۲۰۱۳/۰۵/۲۹ - رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے پارلیمنٹ کے اسپیکر، سربراہ کمیٹی اور پارلیمنٹ کے نمائندوں سے ملاقات میں قوہ مقننہ کو تمام امور کا نگراں اور قوہ مجریہ کو میدان میں سنگين امور انجام دینے کا ذمہ دار قراردیااور حکومت اور پارلیمنٹ کے باہمی روابط میں انصاف، گفتگو، تعاون اور قانون کی رعایت کے سلسلے میں تاکید اور گیارہویں صدارتی انتخابات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: سب کو تلاش و کوشش کرنی چاہیے تاکہ انتخابات عوام کی ولولہ انگیز ،وسیع اور بھر پور شراکت کے ذریعہ منعقد ہوں کیونکہ انقلاب اسلامی کی کامیابی سے لیکر آج تک اسلامی نظام کا استحکام اور اقتدار عوام کی میدان میں وسیع پیمانے پرموجودگی اور پشتپناہی پر استوار رہا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ولولہ انگیز انتخابات کے انعقاد کو ملک کی سلامتی، اقتدار،تحفظ اور دشمنوں کے خطرات کو دور کرنے کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوری نظام بڑا گہرا اور مضبوط نظام ہے کیونکہ اس کی جڑیں عوام کے اندر ہیں اور اسے عوامی پشتپناہی حاصل ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام کی پشتپناہی کو اسلامی نظام ، ملک اور قوم کی عزت اور سربلندی کا باعث قراردیتے ہوئے فرمایا: انتخابات عوام کی شرکت کا عظیم مظہر ہیں لہذا انتخابات میں عوام کی شرکت ولولہ انگیز اور نمایاں ہونی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انتخابات کے تمام مراحل میں موجود قوانین کو معقول، منطقی ، جامع اور بغیر کسی رکاوٹ کے قراردیتے ہوئے فرمایا: اب تک کے تمام مراحل بھی قانون کی روشنی میں انجام پذیر ہوئے ہیں اور امیدواروں نے بھی اپنے انٹرویوز میں قانون پر عمل کرنے کی تاکید کی اور صلاحیتوں کی تائيد کے بعد بھی انھوں نے قانون پر عمل کیا لہذا ان تمام افراد کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جن کی صلاحیت کی تائید نہیں ہوئی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس رفتار کو قانون کی اہمیت اور ترجیح کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: ممکن ہے ہم قانون سے بھی راضی نہ ہوں لیکن قانون پر ہمارا عمل قانون کے فصل الخطاب ہونے کا سبب بنتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے دوسرے نکتہ میں صدارتی امیدواروں کی تشخیص اور انتخاب کے سلسلے میں عوام کی بصیرت اور ہوشیاری پر تاکید کی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایرانی عوام کی سیاسی مسائل میں آگاہی اور بصیرت ، عالمی متوسط سطح سے بہت بلند و بالا ہے اور اسی طرح ریڈيو اور ٹی وی کے پروگراموں کے ذریعہ بھی عوام صدارتی امیدواروں میں سے اچھے اور اصلح امیدوار کو تشخیص دیکر انتخاب کرسکتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ممکن ہے جس نتیجہ تک انسان پہنچے وہ صحیح یا غلط ہو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن مہم یہ ہے کہ آپ نے اپنی تشخیص ، بصیرت اور آگاہی کے ذریعہ انتخاب کیا اور یقینی طور پر اللہ تعالی اس پر ثواب عطا کرےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صدارتی امیدواروں کو بھی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں میں شرکت کرنے والے امیدواروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے دوش پر سنگین ذمہ داری ہے اور انھیں ہوشیار رہنا چاہیے اور عوام کی توجہ مبذول کرنے کے لئے حقیقت اور صداقت کے خلاف بات نہیں کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: صدارتی امیدواروں کی گفتگو حقیقت ، صداقت اور صحیح و درست اطلاعات پر مبنی ہونی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: صدارتی امیدواروں کو عوام کے سامنے صرف حقائق کو پیش کرنا چاہیے انھیں ملک کے بارے میں بھی اور اپنے بارے میں بھی حقائق کو پیش کرنا چاہیے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اگر صداقت کے ساتھ عمل کیا جائے تو یقینی طور پر اللہ تعالی مدد و نصرت کرےگا اور اللہ تعالی کی مدد و نصرت کبھی عوام کی خدمت اور مسؤلیت کی توفیق حاصل ہونے کے ذریعہ اور کبھی خدمت اور مسؤلیت کی توفیق سلب ہونے کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: عوام کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے دوسرے امیدواروں کی تخریب اور اسی طرح معاشرے کے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش نہیں کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک بار پھر انتخابات میں رہبری کی رائے کو بعض افراد کی طرف منسوب کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ باتیں ہمیشہ ہوتی رہی ہیں جو حقیقت سے بالکل عاری ہیں کیونکہ کسی کو معلوم نہیں کہ رہبری کسے ووٹ دیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: رہبری کا بھی دوسرے افراد کی طرح ایک ہی ووٹ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انتخابات میں رہبری کے ووٹ اور رائے کے بارے میں غیر ملکی میڈیا کے پروپیگنڈے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دشمنوں نے اپنے طے شدہ اہداف کے مطابق اس پروپیگنڈے کو اپنا دستور العمل بنا لیا ہےلیکن اسلامی نظام دشمنوں کے پروپیگنڈے پر توجہ کئے بغیر اپنے ہدف اور مقصد کی جانب تدبیر کے ساتھ گامزن رہےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے دوسرے حصہ میں پارلیمنٹ (مجلس شورای اسلامی) کی نمائندگی کو اسلامی نظام میں خدمت کا غنیمت موقع اور اس کے ساتھ اسے اللہ تعالی کی بارگاہ میں حساس اور عظیم امتحان قراردیتے ہوئے فرمایا: اس حساس موقع پر اپنی مراقبت کرنی چاہیے کیونکہ اگر ذمہ دار انسان اس خطرناک موڑ سے صحیح و سالم گزر گیا تو اس وقت وہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں مؤفق اور کامیاب قرار پائے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دسویں پارلیمنٹ میں گوناگوں ماہرین کی موجودگی کو بلوں اور پروگراموں کا دقیق جائزہ لینے کی اعلی ظرفیت کا حامل قراردیتے ہوئے فرمایا: گذشتہ سال میں پارلیمنٹ نے سیاسی لحاظ سے بہتر اور اچھا مؤقف اختیار کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ میں نمائندوں کی رفتار و گفتار کو معاشرے پر اثرانداز ہونے کے لحاظ سے اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر پارلیمنٹ میں عقل ، فکر، آرام و سکون ، ہمدردی اور محبت حکمفرما ہو تو ان خصوصیات کا اثر معاشرے پر بھی پڑے گا اور اگر پارلیمنٹ کے نمائندوں کی رفتار اس کے برعکس ہو تو عوام کی رفتار پربھی اس کا ویسا ہی اثر پڑےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر پارلیمنٹ میں تقوی، اخلاق ، ذمہ داری کا احساس اور شوق و نشاط پایا جائےگا تو اس سے عوام، نمائندوں کے قریب اور ان سے مانوس ہوجائیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: یقینی طور پر معاشرے کی تربیت اور اقدار کی حمایت اور مخالفت میں نمائندوں کی رفتار بہت ہی اہم اورمؤثر ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بلوں کی منظوری میں نمائندوں کے ماہرانہ اور دقیق کام پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: یہ مسئلہ نمائندوں کے دوش پر عوام کا حق ہے لہذا بلوں کی منظوری میں ممتنع رائے دینا قابل قبول نہیں ہے کیونکہ اگر نمائندہ اس موضوع یا مسئلہ میں تخصص اور مہارت رکھتا ہے تو اسے اپنے اجتہاد پر عمل کرنا چاہیے اور اگر تخصص نہیں بھی رکھتا پھر بھی اسے ماہرین سے مشورہ لینا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض جلسات میں نمائندوں کی عدم شرکت اور کرسیوں کے خالی رہنے پر شکوہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: نمائندوں کو پارلیمنٹ میں ، جسمانی، ذہنی اور قلبی لحاظ سے حاضر رہنا چاہیے اور بلوں اور لوائح کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ اہتمام کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےپارلیمنٹ کے نمائندوں کے لئے انصاف کی رعایت کو ایک اور اہم نکتہ قراردیتے ہوئے فرمایا: نمائندوں کو اپنے ساتھیوں، حکومت اور عدلیہ کے مقابلے میں عدل و انصاف کو مد ںظر رکھنا چاہیے کیونکہ انصاف کو مد نظر نہ رکھنے سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قوہ مقننہ اور قوہ مجریہ کے باہمی تعامل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: قانون کی بنیاد پر قوہ مقننہ اور مجریہ دونوں کے حدود اور اختیارات مشخص ہیں اور انھیں اپنے حدود کی رعایت اور ایکدوسرے کے ساتھ تعامل برقرار رکھنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان تعامل کا دو طرفہ راستہ ہے لہذا دونوں طرف توجہ مبذول رکھنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان بعض اختلافی نظریات کی موجودگی کو قدرتی امر قراردیتے ہوئے فرمایا: طبیعی اور قدرتی اختلافی نظریات کو کدورت اور نفرت میں نہیں بدلنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ اور حکومت کو ایکدوسرے کا لحاظ رکھنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: پارلیمنٹ کو سمجھنا چاہیے کہ حکومت کے دوش پرمیدان میں سنگین اجرائی ذمہ داریاں ہیں اور ملامتیں بھی حکومت کے سر آتی ہیں لہذا قوہ مجریہ کے حال کی رعایت کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حکومت کو بھی قانون میں موجود پارلیمنٹ کے عظیم حق کو مد نظر رکھنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قانون کو تمام امور کی جڑ قراردیا اور پارلیمنٹ کو پٹری بچھانے اور حکومت کو اس پر حرکت کرنے سے تشبیہ کرتے ہوئے فرمایا: حکومت کو اسی پٹری پر حرکت کرنی چاہیے جسے پارلیمنٹ نے بچھایا ہے لیکن پارلیمنٹ کو بھی چاہیے کہ وہ ایسی پٹری بچھائے جس پر حکومت حرکت کرسکے اور خطرناک موڑ کاٹتے ہوئے کسی گھاٹی میں گر نہ جائے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ کے بارے میں ایک اور نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یقینی طور پر پارلیمنٹ تمام امور کی نگراں ہے لیکن اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ ہر نمائندہ تمام امور کا نگراں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: آج ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم کام کو خلوص نیت ، سنجیدگی، مجاہدت اور ذمہ داری کے احساس سے انجام دیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں گذشتہ ایک سال میں پارلیمنٹ کے اسپیکر، پارلیمنٹ کی سربراہ کمیٹی اور پارلیمنٹ کے نمائندوں کی کوششوں کا شکریہ ادا کیا۔
اس ملاقات کے آغاز میں پارلیمنٹ کے اسپیکر ڈاکٹر علی لاریجانی نے پارلیمنٹ کی گذشتہ ایک سال میں کارکردگی کی رپورٹ پیش کی ، پارلیمنٹ کے اسپیکر نے نئے سال 1392 ہجری شمسی کے بجٹ کو صاف و شفاف بنانے کے سلسلے میں مختلف کمیشنوں کی کوششوں ، مہنگائی اور معیشتی مسائل حل کرنے، غیر ملکی کرنسی کو کنٹرول کرنے، قومی پیداوار اور مقاومتی اقتصاد کی حمایت کرنے، کسانوں اور ریٹائر ہونے والے افراد پر توجہ دینے، صحت و سلامت ،مالی انضباط میں گيس و تیل ، بجلی اور دفاع کے شعبہ پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے کو پارلیمنٹ کے اہم اقدامات میں شمار کیا۔
پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے مجموعی طور پر 300 بلوں میں سے 53 بلوں کی منظوری ، آڈٹ کورٹ کا نگرانی کے لئےنئی روشوں اور پیشرفتہ طریقوں سے استفادہ اور مختلف اداروں کے ڈائریکٹروں سے مسلسل رابطہ، پارلیمنٹ کے تحقیقاتی شعبہ کی جانب سے مشاورتی نظریات اور پارلیمنٹ کا ملک کی اقتصادی مشکلات کو حل کرنے کے سلسلے میں حکومت کے ساتھ تعاون کو گذشتہ ایک سال میں پارلیمنٹ کے دیگر اقدامات میں قراردیا۔
پارلیمنٹ کے اسپیکر نے آئندہ 24 خرداد مطابق 14 جون کے صدارتی انتخابات کو علاقائی اور بین الاقوامی شرائط کی روشنی میں حساس اور اہم قراردیتے ہوئے کہا: صدارتی انتخابات میں عوام کی ولولہ انگیز اور وسیع پیمانے پرشرکت سے عظیم اور شاندار سیاسی رزم و جہاد کا مظاہرہ ہوگا۔