرائيلي حکام کے دھمکي آميزبيانات کا سہارا بنا کر اپني اس خفت اور شکست کا رائے عامہ کے سامنے ازالہ کريں جو انہيں ايران ميں ناوابستہ تحريک کے اجلاس کي راہ میں رکاوٹيں کھڑي کرنے کے سلسلے ميں نصيب ہوئي ہے -
اس درميان ايک اسرائيلي اخبار نے خبر دي ہے کہ امريکا نے ايران کے ساتھ پس پردہ رابطہ کرکے اسرائيل اور ايران کے درميان جنگ کو ٹالنے کے لئے کچھ شرطيں عائد کي ہيں - مبصرين اس طرح کي خبر کو صيہوني ذرائع ابلاغ کي اسي کوشش کا نام دے رہے ہيں جس کے ذريعے وہ ايران کے مقابلے ميں اسرائيلي حکام کي خفت و شکست کا ازالہ کرنا چاہتے ہيں
-
اسرائيلي اخبار يديعوت آحرو نوت نے لکھا ہے کہ امريکا نے بالواسطہ طور پر دو يورپي ملکوں کے ذريعے ايران کو پيغام دلوايا ہے کہ اسرائيل کي طرف سے حملے کي صورت ميں اگر ايران جواب ميں خليج فارس ميں امريکي فوجي اڈوں پر جوابي کاروائي کرنے سے گريز کرے تو امريکا اس جنگ ميں اسرائيل کا ساتھ نہيں دے گا-
وائٹ ہاؤس کے ترجمان کارني نے اس خبر کو غلط قرارديتے ہوئے کہاکہ اس رپورٹ ميں س`چائي نہيں ہے- انہوں نے کہا کہ وہ اس طرح کي فرضي باتوں پر کوئي تبصرہ نہيں کرنا چاہتے ليکن ساتھ ہي وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے يہ بھي کہا کہ ايران کو ايٹمي ہتھياروں تک رسائي سے روکنے کے لئے امريکا اور اسرائيل کے درميان کوئي اختلاف نہيں پايا جاتا -
امريکي اخبار نيويارک ٹائمز نے باراک اوباما کے بعض مشيروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ اوباما کو چاہئے کہ وہ کھل کر اسرائيل کو اس بات کا اطمينان دلائيں کہ اگر ايران ايٹمي ہتھياروں کي ساخت کے قريب پہنچتا ہے تو وہ فوجي کاروائي کريں گے –
اس کے برخلاف امريکا کے بعض ديگر اعلي حکام کا کہنا ہے کہ اسرائيل امريکي صدر باراک اوباما کو ايران کے خلاف فوجي کاروائي ميں تل ابيب کا ساتھ دينے کا وعدہ کرلينے پر مجبور کررہا ہے جبکہ اس کي کوئي ضرورت بھي نہيں ہے-
اس سے پہلے امريکي فوج کے سربراہ جنرل ڈيمپسي نے کہا تھا کہ امريکي حکومت ايران کے ايٹمي مراکز پر اسرائيل کے ممکنہ حملے ميں اسرائيل کا شريک نہيں بننا چاہتي - يہ بيان ايران کے خلاف امريکا اور اسرائيل کي مشترکہ اسٹريٹيجي کا ايک حصہ ہے اور ايران کے خلاف امريکا اور اسرائيل کي پاليسي درحقيقت ايک ہي سکے کا دو رخ ہے اور جب امريکي صدر باراک اوباما اسرائيلي حکام کو اس بات کا يقين دلاتے ہيں کہ امريکا اور اسرائيل کے درميان نہ ختم ہونے والا مضبوط رشتہ قائم ہے تو اس وقت اسي خيال اور نظريئے کي تصديق ہوتي ہے –
بنابريں سياسي مبصرين کا کہنا ہے کہ صيہوني حکومت کے بيانات ايران کے خلاف مہم جوئيوں کے مقابلے ميں اسرائيلي فوج کي پريشاني کي غمازي کرتے ہيں - کيونکہ اسرائيل اس پوزيشن ميں نہيں ہے کہ وہ ايران کے خلاف فوجي کاروائي کي جرآت و ہمت کرسکے –
اسي لئے موجودہ صورتحال ميں اسرائيلي حکام، ايران کے خلاف تشہيراتي مہم ميں دو اہم اہداف حاصل کرنا چاہتے ہيں-
ان کا پہلا مقصد يہ ہے کہ وہ اس طرح ايران کي پرامن ايٹمي سرگرميوں کے خلاف ماحول تيار کريں تاکہ ايران کے خلاف پابنديوں اور دباؤ ميں شدت آئےاور دوسرا مقصد يہ ہے کہ امريکا سے مزيد مالي اور فوجي امداد حاصل کريں کيونکہ اسرائيلي حکام اچھي طرح جانتے ہيں کہ باراک اوباما کو آئندہ صدارتي انتخابات ميں جو نومبر ميں ہونےوالے ہيں، صہيوني لابي کي حمايت کي سخت ضرورت ہے-