۲۰۱۵/۰۶/۲۳-رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے رمضان المبارک کی مناسبت سے تینوں قوا کے سربراہان ، اعلی حکام اور اہلکاروں کے ساتھ ملاقات میں مزاحمتی اور مقاومتی اقتصاد اور معیشت کو عملی جامہ پہنانے کے طریقوں، چيلنجوں اور مثبت نتائج کی تشریح کے ضمن میں ایٹمی مذاکرات کے سلسلے میں فیصلہ کن نکات بیان کئے اور ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں ایران کی ریڈ لائنوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ ایران کی ایٹمی صنعت کو نابود اور ویران کرنے کی تلاش و کوشش میں ہے جبکہ ایران کے تمام حکام ریڈ لائنوں اور ایران کے مفادات اور مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اچھے ،منصفانہ اور عزتمندانہ معاہدے کی تلاش میں ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں رمضان المبارک کو ماہ تقوی قراردیا اورتقوی کی ذاتی اور سماجی دو قسموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ذاتی تقوی در حقیقت وہ دائمی حالت اور مراقبت ہے جو انسان کو معنوی مہلک اور خطرناک چوٹیں کھانے سے محفوظ رکھتی ہے البتہ دنیاوی امور میں بھی اس کے اثرات بہت زیادہ ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے معاشرتی تقوی کو عام سماجی اور اقتصادی مسائل میں جاری و ساری قراردیتے ہوئے فرمایا: اقتصادی مسائل میں معاشرتی تقوی درحقیقت وہی مزاحمتی اقتصاد ہے جو ملک کو عالمی حوادث اور زلزلوں کے مقابلے میں یا عالمی زہرآلودہ تیروں اور معاندانہ پالیسیوں کے مقابلے میں محفوظ بناتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اقتصادی طاقتوں کے مقابلے میں ملک کو مضبوط و مستحکم بنانے کے سلسلے میں گذشتہ سالوں میں اپنے مکرر انتباہات کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایا: حالیہ برسوں میں حکام نے اپنی توانائی اور طاقت کے مطابق اچھی کوششیں کی ہیں لیکن مزاحمتی اقتصاد کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں ملک کی تمام توانائيوں اور ظرفیتوں سے بھر پور استفادہ کرنا چاہیے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض ممالک میں مزاحمتی اقتصاد کے نفاذ اور اس کے مثبت اثرات کی طرف اشارہ کیا اور مزاحمتی اقتصاد کو اندرونی پیداوار اور اندرونی توانائیوں پر استوار قراردیتے ہوئےفرمایا: اندرونی پیداوار کا مطلب تنہائی اور الگ تھلگ ہونا نہیں ہے بلکہ بیرونی نگاہ کے ساتھ اندرونی ظرفیتوں اور توانائیوں پر توجہ دینا اور اعتماد کرنا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزاحمتی اور مقاومتی اقتصاد کی کلی پالیسیوں کی تدوین کو طویل مشوروں اور خرد جمعی کی کوششوں کا نتیجہ قراردیتے ہوئےفرمایا: مزاحمتی اقتصاد کی کلی پالیسیوں کے ابلاغ کے بعد بہت سے اقتصادی ماہرین نے ان پالیسیوں کی تائید کی اور اب مزاحمتی اقتصاد ملک کی مروجہ اقتصادی ثقافت اور ادبیات کا حصہ بن گیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزاحمتی اقتصاد کے ماڈل کو تیسری دنیا پر بڑی طقاتوں کے قدیم اور مسلط کردہ ماڈل کے مد مقابل قراردیتے ہوئے فرمایا: قدیم ماڈل کی نگاہ ملک سے باہرمرکوزہے جبکہ مزاحمتی اقتصاد داخلی اور اندرونی ظرفیتوں پر مشتمل ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ممکن ہے بعض افراد یہ کہیں کہ مزاحمتی اقتصاد کا ماڈل اچھا اور پسندیدہ ہے لیکن اس کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں ہے لیکن میں قطع و یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ ملک کی تمام داخلی ظرفیتوں اور توانائیوں سے استفادہ کرکے مزاحمتی اقتصاد کو عملی جامہ پہنانا ممکن ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس مقدمہ کے بعد ملک میں موجود بعض ظرفیتوں کو بیان کیا جو مزاحمتی اقتصاد کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔ ماہر اور خود اعتمادی کے جذبے سے سرشار اور پڑھے لکھے افراد پہلی ظرفیت تھی جس کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ملک میں ماہرین اور پڑھے لکھے افراد کی اتنی بڑی تعداد میں موجود افرادی قوت ،انقلاب اسلامی کے برکات میں شامل ہے بشرطیکہ غلط پالیسیاں معاشرے کے پیر ہونے اور جوانوں کی کمی کا موجب نہ بنیں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب کے اوائل کی نسبت 25 گنا زیادہ یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل 10 ملین جوانوں اور یونیورسٹیوں میں مشغول 4 ملین سے زائد جوانوں کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ماہرین اور تحصیل کردہ جوانوں کی اتنی بڑی تعداد اسلامی نظام کے لئے فخر کا باعث ہے اور یہ ایک عظیم فرصت بھی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کے اقتصادی مقام کو دوسری اہم ظرفیت قراردیتے ہوئے فرمایا: عالمی اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے اقتصاد اور معیشت میں ایران کا بیسواں رتبہ ہے اور استفادہ نشدہ ظرفیتوں سے استفادہ کی صورت میں ایران دنیا کے اقتصاد کے بارہویں رتبے تک پہنچ سکتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گیس اور تیل کے ذخائر میں مجموعی طور پر ایران کے پہلے مقام کو مزید ایک اہم ظرفیت قراردیا اور شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک ارتباط کو ملک کی ممتاز جغرافیائی پوزیشن قراردیتے ہوئے فرمایا: ایران کے پڑوس میں 15 ممالک ہیں جن کی آبادی 370 ملین ہے اور ایران کے قریب میں یہ ایک اہم بیرونی بازار ہے اور اسی طرح خود ایران کی آبادی 70 ملین سے زائد ہے جو ایک بڑا داخلی اور اندرونی بازار ہے اور اگر اسی اندرونی بازار پر توجہ مبذول کی جائے تو پیداوار کی صورتحال دگرگوں ہوجائے گی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انرجی، روڈ اینڈ ٹرانسپورٹ، ارتباطات ،بجلی گھروں ، ڈیموں کے سلسلے میں ملکی تعمیرات اور اسی طرح ملک میں مدیریتی تجربہ کو ایک اور ظرفیت شمار کرتے ہوئےفرمایا: ہمیں ان ظرفیتوں سے مناسب اور درست استفادہ کرنا چاہیے کیونکہ ملک کی مشکل اچھے منصوبوں اور اچھی اور ماہرانہ باتوں میں کمی نہیں ہے بلکہ اصلی مسئلہ اور اصلی مشکل ان منصوبوں اوران اچھی باتوں سے درست استفادہ نہ کرنے کا مسئلہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض مشکلات کو ملک کے اندرونی چیلنجوں کی وجہ سے قراردیا اور بعض چیلنجوں کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا: عمل میں غفلت،سادگی اور مسائل پر سطحی نظر رکھنے جیسے امور ملک کے لئے بہت بڑا چیلنج ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئےفرمایا: لفظی بحثوں اور روشنفکری سے کام آگے نہیں بڑھےگا بلکہ مسائل اور بلند مدت امور کے حل کے لئے اقدام ، عمل اور جدوجہد ضروری ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض بڑے امور کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے طویل عرصہ اور ایک نسل کے برابر مدت گزرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس دور میں جب ملک کی علمی تحریک اور یونیورسٹیوں کے بارے میں گفتگو ہوتی تھی شاید کسی کو یہ یقین نہیں تھا کہ 10 یا 15 سال کے بعد ملک کی موجودہ علمی تحریک باصلاحیت اساتید اور جوانوں کی ہمت سے پیدا ہوجائے گی اور گذشتہ سالوں کی نسبت آج ملک کی علمی پیشرفت اور ترقی پر ہم حیران اور خیرہ کنندہ ہیں۔
موازی، آسان اور مہلک راستے ایک اور اندرونی چیلنج تھا جس کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بعض اوقات ضروری اشیاء کی فراہمی دو راستوں سے ممکن ہے ایک راستہ یورپ کا راستہ اور آسان راستہ ، جبکہ دوسرا راستہ غیر یورپی راستہ اور سخت راستہ، پہلا راستہ انسان کو مشکل میں مبتلا کردےگا اور دوست اس کو کمزور اور دشمن اس کو قوی بنا دیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: داخلی سطح پر ایک اور بڑا چیلنج جو درپیش ہے وہ عظیم اور اساسی اشتباہ ہے کہ کوئی یہ سوچ لے کہ اسلامی نظام اور عقائد پر مبنی اصولوں سے دور رہنے کی وجہ سے تمام راہیں کھل جائیں گی ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حکومت میں مشغول افراد خدمتگزار اور انقلاب اسلامی کے اصولوں پر اعتقاد رکھتے ہیں اور میرا ان سے کوئی گلہ اور شکوہ نہیں ہے لیکن مجموعی طور پر بعض یہ تصور کرتے ہیں کہ دشمن کے سامنے سے پیچھے ہٹنے یا اسلامی اصولوں کو نظر انداز کرنے سے تمام دروازے کھل جائیں گے حالانکہ حالیہ برسوں میں بعض ممالک میں اس غلط فکر کے برے نتائج ہم مشاہدہ کرچکے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلامی اصولوں پر استقامت اور پائداری ، پیشرفت اور ترقی کا واحد راستہ ہے۔