صوبہ گلستان کے چار ہزار شہدا کی یاد میں میموریل کانفرنس کا انعقاد کرنے والے مرکز کے عہدیداروں سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کی گفتگو کو اس کانفرنس میں نشر کیا گیا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس ملاقات میں " انقلاب اسلامی کی حفاظت، قومی عزت، ملک کے مستقبل اور تاریخ کی حفاظت" کے سلسلے میں شہداء کی قربانی کو عظیم امر قرار دیا اور فرمایا کہ اگر یہ ایثار و قربانی اور جذبہ شہادت نہ ہوتا تو نوزائیدہ اسلامی نظام سخت طوفانوں کے سامنے دوام پیدا نہیں کرتا اور فنا ہوجاتا، بنا برایں جذبہ ایثار و قربانی کی حفاظت اور اسکی تقویت کی جانی چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے عالمی معاملات میں استکبار کے حملوں کا مرکزی نقطہ، اور منصوبوں اور سازشوں کا ہدف اسلامی جمہوریہ ایران کو قرار دیا اور دشمن کو اسلامی جمہوریہ ایران سے لاحق خطرے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے وقت میں کہ جب استکبار کی تمام تر سیاست دین و مذہب کو کمزور کرنے کی کوششوں میں مصروف تھی اسلام عزیز اور قرآن کریم اس ملک پر حاکم ہوگئے اور اسکے بعد دنیا کے مختلف علاقوں میں بھی داخل ہوگئے اور اس حیرت انگیز اور اہم حادثے کی وجہ سے دشمن نے خطرے کا احساس کیا اور اسلامی نظام کے خلاف اسلامی انقلاب کے اوائل سے ہی اپنی سازشوں اور سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔
آپ نے " دشمن اور اسکی سازشوں کی پہچان" کی تاکید کرتے ہوئے " حکام اور عوام دونوں کی جانب سے ذمہ داریوں کا احساس کئے جانے" کو اسلامی نظام کے مدمقابل دشمنوں کی مسلسل ناکامی کی وجہ قرار دیا اور فرمایا کہ ملک کے حکام اور عوام میں سے ہر ایک فرد کو چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے اور اپنی اصل ذمہ داری اسلامی نظام کے دفاع کو قرار دے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے شہداء کی یاد منانے اور انکی یاد کو زندہ رکھنے کو " باقیات صالحات، صدقہ جاریہ اور اسلامی نظام کے دفاع کی کوشش" گردانتے ہوئے اور شہیدوں کی یاد منانے والے اداروں کے عہدیداروں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ کوشش کریں کہ اپنے مخاطبین بنائیں اور یہ دراصل مخاطب ڈھونڈنے کے مترادف ہی ہے، اور اس زریعے سے اپنی فکری اور ہنری کاوشوں اور پروڈکشن کو ان کے ذہنوں تک پہنچائیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مخاطبین کے دلوں اور اذہان تک پیغام پہنچانے کو ایک پیچیدہ کام قرار دیا جس کے لئے ہنری ظرافت درکار ہوتی ہے اور تاریخ اور انقلاب سے جوان نسل کی آشنائی کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ملک میں موجود شیعہ اور اہل سنت کے درمیان ہم آہنگی، بھائی چارہ اور ہم دلی، اسلام، قرآن اور ایران کے دشمنوں پر ایک کاری ضرب ہے اور یہ اہم مسئلہ بھی ہنر کے پیکر میں جوان ذہنوں تک منتقل ہونا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسی طرح صوبہ گلستان کے عوام کی خوبیوں اور خصوصیتوں من جملہ" ممتاز افرادی صلاحیت کے حامل ہونے"، اور " مختلف اقوام و مذاہب کی موجودگی میں موثر اور مطلوبہ بھائی چارے کی فضا میں زندگی گذارنے" کا ذکر کرتے ہوئے دشمنوں کی جانب سے اختلافات پیدا کرنے کے لئے مختلف سازشوں اور بڑے پیمانے پر سرمایہ گذاری کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں اور صوبہ گلستان کے مختلف علاقوں میں تکفیری گروہوں اور دشمن کے خفیہ جاسوس اداروں کی خواہشات کے عین مخالف مختلف اقوام و مذاہب اس بھائی چارے کی فضا اور تعاون کے لئے بہت زیادہ کوششیں کر رہے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس تعاون اور ایک دوسرے سے محبت اور بھائی چارے کو دشمن کی اختلاف پیدا کرنے کی کوششوں کے مقابلے میں " ہدف مند، جہت دار اور قاطع سیاست " اور ملک کی حقیقی طاقت قرار دیا اور فرمایا کہ یہ ہم آہنگی، محبتیں اور ایک دوسرے سے رابطہ، عالمی استکبار یعنی امریکہ اور صیہونی حکومت کے مدمقابل نا منظم جنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران کا منحصر بہ فرد ہتھیار ہے اور وہ لوگ اسے درک کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
آپ نے " امام خمینی رح کے استقبال کے لئے صوبہ گلستان کے عوام کی جانب سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے"،" انقلاب کے اوائل میں تجزئیہ طلب گروہوں کا مقابلہ کرنے اور اسلامی انقلاب سے مربوط واقعات میں وفاداری اور فداکاری دکھانے" اور" صوبے کی فوج اور سپاہ کے مقدس دفاع میں واضح اور روشن کردار" کو اس علاقے کی خاصیت اور امتیاز اور عوام کی بیداری کا غماز قرار دیا اور مزید فرمایا کہ میں صوبہ گلستان کے ایک ایک فرد، حکام اور شیعہ اور اہل سنت علمائے کرام کو الگ الگ سلام پیش کرتا ہوں اور ان سے محبت، اعتماد اور اخلاص کا اظہار کرتا ہوں۔