فارس نیوز ایجنسی کے مطابق حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے ایک عیسائی ٹی وی چینل OTV کو تفصیلی انٹرویو دیتے ہوئے اس بات پر تاکید کی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان جنیوا میں جوہری پروگرام سے متعلق طے پانے والا معاہدہ خطے سے جنگ کے بادل چھٹنے کا باعث بنا ہے۔ اسی طرح اس معاہدے نے ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے دنیا پر یونی پولر عالمی نظام مسلط کئے جانے کی کوششیں غیرمعقول اور بے اثر ہیں اور آج کی دنیا یونی پولر ورلڈ آرڈر کو تسلیم نہیں کرتی۔
ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان طے پانے والا جنیوا معاہدہ درحقیقت خطے کی اقوام کی فتح ہے:
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے اپنے اس انٹرویو میں ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق حال ہی میں طے پانے والے جنیوا معاہدے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے کا سب سے زیادہ فائدہ خطے کی اقوام کو پہنچے گا کیونکہ خطے میں موجود شیطانی قوتیں گذشتہ کئی سالوں سے خطے میں ایک نئی جنگ کے آغاز کی کوششوں میں مصروف تھیں اور وہ امریکہ کو ایران کے خلاف محاذ آرائی پر اکسا رہی تھیں۔ البتہ ایران کے خلاف فوجی کاروائی کوئی آسان کام نہیں کیونکہ ایران ایک کمزور یا گوشہ گیر ملک نہیں اور اگر خدانخواستہ ایسی جنگ انجام پا جاتی تو خطے کیلئے اس کے انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوتے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ایران اور 6 عالمی طاقتوں کے درمیان جنیوا معاہدے کے انعقاد نے بعض جدید بین الاقوامی حقائق کی بنیاد رکھ دی ہے جن میں سے ایک حقیقت یہ ہے کہ دنیا پر ایک قطبی عالمی نظام کا نفاذ ممکن نہیں۔ اس معاہدے نے دنیا پر ایک ملک کی حکمرانی کا تصور باطل کر ڈالا ہے۔ جنیوا معاہدے کی برکت سے دنیا ملٹی پولر نظام کی طرف گامزن ہو چکی ہے جو دنیا کو عالمی آمریت سے بچانے میں پہلا قدم ہے اور یہ تیسری دنیا کے ممالک کیلئے ایک سنہری موقع ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے واضح کیا کہ اس معاہدے کی برکت سے خطے اور عالمی سطح پر امریکی پالیسیوں میں انتہائی بنیادی تبدیلیاں معرض وجود میں آئی ہیں۔ البتہ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان انجام پانے والا یہ معاہدہ مرحلہ وار ہے لیکن بعض افراد انتہائی جلدبازی سے کام لیتے ہوئے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ یہ معاہدہ درحقیقت ولی فقیہ اور شیطان کے درمیان سمجھوتہ ہے۔
مغربی دنیا کیوں ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئی؟
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ عراق اور افغانستان میں امریکہ بہت بری طرح شکست اور ناکامی کا شکار ہو چکا ہے جس کی وجہ سے وہ اور اس کی پالیسیاں بند گلی کا شکار ہو چکی ہیں۔ اسی طرح لبنان اور غزہ میں بھی نیو مڈل ایسٹ کا پراجیکٹ پوری طرح فلاپ ہو چکا ہے اور اب تو انہیں شام میں بھی مکمل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دوسری طرف اسلامی جمہوریہ ایران نے گذشتہ 30 سالوں کے دوران امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی جانب سے لگائی گئی ظالمانہ اقتصادی پابندیوں کے خلاف بے مثال ثابت قدمی اور استقامت کا مظاہرہ کیا ہے جس کی وجہ سے عالمی استعماری قوتیں اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اسی طرح خود امریکہ اور یورپی ممالک شدید اقتصادی بحران کا شکار ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ امریکہ اب جنگوں سے بری طرح تھک چکا ہے اور کسی نئی جنگ کا آغاز کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ لہذا یہ سب عوامل باعث بنے کہ امریکہ اور مغربی ممالک ایران کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جنیوا ایٹمی معاہدے کے انتہائی مثبت اثرات ظاہر ہوں گے۔ اس کا پہلا اثر یہ ہے کہ خطہ ایک نئی جنگ کے خطرے سے باہر نکل چکا ہے۔ ایران کے خلاف بھی امریکہ کی جانب سے کسی قسم کی فوجی کاروائی کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ البتہ میں پورے یقین سے نہیں کہ سکتا کہ اسرائیل امریکہ کو اعتماد میں لئے بغیر ایران کے خلاف کسی احمقانہ حرکت کا مرتکب نہیں ہو سکتا اور اس کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ نہیں بنا سکتا کیونکہ اسرائیلی حکام کسی منطق کے تابع نہیں اور بغیر سوچے سمجھے احمقانہ حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ امریکی حکام ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کے دوران بعض نئے موضوعات بھی زیربحث لانا چاہتے تھے لیکن ایران کا مطالبہ تھا کہ پہلے جوہری پروگرام سے متعلق مسائل حل ہونے چاہئیں۔ ایرانی حکام چاہتے ہیں کہ سمجھوتہ صرف ایران کے جوہری پروگرام تک محدود رہے۔
اسرائیل کے بارے میں ایران کا موقف اٹل اور ناقابل تغیر ہے:
سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان نے کہا کہ ایران نے ہمیشہ سے واضح طور پر اس بات کا اعلان کیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ ہمارے اختلافات اور مسائل کی نوعیت اسرائیل کے ساتھ مسائل سے مختلف ہے۔ اسرائیل کے مقابلے میں ایران کا موقف اٹل ہے اور کبھی بھی اس میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔ لیکن امریکہ کے بارے میں ایران کا موقف یہ ہے کہ اگر امریکی حکام ہمارے حقوق کا احترام کرے اور خطے کی دوسری اقوام کے مسلمہ حقوق کو بھی تسلیم کر لے تا اس کے ساتھ مذاکرات انجام پا سکتے ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی سیاست میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں لیکن ایران اپنی پرانی پالیسیوں پر ڈٹا ہوا ہے۔ البتہ ابھی ایران اور امریکہ کے تعلقات کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا کیونکہ ایران اور امریکہ کے درمیان بے شمار اختلافات اور مسائل موجود ہیں جن کے بارے میں گفتگو اور مذاکرات انجام پانے کی ضرورت ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بہتری کا وقت نزدیک آ چکا ہے۔
خطے پر سب سے زیادہ اثرورسوخ ایران کا ہے؟
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ایران خطے کا ایک بڑا ملک ہے اور آج خطے پر اس کا اثرورسوخ سب سے زیادہ ہے۔ ایران ہم سے مشورے میں ہے اور یہ مشورہ صرف لبنان کے مسائل تک محدود نہیں۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کی کہ خطے میں اسرائیل کی صہیونیستی رژیم کے خلاف جاری اسلامی مزاحمت کے بارے میں ایران کا موقف ہر گز تبدیل نہیں ہو سکتا۔ ایران ہمیشہ اسلامی مزاحمت کی حمایت کرتا رہے گا۔ ایران کبھی بھی مسئلہ فلسطین کے بارے میں اپنا اصولی موقف تبدیل نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کا پرامن حل ممکن نہیں اور اب تک انجام پانے والے مذاکرات اسرائیل سے فلسطینی قوم کا چھوٹے سے چھوٹا حق بھی تسلیم نہیں کروا سکے۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اگر 14 مارچ گروپ کے سعودی عرب سے تعلقات ہمارے ایران سے تعلقات کی مانند ہوتے تو لبنان میں پائے جانے والے تمام مسائل حل ہو چکے ہوتے۔ کیونکہ ایران کبھی بھی لبنان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا اور ہمیں نہیں کہتا کہ کیا کرو اور کیا نہ کرو۔ ایران لبنان میں صرف ایک چیز کا خواہاں ہے اور وہ یہ کہ لبنانی عوام آپس میں متحد رہیں اور آپس میں مفاہمت اور تعاون جاری رکھیں اور کاش ہمارے مدمقابل گروپ کا بھی کوئی ولی فقیہ ہوتا۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والا جوہری معاہدہ کسی بھی صورت لبنان کے نقصان میں نہیں۔
شام میں حزب اللہ کی موجودگی لبنان کے دفاع کیلئے ہے:
سید حسن نصراللہ نے او ٹی وی کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ شام میں ہماری موجودگی درحقیقت لبنان کے دفاع کیلئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر شام میں حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہ کامیاب ہو جائیں تو لبنان ایک عظیم خطرے کا شکار ہو جائے گا۔ اگر ہم القصیر اور القلمون میں اپنا فرض ادا نہ کرتے تو آج دسیوں یا شائد سینکڑوں کار بم لبنان میں داخل ہو چکے ہوتے۔ ہم نے شام میں اس لئے مداخلت کی ہے تاکہ اس خطرے کو روک سکیں۔ اب تک لبنان میں جتنے بھی خودکش دھماکے ہوئے ہیں ان میں استعمال ہونے والی گاڑیاں یبرود کے علاقے سے عرسال کے راستے لبنان میں لائی گئی ہیں۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ دہشت گرد عناصر نہ صرف شام سے لبنان میں دہشت گردانہ بم حملے کروا رہے ہیں بلکہ عراق میں بھی خودکش دھماکوں میں استعمال ہونے والی گاڑیاں شام کے ان علاقوں سے بھیجی جاتی ہیں جہاں مسلح دہشت گرد گروہوں کا کنٹرول ہے۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ سعد حریری اور صقر جیسے افراد لبنان سے دہشت گرد بھرتی کر کے شام بھیجنے میں ملوث ہیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ دہشت گرد گروہ شام میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو تمہارے پاس کیا ضمانت موجود ہے کہ وہ لبنان میں دہشت گردی نہیں کریں گے؟ ہم جو کچھ آج شام میں انجام دے رہے ہیں اسے لبنانی قوم کی حمایت حاصل ہے اور یہ حمایت 1982 سے لے کر 1990 تک انجام پانے والے ہمارے اقدامات سے بھی زیادہ ہے۔ انشاءاللہ ایک دن ایسا آئے گا کہ لوگ شام میں مداخلت کرنے پر حزب اللہ کا شکریہ ادا کریں گے۔ سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان نے کہا کہ شام میں ہماری موجودگی کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے۔ شام میں جو افراد مسلح دہشت گرد گروہوں کے خلاف برسرپیکار ہیں وہ یا تو شامی فوج سے وابستہ ہیں یا عوامی فورس کا حصہ ہیں۔ حزب اللہ کے مجاہدین صرف دمشق کے نواحی علاقوں، حمص اور لبنانی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں موجود ہیں جبکہ دوسرے علاقوں جیسے درعا، سویدا، قنیطرہ، دیرالزور اور شمالی حلب میں حزب اللہ کا ایک مجاہد بھی موجود نہیں۔ القلمون میں جاری آپریشن میں بھی صرف شامی فوج اور عوامی فورس کے افراد شامل ہیں۔
شام حکومت کی سرنگونی ناممکن ہے:
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ فوجی طریقے سے شام حکومت کو سرنگون کرنا بالکل ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے شام پر حملہ نہیں کیا اور دنیا والے آج سفارتی طریقے سے شام کا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے بعض ممالک ابھی اس نتیجے پر نہ پہنچے ہوں کہ شام کے مسئلے کا حل صرف سیاسی ہے لیکن بہت جلد وہ بھی اسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سعودی عرب اب بھی شام میں مسلح دہشت گردی کو ہوا دینے پر مصر ہے اور کسی طور پر سیاسی راہ حل کو اختیار کرنے پر راضی نظر نہیں آتا۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ سعودی حکام کی پوری کوشش ہے کہ 22 جنوری کو برگزار ہونے والی جنیوا 2 کانفرنس سے پہلے پہلے شام کے حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں کی فوجی اور مالی امداد کے ذریعے زمینی حقائق کو ان کے حق میں تبدیل کریں۔ لیکن یہ کوششیں بھی مشرقی الغوطہ میں انجام پانے والی سازشوں کی طرح شکست سے دوچار ہوں گی۔ البتہ بعض ایسی قوتیں بھی ہیں جو حتی جنیوا 2 کانفرنس کا انعقاد بھی نہیں چاہتیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے شام کے بعض حکومت مخالف گروہوں کے ساتھ بھی رابطہ قائم کر رکھا ہے اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکومت مخالف گروہوں کو پہنچنے والا نقصان شام حکومت کے نقصان سے کہیں زیادہ ہے۔ کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ شام حکومت صرف اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر اب تک قائم ہے کیونکہ ایسا ممکن نہیں۔ شام حکومت مضبوط عوامی حمایت سے برخوردار ہے لہذا شام کے مسئلے کو صرف اور صرف سیاسی طریقے سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ یہ سیاسی راہ حل بھی ایسا ہونا چاہئے جو خود شام کے شہریوں کی جانب سے وضع کیا گیا ہو اور باہر سے ان پر تھونپا نہ گیا ہو۔ اگر کوئی باہر سے شام کے مسئلہ کو حل کرنے میں مدد کرنا بھی چاہتا ہے تو اسے اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اپنی طرف سے شامی عوام پر کوئی راہ حل تھونپنے کی کوشش نہ کرے۔