حضرت بقیۃ اللہ الاعظم اروحنا فداہ کے یوم ولادت کے موقع پر دفتر رہبری کی ویب سائٹ خامنہ ای ڈاٹ آئی آر نے رہبر انقلاب اسلامی کے درج ذیل فرمودات کو پہلی مرتبہ شائع کیا جو آپ نے گزشتہ سال امام زمانہ (ع) کی عید میلاد کے موقع پر مسجد جمکران میں حاضری دینے کے بعد سامعین سے گفتگو میں بیان کیا۔
عدل و انصاف سے دنیا کو بھر دینا مہدی موعود(ع) کی منحصر بالفرد فضیلت ہے
امیدِ تاریخ کی شب میلاد ہے، مہدی موعود کی شب میلاد ہے، اس ذات کی شب ولادت ہے جو اللہ کے لایتخلف وعدہ کا مصداق ہے اس ذات کی شب میلاد ہے جس کے بارے میں وہ کچھ کہا گیا ہے جو نہ کسی پیغمبر کے بارے میں کہا گیا ہے نہ کسی امام و ولی خدا کے بارے میں کہا گیا۔ اور وہ یہ ہے کہ «یَملَأُ اللَّهُ بِهِ الاَرضَ قِسطاً وَ عَدلاً کما مُلِئَت ظُلماً وَ جَوراً» (۱) ( زمین کو عدل و انصاف سے ایسے بھر دے گا جیسے وہ ظلم و جور سے بھری ہو گی) کسی پیغمبر کے بارے میں ایسا نہیں کہا گیا ہے حتی پیغمبر آخر زمان(ص) کے بارے میں۔ وہ طاقت جو پوری دنیا کو عدل و انصاف کی نعمت سے بھر سکتی ہے وہ صرف آپ کے ہاتھوں کی طاقت ہے۔ خداوند عالم نے یہ عظیم فضیلت صرف آپ کو عطا کی ہے۔ نہ کسی ولی، نہ کسی پیغمبر کو، نہ بارگاہ حق کے کسی اور مقرب بندے کو عطا کی۔ صرف آپ ہیں کہ جن کے بارے میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ آج کی شب اس شخصیت کی ولادت کی شب ہے۔ لہذا یہ عظیم عید ہے۔
ام مہدی موعود(عج) کی عید میلاد میں مستقبل کی طرف دو نگاہیں:
۱؛ امید
ہمارے یہاں بہت ساری عیدیں ہیں رسول اکرم(ص) کے یوم ولادت کی عید، ائمہ اطہار کے ایام ولادت کی عیدیں، یا دوسری اسلامی عیدیں، ان عیدوں میں اور اس عید میں ایک بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔ ان عیدوں میں انسان کی نگاہ ماضی کی طرف ہوتی ہے۔ لیکن اس عید میں نگاہ مستقبل کی طرف ہے۔ عید مبعث عید میلاد النبی یا دیگر ائمہ اطہار کی ایام ولادت کی عیدیں وہ واقعات ہیں جو ماضی میں رونما ہوئے۔ البتہ ان کے اثرات ایک بہتے دریا کی طرح تاریخ بشریت میں جاری و ساری ہیں ہم ان کو نظر انداز نہیں کرتے ان کی طرف متوجہ ہیں لیکن ان عیدوں میں انسان ماضی کی طرف متوجہ ہوتا ہے اگر چہ وہ ماضی ہماری موجودہ زندگی میں اور آئندہ زندگی میں بھی اپنے اثرات چھوڑتی ہے لیکن اس عید میں پوری نگاہ مستقبل کی طرف ہے یعنی کیا مطلب؟ مستقبل کی طرف کیا نگاہ ہے؟ مستقبل کی طرف اس نگاہ میں دو چیزیں پائی جاتی ہیں:
ایک امید، دوسری تلاش۔ جب نگاہ مستقبل کی طرف متوجہ ہوگی تو سب سے پہلی چیز جو اس نگاہ کا محصول ہو گی وہ امید ہے۔ مشکلات اور پریشانیوں میں گرفتار افسردہ دل ایک روشن اور درخشاں دن، ایک نورانی اور بہشت مانند دنیا کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں گے اور مستقبل پر امید رکھیں گے۔ وہ جانتے ہیں ہمیشہ ایسا نہیں رہے گا۔ حتی اس وقت بھی جب پوری دنیا ظلم و جور سے بھر جائے گی یعنی ہرجگہ کو ظلم اپنی لپیٹ میں لے لے گا امید کی یہ کرن نہ صرف خاموش نہیں ہو گی بلکہ رہ گشا ہو جائے گی یعنی ظلم جتنا بڑھتا جائے گا یہ امید اتنی بڑھتی جائے گی۔ لہذا اس امید کی کرن رکھنے والا، مہدویت پر عقیدہ رکھنے والا کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ وہ کہنا ہے ممکن ہے میں اس دن کو درک نہ کر سکوں مگر وہ دن آئے گا۔ یہ وہ امید ہے جو مہدویت کے عقیدہ سے جنم لیتی ہے اور اس کے آثار انسان کی زندگی میں نظر آتے ہیں۔
۲؛ تلاش
دوسری چیز تلاش و کوشش ہے؛ ہر یقینی مستقبل کوشش پر موقوف ہے۔ آپ ایک ایسے پہاڑ کے دامن میں کھڑے ہیں جسے آپ کو سر کرنا ہے۔ کیا اس کی چوٹی تک پہنچنا ممکن ہے؟ جی ہاں۔ کیا وہاں تک پہنچنا یقینی ہے؟ جی ہاں۔ یقینا کچھ لوگ پہاڑ کی چوٹی تک پہنچیں گے، لیکن وہاں تک پہنچنا ایک شرط پر موقوف ہے اور وہ شرط تلاش و کوشش ہے۔ لیکن اگر پہاڑ کے دامن میں بیٹھ جاو، پہاڑ کو دیکھتے رہو، اس کی تعریف کرتے رہو، تالیاں بجاتے رہو، قطعا نہیں پہنچ پاو گے۔ تلاش و جستجو ضروری ہے۔ یہ دوسری شرط ہے۔ یقینا تمام بڑے کاموں میں تلاش ضروری ہے۔ نگاہ اگر مستقبل پر ہوگی اس نگاہ کا یقینی لازمہ یہ ہے کہ انسان تلاش و جستجو اور جد و جہد کرے گا۔ ہم جو اس دن کے معتقد ہیں ہمیں تلاش و جستجو کرنا چاہیے تاکہ وہ دن تحقق پائے۔ اور ہماری کوشش انشاء اللہ اس دن کو قریب کر دے گی۔ یہ دوسرا اہم نکتہ ہے اس عظیم عید کے موقع پر۔
پندرہ شعبان تمام انسانوں کے لیے عید کا دن ہے انشاء اللہ خوشی اور خوشحالی کا دن ہو۔ اور انشاء اللہ امام کی نیک دعائیں آپ کے، ہمارے اور پوری ملت ایران، ملت تشیع، امت مسلمہ اور تمام مظلومان عالم کے شامل حال ہوں اور انشاء اللہ ان کی دعاوں کی برکتوں سے ہم مستفید ہوں۔