علامہ عارف حسین حسینی شہید کے مختصر حالات زندگی:
پانچ اگست ملت اسلامیہ پاکستان کے شہید قائد اور وحدت مسلمین کے علمبردار علامہ سید عارف حسین الحسینی کی برسی ہے۔ ان کو استعماری ایجنٹوں امریکی پٹھو حکمرانوں نے 5 اگست 1988 ء کی صبح پشاور میں واقع ادرسگاہ مدرسۂ جامعۃ المعارف الاسلامیہ میں نماز فجر کے وقت شہید کیا۔ علامّہ شہید عارف حسینی کا دور قیادت پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت کے خلاف سیاسی جماعتوں کی جد و جہد کے دور سے مطابقت رکھتا تھا۔ چنانچہ آپ نے پاکستانی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے ملک کی تقدیر بدلنے کے لئے طویل جد و جہد کی۔ اس سے قبل پاکستانی سیاست میں علما کا مؤثر کردار نہیں تھا، لیکن شہید عارف حسینی نے اپنے ملک گیر دوروں لانگ مارچ کے پروگراموں، کانفرنسوں اور دیگر پروگراموں کے ذریعے دین اور سیاست کے تعلق پر زور دیتے ہوئے (بقول علامہ اقبال؎ ہو سیاست دین سے جدا تو بن جاتی ہے چینگزی) کے مصداق اپنی قوم کو سیاسی اہمیت کا احساس دلایا، اس سلسلے میں لاہور کی عظیم الشان قرآن و سنت کانفرنس قابل ذکر ہے۔ آپ پاکستانی شہری ہونے کے ناطے سیاسی و اجتماعی امور میں ہر مسلک و مکتب اور زبان و نسل سے تعلق رکھنے والوں کی شرکت کو ضروری سمجھتے تھے۔ علامہ عارف حسین حسینی نے پاکستان میں امریکی ریشہ دوانیوں کو نقش بر آب کرنے اور قوم کو سامراج کے ناپاک عزائم سے آگاہ کرنے کے لئے بھی موثر کردار ادا کیا۔ علامہ شہید عارف حسین حسینی اتحاد بین المسلمین کے عظیم علمبردار تھے، آپ فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کے شدید مخالف تھے، اس سلسلے میں آپ نے علمائے اہل سنت کے ساتھ مل کر امت مسلمہ کی صفوں میں وحدت و یک جہتی کے لئے گرانقدر خدمات انجام دیں۔
شہید علامہ سید عارف حسین حسینی کی ہمہ گیر شخصیت آپ کے مکتب میں فیض حاصل کرنے والے تمام لوگوں کے لئے ایک کامل نمونے کی حیثیت رکھتے تھی، آپ صبر و حلم، زہد و تقوی، ایثار و فداکاری، شجاعت و بہادری اور حسن خلق جیسے اعلی انسانی صفات سے متصف عظیم انسان تھے۔ شہید عارف حسینی کی شہادت کی خبر پاکستان بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اسلامیان پاکستان میں صف ماتم بچھ گئی اور عالم اسلام کے گوشے گوشے میں اس بھیانک قتل پر غم و اندوہ کا اظہار کیا گیا۔ شہید عارف سے بچھڑنے کا غم بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) پر بھی گراں گذرا چنانچہ آپ نے اپنے تعزیتی پیغام میں لکھا کہ میں اپنے عزیز فرزند سے محروم ہوگیاہوں " واقعا" شہید عارف امام خمینی (رح) کے روحانی فرزند تھے، آپ کو امام امّت سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا، شہید عارف نے انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے ہی نجف اشرف سے ہی اپنے مجتہد و ولی فقیہ امام انقلاب خمینی بت شکن سے فیض حاصل کی تھی، شہید عارف انہی ایام میں نجف پہنچے تھے، جب امام خمینی (رح) جلاوطن ہوکر عراق پہنچے تھے۔
شہید ملّت اسلامیہ علامہ سید عارف حسین حسینی پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی کے صدر مقام پاڑہ چنار سے چند کلومیٹر دور پاک افغان سرحد پر واقع گاؤں پیواڑ میں 25 نومبر 1946 ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق پاڑہ چنار کے معزّز سادات گھرانے سے تھا، جس میں علم و عمل کی پیکر کئی شخصیات نے آنکھیں کھولی تھیں۔ شہید عارف حسینی ابتدائی دینی و مروجہ تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کرنے کے بعد پاکستان کے بعض دینی مدارس میں زیرتعلیم رہے اور علمی پیاس بجھانے کے لئے 1967 ء میں نجف اشرف روانہ ہوئے۔ نجف اشرف میں شہید محراب آیت اللہ مدنی جیسے استاد کے ذریعے آپ حضرت امام خمینی (رح) سے متعارف ہوئے ۔ آپ باقاعدگی سے امام خمینی (رح) کے دروس، نماز اور دیگر پروگراموں میں شرکت کرتے تھے۔ 1974 ء میں شہید عارف حسین حسینی پاکستان واپس آئے، لیکن ان کو واپس عراق جانے نہیں دیا گیا تو قم کی دینی درسگاہ میں حصول علم میں مصروف ہوگئے ۔ قم میں آپ نے شہید آیت اللہ مطہری، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی، آیت اللہ وحید خراسانی جیسے علمائے اعلام سے کسب فیض کیا۔ آپ علم و تقوی کے زیور سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ قم میں امام خمینی (رح) کی اسلامی تحریک سے وابستہ شخصیات سے بھی رابطے میں رہے چنانچہ قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای اور شہید آیت اللہ ہاشمی نژاد کے خطبات و دروس میں بھی شامل ہوتے رہے۔ شہید عارف حسینی کی انقلابی سرگرمیوں کی وجہ سے آپ کو ایک دفعہ شاہی خفیہ پولیس ساواک نے گرفتار کیا۔ شہید عارف حسین حسینی 1977 ء میں پاکستان واپس گئے اور مدرسۂ جعفریہ پاڑہ چنار میں بحیثیت استاد اپنی خدمات انجام دیں، اس کے علاوہ آپ نے کرم ایجنسی کے حالات بدلنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ جب 1979 ء میں انقلاب اسلامی ایران کامیاب ہوا تو آپ نے پاکستان میں اسلامی انقلاب کے ثمرات سے عوام کو آگاہ کرنے اور امام خمینی (رح) کے انقلابی مشن کو عام کرنے کا بیڑا اٹھایا۔
شہید عارف حسینی نے پاکستان کی مسلْمان ملّت کو امریکی پٹھو و ڈکٹیٹر ضیا کے خلاف متحد و منظم کرنے کے لئے بھرپور کوششیں کیں اورامریکہ و ضیا مخالف تحریک کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ اگست 1983ء میں تحریک کے قائد علامہ مفتی جعفر حسین کی وفات کے بعد 1984 ء میں پاکستان کے جیّد علما و اکابرین کے ایما پر علامہ شہید عارف حسینی کو ان کی قائدانہ صلاحیتوں، انقلابی جذبوں اور اعلی انسانی صفات کی بناپر تحریک کا نیا قائد منتخب کیا گیا۔ رات کی تاریکیوں میں خداوند عالم سے راز و نیاز اور دن کو اسلام و مسلمین کی خدمت کا جذبہ آپ کی شخصیت کا طرۂ امتیاز تھا، اس سلسلے میں آپ اپنے جد گرامی حضرت علی (ع) کی پیروی کرتے تھے۔ علامہ شہید سید عارف حسین حسینی ایک عظیم قائد، نڈر اور بےباک رہنما، پر خلوص اور جذبۂ خدمت سے سرشار انسان اور باعلم عالم دین تھے، ان کی یاد تاریخ اور اسلام سے محبت کرنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔
اتحاد امت اور داعی آزادی فلسطین: مملکت خداداد پاکستان میں اتحاد بین المسلین کے علمبردار اور مظلومین کی حمایت بالخصوص فلسطین و انتفاضہ کی حمایت کے لئے موثر ترین آواز اور ضیا کے بدترین آمریت میں فلسطین و القدس کے لئے رمضان کے آخری جمعے کو القدس ریلیاں نکالنے والے نڈر عالم دین علامہ عارف حسین الحسینی کی شہادت کو دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن مظلوموں اور فلسطینیوں کی حمایت کی وجہ سے عارف الحسینی آج بھی پاکستانی مسلمانوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ یاد رہے ضیا کی بدترین آمریت میں مظلوموں کے لئے آواز اٹھانا اور ریلی و جلوس نکالنا ناممکنات میں سے تھا اور اس وقت پاکستان کی اہم سیاسی جماعتوں کے اہلکار و قیادت یا تو ضیا آمریت کے ڈر سے روپوش تھے یا بھاگ چکے تھے۔ ایسے میں شہید عارف حسین الحسینی کی طرف سے فلسطینیوں کی حمایت اور اتحاد امت کا ایجنڈا ضیا کو ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا ( یاد رہے ضیا نے بحثیت برگیڈئیر اردن میں تعیناتی کے دوران امریکی سی آئی اے و اسرائیلی موساد کی ایما پر اردن میں مقیم فلسطینی مہاجرین کا بے دریغ قتل عام کیا تھا۔ جس کی رپورٹیں اب تک میڈیا پر آر ہی ہیں)۔ اسلئے ضیا نے پاکستان میں بھی سی آئی اے و اسرائیلی موساد کی ایما پر پانچ اگست سن انیس سو اٹھاسی کو علامہ عارف حسین الحیسنی کو شہید کروا دیا۔ لیکن اللہ کی لاٹھی بے آواز اور مظلوم علامہ عارف حسین الحیسنی کے خون کا معجزہ دیکھئے کہ شہید عارف حسین الحیسنی کی شہادت کے صرف بارہ دن بعد بدترین ڈکٹیٹر ضیا اپنے امریکی ساتھیوں سمیت سترہ اگست سن انیس سو اٹھاسی کو بہاولپور کے مقام پر فضائی حادثے میں ہلاک ہوگئیے۔ اور پاکستانی عوام نے سکھ کا سانس لیا۔ امریکی سی آئی اے اور اسرائیلی موساد نے جس طرح ضیا کو بحثیت برگیڈئیر اردن تعینااتی کے دوران فلسطینی مہاجرین کا بیہمانہ قتل عام کروایا اور پھر جب ضیا جرنیل بن گئیے تو اسلام اور خلافت و نام نہاد امیر المیومنین کے عنوان سے پاکستانی قوم پر مسلط کرکے امریکی سی آئی اے کے شروع کردہ روس کے خلاف جہاد میں استعمال کرکے تکفیری سوچ و دہشت گردی کو پروان چڑھایا۔ اسی طرح آج بھی اردن میں امریکی سی آئی اے و اسرائیلی موساد خلافت کے نام پر داعش جیسے دہشت گرد گروہ اور اس کے نام نہاد خلیفہ ابوبکر البغدادی کو اسرائیل کے مفادات میں استعمال کرہا ہے (یاد رہے حال ہی میں سابق امریکی جاسوس سنوڈن نے انکشاف کیا ہے کہ داعش جیسے دہشت گرد گروہ اور اس کے نام نہاد خلیفہ ابوبکر البغدادی کو اسرائیل کے خفیہ ادارے موساد نے کئی سال پہلے مسلح تربیت اور کئے زبانیں سکھائی تھی)۔ تکفیری نظریئے کے حامل(یعنی اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کو کافر سمجھنی والی) داعش القاعدہ النصرہ طالبان و سپاہ یزید لعین جیسے گروہوں کی اسرائیل کے مفادات کے لئے کام کرنے اور ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات گوگل سرچ یا پھر قارئین اس لنک کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔
شہید راہ حق علامہ سید عارف حسین الحسینی کے چند فرمودات :
1. کیا ہم نے اپنا مقصد متعین کیا کہ ہم کس لیے پیدا کیے گئے ہیں؟ ہم خدا کیلئے پیدا کئے گئے ہیں،سب چیزیں انسان کے لیے پیدا کی گئی ہیں اور انسان خدا کے لئے۔
2. اگر آپ دل سے اللہ اکبر کہتے ہیں، تو پھر جب اللہ آپ کے ساتھ ہے تو کوئی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔جب اکبر، اللہ ہے جب وہ بڑا ہے تو جو بھی اس بڑے کے مقابلے میں آئے گاوہ انسان کو چھوٹا اور حقیر نظر آئے گا،پھر ان کی نظر میں امریکہ اور روس و اسرائیل کیوں اتنے بڑے ہیں؟ یہاں تک کہ اگر کوئی بات ہوجائے تو یہ اپنے لحاف کے نیچے بھی امریکہ کہ خلاف کچھ نہیں کہہ سکتے۔
3. جس کا ارتباط خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے وہ امریکہ کو ایک چوہے کی مانند سمجھتا ہے جیسے ایک چوہا اپنے سوراخ سے نکل کر آپ کو دھمکی دے تو کیا آپ اس چوہے کی پرواہ کریں گے؟ نہیں !! اس لئے کے آپ چوہے کو کچھ بھی نہیں سمجھتے لہٰذا وہ لوگ جن کا رابطہ خدا سے ہوتا ہے وہ امریکہ جیسی طاغوتی طاقتوں کو چوہا بھی نہیں سمجھتے۔
4. انبیاءؑ کی تعلیمات کے نتائج اور اثرات ہیں کہ لوگوں کے دلوں پر ایسا اثر کرتی ہیں کہ دنیا کی سب چیزوں کو کچھ بھی نہیں سمجھتے۔
5. حکماء اور فلاسفہ کا اثر لوگوں پر ہو تا ہے لیکن وہ لوگوں کے دلوں پر تسلط پیدا نہیں کر سکتے جبکہ انبیاءؑ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں۔
6. جن کے پاس معنوی آزادی نہیں وہ اگر اجتماعی آزادی کی باتیں کرتے ہیں تو سوائے لوگوں کو بے وقوف بنانے کے اور کچھ بھی نہیں کر سکتے۔
7. جو چیز ہمارے لئے بہت ضروری ہے وہ مسلمانوں کاآپس کا اتحاد ہے کیونکہ ہمارے دشمن امریکہ اور اسرائیل ہیں جو ہر جگہ مختلف سازشوں میں لگے ہوئے ہیں اور وہ مسلمانوں کو سرکوب کرنا چاہتے ہیں۔
8. نظام باطل، معاشرہ فاسد اور تربیتی اداروں میں تربیت کا کوئی پروگرام نہیں، اگر کوئی جوان دیندار اور حزب اللّہی نکلے تو یہ واقعی تعریف و ستائش کے لائق ہے۔
9. مکتب اہل بیت ؑمیں ایمان، عقیدہ اور عمل ِصالح لازم و ملزوم ہیں۔
10. ایک اور بیماری جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے وہ ہے رشوت، انسان کا جائز و معمولی سا کام بھی رشوت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔
11. مومن کبھی بھی شکست نہیں کھاتااس کی لغت میں ناکامی کا لفظ نہیں ہے وہ ہمیشہ کامیاب ہے لہٰذا جو بھی مشکل آجائے اگر میدان میں ہے تو کہتا ہے الٰہی تیری رضا میری رضا ہے۔
12. میں(عارف حسین) اپنا گھر بار سب کچھ حتی کہ جان تک قربان کر سکتا ہوں لیکن ناب محمدی اسلام و نظریہ ولایت فقیہ سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔