امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے صیہونی حکومت اور فلسطینی انتظامیہ کے درمیان ساز باز مذاکرات کے بے نتیجہ رہنے کا اعتراف کیا ہے۔ جان کیری نے ہفتے کے روز رام اللہ میں فلسطینی انتظامیہ کے اعلی مذاکرات کار صائب عریقات کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ابھی تک فلسطینی اور اسرائیلی فریق مذاکرات کے بارے میں ابتدائي اتفاق رائے تک نہیں پہنچے ہیں۔ اعلی فلسطینی مذاکرات کار صائب عریقات نے بھی اس پریس کانفرنس میں کہا کہ ابھی ساز باز مذاکرات کے راستے میں بڑی رکاوٹیں موجود جنہیں ہٹایا جانا ضروری ہے۔
فلسطینی انتظامیہ کے ترجمان نبیل ابو ردینہ نے کہا ہے کہ فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ محمود عباس نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے ساتھ ملاقات میں مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے کسی بھی جزئی اور مرحلہ وار راہ حل کو مسترد کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ محمود عباس نے اس ملاقات میں قدس دارالحکومت کے ساتھ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر زور دیا ہے اور صیہونی کالونیوں کی تعمیر کے غیرقانونی ہونے کے ساتھ ساتھ تمام فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر زور دیا ہے۔اس موضوع پر عالمی امور کے تجزیہ نگار راشد احد کا کہنا ہے۔ انٹرویو سننے کیلئے کلک کیجئے۔
جان کیری نے ہفتے کے روز گزشتہ دو روز کے دوران دوسری بار فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ محمود عباس سے ساز باز مذاکرات کے بارے میں بات چیت کی ہے۔ فلسطینی انتظامیہ اور صیہونی حکومت کے درمیان ساز باز مذاکرات صیہونی کالونیوں کی تعمیر کی وجہ سے کئي سال منقطع رہنے کے بعد امریکہ کی ثالثی سے جولائی دو ہزار تیرہ میں دوبارہ شروع ہوئے تھے۔
ان مذاکرات کے بے نتیجہ رہنے کا اعلان ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے کہ جب امریکہ نے حالیہ مہینوں کے دوران ان مذاکرات میں پیشرفت کے سلسلے میں وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا کیا تھا۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امریکی پروپیگنڈے کا پول کھل گیا اور ظاہر ہو گیا کہ امریکہ کی نئی سرگرمیوں سے نہ صرف ساز باز مذاکرات تعطل سے نہیں نکل سکے بلکہ امریکہ خاص طور پر جان کیری کی جانب سے صیہونی حکومت کی بڑھتی ہوئی جانبداری اور حمایت پر فلسطینیوں نے سخت اعتراضات کیے ہیں۔
واضح رہے کہ ان اعتراضات کا دائرہ فلسطینی انتظامیہ تک بھی پھیل گيا ہے اور محمود عباس کی جانب سے جان کیری کی بعض تجاویز کی مخالفت کا بھی اسی تناظر میں جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ بلاشبہ امریکی اس مرتبہ اپنے اقدامات کے ذریعے بحران فلسطین کو صیہونی حکومت کے حق میں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی تجاویز میں آزاد فلسطینی ریاست کے لیے جو شرائط رکھی گئی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عملی طور پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام نہیں چاہتے اور یہ تجاویز ایک آزاد ریاست سے میل نہیں کھاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے فلسطینی ان تجاویز کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔
تجزیہ نگارراشد احد کے خیال میں امریکہ کی جانب سے صیہونی حکومت کی وسیع پیمانے پر حمایت اور اس حکومت کو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کرنا علاقے میں اس ناجائز حکومت کی جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کے جاری رہنے میں اہم کردار کا حامل ہے اور یہ متضاد پالیسی کبھی بھی فلسطینی عوام اور گروہوں کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہی ہےاور اس کی حماس اور جہاد اسلامی نے ہر سطح پر مخالفت کی۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی رائے عامہ کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی ھمہ جانبہ حمایت سے جہاں اسرائیل ، فلسطین قضیئے میں امریکہ غیر جانبدار نہیں رہا اورفلسطینی رہنما وں کا اعتماد امریکہ سے اٹھ گیا ہے۔ وہیں اسرائیل حد سے زیادہ گستاخ ہو گیا اور امریکہ کے فوجی ماہرین کی موجودگی میں اسرائیل نے سازشی مذاکرات کے موقع پر جمعہ کے روز جدید میزائل سسٹم ایرو 3 کا دوسری بار مشترکہ طور پر بحیرہ روم کی فضا میں تجربہ کیا اس میزائل سسٹم کا گزشتہ سال فروری میں کیا جانے والا پہلا تجربہ صیہونی اور امریکی حکام کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکا تھا۔جبکہ فلسطینی حکام کے ساتھ امریکی وزیرخارجہ کے نئے دور کے مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ہی فلسطینی علاقوں میں صیہونی کالونیوں کی تعمیر میں توسیع کا اعلان اور اس میزائل سسٹم کا تجربہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ صیہونی حکومت حتی فلسطینی فریق کے ساتھ مذاکرات کے دوران بھی اشتعال انگیز اقدامات سے گریز نہیں کرتی رہی اور یہ تمام عوامل سازشی مذاکرات کی شکست کا باعث بنے ۔