وادی میں سیاسی جماعتوں کے ششمائی امتحان کی الٹی گنتی شروع ہوئی جبکہ24اپریل کو بارہمولہ پارلیمانی نشست پر انتخابات کے ساتھ ہی حکمران جماعت نیشنل کانفرنس اور اپوزیشن پی ڈی پی کے امیدواروں کی سیاسی تقدیر کا فیصلہ بھی ہوگا۔اس دوران سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ پارلیمانی انتخابی نتائج کے اثر ات اسمبلی الیکشن پر پڑنا طے ہیں۔ پارلیمانی انتخابات کی6 نشستوں کیلئے نیشنل کانفرنس ، کانگریس ، پی ڈی پی اور بی جے پی کے مابین چو طرفہ مقابلہ ہو رہا ہے تاہم کشمیر وادی کی 3 لوک سبھا نشستوں پر اصل اور براہ راست مقابلہ حریف علاقائی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے درمیان ہو رہا ہے ۔ 3 مراحل میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کو گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے آنے والے اسمبلی انتخابات کیلئے سیمی فائنل قرار دیا۔ انہوں نے اپنے والد ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی انتخابی مہم کے سلسلے میں وسطی ضلع بڈگام میں گزشتہ دنوں منعقدہ ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رواں پارلیمانی انتخابات سیمی فائنل ہیں جبکہ فائنل مقابلہ سال رواں کے آخر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے دوران ہوگا ۔ عمر عبداللہ کی اس بات سے قطع نظر یہ بات بلاشبہ ایک حقیقت ہے کہ جموں و کشمیر کی 6 پارلیمانی نشستوں کے لیے ڈالے جانے والے ووٹوں کی شرح اور ان 6 نشستوں کے نتائج اکتوبر نومبر 2014 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کیلئے ششمائی امتحان کی اہمیت رکھتے ہیں ، کیونکہ 6 پارلیمانی نشستوں کے تحت آنے والے 87 اسمبلی حلقوں میں ڈالے جانے والے ووٹوں سے یہ بات واضح ہوجائیگی کہ فی الوقت جموں و کشمیر میں عوامی سطح پر کس جماعت کو کتنی عوامی مقبولیت یا سپورٹ حاصل ہے ۔ اگر سال 2008 میں ہوئے اسمبلی انتخابات اور اس کے بعد سال 2009 میں کرائے گئے پارلیمانی انتخابات کے نتائج کا احاطہ کیا جائے تو 17 نومبر 2008 سے 24 نومبر 2008 تک جموں و کشمیر میں کرائے گئے 7 مراحل میں اسمبلی انتخابات کے دوران کل ملا کر 60 فیصد سے زیادہ ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا جبکہ 2008 کے اسمبلی انتخابات میں نیشنل کانفرنس نے 2002 میں حاصل کردہ اپنی 28 نشستوں کو بر قرار رکھا تھا جبکہ اس کی خاص حریف جماعت پی ڈی پی نے اپنی نشستوں میں 5 کا اضافہ کرتے ہوئے 2008 کے اسمبلی انتخابات میں 21اسمبلی نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ تاہم 2002کے مقابلے میں ریاستی کانگریس کیلئے 2008 کے اسمبلی انتخابات مایوس کن ثابت ہوئے تھے کیونکہ اس جماعت نے صرف17 نشستیں حاصل کی تھیں اور اس کو 3 نشستوں کا خسارہ ہوا تھا ۔ کانگریس کی اس ہار کا فائدہ براہ راست جموں
میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو حاصل ہوا کیونکہ 2002 میں حاصل کردہ صرف ایک اسمبلی سیٹ کے مقابلے میں اس جماعت نے 2008 کے اسمبلی انتخابات میں 10 کا اضافہ کرتے ہوئے 11نشستیں حاصل کی تھیں ۔ اس کے علاوہ سی پی آئی ایم کے محمد یوسف تاریگامی نے اپنی کولگام نشست کو بر قرار رکھنے میں کامیابی
حاصل کی ، سابق وزیر حکیم محمد یاسین اور وزیر زراعت غلام حسن میر نے بھی خان صاحب بڈگام اور ٹنگمرگ کی اسمبلی نشست پر دوبارہ جیت درج کی ۔ 2008 کے اسمبلی انتخابات میں 4 آزاد امیدوار بھی کامیاب رہے جبکہ نیشنل پینتھرس پارٹی نے ایک نشست کا نقصان برداشت کرتے ہوئے 3 اسمبلی حلقوں میں کامیابی
درج کی ۔ اگرچہ 2008کے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پردیش کانگریس نے نیشنل کانفرنس کا ہاتھ تھام کر اس کے ساتھ مخلوط سرکار قائم کی لیکن گزشتہ 5 برسوں کے دوران اس ریاستی سرکار کی کارکردگی عوامی ، سیاسی اور حکومتی سطح پر اس قدر اطمینان بخش یا حوصلہ افزا نہیں رہی کہ اس کی بنیاد پر یہ اتحادی جماعتیں رواں پارلیمانی انتخابات یا آنے والے اسمبلی انتخابات کے دوران کوئی بڑا فائدہ حاصل کر سکیں۔ پارلیمانی انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہوجائیگا کہ اسمبلی انتخابات کے دوران اونٹ کس کروٹ بیٹھنے والا ہے ۔ تاہم یہ بات اب ایک تلخ حقیقت بن چکی ہے کہ جموں و کشمیر میں کوئی بھی جماعت کانگریس کی حمایت کے بغیر حکومت نہیں بنا سکتی
ہے لیکن اس کا قطعی طور یہ مطلب نہیں کہ جس طرح جموں میں اس پارٹی کو سیاسی اور عوامی سطح پر مضبوطی حاصل ہے ، وہ مضبوطی یا حمایت کانگریس کو کشمیر میں بھی حاصل ہوجائے ۔ جہاں تک موجودہ اسمبلی کا تعلق ہے تو اس میں کانگریس کے کل ممبران کی تعداد 17ہے ، جن میں صرف 3ممبران اسمبلی کا تعلق کشمیر وادی سے ہے ، جن میں تاج محی الدین ، پیر زادہ محمد سعید اور غلام احمد میر شامل ہیں ۔ 2014کے آخر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کیلئے تمام سیاسی جماعتیں رواں پارلیمانی انتخابات کو اپنے لئے ششمائی امتحان مان چکی ہیں ، اسی لئے تو نیشنل کانفرنس ، کانگریس ، پی ڈی پی ، بی جے پی اور دیگر چھوٹی بڑی جماعتوں کے تمام چھوٹے بڑے لیڈران انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں ۔ پارلیمانی انتخابات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی نے گزشتہ دنوں اپنی پارٹی کے مرکزی وزیر غلام نبی آزاد کی انتخابی مہم کو چار چاند لگانے کیلئے ہنگامی طور ڈوڈہ کا دورہ کیا جبکہ بھاجپا کے قومی صدر راج ناتھ سنگھ اپنے پارلیمانی امیدوار ڈاکٹر جتندر سنگھ کی انتخابی مہم میں حصہ لینے کیلئے ادھمپور کا دورہ کر رہے ہیں ۔ غور طلب ہے کہ اس سے پہلے بھاجپا کے وزیر اعظم عہدے کے امیدوار نریندر مودی جموں صوبہ میں نئی انتخابی لہر پیدا کرنے کیلئے 2 مرتبہ یہاں کا دورہ کر چکے ہیں۔ ہل اور ہاتھ کا ساتھ کس حد تک پارلیمانی انتخابات میں کامیابی سمیٹ سکتا ہے ، اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا تاہم حالیہ دنوں میں مختلف نجی نیوز چینلوں کی طرف سے لگائے گئے اندازوں میں یہ بتایا گیا کہ
جموں و کشمیر کی 6پارلیمانی نشستوں میں سے 2پر پی ڈی پی کامیابی حاصل کرے گی جبکہ باقی 4نشستیں کانگریس ، نیشنل کانفرنس ، بی جے پی اور آزاد امیدوار کے حصے میں آ سکتی ہیں ۔ اگر ان اندازوں کی روشنی میں اسمبلی
انتخابات کے نتائج کا قبل از وقت احاطہ کیا جائے تو 2008میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے مقابلے میں سال رواں کے آخر میں ہونے والے اسمبلی الیکشن نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے لئے بڑ ا امتحان ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ
دونوں جماعتوں کی ملی جلی سرکار کی 5سالہ کارکردگی کے بارے میں عوامی اور سیاسی سطح پر منفی رائے پائی جاتی ہے اور اگر واقعی اسی رائے کے تحت جموں و کشمیر کے لوگوں نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا تو نیشنل کانفرنس اور
کانگریس کو کشمیر کے ساتھ ساتھ جموں صوبے میں بھی سخت انتخابی خسارے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ تاہم اس کا قطعی یہ مطلب نہیں نکالا جاسکتا کہ ہل اور ہاتھ کی گرتی مقبولیت کا فائدہ براہ راست کشمیر میں پی ڈی پی اور
جموں میں بی جے پی کو حاصل ہوگا کیونکہ دونوں صوبوں میں حالیہ کچھ برسوں کے دوران کچھ نئی سیاسی قوتیں یا سیاسی پارٹیاں بھی عوامی اور سیاسی سطح پر کافی متحرک ہوئی ہیں ۔ غور طلب ہے کہ الیکشن بائیکاٹ کال کے باوجود
2008کے اسمبلی انتخابات کے دوران 2002کے مقابلے میں 17فیصد زیادہ رائے دہندگان نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا تھا۔