رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انقلاب کے وفادار ساتھی اور سچے مجاہد مرحوم حبیب اللہ عسگر اولادی کے اہلخانہ اور ان کی یاد منعقد کرنے والے بعض اہلکاروں سے ملاقات کی اور اس ملاقات میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مرحوم عسگر اولادی کو تین ممتاز خصوصیات تدین، تخلق اور تفکر کا حامل قراردیتے ہوئے فرمایا: مرحوم عسگر اولادی کی سبق آموز خصوصیات میں ان کی تلاش و کوشش ، پیہم سیاسی تحرک اس حقیقت کا مظہر ہے کہ انسان کو جد وجہد اور جہاد کے میدان میں کبھی بھی ضعف ، سستی، کاہلی ، غفلت کا احساس اور گوشہ نشینی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔
اس ملاقات میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کے بیانات کے متن کو اس انقلابی شخصیت کی پہلی برسی کے موقع پر شائع کیا گيا ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مؤمن کی موت اور حیات مبارک اور برکات کی حامل ہے؛ اور جناب عسگر اولادی اس قسم کے انسان تھے، ان کی زندگی بھی بابرکت زندگی تھی اور موت کے بعد بھی ان کے برکات نمایاں ہیں، میری نظر میں زندگی کے تین حصوں میں مرحوم عسگر اولادی ممتاز اور نمایاں انسان تھے۔
مرحوم کی زندگی کا پہلا حصہ دینی حصہ تھا؛ وہ حقیقت میں ایک دیندار، مذہبی انسان ، عبادتگذار، دینی اور شرعی احکام کے پابند انسان تھے اور ان کی جوانی کے دور میں جدو جہد، سیاسی جماعت مؤتلفہ میں جد وجہد، جیل کے اند اور جیل سے باہر انقلاب کی کامیابی کے لئے ان کی تلاش و کوشش ، انقلاب کی کامیابی سے لیکر ابھی حال تک ان کی تلاش و کوشش اور نامہ نگاری کا اصلی سرچشمہ دینداری اور تدین تھا یعنی وہ حقیقت میں ذمہ داری کا احساس کرتے تھے۔
انھوں نے حال ہی میں مجھے ایک خط لکھا تھا خط کا مضمون تقریبا یہ ہے- میں اپنی زندگی کے اس آخری دور میں اپنی تمام کوششوں کو بروی کار لانا چاہتا ہوں، ان خطوط کو لکھ رہا ہوں اس رابطہ کو برقرار کررہا ہوں شرعی اور دینی ذمہ داری کے عنوان سے – یعنی مرحوم میں تدین کا جذبہ تھا جو انھیں ان برسوں میں انقلاب سے پہلے اور انقلاب کے بعد دشوار جد وجہد کی طرف مائل کررہا تھا، تحریک انقلاب سے قبل اور جیسا کہ میں نے سنا ہے کہ فدائیان کے دور سے لیکن علماء کے جہاد تک اور سن 1341 اور 1342 سے لیکر عمر کے آخری حصہ تک مرحوم کی تمام کوششیں دینی جذبہ پر استوار تھیں یہ ایک ممتاز نقطہ ہے جو میری ںظر میں ایک انسان کی شخصیت میں بہت مؤثر ہے۔
زندگی کا دوسرا پہلو ، جو جناب عسگر اولادی میں موجود تھا وہ ان کا اخلاقی پہلو تھا وہ ایک ایسے انسان تھے جو شرعی حسن اخلاق کے حامل تھے؛ وہ حوصلہ مند، بہت زيادہ متین، صبور اور منصف مزاج انسان تھے ، تدین کی یہی تو علامتیں ہیں ورنہ اگر کوئی شخص نماز بھی پڑھے، نوافل بھی ادا کرے، نماز شب بھی پڑھے لیکن عوام کے ساتھ اس کی رفتار غیر منصفانہ ہو تو وہ کچھ نہیں ہے، مرحوم عسگر اولادی اخلاقی لحاظ سے دینی اخلاق کے حامل تھے یعنی وہ ایک صابر انسان تھے، وہ ایک متین انسان تھے، منصف مزاج انسان تھے، اور ان علائم کو ہم نے ان کی رفتار میں مشاہدہ کیا ہے۔ وہ ایک چوکس اور ہوشیار انسان تھے وہ اپنے نفس کے بارے میں چوکس اور ہوشیار تھے، وہ اپنی باتوں اور گفتگو کے بارے میں ہوشیار تھے یہ بہت اہم چیزیں ہیں کہ ہم اپنی زبان پر کنٹرول کریں ہرچیز بیان نہ کریں،وہ اپنے آپ کو کنٹرول کرتے تھے؛ یہ ان کی زندگی کا دوسرا پہلو اور اخلاقی پہلو ہے اور یہ اخلاق دین کی روح و جان ہےہر انسان کے لئے اس کا اخلاق اس کی دینداری کی روح ہے؛ بُعِثتُ لِاُتَمِّمَ مَكارِمَ الاَخلاق؛ مکارم اخلاق یہی ہیں یعنی انسان صبور ہو، متین ہو، منصف مزاج ہو، خوش اخلاق ہو، عوام کے ساتھ نیک رفتار ہو، خدمتگزار ہو، جد وجہد و تلاش و کوشش کا پیکر ہو، پیشقدم ہو، کاہل اور سست نہ ہو، یہی اسلامی اخلاقیات ہیں، یہ سب چیزیں جناب عسگر اولادی میں موجود تھیں آپ سب نے مشاہدہ کیا اور آپ سب جانتے ہیں۔
مرحوم عسگر اولادی کی زندگی کا تیسرا پہلو فکری پہلو تھا،وہ یک فکری انسان تھے، سیاسی مسائل اور سماجی مسائل میں وہ ایک خوش فکر انسان تھے، ہرگز وہ ایک عام انسان نہیں تھے وہ تمام مسائل میں صاحب فکر و نظر تھے، وہ اقتصادی مسائل میں ، سیاسی مسائل میں اہل فکر تھے ، وہ صاحب فکر انسان تھے، وہ باشعور انسان تھے مسائل کو سمجھتے اور اچھی طرح پہچانتے تھے، میں جناب عسگر اولادی کو دور دور سے جانتا تھا، قریب سے نہیں دیکھا تھا، جب وہ جیل میں تھے، یہاں تک کہ وہ آزاد ہوئے، وہ جناب حیدری کے ہمراہ مشہد میں ہمارے گھر آئے؛ تو میں نے پہلی مرتبہ آقائ عسگر اولادی کو قریب سے مشاہدہ کیا اس سے قبل میں نے ان کو نہیں دیکھا تھا وہ آئے اور بیٹھ کر جیل کے بارے میں رپورٹ پیش کرنا شروع کی اور جیل میں موجود ان دوستوں کے بارے میں ایک جامع رپورٹ ہمیں پیش کی جو جیل میں آپس میں ایکدوسرے کے ساتھ لڑتے اور جھگڑتے تھے حقیقت میں ان کی باتوں کو میں نے توجہ اور غور کے ساتھ سنا ، انھوں نے انہی منافقین کی صورتحال کو دلائل کے ساتھ اور اچھے انداز میں پیش کیا، آرام اور سکون کے ساتھ تشریح کی، میں نے حقیقت میں کہا کہ یہ انسان اچھی طرح مسائل کو پہچانتا اور سمجھتا ہے، مرحوم ایک فکری انسان تھے۔ وہ جب بھی یہاں آتے تھے مختلف مسائل کے بارے میں گفتگو کرتے تھے، اور اسی طرح ان کا چہرہ ایک فکری چہرہ تھا۔یعنی وہ صاحب فکر انسان تھے، صاحب استدلال انسان تھے، خوش فکر انسان تھے،صاحب منطق انسان تھے، وہ ایک جامع انسان تھے جن کا ذہن مختلف مسائل کے بارے میں کام کرتا تھا۔
اللہ تعالی ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے، انھوں نے بہت زیادہ کام انجام دیئے،امید وار ہیں کہ اللہ تعالی انھیں اجر و ثواب عطا فرمائے، ہمیں سبق سیکھنا چاہیے یہی تین خصوصیات جو میں نے ان کے بارے میں بیان کی ہیں یہ تینوں خصوصیات ہم سب کے لئے ایک درس ہیں تدین اور دینداری کی خصوصیت بھی، دینی اخلاق کی خصوصیت بھی اور فکر کی خصوصیت بھی؛ انسان کو دینی اصولوں کا پابند بھی ہونا چاہیے، شرع اسلام کا پابند بھی ہونا چاہیے، ہمیں محرمات الہی سے اجتناب اور پرہیز کرنا چاہیے؛ افراد کے لئے محرمات الہی مختلف ہیں، بعض کے لئے محرمات الہی کچھ اور ہیں اور ہمارے لئے محرمات کچھ اور ہیں؛ ہم غیبت کرتے اور غیبت سنتے ہیں خلاف واقعہ اور جھوٹی بات کرتے ہیں غلط اور جھوٹا فیصلہ بھی کرتے ہیں جہاں ہمیں بات کہنی چاہیے وہاں ہم خاموش رہتے ہیں، اور جہاں ہمیں خاموش رہنا چاہیے وہاں ہم بول جاتےہیں؛ یہ ہماری شرعی خلاف ورزیاں ہیں۔ان کی مراعات کرنی چاہیے ان کے بارے میں ہوشیار رہنا چاہیے اخلاف و تخلق کی رعایت کرنی چاہیے یہ اخلاق حقیقت میں دینداری کی روح ہے؛ صبرکو حوصلہ کو، انصاف کو، عفو و درگذر کو سنجیدگی کو تلاش کو کاہلی اور سستی نہ کرنے جیسے اسباق کو ہمیں یاد کرنا چاہیے یہ چیزيں بہت ضروری ہیں۔
مرحوم کا سیاسی تحرک اسی (80) سال سے زائد کی عمر میں بھی جاری رہا یہ بات بہت اہم ہے، کہ انسان بڑھاپے کا احساس نہ کرے، اور جد وجہد کے میدان میں کاہلی ،سستی، کا احساس اور گوشہ نشینی اختیار نہ کرے ، یہ باتیں بہت ہی اہم ہیں۔
امید ہے کہ اللہ تعالی مرحوم کے ساتھ اور ہمارے ساتھ اپنے لطف کے ساتھ عمل کرےگا انشاء اللہ اور اپنی رحمت سے ہمیں نوازےگا۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته
a