رہبرمعظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی موجودگی میں حوزہ علمیہ اور یونیورسٹیوں کے 150 ممتاز ماہرین، اساتید، محققین اور مؤلفین کا چوتھااسٹراٹیجک اجلاس منعقد ہوا جس میں آزادی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔
اس سے قبل تین اسٹراٹیجک اجلاس منعقد ہوچکے ہیں جن میں "اسلامی – ایرانی پیشرفت کے نمونے"، " عدل و انصاف"، اور "عورت وخاندان " کے موضوعات کا جائزہ لیا گیا۔ اسٹراٹیجک اجلاس کا مقصد طویل مدت اور اسٹراٹیجک امور کے بارے میں فیصلہ اورباہمی نظریات اور گفتگو کے لئے مؤثر علمی اور فکری ماحول بنانا ہے۔
اس اجلاس میں 10 ممتاز ماہرین نے آزادی کے بارے میں اپنے خیالات اور نظریات پیش کئے اس کے بعد 17 محققین اور اساتذہ نے بیان شدہ نظریات پر تنقیدی مباحثہ پیش کیا۔
اس اجلاس میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں ملک کی عام فضا ،مسائل اور اقتصادی مشکلات جو عالمی استکبار کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے مقابلے کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: قدرتی طور پر عوام کو درپیش مشکلات سے کوئی بھی شخص غافل نہیں ہے لیکن یہ اجلاس موضوع کی اہمیت اور پہلے سے طے شدہ پروگرام کی وجہ سے اور طویل مدت منصوبوں کا جائزہ لینے کی غرض سے منعقد ہوتا ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک کے بنیادی مسائل میں غور و فکر کے سلسلے میں ملک کی شدید ضرورت کو اسٹراٹیجک اجلاس منعقد کرنے کے اصلی علل و اسباب اور اہداف قراردیتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم بحر موّاج کی طرح پیشرفت و ترقی کی سمت گامزن ہے، اور اسے اساسی اور بنیادی امور میں افکار کے فعال ہونے اور غور و خوض کی سخت ضرورت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نےسماج کے بنیادی اور اساسی امور میں اہم سوالات کے جوابات دینے کے سلسلے میں ممتاز شخصیات اور دانشوروں کے ساتھ براہ راست رابطہ کو اسٹراٹیجک اجلاس منعقد کرنے کا ایک دیگر ہدف قراردیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس اجلاس کو فکر ونظر کی وسعت کا باعث قراردیتے ہوئے فرمایا: ضروری ہے کہ اس اجلاس کے بعد اصلی کام شروع ہوجائے اور حوزہ علمیہ اور یونیورسٹیوں کے دانشوروں ، مفکرین اور محققین کو اس سلسلے میں بیان شدہ مطالب میں مشغول ہوجانا چاہیے کیونکہ وہ فکر و نظر کے جاری اورابلتے ہوئے چشمہ ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک میں آزادی کے موضوع کے مختلف پہلوؤں کی تشریح اور شناخت میں بہت سی خامیوں اور کمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حالیہ صدیوں میں مغربی ممالک میں دیگر موضوعات کی نسبت فکری لحاظ سے آزادی کے موضوع پر بہت زيادہ توجہ دی گئی ہے اور اس کی کلی علت وہ واقعات اور حوادث ہیں جو مغربی ممالک میں اس موضوع کے بارے میں فکری طوفان برپا کرنے کا موجب بنے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےمغرب میں " ادبی و ثقافتی دور، صنعتی انقلاب، فرانس کے بڑے انقلاب اور سویت یونین کے اکتوبر کے انقلاب " کو مغربی ممالک میں آزادی کے سلسلے میں وسیع پیمانے پر فکری امواج پیدا کرنے کے اصلی عوامل اور حوادث قرار دیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: مغربی ممالک کے برعکس ہم نے آزادی کے سلسلے میں مشروطیت سے قبل کوئی فکری موج پیدا نہیں کی اور یہ حالت بھی ہمارے روشن خیال افراد کی مغرب کے روشن خیال افراد کی تقلید کا ہی سبب بنی جو آزادی کے موضوع کے بارے میں کسی خاص نتیجہ تک نہیں پہنچ سکی ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں فرمایا: جب آپ دوسروں سے علم و دانش کو کسی جذبے کے تحت حاصل کرتے ہیں اور وہ فکر و نظر کے ہمراہ بھی ہو تو اس سے فکری پیداوار وجود میں آتی ہے لیکن اگر آپ نے کسی جگہ سے تقلید کرتے ہوئے بغیر فکر و نظر کے کچھ حاصل کیا تو اس سے کوئی فکر پیدا نہیں ہوگی اور آزادی کے موضوع میں مغربی روشن خیال افراد کی تقلید اسی حقیقت کی اساس پر ہے اور اسی وجہ سے مشروطہ کے بعد بھی کوئی نیا اور منظم نظریہ وجود میں نہیں آیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےاسلامی مآخذ میں آزادی کے بارے میں فراواں مطالب اور موضوعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلام میں ان تمام موضوعات اور مطالب کے باوجود آزادی کے باب میں بہت بڑا خلاء موجود ہے اور ہمیں آزادی کے بارے میں سوالات اور اہم مسائل کا جواب دینے کے لئے نئے نظریہ کی سمت حرکت کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اس کام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سنجیدگی اور اسلامی اور مغربی مآخذ پر مسلط ہونے کی ضرورت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس اجلاس کے موضوع کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: آزادی سے اس کے یہی رائج اور متداول معنی مراد ہیں جو یونیورسٹیوں اور مغربی محافل میں استعمال کئے جاتے ہیں جو انفرادی اور اجتماعی آزادی پر محیط ہیں اور اس سے معنوی ، سیر و سلوک الی اللہ مراد نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آزادی سے مطلق رہائي و انحراف مراد لینے والے افراد پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا: آزادی کے بارے میں بحث کرتے وقت محدودیتوں سے نہیں گھبرانا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہم آزادی کی بحث میں اسلام کے نظریہ کی شناخت کی تلاش و جستجو میں ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آزادی کے بارے میں اسلام اور مغرب کے نظریہ میں اہم فرق و تفاوت کو آزادی کی بحث کی بنیاد اور اساس قراردیتے ہوئے فرمایا: لبرل نظریہ کے مطابق آزادی کا منشاء وہی انسانی رجحان یا اومانیزم ہے جبکہ اسلام میں آزادی کا نظریہ توحید یعنی اللہ تعالی پر اعتقاد اور کفر یعنی طاغوت کے انکار پر استوار ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اسلام کے نظریے کے مطابق انسان، اللہ تعالی کی بندگي اور عبودیت کے علاوہ تمام قیود سے آزاد ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےانسانی کرامت کو اسلام میں آزادی کےدیگر اصلی اصولوں میں قراردیا اور اسلامی مآخذ میں " قرآن میں حق" ، " فقہ و حقوق میں حق " ،" تکلیف " اور "گرانقدر نظام " میں آزادی کی بحث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: قرآن میں "حق " منظم اور با مقصد مجموعہ کے معنی میں ہے اور اس لحاظ سے عالم تکوین اور عالم تشریح دونوں حق ہیں۔ انسان کی آزادی حق ہے جو باطل کے مقابل قرار پاتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حقوق و فقہ میں آزادی کو مطالبہ کرنے کی توانائي پیدا کرنے کے معنی میں قرار دیا اور تکلیف کے لحاظ سے آزادی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس لحاط سے انسان کو اپنی اور دوسروں کی آزادی کی تلاش کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے " اسلام میں آزادی کے مفہوم " کے بارے میں اپنے بیان کو سمیٹتے ہوئے اس سوال کو پیش کیا کہ اسلام میں آزادی کے مفہوم اور مغرب میں آزادی کے مفہوم کے درمیان گہرے اوربنیادی فرق کے پیش نظر کیا ہم آزادی کے سلسلے میں تحقیق اور ریسرچ میں مغربی نظریات کی طرف مراجعہ کرسکتے ہیں؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سوال کا جواب دینے سے قبل مغربی معاشرے میں آزادی کے کچھ واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: مغرب میں " اقتصادی میدان میں آزادی " سے مراد سرمایہ داروں کے حلقے میں قرارپانا اور خصوصی امتیازات سے بہرہ مند ہونا ہے، مغرب میں "سیاسی میدان میں آزادی " کا مطلب صرف دو پارٹیوں میں منحصر ہونا ہے ، اور مغرب میں " اخلاقی مسائل میں آزادی " سےمراد فسق و فجور کو فروغ دینا ہے جس کی وجہ سے وہاں ہمجنس بازی کا رجحان بڑھ گیا ہے مغربی ممالک میں آزادی کے یہ نتائج تھے جن کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: مغربی ممالک اور مغربی معاشرے پر ان موضوعات اور واقعات کے بہت برے، تلخ اور ناگوار اثرات مرتب ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں وہاں تبعیض، منہ زوری اور بحران میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے اور آزادی ، انسانی حقوق و جمہوریت جیسے اچھے الفاظ کے ساتھ ان کی دوگانہ اور متضاد رفتار حقائق کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ان تمام افسوسناک واقعات کے باوجود آزادی کے مفہوم میں تحقیق کے لئے مغربی دانشوروں کے نظریہ کی طرف رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ مغرب میں آزادی کے بارے میں منظم فکری و نظری کام ہوا ہے اور اس سلسلے میں ان کا تجربہ پرانا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے بیان کےاختتام میں فرمایا: مغربی دانشوروں کی طرف رجوع کرنے کے لئےتقلیدی نظریہ سے پرہیز کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ تقلید، آزادی کےسراسر خلاف ہے۔
اس اجلاس میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل 10 دانشوروں اور اساتید نے اپنے نظریات کو پیش کیا۔
علاقہ طباطبائی یونیورسٹی کےسیاسی علوم کے استاد ڈاکٹر دہقانی فیروز آبادی پہلے خطیب تھے جنھوں نے " فکری آزادی اور اسلامی جمہوریہ ایران کے قومی مفادات" پر مبنی اپنے مقالہ کا خلاصہ پیش کیا انھوں نے خارجہ پالیسی میں حکومت کے فیصلوں کے سلسلے میں قومی حمایت میں اضافہ اور سیاستدانوں اور سیاسی محققین کے درمیان اعتماد کے ارتقاء کو قومی مفادات کے شعبے میں فکری نتائج کے عنوان سے یاد کیا۔
شہید بہشتی یونیورسٹی کے سیاسی علوم کے استاد حجۃ الاسلام میر احمدی دوسرے خطیب تھے جنھوں نے "قرآن میں سیاسی آزادی " کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا جس میں انھوں نے توحید ، عدالت اور انسان کے حق انتخاب ، حق تنقید، حق بیان اور اجتماعات کی تشکیل کے حق کو قرآن مجید کی روشنی میں آزادی کے سب اہم موضوعات قراردیا۔
تربیت مدرس یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر شجاعی تیسرے خطیب تھے انھوں نے" عدالت و آزادی کے دینی مصادر " کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا جس میں انھوں نے دین اور آزادی کے درمیان تعارض کو غلط نظریہ قراردیا اور اس نظریہ کی اصلاح کے لئے توحیدی ادیان میں عدل و انصاف اور آزادی کی اصل روح کی طرف رجوع کرنے پر تاکید کی۔
حجۃ الاسلام ڈاکٹر یوسفی چوتھے خطیب تھے جنھوں نے اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر انسان کی اقتصادی آزادی کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ انھوں نے سرمایہ داروں کے ہاتھ میں قدرت و ثروت اور آزادی کے مضر اثرات کی طرف اشارہ کیا اور انسان کی اقتصادی آزادی کے بارے میں اسلام کا نظریہ پیش کرتے ہوئے اقتصاد کے استعمال، پیداوار ، منافع اور مدیریت میں منصفانہ تقسیم کی ضرورت پر زوردیا۔
علامہ طباطبائی یونیورسٹی کے سیاسی علوم کے استاد ڈاکٹر برزگر اسٹراٹیجک اجلاس کے پانچویں خطیب تھے انھوں نے اخلاقی، سیاسی اور اعتقادی تین سطح پر آزادی کا جائزہ لیا اور ان کے ذریعہ آزادی کے بارے میں مغربی ممالک کے شبہات کا مدلل جواب دیا۔
محترمہ محدثہ معینی فر اس اجلاس کی چھٹی خطیب تھیں انھوں نے اسلامی حقوق اور فقہ میں پی ایچ ڈی کی ہے اور اس اجلاس میں انھوں نے اپنے مقالہ میں خاندان میں لبرل نظریہ کے بارے میں جائزہ لیا، مغربی ممالک میں سماجی بحران، خاندانی اخلاق پر برے اثرات ، جنسی فساد، ہمجنس بازی، اور حرامی بچوں کی پیدائش جیسے خطرناک عوامل کا جائزہ لیا۔
باقر العلوم یونیورسٹی کے استاد حجۃ الاسلام دکتر واعظی اسٹراٹیجک اجلاس کے ساتویں خطیب تھے انھوں نے اسلامی نظم و ضبط کے معیاروں اور آزادی کے بارے میں اپنا مقالہ پیش کیا انھوں نے سماجی روابط میں آزادی کے نقش کو اہم قراردیا اور سیاست، ثقافت اور اقتصاد کے میدانوں میں درپیش ضروریات کی شناخت کو بھی اس سلسلے میں بہت ہی مؤثر قراردیا۔
سوشیالوجی کےڈاکٹر عماد افروغ اجلاس کے آٹھویں خطیب تھے انھوں نے " آزادی کے مفہوم اور اس کےتنازعات" کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا اور فلسفی، انتزاعی اور انضمامی لحاظ سے آزادی کے مفہوم کے تنازعات کی طرف اشارہ کیا اور آزادی کے بارے میں لبرل تعریف پر تنقید کی۔
ڈاکٹر موسی نجفی نویں خطیب تھے انھوں نے " ایران کے قومی تشخص و اسلامی بیداری کے تکامل میں آزادی فکر کے درجات " کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا۔ ڈاکٹر نجفی نے ایران کی سیاسی تاریخ بالخصوص انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد آزادی کے مختلف ادوار کا جائزہ لیا۔
تہران یونیورسٹی کے سیاسی علوم کے استاد ڈاکٹر مصطفی ملکوتیان اجلاس کےدسویں اور آخری خطیب تھے انھوں نے اپنے مقالے میں آزادی کے مفہوم کا فرانس کے انقلاب اور ایران کے اسلامی انقلاب میں موازنہ پیش کیا۔ انھوں نے اپنے مقالہ میں آیت اللہ محمد باقر صدر کے افکار سے استفادہ کرتے ہوئے فرانس کے انقلاب اور ایران کے اسلامی انقلاب میں آزادی کے مفہوم کا موازنہ پیش کیا ۔
اجلاس کے آغاز میں اجلاس کے دبیرڈاکٹر واعظ زادہ نے مؤثرواسٹراٹیجک افکار کےسکرٹریٹ کے اقدامات کےبارے میں رپورٹ پیش کی۔