تہران کی عظیم الشان نماز جمعہ قائم مقام امام جمعہ آیت اللہ کاظم صدیقی کی امامت میں منعقد ہوئی۔ انہوں نے سب سے پہلے کربلا کے جانگداز واقعہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب با وفا کی شہادت کے موقع پر حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف اور تمام مسلمانان عالم اور محبان اہل بیت علیھم السلام کی خدمت میں تعزیت پیش کی۔ آیت اللہ کاظم صدیقی نے پہلے خطبے میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے آفاقی انقلاب کے پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ سید الشہداء علیہ السلام نے قرآنی تعلیمات اور سیرت نبوی (ص) کے مطابق احیائے دین کے لیے انقلاب برپا کیا تھا، لہذا آپ کا پیغام قرآن و سنت کی تفسیر و تشریح ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی نورانی ہستی قرآنی آیات میں متجلی ہے، آیات تطہیر، مودت اور مباہلہ وغیرہ، سورہ ہائے ہل اتی اور وہ آیات جن میں ایمان و تقوی، شہادت اور راہ خدا میں جہاد، ہجرت و ایثار وغیرہ اعلی اقدار کا ذکر ہوا ہے، ان میں حضرت سید الشہداء کی عرشی شخصیت کا جلوہ نظر آتا ہے۔ اسی طرح شیعہ و سنی مآخذ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے بارے میں احادیث و روایت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جا بجا نقل ہوئي ہیں۔ آیت اللہ کاظم صدیقی نے انقلاب کربلا کے نمایاں پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کا انقلاب ایک ہمہ گیر انقلاب تھا۔ آپ نے انسانیت کو حریت و آزادی، عزت و سربلندی، توحید و یکتا پرستی، عدل و انصاف، ایثار و قربانی، صبر و رضا اور دیگر اعلی اقدار سے روشناس کرایا۔ خطیب جمعہ تہران نے ظالم و جابر حکمران یزید کی بیعت سے انکار کو انقلاب حسینی کا ایک اہم پہلو قرار دیتے ہوئے کہا، حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: مثلی لا یبایع مثلہ (میرے جیسا اس (یزید) جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا) اس قول کے ذریعے آپ نے ہمیں درس دیا کہ زمانے کی ظالم طاقتوں سے ساز باز نہ کریں اور ان کے مقابلے میں ڈٹ جائیں۔ خطیب جمعہ تہران نے یہ بھی کہا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی استعماری طاقتوں کا مقابلہ کیا۔ امام خمینی (رح) نے ثابت کیا کہ جب دین کی بنیادیں کمزور پڑ چکی ہوں اور اعلی اقدار پامال ہو رہے ہوں تو انقلاب حسینی کی پیروی کرتے ہوئے احیائے دین کی خاطر عوام کو اٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔ آیت اللہ کاظم صدیقی نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو انقلاب حسینی کا ایک اور نمایاں پہلو قرار دیتے ہوئے کہا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے ابتدا سے ہی یزید کے خلاف اپنی تحریک کے محرکات بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ معاشرے میں برائیوں کو فروغ مل رہا ہے اور نیکیوں سے روکا جا رہا ہے لہذا اس صورت حال کی اصلاح کے لیے اٹھ کھڑے ہونا ضروری ہے۔ آپ (ع) نے فرمایا: الا ترون ان الحق لایُعمل بہ و الباطل لا یُتناہیٰ عنہ۔ کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں کیا جا رہا اور باطل سے روکا نہیں جا رہا ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام ان حالات میں خاموشی کو جائز نہیں سمجھتے تھے، اسی لیے آپ نے یزید کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ تہران کے خطیب جمعہ نے یہ بھی کہا کہ حضرت سید الشہداء کی تحریک کا ایک اہم مقصد اصلاح معاشرہ تھا۔ جب آپ نے دیکھا کہ معاشرے کے تمام شعبوں میں برائیاں پھیل رہی ہیں۔ فحاشی و فساد کو فروغ مل رہا ہے، عدل و انصاف قائم نہیں ہو رہا اور طبقاتی امتیاز نے اسلامی مساوات کی جگہ لے لی ہے تو آپ نے یزیدی حکومت کے خلاف انقلاب برپا کیا۔ آیت اللہ کاظم صدیقی نے انقلاب حسینی کے ثمرات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی پہلی نمایاں کامیابی اللہ تعالی کی طرف سے جو بڑی ذمہ داری آپ پر عائد کی گئي تھی، اس کا بنحو احسن انجام دینا ہے۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا کے حکم کی بجا آوری کے لیے اپنے فرزند اور بیوی کو لق و دق صحرا میں چھوڑ دیا اور بیٹے کو بارگاہ الہی میں قربان کرنے کے لیے پیش کیا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کربلا کے تپتے ہوئے صحرا میں اپنے اصحاب و اعوان کے ساتھ شہید ہوئے اور اپنے اہل بیت (ع) کی قید و بند اور اسارت و یتیمی کی صعوبتیں برداشت کرنے کے لیے آمادہ ہوئے۔ خطیب جمعہ تہران نے کہا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے ہمیں درس دیا ہے کہ سیاست و معیشت، اخلاقیات و معاملات اور زندگي کے تمام شعبوں کی بنیاد رضائے الہی ہونی چاہیے اور خدائی اصول کے سامنے سرتسلیم خم کرنے میں ہی اسلامی حکومت اور نظام ولی فقیہ کی کامیابی مضمر ہے۔ تہران کے خطیب جمعہ آیۃ اللہ کاظم صدیقی نے اپنے دوسرے خطبے میں سب سے پہلے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے یوم شہادت کے موقع پر تعزیت پیش کرتے ہوئے انقلاب حسینی کے مقاصد کی تبلیغ میں آپ کے اہم کردار پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ بنی امیہ کے تمام تر منفی پروپیگنڈے کے باوجود اسیران اہل بیت (ع) اور حضرت امام زین العابدین (ع) نے ظلم و ستم کے درباروں کو ہلا کر رکھ دیا اور پیغام حسینی کو عام کیا۔ انہوں نے حضرت امام زین العابدین (ع) کی دعاؤں اور مناجات پر مشتمل کتاب صحیفۂ سجادیہ کو معاشرے کی نظریاتی بنیادوں کے استحکام اور لوگوں کی فکری نشو و نما کے لیے ایک قیمتی سرمایہ قرار دیا۔ خطیب نماز جمعہ نے گریہ و عزاداری کی ثقافت کے فروغ میں امام سجاد (ع) کے کردار کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ امام سجاد (ع) حسینیت کی پہچان ہیں۔
انہوں نے گروپ پانچ جمع ایک کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے مذاکرات اور دو ہزار تین اور دو ہزار چار میں ایران کی طرف سے یورینیم کی افزودگي کو روکنے کے سلسلے میں کہا کہ اس وقت یورینیم کی افزودگی کو ایک حکمت عملی کے تحت روک دیا گيا تھا اور جب ہم ان کے مقاصد سے آگاہ ہوئے تو ہم نے اپنا جوہری پروگرام جاری رکھا۔ آیت اللہ کاظم صدیقی نے کہا کہ مذاکرات ان طاقتوں کی طرف سے اپنی ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کا اہم موقع ہے۔ لیکن انہوں نے ماضی کی طرح یہ افواہیں پھیلائیں کہ جنیوا مذاکرات میں ایران نے ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا اور ان کا یہ بیان کھلم کھلا جھوٹ پر مبنی ہے کہ ایران کے عدم تعاون کی وجہ سے جنیوا مذاکرات ناکام ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران دینی و ثقافتی لحاظ سے اعتبار کا حامل ملک ہے اور ہمیشہ عالمی سطح پر مذاکرات اور مصالحتی عمل میں اپنا منطقی موقف رکھتا ہے اور گروپ پانچ جمع ایک کے ساتھ ایران کے مذاکرات بھی تعقل و تدبر اور احساس ذمہ داری و اتمام حجت کی بنیادوں پر انجام پاتے ہیں اور یہ مذاکرات ہمارے لیے مغربی طاقتوں کی صداقت و سچائي کو پرکھنے کی کسوٹی کی حیثیت رکھتے ہیں جس کے لیے ہم اپنی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ آیت اللہ صدیقی نے کہا کہ اگرچہ گروپ پانچ جمع ایک نے اپنے گزشتہ موقف سے ہٹ کر عمل کیا ہے لیکن اس کے باوجود ہم فراخدلی کا اظہار کرتے ہوئے امید رکھتے ہیں کہ مغربی طاقتیں اپنی ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کریں گی اور اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیں گی۔ آیت اللہ صدیقی نے کہا کہ قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ ایران کی مذاکراتی ٹیم قابل اعتماد افراد پر مشتمل ہے اور اب تک کی ان کی کارکردگی، قومی عزت و وقار، حکمت و دانائی اور ملی مفادات کے مطابق تھی اور انہوں نے ہماری ریڈ لائن کو مدنظر رکھ کر مذاکرات کیے ہیں۔ انشاء اللہ امید ہے کہ وہ اس سلسلے کو جاری رکھیں گے اور عوام بھی اپنے حکام پر اعتماد کا اظہار کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری قوت ہمارے عوام اور حکومت کے درمیان اتحاد و یکجہتی میں مضمر ہے اور مغربی جمہوریت، بادشاہت اور دوسرے نظاموں کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کا فرق یہ ہے کہ ہمارے نظام کی بنیادیں، مطلق العنانیت اور مغربی ڈیموکریسی کے اصولوں پر نہیں بلکہ اسلامی جمہوری اصول پر استوار ہیں۔ ہمارے نظام کی اساس اسلام کی زریں تعلیمات ہیں اور ہم اپنے قائد کے احکامات کے پیرو اور ایک ہی پرچم تلے متحد ہیں۔ ہمارے نظریات اسلامی اور انقلابی ہیں۔ تہران کے خطیب جمعہ نے یہ بھی کہا کہ ہماری حکومت، عوام اور تمام قوتیں قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی قیادت کے زیر سایہ نظام ولایت کی تابع ہیں اسی لیے ہم کبھی شکست سے دوچار نہیں ہو سکتے۔ آیت اللہ کاظم صدیقی نے آخر میں ایرانی قوم کو خراج تحسین پیش کیا جو حسینیت کے سرخ پرچم کو سربلند رکھنے میں پیش پیش ہوتی ہے چنانچہ عشرۂ محرم میں عوام نے نہایت عقیدہ و احترام کے ساتھ مجالس عزاداری قائم کیں اور جلوس ہائے عزا میں شرکت کر کے اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں عزاداری شہدائے کربلا کی مجالس منعقد ہو رہی ہیں جو حضرت امام حسین علیہ السلام کے آفاقی پیغام کو زندہ رکھنے میں اہمیت کی حامل ہیں۔