اسلامي جمہوريہ ايران نے شام کو بحران سے نکالنے کے لئے چھے نکاتي تجويز کي تفصيلات جاري کردي ہيں۔
اسلامي جمہوريہ ايران کي وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ شام کے بحران کو حل کرنے کے لئے کوششوں کے نئے دور کا آغاز ہوگيا ہے۔ ان کوششوں کا ماحصل ايران کي طرف سے شام کے بحران کو حل کرنے کے لئے پيش کئے گئے چھ نکاتي فارمولے ميں بيان کيا گيا ہے جس کو ايران کي وزارت خارجہ نے جاري کيا ہے اور جس کا مقصد شام کو موجودہ بحران سے باہر نکالنا ہے۔
جو چھے نکاتي فارمولا ايران کي طرف سے پيش کيا گيا ہے اس ميں سب سے پہلے لڑائيوں کو بند کئے جانے کي بات کي گئي ہے۔ اس کے بعد کہا گيا ہے کہ شام کے مختلف گروہوں قبائل اور طبقوں کے نمائندوں اور حکومت کے درميان قومي مذاکرات شروع ہوں جس کے نتيجے ميں ايک قومي آشتي کي کميٹي تشکيل پائے۔ اس فارمولے ميں شام کے عوام کو انسان دوستانہ امداد ديئے جانے کي بھي بات کي گئي ہے-
شام کے خلاف عائد پابنديوں کو اٹھا ليا جانا بھي ايران کے فارمولے ميں شامل ہے جبکہ يہ بھي کہا گيا ہے کہ شام کے پناہ گزينوں کي وطن واپسي کو يقيني بنايا جائے۔
ايران کي طرف سے پيش کئے گئے حل ميں يہ بھي کہا گيا ہے کہ شام ميں ايک عبوري حکومت کي تشکيل کے لئے زمين ہموار کرنے کے لئے بات چيت کا عمل شروع ہونا چاہئے۔
ايران کي وزارت خارجہ کے بيان ميں کہا گيا ہے کہ ان سبھي افراد کو فوري طور پر رہا کيا جانا چاہئے جن کو محض سياسي سرگرميوں ميں حصہ لينے کي وجہ سے گرفتار کيا گيا ہے۔ ايران نے اس بات پر بھي زور ديا ہے کہ شام کے واقعات کے بارے ميں غلط اور جھوٹي خبروں کونشر کرنے کا سلسلہ بھي بند کيا جائے۔ايران نے شام ميں آزادانہ انتخابات کي ضرورت پر بھي زور ديا ہے اور وقت پر صدارتي انتخابات کا انعقاد بھي حکومت کي ذمہ داريوں ميں شامل ہے اس بات پر بھي ايران نے تاکيد کي ہے ۔
اس ميں شک نہيں کہ ايران کي طرف سے شام کے بحران کو حل کرنے کے تعلق سے پيش کي گئي تجاويز کا اصل مقصد پہلے مرحلے ميں شام ميں امن و امان کو بحال کرنا اور اس ملک کےعوام کي مشکلات کو ختم کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ہي ايران کي وزارت خارجہ اس بات سے بھي واقف ہے کہ اس کا يہ فارمولا اسي وقت نافذ ہوسکتا ہے جب شام کے سبھي گروہوں کے درميان تعاون کا جذبہ پيدا ہوگا اور ساتھ ہي علاقائي اور عالمي طاقتيں بھي اس سلسلے ميں مثبت سوچ کا اظہار کريں گي۔
ايران کا کہنا ہے کہ ترکي ميں نيٹو کي طرف سے پٹرياٹ ميزائل نصب کئے جانے کا منصوبہ دفاعي نوعيت سے زيادہ جارحانہ نوعيت کا ہے اور اس سے علاقے ميں امن و امان برقرار کرنے ميں کوئي بھي مدد نہيں ملے گي۔
اس ميں بھي شک نہيں کہ شام کے بحران کے اصل ذمہ دار شام کے باہر کے عناصر اور ممالک ہيں - پچھلے دنوں دوحہ ميں شام کے مخالف گروہوں کو شامي عوام کا نمائندہ تسليم کرلئے جانے کے بعد شام ميں دہشت گردانہ کاروائيوں ميں اضافہ اسي حقيقت کي تائيد کرتا ہے۔
کچھ عرصے قبل تک شام ميں سرگرم دہشت گردوں کے پاس ہلکے ہي ہتھيار تھے ليکن اب ان کے پاس بھاري ہتھيار بھيہي نہيں بلکہ زمين سے ہوا ميں مارکرنےوالے ميزائيل بھي آگئے ہیں۔
شام کے بحران ميں يہ پيچيدگي اس بات کي علامت ہے مغربي ممالک شام کے بحران کو حل کرنے ميں مدد دينے کے بجائے شام کے صدر بشار اسد کي حکومت کو گرانے کے نئے نئے منصوبوں پر کام کررہے ہيں اور ان کي کوشش ہے کہ شام کا بحران فوجي مداخلت کے ذريعے ختم کيا جائے۔
ان تمام باتوں کے پيش نظر ايران نے قيام امن کے لئے جو تجاويز يا فارمولا پيش کيا ہے اس ميں صاف ظاہر ہے کہ ايران نے شام کے عوام کے مفادات کو سب سے اوپر رکھا ہے اور اس کو کچھ اس طرح سے تيار کيا گيا ہے کہ شام کے حالات کے بارے ميں کوئي بھي فيصلہ اس ملک کے عوام پر ہي چھوڑ ديا جائے۔