حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے ہفتے کے دن ویڈیو کانفرنس کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملت لبنان کی اکثریت قانونی ٹائم کے اندر نیا صدر منتخب کۓ جانے کی خواہاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استقامت دفاعی اسٹریٹیجی اور دوسرے مسائل کے جائزے کے لۓ مذاکرات میں شرکت کر رہی ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے مزید کہا کہ صیہونی حکومت سب سے بڑا خطرہ ہے اور بعض حلقے اس خطرے کو نظر انداز کررہے ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے مزید کہا کہ حزب اللہ ہرطرح کی جارحیت کا بھرپور جواب دے گي اور علاقے کی تمام قوموں بالخصوص ملت لبنان کے مقابل استقامت کے علاوہ کوئي اور چارہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی حکومت کے خلاف جاری مزاحمت کے حزب اللہ کا شام کی جنگ میں شامل ہونے یا انیس سو بیاسی اور دوہزار چھ کی جنگوں سے کوئي تعلق نہیں ہے بلکہ استقامتارض فلسطین پر صیہونی حکومت کے قیام سے شروع ہوئي۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ حزب اللہ کی دفاعی طاقت کے پیش نظر صیہونی حکومت دوبارہ حملے کرنے کی جرات نہیں کرے گی اور سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ صیہونی حکومت حزب اللہ کی طاقت اور توانائي سے بخوبی واقف ہے۔ انہوں نے شام کے بحران کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شام کا بحران بیرونی مداخلت کی وجہ سے اس مرحلے تک پہنچا ہے اور حزب اللہ اور اسکی موجودگي سے اس کا کوئي تعلق نہیں ہے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ حزب اللہ نے ابتدا ہی سے شام کے بحران کے سیاسی راہ حل پرتاکید کی ہے لیکن کچھ عرب حلقوں نے شام کی حکومت کی سرنگونی پر اصرار کیا تھا۔سید حسن نصراللہ نے مزید کہا کہ لبنان کی استقامت ، فوج اور ملت نے لبنان اور اس ملک کے جنوبی علاقے کے دفاع میں کامیابی حاصل کی اور ان تینوں کو شکست نہیں دی جاسکتی ہے۔
حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ استقامت در اصل ایک کلچر اور جہادی کوشش کا نام ہے کہا کہ استقامت لبنان کے تمام گھروں ، شہروں ، دیہاتوں اور مساجد میں موجود ہے اور تاریخی دستاویزات سے اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ سید حسن نصراللہ نے اس بات کو بیان کرتے ہوئے ، کہ استقامتکے بارے میں ہمیشہ قومی اتفاق رہا ہے اور حزب اللہ ماضی کی نسبت بہت زیادہ طاقتور ہوچکی ہے اور اسکی یہ ترقی تمام شعبوں میں دیکھی جاسکتی ہے، کہا کہ حزب اللہ ملت لبنان اور اپنے ملک کی سرزمین کے دفاع کے لئے ہمیشہ آمادہ و مستحکم باقی رہے گي۔
دریں اثناء لبنان کے دروزیوں کے رہنما اور ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ولید جنبلاط نے صیہونی دشمن کے مقابلے کے لۓ استقامت کی حمایت پر زور دیا ہے۔ ولید جنبلاط نے زور دے کر کہا کہ دشمن نے بارہا لبنان کے خلاف جارحیت کی ہے لیکن ہر مرتبہ استقامت نے اسے شکست کا مزہ چکھایا ہے۔
واضح رہے کہ لبنان میں استقامت نے بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں اور گزشتہ تیس برسوں کے دوران اس نے طاقت کا وہ توازن تبدیل کردیا ہے جو برسہا برس سے تسلط پسند طاقتوں نے قائم کر رکھا تھا۔
بلاشبہ حزب اللہ لبنان کی قیادت میں لبنانی عوام کی صیہونیت مخالف استقامت صیہونی حکومت کی جارحیتوں کے مقابلے میں ایک سیسہ پلائی ہوئي دیوار شمار ہوتی ہے اور اس کو لبنان کے خلاف تسلط پسند طاقتوں کے خطرات اور سازشوں کی ناکامی کا سبب سمجھا جاتا ہے۔ ان امور کی بناء پر لبنان کے عوام اور خطے کی رائے عامہ میں حزب اللہ لبنان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ گزشتہ کئي برسوں میں استقامت نے صیہونی حکومت کو پے در پے شکستیں دے کر طاقت کا وہ توازن تبدیل کردیا ہے جو صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں نے اس خطے میں برقرار کر رکھا تھا۔ صیہونی حکومت اور اس کے حامی خطے میں خوف و ہراس کی فضا قائم کر کے اور صیہونی حکومت کے ناقابل تسخیر ہونے کا پروپیگنڈہ کر کے اس حکومت کی توسیع پسندی اور خطے میں یورپ کی تسلط پسندی کے مقابلے میں ہر طرح کی استقامت کا خاتمہ کرنے کے درپے تھے۔ لیکن لبنان کی استقامت کے مقابلے میں صیہونی حکومت کی پے در پے شکستوں کے نتیجے میں لبنان اور خطے کے خلاف صیہونی حکومت اور امریکہ کی سازشیں نقش بر آب ہوگئيں۔ سنہ دو ہزار میں صیہونی حکومت کو استقامت سے ذلت آمیز شکست کے نتیجے میں لبنان کے مقبوضہ علاقوں سے پسپائي اختیار کرنا پڑی۔ اور اس کے بعد سنہ دو ہزار چھ میں تینتیس روزہ جنگ میں استقامت کے مقابلے میں صیہونی حکومت کی شکست کے ساتھ اس حکومت کے ناقابل شکست ہونے کا طلسم ٹوٹ گیا۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب تینتیس روزہ جنگ میں صیہونی حکومت کی شکست کے ساتھ نئے مشرق وسطی پر مبنی امریکہ کا منصوبہ بھی خاک میں مل گیا۔