روز عاشورا، سیدحسن نصراللہ کا خطاب: جب تک ضرورت ہوگی حزب اللہ شام میں موجود رہے گی

Rate this item
(0 votes)

روز عاشورا، سیدحسن نصراللہ کا خطاب: جب تک ضرورت ہوگی حزب اللہ شام میں موجود رہے گیرپورٹ کے مطابق سید حسن نصر اللہ نے عزاداران سید الشہداء علیہ السلام سے مخاطب ہوکر کہا: آپ لوگ یوم عاشور کو یہاں آئے ہیں تاکہ اپنے حق کا دفاع کریں اور امام حسین علیہ السلام کو ـ جو ہمارا اسوہ اور ہمارے رہبر و امام ہیں ـ کو لبیک کہیں، میں بھی اعلان کرتا ہوں کہ ہم تاریخ میں زندہ جاوید رہنے والی ندا "ہل من ناصر ۔۔۔" کو لبیک کہنے کے لئے تیار ہیں اور ایک بار پھر کہتے ہیں: لبیک یا حسین(ع)۔

حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے اپنے خطاب کے ضمن میں حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں چودہ مارچ نامی دھڑے کی طرف سے رکاوٹوں اور بہانوں پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: وہ آج ہم سے کہتے ہیں کہ حکومت کی تشکیل میں ہمارے ساتھ شراکت نہیں کرنا چاہتے اور حتی کہ وہ شرطوں کا تعین کرتے ہیں اور لبنان میں حکومت کی تشکیل کو شام میں جنگ کے خاتمے سے مشروط کرتے ہیں؛ لیکن میں اعلان کرتا ہوں کہ بہتر ہے کہ پیشگی شرطوں کو بھول جائیں اور ہمیں ملک کے مسائل حل کرنے دیں۔

انھوں نے کہا: میں آج یہاں اعلان کرتا ہوں کہ جب تک شام میں ہماری موجودگی کے اسباب باقی ہونگے ہم بھی شام میں موجود رہیں گے اور کسی اور گروپ یا جماعت کی ہمیں ضرورت نہيں ہے کہ شام میں ہماری موجودگی کے بارے میں اظہار خیال کرے۔ حزب اللہ مزاحمت سے دستبردار نہيں ہوگی اور شام میں ہماری موجودگی بھی لبنان اور فلسطین کے دفاع کی خاطر ہے۔

سید حسن نصر اللہ نے کہا: آج جیسے دن امام حسین علیہ السلام اپنے جدّ امجد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے دین کی اصلاح کی خاطر شہید ہوئے اور میں بھی امت کے امور کی اصلاح کے لئے شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی پر تاکید کرتا ہوں۔

انھوں نے کہا: تکفیری صرف تشع کے دشمن نہيں ہیں وہ سب کے لئے خطرہ ہیں۔ تکفیری تیونس، عراق، لیبیار شام اور دوسرے علاقوں میں مسلمانوں کو خاک و خون میں تڑپا رہے ہیں اور ہم سب ـ شیعہ اور سنی سے لے کر عیسائیوں تک ـ کو کوشش کرنی چاہئے کہ تکفیریوں کا خاتمہ کیا جائے۔

اسلامی تحریک مزاحمت کے قائد نے کہا: آج ہم اختلافات کے باوجود لبنان کی قومی یکجہتی اور قومی سلامتی پر تا کید کرتے ہیں اور سب کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیں اختلافات کو ایک طرف رکھیں تا کہ اپنے قومی اہداف تک پہنچنے کے لئے قدم آگے بڑھاسکیں اور اپنے اور اپنی قوم کے لئے باوقار سماجی حیات کا انتظام کریں۔

انھوں نے ایک بار تمام لبنانی دھڑوں کو اتحاد و اتفاق کی دعوت دیتے ہوئے عزاداران امام حسین(ع) سے مخاطب ہوکر کہا: میں آپ کی عزاداری کی قبولیت کی دعا کرتا ہوں؛ خداوندا روز قیامت ہمارے قدموں کو امام حسین(ع) اور اصحاب حسین(ع) کے سامنے استوار فرما۔ سلام ہو حسین پر اور اصحاب حسین پر۔

خطاب کا خلاصہ المیادین ٹی وی چینل کے حوالے سے:

٭ ہم اسرائیل اور اس کے حامیوں کے خلاف مزاحمت کے اپنے بنیادی اصولوں کے پابند ہیں۔

٭ میں اعلان کرتا ہوں کہ ہم کسی بھی اسلامی اور عرب ملک کی تقسیم کے سلسلے میں کسی بھی منصوبے کے خلاف ہیں۔

٭ اسلامی تحریک مزاحمت نے سنہ 2000 میں لبنان کو اسرائیل سے آزاد کرا دیا لیکن دشمن بدستور موجود ہیں۔

٭ شام اسلامی تحریک مزاحمت کے لئے ماں کا درجہ رکھتا ہے اور یہ ملک مزاحمت کا حامی ہے۔

٭ ہم اختلافات کے باوجود لبنان کی قومی یکجہتی پر سنجیدگی کے ساتھ، تاکید کرتے ہیں۔

٭ جو بھی لبنان میں حکومت کی تشکیل کو شام سے ہمارے انخلاء سے مشروط کرے گا اس نے ایک ناقابل عمل شرط کا سہارا لیا ہے۔ ہم پارلیمان کی چند نشستوں کے عوض لبنان، شام اور محاذ مزاحمت کا سودا ہرگز نہیں کریں گے۔

٭ تکفیری مسلمانوں کے دشمن ہیں اسی وجہ سے وہ پوری دنیا میں شیعہ اور سنی مسلمانوں پر حملے کررہے ہیں [اور یہود و نصاری ان کی موجودگی میں سکھ کا سانس لے رہے ہیں]۔

٭ لبنان میں ہماری موجودگی لبنان، شام اور تحریک مزاحمت کا تحفظ ہے اور تحریک مزاحمت اپنے سامنے آنے والے تمام خطرات کا مقابلہ کرتی ہے۔

٭ جب تک ضرورت ہوگی ہم لبنان میں رہيں گے، مسئلہ یہ ہے کہ لبنان میں بعض لوگ اس مسئلے کو ایک علت (Cause) میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔

٭ جب اسٹراٹجک خطرات موجود ہیں جو خطے کی اقوام کا مستقبل خطرے سے دوچار کرسکتے ہیں، تو یہ مسئلہ اس سے کہاں زيادہ اہم ہے کہ اس پر سودے بازی کی تجویز دی جائے۔ ہم نے آپ [مخالف لبنانی دھڑوں اور ان کے بیرونی حامیوں] سے کبھی بھی مزآحمت کے لئے کسی پشت پناہی اور حمایت کا مطالبہ نہیں کیا ہے اور کبھی بھی آپ سے اس طرح کی کوئی درخواست نہيں کریں گے۔

٭ مزاحمت کے اصولوں کی پابندی ہمارے ملک اور ہمارے ملکی وسائل کے تحفظ کا بنیادی راستہ ہے۔

٭ بعض لوگ لبنان میں کہتے ہیں کہ فرانس نے جرمنی کے خلاف مزاحمت کی اور پھر فرانسیسیوں نے ہتھیار ڈال دیئے لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ فرانسیسی مزاحمت دشمن کے خاتمے کے بعد ختم ہوئی جبکہ لبنان کا دشمن بدستور موجود ہے اور جاسوسی کررہا ہے اور جنگ کی تیاری کررہا ہے؛ کیا یہ درست ہے کہ ایسے حالات میں میدان دشمن کے لئے خالی چھوڑ دیا جائے؟ کیا ہم دشمن کے لئے میدان خالی کریں؟

٭ جب تک مزاحمت کی دلیل اور اس کے محرکات موجود رہیں گے، تحریک مزاحمت اسرائیل کے خطرات کا سامنا کرنے کے لئے باقی رہے گی۔

٭ میں عرب ممالک کی توجہ ایک بار پھر فلسطین کا بنیادی اور مرکزی مسئلے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں اور یہ کہ کسی کو بھی کسی حال میں بھی، اس مسئلے سے پہلو تہی نہیں کرنی چاہئے اور تمام مسلمانوں کو فلسطینی عوام کے شانہ بشانہ رہنا چاہئے؛ تاکہ وہ امت کی مدد سے اپنی سرزمین اور مسلمانان عالم کے قبلہ اول اور دوسرے مقدسات کو آزاد کرائیں۔

Read 1315 times