صیہونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنے دورۂ امریکہ کے موقع پر اسلامی جمہوریہ ایران پر دہشت گردی کا بے بنیاد الزام لگاتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد گروہ داعش اور ایران کی زیر قیادت شیعہ اسلامی ملیشیا مشرق وسطی کو فتح کرنے کے درپے ہیں۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں باراک اوباما اور میرے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے لیکن سمجھوتے پر دستخط ہوچکے ہیں اور اب ہمیں اس معاہدے کی خلاف ورزی نہ کئے جانے کی جانب توجہ مرکوز رکھنی چاہئے۔
ایران کے ایٹمی معاہدے پر تشویش کے علاوہ ان بیانات میں طنزیہ نکتہ یہ ہے کہ سب سے بڑے شرپسند اور دہشت گردوں کے سرغنہ نیتن یاہو نے ایران پر مشرق و مغرب میں دہشت گردگروہوں کی تشکیل کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ مغرب کو بھی اس خطرہ کا سامنا ہے۔
بلاشبہ ایٹمی معاہدہ بہت سے پہلووں کے اعتبار سے ایک موثر اور قابل توجہ واقعہ ہے۔ اس واقعے سے اختلافات کو منطقی اور پرامن مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے حامیوں کے دل خوش ہوئے جبکہ دشمنوں کے سینوں میں آگ لگ گئی۔
دریں اثناء صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو نے شروع سے ہی ایٹمی معاہدے کو خطرناک ظاہر کرنے کی کی کوشش کی۔ اس رویئے کو اگرچہ عوام کو فریب دینے پر مبنی اسرائیل کی پالیسی قراردیا جا سکتا ہے لیکن یہ اس مسئلے کا صرف ایک پہلو ہے اور ایران کے بارے میں نیتن یاہو کے واویلے کا دوسرا پہلو حقائق سے فرار اختیار کرنے پر مبنی ان کی گھسی پٹی پالیسی ہے۔ یہ رویہ چند وجوہات کی بناء پر نیتن یاہو کے لئے اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہے۔
نیتن یاہو کے ایران مخالف بے بنیاد دعوے کی سب سے پہلی وجہ ان کی یہ تشویش ہے کہ ایران پر پڑنے والے بین الاقوامی دباؤ کا رخ اب مشرق وسطی میں واحد ایٹمی ہتھیاروں کے حامل اور این پی ٹی معاہدے پر دستخط نہ کرنے والے اسرائیل کی جانب مڑ چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نیتن یاہو کو اس خوف نے ایران پر بے بنیاد الزامات لگانے پر اکسایا ہے کہ مشرق وسطی کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کی تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں دباؤ میں مزید شدت پیدا ہو جائے گی۔ واضح رہے کہ امریکہ اور اسرائیل دونوں ہی اس تجویز کے مخالف ہیں۔
نیتن یاہو کی جانب سے ایران پر بے بنیاد الزام لگائے جانے کی دوسری وجہ اسرائیل کی بلیک میلنگ ہے اور یہ سلسلہ کبھی رکنے والا نہیں ہے۔ نیتن یاہو نے با رہا کہا ہےکہ ان کو ایران کے ایٹمی معاہدے پر تشویش لاحق ہے۔ اس تشویش کی بازگشت ان مسائل کی جانب ہوتی ہے جن کے بارے میں اسرائیل جوابدہ ہے ایران نہیں۔ بنابریں صیہونی حکام نے، اس استدلال کے ساتھ کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان پرعملدرآمد اسرائیل کے لئے بہت زیادہ اخراجات کا باعث بنے گا اور اسے کٹھن صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا، امریکہ سے مزید مطالبات کئے ہیں۔
صیہونی حکام نے امریکہ سے جو مطالبات کئے ہیں ان میں براہ راست اور بلامعاوضہ سالانہ تین ارب ڈالر کی مدد کو پانچ ارب ڈالر تک بڑھانا بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے مزید ہتھیاروں کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو نے امریکی حکام سے ملاقاتوں کے دوران ایک بار پھر یہ مطالبات ان کے سامنے رکھے ہیں۔البتہ امریکہ اسرائیل کے بقا پر موقوف مغربی ایشیا میں اپنےاسٹریٹیجک مفادات کی اہمیت کی خاطر صیہونی حکومت کو یہ خراج دینے پر مجبور ہے۔
نیتن یاہو کے ایران مخالف بے بنیاد الزامات کی تیسری وجہ یورپ خصوصا امریکہ کے تسلط کے خاتمے پر نیتن یاہو کی تشویش ہے۔ صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو کو اس بات نے شدید تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے امریکہ کی دھمکیوں، پابندیوں اور دباؤ کے مقابلے میں استقامت سے کام لیا اور یورپ اور امریکہ کو ایران کے جائز ایٹمی حقوق تسلیم کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
بنابریں ایٹمی معاہدہ اور مشترکہ جامع ایکشن پلان ایٹمی معاملے کے بارے میں ایک معمولی معاہدہ نہیں ہے بلکہ یہ خطے میں امریکہ اور اسرائیل کے اثر و رسوخ پر ایک کاری ضرب ہے۔ خطے میں رونما ہونے والی اس تبدیلی سے یقینا امریکہ اور اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں کے سامنے مشکلات کھڑی ہو جائیں گی اور خطے میں امریکہ اور اسرائیل کے اہداف کے حصول کے لئے دہشت گرد گروہ داعش کے پھیلاؤ اور اس کے کردار کی اہمیت کا بھی اسی تناظر میں جائزہ لیا جانا چاہئے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ دہشت گرد گروہ ہی ان کے خیال خام کے مطابق اسرائیل کا مقابلہ کرنے والے ممالک پر قابو پا کر خطے میں پیچیدہ بحران پیدا کر سکتا ہے اور یہ بحران صرف امریکہ اور اسرائیل کے فائدے میں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دہشت گرد گروہ داعش امریکہ اور اسرائیل کے لئے کسی طرح کا خطرہ نہیں ہے اور اس گروہ نے خطے میں صیہونی داعشی دہشت گردی کو چھپانے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ اور صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو کے بیانات کا جائزہ بھی انہی وجوہات اور دلائل کے تناظر میں لیا جانا چاہئے